او آئی سی کانفرنس بھارتی احتجاج اور تحریکِ عدم اعتماد
یہ کانفرنس ایسے ماحول میں ہو رہی ہے جب وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کرنے کی مہمات زوروں پر ہیں
لاہور:
کل، 22 اور 23 مارچ 2022، سے اسلام آباد میں اسلامی ممالک کی نمایندہ معروفِ عالم تنظیم ''او آئی سی''(OIC) کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس کا آغاز ہورہا ہے ۔ہماری جملہ ایجنسیوں اور اداروں نے اس اہم اور حساس کانفرنس کو کامیاب و کامران کرنے کے لیے تمام ضروری تیاریاں کررکھی ہیں۔ پاکستان کے لیے یہ ایک غیر معمولی اعزاز ہے کہ پاکستان اس کانفرنس کا میزبان بھی ہے۔
عالمِ اسلام کے48ممالک نے یقین دلایا ہے کہ وہ اس کانفرنس میں شریک ہوں گے ۔ ہمارے آرمی چیف، جنرل قمر جاوید باجوہ، نے بھی اپنے بیان میں کہا ہے کہ او آئی سی کانفرنس کے شرکت کنندگان کو ہر قسم کی اور بھرپور سیکیورٹی فراہم کی جائے گی۔ اس اعلان سے بھی سب کو اطمینان ملا ہے۔ اگلے دو روز پاکستان کے لیے خاصے حساس بھی ہیں اور ہم سب کو محتاط رہنے کی بھی ضرورت ہے۔
ان ایام میں 23مارچ کے تاریخی دن کے حوالے سے ''پاکستان ڈے پریڈ'' بھی اسلام آباد میں منعقد ہو رہی ہے ۔ اس میں بھی ، انشاء اللہ، او آئی سی کے معزز مہمان وزرائے خارجہ شرکت فرمائیں گے ۔ یہ دونوں ایام خیر خیریت سے گزر جائیں ، اس غرض سے اسلام آباد اور راولپنڈی میں دو دن کی تعطیل بھی کی گئی ہے ۔
او آئی سی کی وزرائے خارجہ کانفرنس میں یقیناً کشمیر کی بھی بات ہوگی اور افغانستان کی دگرگوں مالی حالت کی بھی ، فلسطین کا ذکر بھی اُٹھے گا اور اسلامو فوبیا کا بھی ۔ یہ بات مگر اہم ترین اور خاصی قابلِ ذکر ہے کہ یہ کانفرنس ایسے ایام میں منعقد ہو رہی ہے جب پاکستان کو داخلی اور خارجی محاذوں پر خاصے بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے ۔ جب حال ہی ، چند دن پہلے ہی ، بھارت نے پاکستان پر ایک تیز رفتار میزائل پھینکا ہے اور پھر تاخیر سے اِسے '' تکنیکی غلطی'' کا عنوان دے کر جان چھڑانے کی کوشش کی ہے ۔ پاکستان مگر اس کی جان نہیں چھوڑے گا۔ ہمارے حکمرانوں پر لازم ہے کہ بھارت کی اس واضح جارحیت کا ذکر بھی او آئی سی کے ایجنڈے میں شامل کرے ۔
خوشی کی بات یہ بھی ہے کہ او آئی سی کی یہ دو روزہ کانفرنس ایسے دنوں میں وقوع پذیر ہو رہی ہے جب حال ہی میں اقوامِ متحدہ نے اسلاموفوبیا بارے ایک قرارداد منظور کرکے عالمِ اسلام کا ایک بڑا مطالبہ تسلیم کیا ہے ۔ ہر اچھی بات میں نقص نکالنے والوں کا کہنا ہے کہ یو این او کی قرار دادوں سے مسئلہ کشمیر تو حل نہیں ہو سکا ہے ، قرار داد سے اسلامو فوبیا کیسے رک سکے گا؟لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بھی ایک بڑی کامیابی ہے۔ یہاں تک تو پہنچے ، یہاں تک تو آئے۔ اس تاریخ ساز قرار داد کی منظوری میں او آئی سی ممالک کے ساتھ رُوس سمیت کئی دیگر ممالک نے بھی اپنا اپنا مستحسن کردار ادا کیا ہے۔
فرانس، یورپی یونین اور بھارت نے البتہ اس قرار داد کی مخالفت کی ہے۔ اقوامِ متحدہ میں بھارت کے مستقل مندوب، ٹی ایس تیرومورتی، نے اپنا خبثِ باطن ظاہر کرتے ہُوئے کہا:'' اسلامو فوبیا بارے قرار داد منظور کرنے کے بجائے Religiophobia)یعنی ہر قسم کے مذہب کی مخالفت کرنے کی قرار داد منظور کی جانی چاہیے''۔ یہ مگر تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس معاملے میں پاکستان نے اور ہمارے وزیر اعظم ، جناب عمران خان، کا کردار سب سے نمایاں اور اہم ترین ہے۔ خان صاحب نے اس منزل کے حصول کے لیے یواین او کے پلیٹ فارم پر بھی دبنگ اور بھرپور اسلوب میں خطاب کیا تھا۔ عمران خان وزیر اعظم رہیں یا نہ رہیں، تاریخ کے صفحات سے اُن کا یہ کردار مٹایا اور محو نہیں کیا جا سکتا۔
او آئی سی کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس اسلام آباد میں منعقد ہو رہی ہے لیکن بھارت کو اِس انعقاد پر کیوں تکلیف ہو رہی ہے ؟ جونہی OICکے پلیٹ فارم سے مقبوضہ کشمیر میں آزادی پسند کشمیریوں کی نمایندہ جماعت ''آل پارٹیز حریت کانفرنس''کے سربراہ، مسرت عالم بھٹ، کو کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی گئی ، بھارت کو طیش آ گیا ۔ بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ، ارندم باگچی، نے کہا ہے کہ اسلام آباد میں او آئی سی وزرائے خارجہ کانفرنس میں آل پارٹیز حریت کانفرنس کے سربراہ کو مدعو کرنا درحقیقت بھارتی یکجہتی کے منافی بھی ہے اور بھارت کے اندرونی معاملات میں براہِ راست مداخلت بھی۔
باگچی ''صاحب''نے مزید کہا: ''ہم پہلے بھی او آئی سی سے متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ وہ بھارت کے داخلی معاملات میں مداخلت سے باز رہے۔ مسرت عالم بھٹ کو مدعو کرکے او آئی سی نے اب پھر یہی حرکت دہرائی ہے۔'' بھارتی وزارتِ خارجہ کے مذکورہ ترجمان نے پاکستان کا نام لیے بغیر یہ بھی کہا ہے کہ '' ہم مسرت عالم بھٹ کو مدعو کرنے پر سخت احتجاج بھی کرتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ او آئی سی کاایک رکن ملک اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے ساری تنظیم کو اپنے پیچھے لگانے کی کوشش کررہا ہے ۔''
ہم بھارتی اسٹیبلشمنٹ اور بھارتی وزارتِ خارجہ کی اس تکلیف کو سمجھ سکتے ہیں۔ بھارت بخوبی جانتا ہے کہ کل ہونے والیOIC وزرائے خارجہ کانفرنس میں مقبوضہ کشمیر کے مظلوم باسیوں اور مسئلہ کشمیر کا ذکر اذکار بھی ہو گااور اس امر کا بھی جائزہ لیا جائے گا کہ بھارت نے اپنے آئین سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کرکے دراصل کشمیریوں کے سبھی حقوق ظالمانہ طریقے سے سلب کر لیے ہیں۔ اِسی بات سے بھارت ڈر رہا ہے اور حفظِ ماتقدم کے تحت کشمیریوں کے نمایندہ، جناب مسرت عالم بھٹ، کو دعوت دیے جانے پر سیخ پا ہورہا ہے۔
کشمیر، کشمیریوں اور اُلجھے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ہم سب پاکستانیوں نے او آئی سی سے بلند توقعات وابستہ کررکھی ہیں۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ او آئی سی نے آج تک ان سلگتے مسائل کے حل کے لیے کوئی تگڑا کردار ادا نہیں کیا ہے۔ بھارت بھی اس باطنی حقیقت کو بخوبی جانتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ کوئی ایسی گنجائش بھی نہیں چھوڑنا چاہتا کہ او آئی سی کے پلیٹ فارم سے کشمیریوں کو کوئی ریلیف دینے کی عملی کوشش کی جاسکے۔ کشمیریوں نے او آئی سی کی اس تازہ کانفرنس سے پھر بڑی بڑی توقعات وابستہ کر لی ہیں ۔
سیاسی وابستگیوں سے بالاتر رہ کر ہم سب او آئی سی کانفرنس کی کامیابی کے لیے دعا گو ہیں کہ یہ وطنِ عزیز کی عزت و وقار (Prestige) کا مسئلہ ہے ۔ ساری اپوزیشن اور قائدِ حزبِ اختلاف نے بھی اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ یہ کانفرنس پُر امن انداز میں کامیاب ہونی چاہیے۔ اس کانفرنس اور 23مارچ کے لیے اپوزیشن نے اپنا احتجاج بھی روک لیا ہے۔
یہ کانفرنس ایسے ماحول میں ہو رہی ہے جب وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کرنے کی مہمات زوروں پر ہیں۔ اور جب اسلام آباد میں حکومت اور اپوزیشن کے دھڑے آمنے سامنے آنے کی تیاریاں بھی کررہے ہیں اور سرخرو ہونے کے دعوے بھی کیے جا رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کے لوگوں نے اسلام آباد میں سندھ ہاؤس کا گیٹ توڑ کر اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی ماری ہے اور ہم امن پسند غریب عوام دعا گو ہیں کہ مزید تصادم کی نوبت نہ ہی آئے ۔ ہمیں یہ بھی اُمید ہے کہ ہماری طاقتور عدلیہ اور ہمارے قومی ادارے اپوزیشن اور حکومت میں تصادم کی کوئی نوبت نہیں آنے دیں گے۔
کل، 22 اور 23 مارچ 2022، سے اسلام آباد میں اسلامی ممالک کی نمایندہ معروفِ عالم تنظیم ''او آئی سی''(OIC) کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس کا آغاز ہورہا ہے ۔ہماری جملہ ایجنسیوں اور اداروں نے اس اہم اور حساس کانفرنس کو کامیاب و کامران کرنے کے لیے تمام ضروری تیاریاں کررکھی ہیں۔ پاکستان کے لیے یہ ایک غیر معمولی اعزاز ہے کہ پاکستان اس کانفرنس کا میزبان بھی ہے۔
عالمِ اسلام کے48ممالک نے یقین دلایا ہے کہ وہ اس کانفرنس میں شریک ہوں گے ۔ ہمارے آرمی چیف، جنرل قمر جاوید باجوہ، نے بھی اپنے بیان میں کہا ہے کہ او آئی سی کانفرنس کے شرکت کنندگان کو ہر قسم کی اور بھرپور سیکیورٹی فراہم کی جائے گی۔ اس اعلان سے بھی سب کو اطمینان ملا ہے۔ اگلے دو روز پاکستان کے لیے خاصے حساس بھی ہیں اور ہم سب کو محتاط رہنے کی بھی ضرورت ہے۔
ان ایام میں 23مارچ کے تاریخی دن کے حوالے سے ''پاکستان ڈے پریڈ'' بھی اسلام آباد میں منعقد ہو رہی ہے ۔ اس میں بھی ، انشاء اللہ، او آئی سی کے معزز مہمان وزرائے خارجہ شرکت فرمائیں گے ۔ یہ دونوں ایام خیر خیریت سے گزر جائیں ، اس غرض سے اسلام آباد اور راولپنڈی میں دو دن کی تعطیل بھی کی گئی ہے ۔
او آئی سی کی وزرائے خارجہ کانفرنس میں یقیناً کشمیر کی بھی بات ہوگی اور افغانستان کی دگرگوں مالی حالت کی بھی ، فلسطین کا ذکر بھی اُٹھے گا اور اسلامو فوبیا کا بھی ۔ یہ بات مگر اہم ترین اور خاصی قابلِ ذکر ہے کہ یہ کانفرنس ایسے ایام میں منعقد ہو رہی ہے جب پاکستان کو داخلی اور خارجی محاذوں پر خاصے بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے ۔ جب حال ہی ، چند دن پہلے ہی ، بھارت نے پاکستان پر ایک تیز رفتار میزائل پھینکا ہے اور پھر تاخیر سے اِسے '' تکنیکی غلطی'' کا عنوان دے کر جان چھڑانے کی کوشش کی ہے ۔ پاکستان مگر اس کی جان نہیں چھوڑے گا۔ ہمارے حکمرانوں پر لازم ہے کہ بھارت کی اس واضح جارحیت کا ذکر بھی او آئی سی کے ایجنڈے میں شامل کرے ۔
خوشی کی بات یہ بھی ہے کہ او آئی سی کی یہ دو روزہ کانفرنس ایسے دنوں میں وقوع پذیر ہو رہی ہے جب حال ہی میں اقوامِ متحدہ نے اسلاموفوبیا بارے ایک قرارداد منظور کرکے عالمِ اسلام کا ایک بڑا مطالبہ تسلیم کیا ہے ۔ ہر اچھی بات میں نقص نکالنے والوں کا کہنا ہے کہ یو این او کی قرار دادوں سے مسئلہ کشمیر تو حل نہیں ہو سکا ہے ، قرار داد سے اسلامو فوبیا کیسے رک سکے گا؟لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بھی ایک بڑی کامیابی ہے۔ یہاں تک تو پہنچے ، یہاں تک تو آئے۔ اس تاریخ ساز قرار داد کی منظوری میں او آئی سی ممالک کے ساتھ رُوس سمیت کئی دیگر ممالک نے بھی اپنا اپنا مستحسن کردار ادا کیا ہے۔
فرانس، یورپی یونین اور بھارت نے البتہ اس قرار داد کی مخالفت کی ہے۔ اقوامِ متحدہ میں بھارت کے مستقل مندوب، ٹی ایس تیرومورتی، نے اپنا خبثِ باطن ظاہر کرتے ہُوئے کہا:'' اسلامو فوبیا بارے قرار داد منظور کرنے کے بجائے Religiophobia)یعنی ہر قسم کے مذہب کی مخالفت کرنے کی قرار داد منظور کی جانی چاہیے''۔ یہ مگر تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس معاملے میں پاکستان نے اور ہمارے وزیر اعظم ، جناب عمران خان، کا کردار سب سے نمایاں اور اہم ترین ہے۔ خان صاحب نے اس منزل کے حصول کے لیے یواین او کے پلیٹ فارم پر بھی دبنگ اور بھرپور اسلوب میں خطاب کیا تھا۔ عمران خان وزیر اعظم رہیں یا نہ رہیں، تاریخ کے صفحات سے اُن کا یہ کردار مٹایا اور محو نہیں کیا جا سکتا۔
او آئی سی کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس اسلام آباد میں منعقد ہو رہی ہے لیکن بھارت کو اِس انعقاد پر کیوں تکلیف ہو رہی ہے ؟ جونہی OICکے پلیٹ فارم سے مقبوضہ کشمیر میں آزادی پسند کشمیریوں کی نمایندہ جماعت ''آل پارٹیز حریت کانفرنس''کے سربراہ، مسرت عالم بھٹ، کو کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی گئی ، بھارت کو طیش آ گیا ۔ بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ، ارندم باگچی، نے کہا ہے کہ اسلام آباد میں او آئی سی وزرائے خارجہ کانفرنس میں آل پارٹیز حریت کانفرنس کے سربراہ کو مدعو کرنا درحقیقت بھارتی یکجہتی کے منافی بھی ہے اور بھارت کے اندرونی معاملات میں براہِ راست مداخلت بھی۔
باگچی ''صاحب''نے مزید کہا: ''ہم پہلے بھی او آئی سی سے متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ وہ بھارت کے داخلی معاملات میں مداخلت سے باز رہے۔ مسرت عالم بھٹ کو مدعو کرکے او آئی سی نے اب پھر یہی حرکت دہرائی ہے۔'' بھارتی وزارتِ خارجہ کے مذکورہ ترجمان نے پاکستان کا نام لیے بغیر یہ بھی کہا ہے کہ '' ہم مسرت عالم بھٹ کو مدعو کرنے پر سخت احتجاج بھی کرتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ او آئی سی کاایک رکن ملک اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے ساری تنظیم کو اپنے پیچھے لگانے کی کوشش کررہا ہے ۔''
ہم بھارتی اسٹیبلشمنٹ اور بھارتی وزارتِ خارجہ کی اس تکلیف کو سمجھ سکتے ہیں۔ بھارت بخوبی جانتا ہے کہ کل ہونے والیOIC وزرائے خارجہ کانفرنس میں مقبوضہ کشمیر کے مظلوم باسیوں اور مسئلہ کشمیر کا ذکر اذکار بھی ہو گااور اس امر کا بھی جائزہ لیا جائے گا کہ بھارت نے اپنے آئین سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کرکے دراصل کشمیریوں کے سبھی حقوق ظالمانہ طریقے سے سلب کر لیے ہیں۔ اِسی بات سے بھارت ڈر رہا ہے اور حفظِ ماتقدم کے تحت کشمیریوں کے نمایندہ، جناب مسرت عالم بھٹ، کو دعوت دیے جانے پر سیخ پا ہورہا ہے۔
کشمیر، کشمیریوں اور اُلجھے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ہم سب پاکستانیوں نے او آئی سی سے بلند توقعات وابستہ کررکھی ہیں۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ او آئی سی نے آج تک ان سلگتے مسائل کے حل کے لیے کوئی تگڑا کردار ادا نہیں کیا ہے۔ بھارت بھی اس باطنی حقیقت کو بخوبی جانتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ کوئی ایسی گنجائش بھی نہیں چھوڑنا چاہتا کہ او آئی سی کے پلیٹ فارم سے کشمیریوں کو کوئی ریلیف دینے کی عملی کوشش کی جاسکے۔ کشمیریوں نے او آئی سی کی اس تازہ کانفرنس سے پھر بڑی بڑی توقعات وابستہ کر لی ہیں ۔
سیاسی وابستگیوں سے بالاتر رہ کر ہم سب او آئی سی کانفرنس کی کامیابی کے لیے دعا گو ہیں کہ یہ وطنِ عزیز کی عزت و وقار (Prestige) کا مسئلہ ہے ۔ ساری اپوزیشن اور قائدِ حزبِ اختلاف نے بھی اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ یہ کانفرنس پُر امن انداز میں کامیاب ہونی چاہیے۔ اس کانفرنس اور 23مارچ کے لیے اپوزیشن نے اپنا احتجاج بھی روک لیا ہے۔
یہ کانفرنس ایسے ماحول میں ہو رہی ہے جب وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کرنے کی مہمات زوروں پر ہیں۔ اور جب اسلام آباد میں حکومت اور اپوزیشن کے دھڑے آمنے سامنے آنے کی تیاریاں بھی کررہے ہیں اور سرخرو ہونے کے دعوے بھی کیے جا رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کے لوگوں نے اسلام آباد میں سندھ ہاؤس کا گیٹ توڑ کر اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی ماری ہے اور ہم امن پسند غریب عوام دعا گو ہیں کہ مزید تصادم کی نوبت نہ ہی آئے ۔ ہمیں یہ بھی اُمید ہے کہ ہماری طاقتور عدلیہ اور ہمارے قومی ادارے اپوزیشن اور حکومت میں تصادم کی کوئی نوبت نہیں آنے دیں گے۔