ڈھائی ہزار سال قبل ستاروں کی سیدھ میں بنائی گئی مصنوعی جھیل

اہرامِ مصر بھی ستاروں کی سیدھ میں تعمیر کیے گئے تھے لیکن یورپ میں ایسی مثالیں بہت کم ہیں


ویب ڈیسک March 21, 2022
اہرامِ مصر بھی ستاروں کی سیدھ میں تعمیر کیے گئے تھے لیکن یورپ میں ایسی مثالیں بہت کم ہیں۔ (تصاویر: اینٹیکیٹی)

GAZA: اٹلی سے 1920ء میں دریافت ہونے والی ایک مصنوعی جھیل کے بارے میں دریافت ہوا ہے کہ یہ دراصل ایک 'مقدس تالاب' تھا جسے ڈھائی ہزار سال پہلے ستاروں کی سمتیں اور سیدھ مدنظر رکھتے ہوئے بنایا گیا تھا۔

واضح رہے کہ یہی بات اہرامِ مصر کےلیے بھی کہی جاتی ہے کہ انہیں ستاروں کی سیدھ میں تعمیر کیا گیا تھا۔ البتہ یورپ میں ایسی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔

یہ مصنوعی جھیل (جو نئی تحقیق سے ایک مقدس تالاب ثابت ہوئی ہے) مغربی سسلی کے سان پینتالیو جزیرے پر 'موتیا' (Motya) نامی قدیم شہر کا حصہ تھی۔

موتیا آج سے 2,500 سال پہلے کی فونیقی سلطنت کا اہم شہر تھا جو بندرگاہ کا درجہ بھی رکھتا تھا۔

دریافت کے تقریباً 100 سال بعد تک سمجھا جاتا رہا کہ یہ ایک مصنوعی جھیل تھی جسے کشتیوں اور چھوٹے جہازوں کی آمد و رفت کےلیے موتیا شہر کی بندرگاہ سے منسلک کیا۔

دس سال تک جاری رہنے والی نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ یہ خیال غلط تھا اور یہ کوئی مصنوعی جھیل بھی نہیں تھی۔

اس کے برعکس یہ ایک بڑا اور مقدس تالاب تھا جس میں 'بآل' (Ba'al) کہلانے والے ایک دیوتا کا مجسمہ بھی نصب تھا۔

کیمبرج یونیورسٹی پریس سے شائع ہونے والے ریسرچ جرنل ''اینٹیکیٹی'' (Antiquity) کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی اس تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ یہ مجسمہ اس تالاب کے بیچوں بیچ ایک چوکور پتھر پر تعمیر کیا گیا تھا۔



وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مجسمہ ٹوٹ پھوٹ کر ختم ہوگیا لیکن اس کے پیروں کے نشانات آج بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔

یہ تالاب موجودہ زمانے میں اولمپکس کے تالاب سے بھی بڑا تھا جسے ایک قریبی چشمے سے پانی فراہم ہوتا تھا۔

تالاب سے نکلنے والی بڑی نالیاں، جنہیں پہلے نہریں سمجھا گیا تھا، نکاسی کےلیے استعمال ہوتی تھیں اور استعمال شدہ پانی کو سمندر تک پہنچاتی تھیں۔



البتہ، ان سب باتوں سے بڑھ کر یہ معلوم ہوا کہ اس تالاب کو بطورِ خاص ستاروں کی سمتیں اور ترتیب مدنظر رکھتے ہوئے بنایا گیا تھا۔

سال کی کچھ خاص راتوں میں ستاروں کا ایک جھرمٹ اس تالاب کے تقریباً اوپر (بآل دیوتا کے سر پر) آجاتا تھا جس کا عکس اس کے شفاف پانی میں دیکھا جاسکتا تھا۔

ان تمام دریافتوں کے باوجود، ابھی یہ جاننا باقی ہے کہ آیا ایسے مواقع پر یہاں مذہبی رسومات ادا کی جاتی تھیں یا نہیں۔

بالفرض اگر ستاروں کے سیدھ میں آنے پر یہاں کچھ خاص مذہبی رسومات ادا کی جاتی تھیں تو ان کی نوعیت کیا تھی؟ یہ جاننے کےلیے اس علاقے میں مزید کھدائی اور تحقیق کی ضرورت ہے۔

یہ اور اس جیسی دیگر تحقیقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ قدیم زمانے میں ستاروں کی سمتوں اور مقامات کی خصوصی اہمیت تھی، جسے ہم نے ابھی دریافت کرنا شروع ہی کیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں