آلودہ دریائے راوی انسانوں اور آبی حیات کے لیے بڑا خطرہ بن گیا

لاہور میں 11 بڑی ڈرینیں ہیں جن کے ذریعے پورے شہر کا سیوریج کا پانی دریا میں شامل ہوتا ہے


آصف محمود March 21, 2022
لاہور میں 11 بڑی ڈرینیں ہیں جن کے ذریعے پورے شہر کا سیوریج کا پانی دریا میں شامل ہوتا ہے (فوٹو : فائل)

واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس نہ لگنے کی وجہ سے لاہور کے پہلو میں بہنے والا دریا راوی اب آخری سانسیں لے رہا ہے اور اس میں آلودگی خطرناک حد تک بڑھتی جارہی ہے جس سے آبی حیات کی ناپیدی سمیت انسانی زندگی کے لیے بھی خطرات بڑھنے لگے ہیں۔

راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی (روڈا) اور واسا کی جانب سے مختلف مقامات پر سات واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس لگانے کا منصوبہ ہے، واسا حکام نے اس مقصد کے لیے جگہ خرید کر ابتدائی کام شروع کردیا ہے تاہم روڈا کا اپنا وجود خطرے میں پڑنے سے واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس لگانے کا معاملہ ایک بار پھر التوا میں پڑنے کا خدشہ ہے۔

لاہور میں 11 بڑی ڈرینیں ہیں جن کے ذریعے لاہور کا سیوریج کا پانی دریا میں شامل ہوتا ہے۔ واٹر اینڈ سینی ٹیشن ایجنسی (واسا) کے حکام کے مطابق دریائے راوی میں روزانہ 53 کروڑ گیلن آلودہ پانی ڈالا جارہا ہے جس کی وجہ سے دریا کی آلودگی بڑھتی جارہی ہے اور اس کا شمار دنیا کے آلودہ ترین دریاؤں میں ہونے لگا ہے۔

لاہور اور شاہدرہ کی آبادیوں کا سیوریج اور فیکٹریوں، کارخانوں کا کیمیکل ملا پانی دریائے راوی میں شامل ہوتا ہے۔ اسی طرح بھارت سے آنے والی ہڈیارہ ڈرین جس میں فیکٹریوں کا کیمیکل ملا پانی اور ڈرین کے قریبی آبادیوں کا سیوریج شامل ہوتا ہے، یہ ڈرین بھی موہلنوال کے قریب دریا میں شامل ہوجاتی ہے۔

اس ڈرین میں قائداعظم انڈسٹریل اسٹیٹ، کوٹ لکھپت انڈسٹریل اسٹیٹ اور سندر اسٹیٹ کا زہریلا پانی شامل ہوتا ہے۔ کئی ایک مقامات پر دریائے راوی کے آلودہ پانی کو آب پاشی خاص طور پر سبزیوں کی کاشت کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ آلودہ پانی میں کاشت کی گئی سبزیوں کے استعمال سے شہری مختلف بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔

دریا کی آلودگی کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ڈائریکٹر جنرل حماد نقی نے ایکسپریس ٹربیون کوبتایا دریائے راوی انسانی اور صنعتی فضلے کے باعث ایک گندے نالے میں تبدیل ہو چکا ہے جبکہ نیویارک یونیورسٹی کی ایک حالیہ تحقیق میں پہلی بار یہ بات سامنے آئی ہے کہ فارما سوٹیکل انڈسٹری ہمارے ماحول اور دریاؤں کو کس قدر آلودہ کررہی ہے۔

انہوں نے کہا ہمارے ملک میں گندے پانی اور صنعتی فضلے کو ٹھکانے لگانے کے حوالے سے قوانین موجود ہیں لیکن ان میں سے کسی بھی قانون پر عمل نہیں کیا جا رہا۔ اسی طرح لوگ بڑی تعداد میں اینٹی بائیوٹک ادویات استعمال کرتے ہیں اور پھر پیشاب کے ذریعے ان ادویات کے اجزا سیوریج میں شامل ہوجاتے ہیں اوروہ سیوریج ٹریٹمنٹ کے بغیر دریا میں شامل ہوجاتا ہے۔

انہوں نے ہڈیارہ ڈرین کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس ڈرین کا پانی اس قدر آلودہ ہے کہ اس کے قریب کھڑا ہونا بھی مضرہے، قریبی لوگ جلد اور آنکھوں کی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں، اگر حکومت کچرے کو ٹھکانے لگانے کے قوانین پر عمل درآمد کرے تو اس سے زیر زمین اور دریائی پانی میں بہتری آئے گی، دریائی آلودگی جہاں انسانی صحت کے لئے انتہائی مضرہوچکی ہے وہیں دریائے راوی میں آبی حیات بھی ختم ہوگئی ہے۔

ڈائریکٹرجنرل پنجاب فشریز ڈاکٹر سکندر حیات نے ٹربیون سے بات کرتے ہوئے بتایا دریائے راوی شکرگڑھ تحصیل کے علاقے سے پاکستان میں داخل ہوتا ہے وہاں سے لے کر لاہور میں محمود بوٹی تک جو اَپ اسٹریم ہے وہاں دریا کا پانی آلودگی سے پاک ہے اوریہاں مچھلیوں سمیت دیگرآبی حیات موجود ہے، محمود بوٹی وہ پہلا مقام ہے جہاں پمپنگ اسٹیشن ہے اوراس کی مدد سے لاہور کا سیوریج دریا میں شامل کیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر سکندر حیات کہتے ہیں دریائے راوی میں محمود بوٹی سے لے کرہیڈ بلوکی تک پانی انتہائی آلودہ ہے، اس ایریا میں دریا کے اندر کوئی آبی حیات پرورش نہیں کرپاتی ہے، ہیڈبلوکی ،کے قریب قادرآباد، بلوکی لنک کینال (کیوبی لنک کینال) اس میں شامل ہوتی ہے یہ نہر دریا کی آلودگی کو کافی حد تک کم کردیتی ہے لیکن نومبر سے فروری تک جب سردیوں میں لنک کینال بند ہوجاتی ہیں تو پھر دریا میں ناصرف پانی کم ہوجاتا ہے بلکہ آلودگی بھی بڑھ جاتی ہے۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ لاہور کے مشرق میں بہنے والی بی آربی کینال چونکہ راوی سائفن کے قریب دریائے راوی کے نیچے سے گزرتی ہے اس لئے اس نہر کا پانی دریا میں شامل نہیں ہوپاتا۔

محکمہ تحفظ ماحولیات پنجاب کے ڈائریکٹر نسیم الرحمن نے ٹربیون سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سیوریج کا پانی ہو یا انڈسٹریل ویسٹ، اسے ٹریٹمنٹ کیے بغیر دریا میں ڈالنا جرم ہے، ایسا کرنے والوں کے خلاف متعدد کارروائیاں کی گئی ہیں، گزشتہ 20 سال سے واسا کے ساتھ یہ معاملہ چل رہا ہے کہ ڈرینوں پر ٹریٹمنٹ پلانٹس لگائے جائیں لیکن ابھی تک کوئی بھی واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ نہیں لگ سکا ہے۔

انہوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ انڈسٹریل اسٹیٹ والوں نے بھی قانون کے باوجود واٹرٹریٹمنٹ پلانٹ نہیں لگائے، اس حوالے سے محکمہ انڈسٹری اور انڈسٹریل اسٹیٹ والے کام کررہے ہیں لیکن ان کے لئے بڑا مسئلہ فنڈز کا ہے۔

دوسری طرف راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ترجمان شیر افضل بٹ نے بتایا کہ راوی ریور فرنٹ منصوبے کے تحت دریا کے دونوں کناروں کے گرد پشتے بنائے جائیں گے اور واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگائے جائیں گے، راوی سائفن، محمود بوٹی، لکھو ڈیر، بابو صابو، موہلنوال سمیت آٹھ مقامات پر واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگانے کی منظوری ہوچکی ہے، تین پلانٹ واسا کو لگانے ہیں جس کے لیے انہیں فنڈز بھی ریلیز کیے جاچکے ہیں جبکہ پانچ پلانٹ راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی لگائے گی۔

انہوں نے بتایا کہ اس حوالے سے ان کے مختلف غیر ملکی ڈونر ایجنسیوں کے ساتھ ایم او یو سائن ہوچکے ہیں، امید ہے کہ جلد ان منصوبوں پر کام بھی شروع ہوجائے گا تاہم وہ اس حوالے سے کوئی ٹائم فریم نہیں دے سکتے۔

واسا کے ڈپٹی مینجنگ ڈائریکٹر آپریشنز غفران احمد نے ٹربیون کو بتایا کہ ماضی میں چند قانونی پچیدگیوں کی وجہ سے واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس نہیں لگائے جاسکے تھے تاہم اب واسا نے واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس لگانے کے لیے جگہ خریدلی ہے جبکہ بابو صابو کے قریب کام تیزی سے جاری ہے، انہوں نے بتایا کہ بابو صابو پر واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کی تنصیب سے لاہور کی سیوریج کا 40 فیصد پانی صاف کرکے دریامیں ڈالا جاسکے گا۔

دوسری طرف روڈا حکام کہتے ہیں کہ دریا کو مزید سکڑنے سے بچانے کے لیے اس کے دونوں طرف پشتے بنائے جائیں گے، مختلف مقامات پر تین بیراج بنیں گے جن میں پانچ لاکھ 85 ہزار کیوسک پانی جمع کیا جاسکے گا، اس سے نا صرف دریائے راوی کا پانی آلودگی سے پاک ہوگا بلکہ زیر زمین پانی کی سطح بھی بلند ہوگی۔

واضح رہے کہ دریائے راوی صرف لاہور میں ہی آلودہ نہیں ہے بلکہ بھارت میں بھی دریائے راوی میں آلودگی شامل ہوتی ہے۔ حال ہی میں نیو یارک یونیورسٹی نے دنیا کے مختلف دریاؤں سے متعلق ایک تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ دریائے راوی کے آلودہ پانی میں پیراسیٹامول، نکوٹین، کیفین، مرگی اور ذیابیطس کی ادویات سمیت دواسازی کے اجزا پائے گئے ہیں۔

دریائے راوی سمیت دریائے چناب، سندھ ، کابل اور راولپنڈی کے قریب دریائے سواں بھی آلودگی کا شکار ہیں۔ اسی طرح ہمسایہ ملک بھارت میں ہندو عقیدے کے مطابق گناہوں کو دھونے والے دریا گنگا اور جمنا بھی آلودہ ہوچکے ہیں۔ ماہرین کے مطابق گنگا ندی میں چند بار نہانے سے کئی قسم کی جلدی بیماریاں پیدا ہوسکتی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں