ہماری جمہوریت یا نورا کشتی
پاکستان کے مجموعی سیاسی و جمہوری حالات میں ہر طرف نوراکشتی جیسا ماحول ہے
ان دنوں جو سیاسی رسہ کشی چل رہی ہے اور ملکی جمہوری حالات جیسے جا رہے ہیں، اس سب پر سونے پہ سہاگہ کپتان کا رویہ ہے، جو حالات کو مزید خراب کر رہا ہے۔
کپتان شاید بھول گئے ہیں کہ یہ کوئی پانچ روزہ میچ نہیں اور نہ ہی کوئی پچاس پچاس اوورز کا کھیل ہورہا ہے، جس میں کپتان کو صر ف 11 کھلاڑیوں کو قابو کرنا ہوتا ہے، چاہے وہ مخالف ٹیم کے ہوں یا پھر آپ کی اپنی ٹیم کے۔
آج کل وفاداریاں تبدیل ہورہی ہیں، سیاست کا بازار سا لگا ہوا ہے۔ ہر طرف نوراکشتی جیسا ماحول ہے۔ پاکستان کے اس مجموعی سیاسی و جمہوری حالات کے تناظر میں انور آفریدی کا شعر ملاحظہ کیجئے۔
اس جمہوریت میں جو کچھ بھی ہورہا ہے، بہرحال اس میں نقصان صرف اور صرف ملک و قو م کا ہی ہورہا ہے۔ کپتان کو شاید اب احساس ہوگیا ہوگا کہ اس نے الیکشن کے وقت درست ٹیم کا انتخاب نہیں کیا۔ الیکٹ ایبلز کے چکر میں، اپنی پارٹیوں سے وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کو دھڑا دھڑ ٹکٹ دیے گئے۔ اس سے نہ صرف تبدیلی پارٹی کا اپنا ووٹر مایوس ہوا بلکہ وہ ساتھی اور کارکن بھی مایوس ہوئے جنہوں نے 2013 سے 2018 تک پارٹی کےلیے جدوجہد کی تھی، ان کو نظر انداز کرکے نئے آنے والوں کو نوازا گیا۔ جن کو نوازا گیا ایسے لوگ چڑھتے سورج کو سلام کرنے والے اور جدھر کی ہوا ہوتی ہے اُدھر کے ہوجانے والے ہوتے ہیں۔ اور اب حالات سب کے سامنے ہیں۔
پاکستانی سیاست میں زیادہ تر کاروباری لوگ ہیں اور جو نہیں تھے وہ سیاست میں آکر کاروباری ہوگئے ہیں۔ ایسے لوگ ہر معاملے کو کاروبار، یعنی نفع و نقصان کی نظر سے دیکھتے ہیں اور کاروباری آدمی کبھی بھی ایسا فیصلہ نہیں کرتا جس سے اُس کے کاروبار کو نقصان ہو۔ وہ ہمیشہ اپنا فائدہ ہی دیکھتا ہے۔ قوم اور کپتان کو شاید یہ یاد نہیں کہ اس ملک کے لیڈروں کے ساتھ کیا ہوتا آیا ہے۔ ہماری سیاست نے تو اس ملک کو بنانے والے قائداعظم کو بھی نہیں بخشا تھا۔ اُن کو وہ ایمبولینس دی گئی جس کا فیول بیچ راستے میں ہی ختم ہوگیا۔ اور تو اور عظیم قائد کی عظیم بہن کے ساتھ بھی سیاست نے جو کیا وہ بھی شاید قوم کو یاد ہو۔ ہمارے ملک کے پہلے وزیراعظم لیا قت علی خان کے ساتھ کیا ہوا۔ ضیاء الحق ہوں، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو یا پھر ہمارے گزشتہ وزیراعظم نواز شریف ہوں، اس سیاست میں کیا کیا نہیں ہوا۔ ہمارے ملک میں منتخب حکومتوں کا تختہ ان کا دورانیہ مکمل ہونے سے پہلے ہی الٹ دیا جاتا ہے یا کم از کم وزیراعظم کو مدت پوری نہیں کرنے دی جاتی۔ آخری دو سیاسی پارٹیوں کے دورِ حکومت کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔
شاید بیرونی قوتیں اور ملک دشمن طاقتیں ہمارے ملک میں سیاسی استحکام چاہتی ہی نہیں ہیں۔ یوں لگتا ہے ہمارے سارے سیاسی نظام کی ڈوریں کسی اور کے ہاتھ میں ہیں اور وہ نہ صرف یہاں منتخب حکومت کو اپنا دور پورا کرنے نہیں دیتے بلکہ اب تو وہ لیڈر کو بھی لیڈر نہیں رہنے دیتے۔ جو بھی عناصر کارفرما ہوں، استعمال تو ہمارے لوگ ہی ہوتے ہیں۔
عوام کا حال خراب سے خراب تر ہوتا جارہا ہے۔ اس ملک میں جو حکومت میں ہوتا ہے وہ پچھلی حکومت کی نااہلیوں کا رونا روتا رہتا ہے۔ جب تک اقتدار میں رہتے ہیں 'چونکہ اور کیونکہ' کا ورد چلتا رہتا ہے۔ عوام کے دکھ صرف حزب اختلاف کو نظر آتے ہیں مگر جیسے ہی اقتدار میں آتے ہیں، سب کچھ نظر آنا بند ہوجاتا ہے اور عوام بیچارے اُسی گرداب میں پھنسے رہ جاتے ہیں، بلکہ نت نئے مصائب اور الجھنوں میں گرفتار ہوجاتے ہیں۔
اس وقت ملکی سیاست میں جو کچھ ہورہا ہے یا جو کچھ ہونے جارہا ہے، وہ نیا تو نہیں ہے۔ ایسا ہی چلتا آیا ہے اور پتا نہیں کب تک ایسا ہی چلتا رہے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کپتان شاید بھول گئے ہیں کہ یہ کوئی پانچ روزہ میچ نہیں اور نہ ہی کوئی پچاس پچاس اوورز کا کھیل ہورہا ہے، جس میں کپتان کو صر ف 11 کھلاڑیوں کو قابو کرنا ہوتا ہے، چاہے وہ مخالف ٹیم کے ہوں یا پھر آپ کی اپنی ٹیم کے۔
آج کل وفاداریاں تبدیل ہورہی ہیں، سیاست کا بازار سا لگا ہوا ہے۔ ہر طرف نوراکشتی جیسا ماحول ہے۔ پاکستان کے اس مجموعی سیاسی و جمہوری حالات کے تناظر میں انور آفریدی کا شعر ملاحظہ کیجئے۔
وحشت لٹا رہے ہیں یہ سفاک راہبر
باہم ہوئے ہیں ہم کو مٹانے کے واسطے
پہلے گھروں کو آگ لگاتے ہیں اور پھر
سیلاب بھیجتے ہیں بجھانے کے واسطے
اس جمہوریت میں جو کچھ بھی ہورہا ہے، بہرحال اس میں نقصان صرف اور صرف ملک و قو م کا ہی ہورہا ہے۔ کپتان کو شاید اب احساس ہوگیا ہوگا کہ اس نے الیکشن کے وقت درست ٹیم کا انتخاب نہیں کیا۔ الیکٹ ایبلز کے چکر میں، اپنی پارٹیوں سے وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کو دھڑا دھڑ ٹکٹ دیے گئے۔ اس سے نہ صرف تبدیلی پارٹی کا اپنا ووٹر مایوس ہوا بلکہ وہ ساتھی اور کارکن بھی مایوس ہوئے جنہوں نے 2013 سے 2018 تک پارٹی کےلیے جدوجہد کی تھی، ان کو نظر انداز کرکے نئے آنے والوں کو نوازا گیا۔ جن کو نوازا گیا ایسے لوگ چڑھتے سورج کو سلام کرنے والے اور جدھر کی ہوا ہوتی ہے اُدھر کے ہوجانے والے ہوتے ہیں۔ اور اب حالات سب کے سامنے ہیں۔
پاکستانی سیاست میں زیادہ تر کاروباری لوگ ہیں اور جو نہیں تھے وہ سیاست میں آکر کاروباری ہوگئے ہیں۔ ایسے لوگ ہر معاملے کو کاروبار، یعنی نفع و نقصان کی نظر سے دیکھتے ہیں اور کاروباری آدمی کبھی بھی ایسا فیصلہ نہیں کرتا جس سے اُس کے کاروبار کو نقصان ہو۔ وہ ہمیشہ اپنا فائدہ ہی دیکھتا ہے۔ قوم اور کپتان کو شاید یہ یاد نہیں کہ اس ملک کے لیڈروں کے ساتھ کیا ہوتا آیا ہے۔ ہماری سیاست نے تو اس ملک کو بنانے والے قائداعظم کو بھی نہیں بخشا تھا۔ اُن کو وہ ایمبولینس دی گئی جس کا فیول بیچ راستے میں ہی ختم ہوگیا۔ اور تو اور عظیم قائد کی عظیم بہن کے ساتھ بھی سیاست نے جو کیا وہ بھی شاید قوم کو یاد ہو۔ ہمارے ملک کے پہلے وزیراعظم لیا قت علی خان کے ساتھ کیا ہوا۔ ضیاء الحق ہوں، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو یا پھر ہمارے گزشتہ وزیراعظم نواز شریف ہوں، اس سیاست میں کیا کیا نہیں ہوا۔ ہمارے ملک میں منتخب حکومتوں کا تختہ ان کا دورانیہ مکمل ہونے سے پہلے ہی الٹ دیا جاتا ہے یا کم از کم وزیراعظم کو مدت پوری نہیں کرنے دی جاتی۔ آخری دو سیاسی پارٹیوں کے دورِ حکومت کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔
شاید بیرونی قوتیں اور ملک دشمن طاقتیں ہمارے ملک میں سیاسی استحکام چاہتی ہی نہیں ہیں۔ یوں لگتا ہے ہمارے سارے سیاسی نظام کی ڈوریں کسی اور کے ہاتھ میں ہیں اور وہ نہ صرف یہاں منتخب حکومت کو اپنا دور پورا کرنے نہیں دیتے بلکہ اب تو وہ لیڈر کو بھی لیڈر نہیں رہنے دیتے۔ جو بھی عناصر کارفرما ہوں، استعمال تو ہمارے لوگ ہی ہوتے ہیں۔
عوام کا حال خراب سے خراب تر ہوتا جارہا ہے۔ اس ملک میں جو حکومت میں ہوتا ہے وہ پچھلی حکومت کی نااہلیوں کا رونا روتا رہتا ہے۔ جب تک اقتدار میں رہتے ہیں 'چونکہ اور کیونکہ' کا ورد چلتا رہتا ہے۔ عوام کے دکھ صرف حزب اختلاف کو نظر آتے ہیں مگر جیسے ہی اقتدار میں آتے ہیں، سب کچھ نظر آنا بند ہوجاتا ہے اور عوام بیچارے اُسی گرداب میں پھنسے رہ جاتے ہیں، بلکہ نت نئے مصائب اور الجھنوں میں گرفتار ہوجاتے ہیں۔
اس وقت ملکی سیاست میں جو کچھ ہورہا ہے یا جو کچھ ہونے جارہا ہے، وہ نیا تو نہیں ہے۔ ایسا ہی چلتا آیا ہے اور پتا نہیں کب تک ایسا ہی چلتا رہے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔