کینسرخلیات کو روشن کرکے دکھانے والی نئی ایم آر آئی ٹیکنالوجی
بعض اہم تبدیلیاں کرکے میگنیٹک ریزونینس امیجنگ سے سرطانی خلیات واضح دیکھے جاسکتے ہیں
ISLAMABAD:
سرطان کے علاج میں کینسر زدہ ٹشو اور خلیات کی نشاندہی سب سے مشکل کام ہوتا ہے۔ اب میگنیٹک ریزونینس امیجنگ (ایم آرآئی) کی تبدیل شدہ ٹیکنالوجی سے دیگر تندرست حصوں کے مقابلے میں ہم سرطانی خلیات کو زیادہ روشن اور واضح دیکھ سکتے ہیں۔
کینیڈا کی واٹرلویونیورسٹی کی اس اختراع میں ایم آرآئی تصاویر میں سرطانی حصے قدرے واضح اور روشن دیکھ سکتے ہیں۔ تاہم اس کا دل و دماغ مصنوعی ذہانت (اے آئی) ہے جسے ایلیگزینڈر وونگ نے دیگرماہرین نے وضع کیا ہے۔
تندرست خلیات کے مقابلے میں پانی سرطانی خلیات سے مختلف انداز میں گزرتا ہے۔ عکس کشی کے اس نئے طریقے کو 'سنتھیٹک کورریلٹڈ ڈفیوژن امیجنگ' کا نام دیا گیا ہے۔ اس میں مختلف اوقاتِ کاراور زاویوں سے لی جانے والی تصاویر کو مختلف شدتوں پر دیکھتے ہوئے ان کی مکسنگ اور تجزیہ کیا جاتا ہے۔ اس عمل میں مصنوعی ذہانت بھی اپنا کام کرتی رہتی ہے۔
اس ضمن میں مختلف ہسپتالوں کے 200 مریضوں کا جائزہ لیا گیا جو پروسٹیٹ کینسرمیں مبتلا تھے۔ روایتی ایم آرآئی کے مقابلے میں سنتھیٹک کوریلٹڈ ڈیفیوژن امیجنگ بہت مؤثر ثابت ہوئی ۔ اس سے کینسر کے خلیات الگ الگ دکھائی دیتے ہیں۔ اس سے ڈاکٹر اور ریڈیالوجسٹ دونوں کو اصل مرض کی شناخت میں بہت آسانی ہوسکتی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ اشعاعی عمل (ریڈی ایشن تھراپی) سے اطراف کے تندرست خلیات بھی شدید متاثر ہوتے ہیں۔ اسی طرح ادویہ پہنچانے کےلیے بھی کینسروالے خلیات کی درست نشاندہی بہت ضروری ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرطان کے علاج میں کینسر زدہ مقامات تک رسائی اب تک ایک بڑا چیلنج ہے۔
پروسٹیٹ کینسر دنیا بھر کے مردوں میں عام ہے اور غریب ممالک میں بھی یہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔ دوسرے مرحلے میں اسی طریقے کو بریسٹ کینسر پر کامیابی سے آزمایا گیا ہے۔ تجزیہ کاروں اور ماہرین نے اسے ٹیکنالوجی کو انقلابی اور گیم چینجر قرار دیا ہے۔
سرطان کے علاج میں کینسر زدہ ٹشو اور خلیات کی نشاندہی سب سے مشکل کام ہوتا ہے۔ اب میگنیٹک ریزونینس امیجنگ (ایم آرآئی) کی تبدیل شدہ ٹیکنالوجی سے دیگر تندرست حصوں کے مقابلے میں ہم سرطانی خلیات کو زیادہ روشن اور واضح دیکھ سکتے ہیں۔
کینیڈا کی واٹرلویونیورسٹی کی اس اختراع میں ایم آرآئی تصاویر میں سرطانی حصے قدرے واضح اور روشن دیکھ سکتے ہیں۔ تاہم اس کا دل و دماغ مصنوعی ذہانت (اے آئی) ہے جسے ایلیگزینڈر وونگ نے دیگرماہرین نے وضع کیا ہے۔
تندرست خلیات کے مقابلے میں پانی سرطانی خلیات سے مختلف انداز میں گزرتا ہے۔ عکس کشی کے اس نئے طریقے کو 'سنتھیٹک کورریلٹڈ ڈفیوژن امیجنگ' کا نام دیا گیا ہے۔ اس میں مختلف اوقاتِ کاراور زاویوں سے لی جانے والی تصاویر کو مختلف شدتوں پر دیکھتے ہوئے ان کی مکسنگ اور تجزیہ کیا جاتا ہے۔ اس عمل میں مصنوعی ذہانت بھی اپنا کام کرتی رہتی ہے۔
اس ضمن میں مختلف ہسپتالوں کے 200 مریضوں کا جائزہ لیا گیا جو پروسٹیٹ کینسرمیں مبتلا تھے۔ روایتی ایم آرآئی کے مقابلے میں سنتھیٹک کوریلٹڈ ڈیفیوژن امیجنگ بہت مؤثر ثابت ہوئی ۔ اس سے کینسر کے خلیات الگ الگ دکھائی دیتے ہیں۔ اس سے ڈاکٹر اور ریڈیالوجسٹ دونوں کو اصل مرض کی شناخت میں بہت آسانی ہوسکتی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ اشعاعی عمل (ریڈی ایشن تھراپی) سے اطراف کے تندرست خلیات بھی شدید متاثر ہوتے ہیں۔ اسی طرح ادویہ پہنچانے کےلیے بھی کینسروالے خلیات کی درست نشاندہی بہت ضروری ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرطان کے علاج میں کینسر زدہ مقامات تک رسائی اب تک ایک بڑا چیلنج ہے۔
پروسٹیٹ کینسر دنیا بھر کے مردوں میں عام ہے اور غریب ممالک میں بھی یہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔ دوسرے مرحلے میں اسی طریقے کو بریسٹ کینسر پر کامیابی سے آزمایا گیا ہے۔ تجزیہ کاروں اور ماہرین نے اسے ٹیکنالوجی کو انقلابی اور گیم چینجر قرار دیا ہے۔