موڈرنا کی سیاست
یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہم منافع پر نظر رکھنے کے بجائے اس بات کو کیوں اہمیت نہیں دے رہے کہ ویکسین تیار ہو گئی
کورونا کی وبا دو برس سے دنیا کو لاحق ہے۔مگر پولیو وائرس تو ہزاروں برس سے انسان کے ساتھ جی رہا ہے۔انیس سو پچپن میں جب امریکی ماہرِ جراثیمیات (وائرولوجسٹ) جوناس سالک نے پولیو ویکسین کو عام استعمال کے لیے تیار کر کے پیش کیا تو پچھلے سات ہزار برس کی معلوم انسانی تاریخ میں جتنے اہم موڑ آئے ہیں۔
یہ دریافت ان میں سے ایک موڑ ثابت ہوئی۔ کہاں انیس سو چون میں ایک لاکھ امریکیوں میں سے اٹھارہ پولیو کا شکار ہوئے اور اس ویکسین کی آمد کے بعد انیس سو چھپن میں پولیو کے مریضوں کی تعداد گھٹ کے ایک لاکھ میں سے دو تک پہنچ گئی۔یہ ویکسین انجکشن کے ذریعے دی جاتی تھی۔مگر انیس سو باسٹھ میں ایک اور امریکی وائرولوجسٹ البرٹ سبائن نے پولیو کے قطرے پلانے کا طریقہ ( او پی وی ) پیش کیااور پھر یہی طریقہ عالمگیر ہو گیا۔
جوناس سالک نے پولیو ویکسین کے حقوق کو اپنے نام پر محفوظ (پیٹنٹ) نہیں کروایا۔اگر وہ ایسا کر لیتے تو بل گیٹس سے زیادہ دولت مند ہوتے۔جب ان سے پوچھا گیا کہ اس ویکسین کے جملہ حقوق کیوں پیٹنٹ نہیں کرائے تو ان کا جواب تھا کہ یہ حقوق سب انسانوں کے نام ہیں۔کیا سورج کی روشنی بھی پیٹنٹ ہو سکتی ہے۔جوناس سالک کا انیس سو پچانوے میں انتقال ہو گیا۔
کیا سالک کے نقشِ قدم پر کوئی اور چلا ؟ جواب یہ ہے کہ کوئی نہیں چلا بلکہ دوا ساز محققین اور کمپنیوں نے یہ سیکھا کہ تکلیف ، بیماری اور آزار کو کیسے تجوری میں بھرا جا سکتا ہے۔کسی کے دکھ سے سکھ کیسے نچوڑا جا سکتا ہے۔
کوویڈ تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے نا۔پہلے وائرس آیا پھر ویکسین آئی۔خیال تھا کہ چونکہ وبا عالمگیر ہے لہٰذا دوا ساز کمپنیاں بھی عالم گیرانہ سوچ اور سمجھ کے ساتھ کوئی ایسا انتظام کریں گی کہ پولیو ویکسین کی طرح کوویڈ ویکسین بھی شاہ سے فقیر تک ہر کسی کی دسترس میں ہو۔
جس طرح پولیو آخری مریض تک پہنچنے کی وجہ سے ہی دو ممالک کے سوا باقی دنیا سے دفعان ہو گیا اسی طرح کوویڈ ویکسین بھی آخری مریض تک پہنچائی جا سکے گی۔مگر یہ تو دیوانے کی سوچ ہے۔سیانا کیوں سوچے گا۔
فائزر نے گزشتہ برس ( دو ہزار اکیس ) میں اپنی ویکسین فروخت کر کے سینتیس ارب اور موڈرنا نے اٹھارہ ارب ڈالر کمائے۔ان اٹھارہ ارب ڈالر میں ویکسین پر لاگت پانچ ارب ڈالر اور منافع تیرہ ارب ڈالر ہے۔گویا لاگت کے مقابلے میں منافع ستر فیصد۔ویکسین کی ایک خوراک کی تیاری پر دو ڈالر پچاسی سینٹ لاگت آئی۔مگر اسے انیس سے لے کے سینتیس ڈالر فی ڈوز کے حساب سے بیچا گیا۔
یعنی جہاں موقع ملا لاگت سے تیرہ گنا زائد قیمت وصول کی گئی۔جن کے پاس اس کمپنی کے شئیرز تھے وہ ارب پتی ہو گئے۔خود موڈرنا کی سی ای او سٹیفنی بینسل کے حصص اور اثاثوں کی مالیت بارہ ارب ڈالر تک ہے۔پیپلز ویکسین الائنز کا کہنا ہے کہ کوویڈ کی برکت سے ارب پتی کلب میں نو افراد کا اضافہ ہوا ہے۔ان میں سے تین کا تعلق موڈرنا سے ہے۔
یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہم منافع پر نظر رکھنے کے بجائے اس بات کو کیوں اہمیت نہیں دے رہے کہ ویکسین تیار ہو گئی جس نے لاکھوں زندگیاں اور اربوں ڈالر کے معاشی اثاثے بچا لیے۔اس کی سراہنا تو بنتی ہے مگر مشکل یہ ہے کہ یہ منافع ویکسین کو عام آدمی تک پہنچانے کے لیے عالمگیر تعاون کے ذریعے نہیں بلکہ مقابلے بازی اور اپنے طریقِ کار کو خفیہ رکھنے کے حربوں سے حاصل کیا گیا ہے۔
اس حکمتِ عملی کے سبب دنیا ویکسین تک رسائی پانے والے اور نہ پانے والے گروہوں میں تقسیم ہو گئی۔اس وبا کو جڑ سے اکھاڑنے کی راہ میں یہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
ان دواساز کمپنیوں نے نومبر دو ہزار بیس میں ویکسین کی پہلی کھیپ مارکیٹ میں لانے سے دو ماہ پہلے ہی دسمبر دو ہزار اکیس تک کی اٹھتر فیصد ویکسین پروڈکشن کا ان چند امیر ممالک سے سودا کر لیا جہاں دنیا کی صرف بارہ فیصد آبادی بستی ہے۔موڈرنا کی پچاسی فیصد ویکسین سپلائی مٹھی بھر امیر ممالک کو ہوئی جب کہ درمیانے اور غریب ممالک کے اتحاد کوویکس کو صرف تین فیصد ویکسین سپلائی کرنے کی حامی بھری گئی۔
ایک امریکی سول سوسائٹی تنظیم پبلک سٹیزن نے یاد دلایا ہے کہ اس ویکسین کی تیاری میں سرکاری ادارے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ نے بنیادی کردار ادا کیا۔ اس ریسرچ کی مدد کے لیے حکومت نے سرکاری خزانے سے ایک ارب ڈالر ادا کیے اور مزید ڈیڑھ ارب ڈالر اس ویکسین کی خریداری کے لیے وقف کیے۔ٹیکسوں سے اکٹھا کردہ اتنا سرکاری پیسہ صرف ہونے کے باوجود موڈرنا نے اس ویکیسن کے فارمولے ، بنانے کے طریقے یا پیٹنٹ کو عالمی ادارہِ صحت کے ساتھ شئیر کرنے سے صاف انکار کر دیا۔
اس وقت جنوبی افریقہ کی لیبارٹریوں میں طبی محققین کا ایک گروپ ایسی کورونا ویکسین کی تیاری میں جتا ہوا ہے۔تاکہ اس کے فارمولے اور طریقے تک دنیا کے ہر ملک کی رسائی ہو۔موڈرنا سے جب اس تحقیق میں مدد دینے کی درخواست کی گئی تو اس نے اسے مسترد کر دیا۔
الٹا جنوبی افریقہ میں موڈرنا نے مقامی پیٹنٹ حاصل کرنے کی عرضی ڈال دی۔محققین کا کہنا ہے کہ اس تعاون کے بغیر بھی وہ جلد ہی ایک معیاری ویکسین مارکیٹ میں لانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔اسے زیادہ سے زیادہ انسانیت تک منافع کی ہوس کے بغیر پہنچانا ممکن ہو گا۔
دوا ساز کمپنیاں ہوں یا دیگر کارپوریٹ ادارے۔ ان کے بے تحاشا منافع کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ انھوں نے علم اور تحقیق کو ایک تجارتی شے بنا کے رکھ دیا ہے۔جو علم یہ خود پیدا کرتے ہیں۔اسے اپنے تک محدود رکھتے ہیں۔یا پھر جس فرد یا ادارے سے یہ علم ، تحقیق اور ڈیٹا حاصل کرتے ہیں اسے بھی ایک طے شدہ معاوضہ دے کر چلتا کر دیتے ہیں اور پھر ان ثمرات کو اس گنے کی طرح منافع کی مشین سے نچوڑتے ہیں کہ آخری قطرہ تک نہ بچے اور پھر گنے کے پھوک کو بھی بیچ کر پیسہ کماتے ہیں۔
اور پھر مدر ٹریسا اور ایدھی جیسی شخصیات کی یاد میں ایوارڈز ، گرانٹس ، اسکالر شپس اور سیمیناروں پر بھی چار آنے یا اٹھنی دان کر کے تالیاں پٹوا لیتے ہیں۔گویا سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد ہی مجبوری کی دلدل پر استوار ہے۔بنی نوع انسان کی صحت مند آسودگی اس نظام کے لیے انتہائی مضر ہے۔پر کیا کریں ؟ یہ تو ہو گا۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اور
Twitter@WusatUllahKhan پر کلک کیجیے)