حکومت کے لیے سیاسی چیلنجز
حکومت کے رویے نے اپوزیشن رہنماؤں کو ہی متحد ہو کر اس کے خلاف تحریک اعتماد لانے کا موقعہ دیا
ISLAMABAD:
پی ٹی آئی میں وزیر اعظم کے 26 سال پرانے رفیق اور رکن قومی اسمبلی محمد نجیب ہارون نے اپنے پارٹی چیئرمین سے اپیل کی ہے کہ وہ اب اپنا اقتدار نہیں بلکہ پارٹی بچانے پر فوری توجہ دیں۔
حکومتی اتحادی ایم کیو ایم نے بھی عمران خان کو مستعفی ہونے کا مشورہ دیا ہے اور پی ٹی آئی نے خود کو بچانے کے بجائے اپنے تیرہ منحرف ارکان قومی اسمبلی کو شوکاز نوٹس دے دیے ہیں کہ انھوں نے میڈیا انٹرویوز میں پارٹی چھوڑ دی ہے جب کہ میڈیا پر ان ارکان نے صرف حقائق اور اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے کسی ایک نے بھی پارٹی چھوڑنے کا اعلان نہیں کیا ہے۔ پنجاب میں بھی ترین گروپ کے ارکان اسمبلی نے بھی پی ٹی آئی نہیں چھوڑی اور وزیر اعلیٰ پنجاب سے متعلق تحفظات کا اظہار اور انھیں ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے تجزیہ کار کے مطابق بزدار کی حمایت عمران خان کو مہنگی پڑ سکتی ہے۔ 24 ناراض ارکان قومی اسمبلی سامنے آنے کے بعد پی ٹی آئی کے مستقبل کا اندازہ لگانا اب مشکل نہیں رہا۔ پی ٹی آئی میں ارکان کی ناراضگی کی نوبت کیوں آئی اور ارکان قومی اسمبلی کی بڑی تعداد قیادت سے کیوں دور ہوچکی۔ اس کی تفصیلی وضاحت ناراض ارکان خود کر رہے ہیں مگر اپنی غلطی ماننے کو حکمران قیادت اب تک تیار نہیں اور بعض وزرا ومشیران اب بھی تنقیدی فیصلے کرا رہے ہیں بلکہ حکومتی اتحادیوں پر الزام تراشی کے بعد اب اپنے ہی ارکان کو دھمکیاں دے رہے ہیں اور ان پر حملوں، ان کے خلاف مظاہروں کے ساتھ وفاقی اکائی سندھ حکومت کے سندھ ہاؤس کو بھی نہیں بخشا گیا ہے۔
حکمران قیادت نے ارکان پر کروڑوں روپے لے کر منحرف ہونے کا الزام لگانے کے بعد اپنیرکن اسمبلی نجیب ہارون کے موقف سے ہی اتفاق کرلیا ہوتا جن کا پاکستان میں سب سے زیادہ ٹیکس دینے اور رکن قومی اسمبلی کی حیثیت سے کوئی سرکاری تنخواہ، مراعات، پارلیمنٹ لاجز میں رہائش اور کوئی ایک سہولت بھی نہ لینے کا ریکارڈ ہے۔
نجیب ہارون نے ایک ملاقات میں وزیر اعظم کو مشورہ دیا تھا کہ وہ خود عہدہ چھوڑ دیں اور کسی اور پارٹی رہنما کو وزیر اعظم بنادیں تاکہ حکومتوں کے 5 سالہ مدت پورا کرنے کا تسلسل برقرار رہے ، مگر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ایسا ناممکن ہے کیونکہ پی ٹی آئی عمران خان کی وجہ سے قائم ہے۔ نجیب ہارون کا مشورہ بالکل درست تھا کیونکہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی مثال موجود ہے جنھوں نے اپنے نئے وزیر اعظم منتخب کرالیے تھے۔
وفاقی وزرا نے بھی مائنس ون کا فارمولا مسترد کردیا ہے کہ اس کی گنجائش نہیں۔ وزیر اعظم اپنے خلاف اپنے اتحادیوں اور پارٹی کے منحرفین کی سرگرمیوں پر سخت ناراض ہیں اور وفاقی وزیر معاملے کو مزید الجھا رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ پی ٹی آئی ارکان اور اتحادیوں کو حکمران قیادت سے شکایات ہیں پی ٹی آئی سے نہیں۔ حکمران قیادت نے ساڑھے تین سالوں میں یہ حالات خود پیدا کیے۔
اتحادیوں کی کوئی بات مانی نہ اپنے ہی ارکان کو وقت دیا۔ زیادہ وقت اپنے ترجمانوں کو ہدایات دینے میں گزرا کہ ان کے مخالفین کو بدنام کرنے، مقدمات میں پھنسانے اور ان کے میڈیا ٹرائل میں کوئی کسر نہ چھوڑی جائے۔ ساڑھے تین سالوں میں پرنٹ میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا پر پابندیوں اور غیر علانیہ سنسر شپ اور سینئر صحافیوں کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ تو ماضی میں دور آمریت میں بھی نہیں ہوا تھا۔
ایم کیو ایم کے رہنما عامر خان اور سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ اب موجودہ حکمرانوں کا اقتدار تو خطرے میں ہے ہی مگر اب تو پی ٹی آئی بچانے کا بھی وقت باقی نہیں رہا ہے۔ پی ٹی آئی میں جو صورتحال ہے ایسی صورتحال ماضی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں میں نہیں تھی۔ دونوں کے وزیر اعظم تحریک عدم اعتماد سے نہیں بلکہ عدالتی فیصلوں کے ذریعے ہٹے تھے جس کی وجہ سے دونوں پارٹیاں متحد و منظم رہیں ، دونوں میں کوئی پھوٹ نہیں پڑی تھی۔
حکومت کے رویے نے اپوزیشن رہنماؤں کو ہی متحد ہو کر اس کے خلاف تحریک اعتماد لانے کا موقعہ دیا بلکہ حکومتی اتحادی بھی ناراض ہوئے۔ وزیر اعظم کے لیے موقعہ تھا کہ وہ اپنے پارٹی ارکان سے ملتے رہتے ان کی شکایات دور کرتے مگر اپنے لوگوں اور اتحادیوں کو مطمئن نہ کر سکے۔
اپنے منحرف ارکان کے خلاف کارروائیوں کے بعد اقتدار خطرے میں پڑ سکتا ہے اور پارٹی کو بچانے کی پوزیشن بھی متاثر ہو ہے۔ جمہوریت کے نام پر من مانی نیموجودہ حکومت کو ماضی کی حکومتوں سے مختلف بنا دیا ہے کہ اب اپنی پارٹی کو بچانے کی پوزیشن بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے جس کی ذمے دار خود حکمران قیادت ہے۔