اوآئی سی اجلاس مسلم امہ کو درپیش چیلنجز
تنظیم آزادی فلسطین یعنی پی ایل او کواسلامی سربراہ کانفرنس میں فلسطینی ریاست کی نمایندہ تنظیم کے طورپرشامل کیا گیا تھا
ISLAMABAD:
پاکستان کی میزبانی میں او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کا اجلاس جاری ہے ، پاکستان نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ اگر اسلامی ممالک ساتھ دیں تو پاکستان میں وہ قائدانہ صلاحیتیں ہیں کہ وہ امت مسلمہ کو درپیش مسائل سے نکال سکتا ہے۔
اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اقوام متحدہ کے بعد دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ عالمی اسلامی تنظیم تشکیل دینے کا خیال مسلم اسکالرز کا تھا ، طویل غور و خوض کے بعد، اس کی بنیاد رکھی گئی، آج او آئی سی میں 57 ممبر ممالک شامل ہیں۔
او آئی سی کے چارٹر میں کہا گیا ہے کہ اسلامی، اقتصادی اقدار کا تحفظ، آپس میں یکجہتی کا فروغ، سماجی، اقتصادی، ثقافتی، سائنسی اور سیاسی شعبوں میں تعاون کو فروغ، عالمی امن و سلامتی کے قیام کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم خاص طور پر سائنس و ٹیکنالوجی کو فروغ دی جائے گا۔
پاکستان ہمیشہ سے ہی تنظیم تعاون اسلامی کا فعال رکن رہا ہے ، اس کے علاوہ واحد مسلم ملک ہے جس کے پاس نیوکلیئر ہتھیار ہیں اور یہ دنیا کی ساتویں سب سے بڑی فوجی قوت ہے ۔ پاکستان اس تنظیم میں اہم رول ادا کررہا ہے ، خاص طور پر ہماری مسلح افواج کی اعلیٰ کارکردگی سے دنیا متعارف ہے، اس لیے اس کے ممبر ممالک کی فوجی تربیت میں پاکستان کا اہم کردار رہا ہے اور ہے۔
تاریخ کی ورق گردانی کریں تو پتہ چلتا ہے کہ اگست 1969 میں یروشلم میں مسجد اقصیٰ کے اندر خطبے کے لیے رکھے گئے صلاح الدین ایوبی کے دور کے آٹھ سو سال پرانے منبر کو ایک اسرائیلی انتہا پسند نے آگ لگا دی، اس کے نتیجے میں مسجد کی قدیم عمارت کی چھت کو بھی نقصان پہنچا۔
اسلامی دنیا نے اس واقعے پر شدید ردعمل دیا۔ فلسطین کے مفتی اعظم امین الحسینی نے اسلامی ملکوں سے اپیل کی کہ وہ ایک سربراہ اجلاس منعقد کریں اور ایسے واقعات کے سدباب کے لیے اقدامات اٹھائیں۔ فلسطین کے مفتی اعظم کی اپیل کے جواب میں مراکش کے شہر رباط میں 24 مسلم اکثریتی ملکوں کے نمایندے اکٹھے ہوئے جن میں سے زیادہ تر ان ممالک کے سربراہان کی تھی۔
25 ستمبر 1969 کو اس اجتماع نے ایک قرارداد منظور کی جس میں کہا گیا کہ ''اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اقتصادی، سائنسی، ثقافتی اور روحانی شعبوں میں قریبی تعاون اور مدد کی راہ اختیار کرنے کے لیے مسلم حکومتیں آپس میں صلاح مشورہ کریں گی۔'' یہ قرارداد اسلامی تعاون تنظیم یا اسلامی کانفرنس تنظیم کے قیام کا نقطہ آغاز تھی۔
اس کے چھ ماہ بعد سعودی عرب کے شہر جدہ میں اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کی پہلی کانفرنس منعقد ہوئی اور 1972 میں او آئی سی کا ایک باقاعدہ تنظیم کے طور پر قیام عمل میں لایا گیا جس کا ہر سال وزرائے خارجہ کا اجلاس اور ہر تین سال بعد سربراہ اجلاس منعقد ہونا طے پایا۔
پاکستان نے اسلامی ممالک کے سربراہان کی کانفرنس کی تاریخی میزبانی1974 لاہور میں کی۔ اسلامی تاریخ میں اگر کسی ایک ملک میں پوری مسلم دنیا کے سربراہان ایک وقت میں سب سے زیادہ اکٹھے ہوئے ہیں تو یہ اعزاز پاکستان کو حاصل ہوا۔
اس کانفرنس میں 50 کے قریب اسلامی ممالک کے سربراہان شریک ہوئے، اس کانفرنس کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ یاسر عرفات کی تنظیم آزادی فلسطین یعنی پی ایل او کو اسلامی سربراہ کانفرنس میں فلسطینی ریاست کی نمایندہ تنظیم کے طور پر شامل کیا گیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس کے بعد یاسر عرفات کو اقوام متحدہ میں خطاب کی دعوت دی گئی اور فلسطین کی نمایندہ تنظیم کو تسلیم کیا گیا ۔
ایک بات تو یہ اہم ہوئی کہ اس کانفرنس کے بعد پاکستان اسلامی دنیا میں ایک لیڈر بن کر ابھرا ۔ او آئی سی بطور ادارہ اس حد تک موثر ہوا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی تجویز پر شاہ فیصل نے مغربی ممالک کو تیل کی فراہمی پر شرائط عائد کرنا شروع کر دیں اور پھر ایسا بھی کہا جانے لگا کہ '' امریکا میں پٹرول کی عدم دستیابی کے باعث گاڑیاں بند ہونے لگی ہیں۔'' اس کانفرنس میں اہم فیصلے کیے گئے۔
اس کانفرنس کے پاکستان میں گہرے اثرات پڑے، پاکستان میں مساجد، شاہراہیں اور اہم مقامات کو مسلم ممالک کے سربراہان کے نام دیے گئے جیسے لاہور میں قذافی اسٹیڈیم، اسلام آباد کی شاہ فیصل مسجد، فیصل آباد اور فیصل ائیر بیس وغیرہ اہم ہیں۔
اس کانفرنس کے بعد اسلامی ممالک ایک دوسرے کے بہت قریب آئے تاہم افسوسناک امر یہ ہے کہ اس کانفرنس میں شریک بیشتر لیڈران پراسرار طریقے سے دنیا سے گئے۔ اس کے بعد اس فورم کی افادیت میں کمی ہونا شروع ہوئی لیکن اب لگ رہا ہے کہ شاید یہ اپنا وہ ہی مقام حاصل کرلے گا جو ایک زمانے میں اس کا تھا ، اس فورم کو افغانستان، کشمیر، فلسطین ، شام ، روہنگیا تمام مسلمانوں کے لیے آواز بلند کرنا ہوگی۔
اقوام متحدہ کے بعد او آئی سی دنیا کی دوسری بڑی تنظیم ہے، لیکن او آئی سی مسلمان ممالک کو درپیش مسائل کو حل کرنے میں کامیابی حاصل نہیں کرسکی ہے۔ عراق ، لیبیا، یمن، سوڈان ، افغانستان، لبنان اور صومالیہ کے بحران حل کرنے میں او آئی سی کا کردار کمزور رہا ہے ۔ عراق، افغانستان،کشمیر ، میانمار ، فلسطین، عراق اور شام میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا ہے مگر مسلمان ملکوں پر مشتمل یہ تنظیم ایفکٹیو رول ادا نہیں کرسکی۔
حالانکہ کانفرنس کے چارٹر میں واضح طور پر درج ہے کہ تما م ارکان اپنے باہمی تنازعات پر امن طریقے سے حل کریں گے اور باہم جنگ سے حتی الامکان گریز کریں گے لیکن عملی طور پرا س کا مظاہرہ آج تک دیکھنے میں نہیں آیا۔
مسئلہ کشمیر دو طرفہ ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ جس پر بھارت اور پاکستان دونوں ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہیں، اگر ہم او آئی سی تنظیم کی گزشتہ چند دہائیوں کے دوران کارکردگی کا جائزہ لیں، تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ رکن ممالک نے اپنے ہی منظور کردہ اور طے کردہ مقاصد کو پورا کرنے میں اپنی ذمے داریاں پوری نہیں کیں اور قراردادوں کے سوا عملی اقدامات نہیں کیے۔ مقاصد کے حصول کے لیے کوئی کامیابیاں حاصل نہیں کیں اور ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ان کے سارے دعوے لفظی اور زبانی تھے، عملی طور پر انھوں نے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے۔
اس وقت افغانستان میں انسانی بحران جنم لے چکا ہے۔ بھوک اور غربت آخری حدود کو چھو رہی ہیں، ادویات کی قلت سب سے سنگین مسئلہ ہے۔ امریکا نے افغانستان کے زرمبادلہ کے ذخائر منجمد کررکھے ہیں۔ اس حوالے سے بھی او آئی سی امریکا اور اقوام متحدہ سے مذاکرات کرے ۔
ایک اور خوفناک چیلنج یہ ہے کہ امریکا اور مغربی ممالک میں آزادی اظہار کے نام پر اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ اسلام عدم رواداری اور دہشت گردی کا دوسرا نام ہے، جب کہ اسلام امن کا دین ہے، و ہ مغربی طاقتوں یا بین الاقوامی برادری کے کسی بھی حصے کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے۔
مسلمان ممالک تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ اور پرامن تعلقات رکھنے کے حامی ہیں، لیکن وہ دوسروں کی بالادستی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی وہ دوسروں کے زیر اثر رہنے کے لیے تیار ہیں۔ او آئی سی کا دہشت گردی کے بارے میں موقف واضح ہے، یہ تنظیم ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتی ہے۔
اقوام متحدہ کی طرح مسلم دنیا کی او آئی سی نے بھی مسئلہ فلسطین کے حل پر فلسطینوں کے حقوق کا دفاع نہیں کرسکی ہے، اس پلیٹ فارم سے کوئی مضبوط فیصلہ نہ ہوسکا اور نہ ہی کوئی ایسی قرارداد متفقہ طور پر منظور ہوسکی جو اقوام عالم میں تھرتھلی مچا دے ، دراصل عالمی طاقتیں یہ چاہتی ہی نہیں ہیں کہ او آئی سی دنیا میں ایک طاقتور مسلم بلاک بن کر ابھرے یا مسلم ممالک اپنے تنازعات کو باہم اس پلیٹ فارم پر حل کرلیں۔
مسلم ممالک کی اشرافیہ بھی مختلف قسم کے تعصبات ، کمزوریوں اور مفادات کے سبب آپس میں تقسیم ہیں، یہ تقسیم بھی او آئی سی کو ایک فعال اور بااثر عالمی اتحاد بننے نہیں دے رہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا میں تیزی سے بدلتے ہوئے رحجانات کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے ایک موثر و مضبوط پلیٹ فارم بنایا جائے تاکہ یہ ایک عظیم طاقت بن سکے۔
اس میں نئی روح پھونکنے کے ساتھ ساتھ اصلاحات کی بھی ضرورت ہے، او آئی سی کے ذریعے سفارت کاری سے یہ رابطہ گروپ ممبر ممالک میں ڈیجیٹل انقلاب برپا کرنے غربت کا خاتمہ ، ٹیکنالوجی ، تعلیمی ، معاشی صنعتی ترقی کو بڑھانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے ۔
پاکستان کی میزبانی میں او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کا اجلاس جاری ہے ، پاکستان نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ اگر اسلامی ممالک ساتھ دیں تو پاکستان میں وہ قائدانہ صلاحیتیں ہیں کہ وہ امت مسلمہ کو درپیش مسائل سے نکال سکتا ہے۔
اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اقوام متحدہ کے بعد دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ عالمی اسلامی تنظیم تشکیل دینے کا خیال مسلم اسکالرز کا تھا ، طویل غور و خوض کے بعد، اس کی بنیاد رکھی گئی، آج او آئی سی میں 57 ممبر ممالک شامل ہیں۔
او آئی سی کے چارٹر میں کہا گیا ہے کہ اسلامی، اقتصادی اقدار کا تحفظ، آپس میں یکجہتی کا فروغ، سماجی، اقتصادی، ثقافتی، سائنسی اور سیاسی شعبوں میں تعاون کو فروغ، عالمی امن و سلامتی کے قیام کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم خاص طور پر سائنس و ٹیکنالوجی کو فروغ دی جائے گا۔
پاکستان ہمیشہ سے ہی تنظیم تعاون اسلامی کا فعال رکن رہا ہے ، اس کے علاوہ واحد مسلم ملک ہے جس کے پاس نیوکلیئر ہتھیار ہیں اور یہ دنیا کی ساتویں سب سے بڑی فوجی قوت ہے ۔ پاکستان اس تنظیم میں اہم رول ادا کررہا ہے ، خاص طور پر ہماری مسلح افواج کی اعلیٰ کارکردگی سے دنیا متعارف ہے، اس لیے اس کے ممبر ممالک کی فوجی تربیت میں پاکستان کا اہم کردار رہا ہے اور ہے۔
تاریخ کی ورق گردانی کریں تو پتہ چلتا ہے کہ اگست 1969 میں یروشلم میں مسجد اقصیٰ کے اندر خطبے کے لیے رکھے گئے صلاح الدین ایوبی کے دور کے آٹھ سو سال پرانے منبر کو ایک اسرائیلی انتہا پسند نے آگ لگا دی، اس کے نتیجے میں مسجد کی قدیم عمارت کی چھت کو بھی نقصان پہنچا۔
اسلامی دنیا نے اس واقعے پر شدید ردعمل دیا۔ فلسطین کے مفتی اعظم امین الحسینی نے اسلامی ملکوں سے اپیل کی کہ وہ ایک سربراہ اجلاس منعقد کریں اور ایسے واقعات کے سدباب کے لیے اقدامات اٹھائیں۔ فلسطین کے مفتی اعظم کی اپیل کے جواب میں مراکش کے شہر رباط میں 24 مسلم اکثریتی ملکوں کے نمایندے اکٹھے ہوئے جن میں سے زیادہ تر ان ممالک کے سربراہان کی تھی۔
25 ستمبر 1969 کو اس اجتماع نے ایک قرارداد منظور کی جس میں کہا گیا کہ ''اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اقتصادی، سائنسی، ثقافتی اور روحانی شعبوں میں قریبی تعاون اور مدد کی راہ اختیار کرنے کے لیے مسلم حکومتیں آپس میں صلاح مشورہ کریں گی۔'' یہ قرارداد اسلامی تعاون تنظیم یا اسلامی کانفرنس تنظیم کے قیام کا نقطہ آغاز تھی۔
اس کے چھ ماہ بعد سعودی عرب کے شہر جدہ میں اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کی پہلی کانفرنس منعقد ہوئی اور 1972 میں او آئی سی کا ایک باقاعدہ تنظیم کے طور پر قیام عمل میں لایا گیا جس کا ہر سال وزرائے خارجہ کا اجلاس اور ہر تین سال بعد سربراہ اجلاس منعقد ہونا طے پایا۔
پاکستان نے اسلامی ممالک کے سربراہان کی کانفرنس کی تاریخی میزبانی1974 لاہور میں کی۔ اسلامی تاریخ میں اگر کسی ایک ملک میں پوری مسلم دنیا کے سربراہان ایک وقت میں سب سے زیادہ اکٹھے ہوئے ہیں تو یہ اعزاز پاکستان کو حاصل ہوا۔
اس کانفرنس میں 50 کے قریب اسلامی ممالک کے سربراہان شریک ہوئے، اس کانفرنس کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ یاسر عرفات کی تنظیم آزادی فلسطین یعنی پی ایل او کو اسلامی سربراہ کانفرنس میں فلسطینی ریاست کی نمایندہ تنظیم کے طور پر شامل کیا گیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس کے بعد یاسر عرفات کو اقوام متحدہ میں خطاب کی دعوت دی گئی اور فلسطین کی نمایندہ تنظیم کو تسلیم کیا گیا ۔
ایک بات تو یہ اہم ہوئی کہ اس کانفرنس کے بعد پاکستان اسلامی دنیا میں ایک لیڈر بن کر ابھرا ۔ او آئی سی بطور ادارہ اس حد تک موثر ہوا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی تجویز پر شاہ فیصل نے مغربی ممالک کو تیل کی فراہمی پر شرائط عائد کرنا شروع کر دیں اور پھر ایسا بھی کہا جانے لگا کہ '' امریکا میں پٹرول کی عدم دستیابی کے باعث گاڑیاں بند ہونے لگی ہیں۔'' اس کانفرنس میں اہم فیصلے کیے گئے۔
اس کانفرنس کے پاکستان میں گہرے اثرات پڑے، پاکستان میں مساجد، شاہراہیں اور اہم مقامات کو مسلم ممالک کے سربراہان کے نام دیے گئے جیسے لاہور میں قذافی اسٹیڈیم، اسلام آباد کی شاہ فیصل مسجد، فیصل آباد اور فیصل ائیر بیس وغیرہ اہم ہیں۔
اس کانفرنس کے بعد اسلامی ممالک ایک دوسرے کے بہت قریب آئے تاہم افسوسناک امر یہ ہے کہ اس کانفرنس میں شریک بیشتر لیڈران پراسرار طریقے سے دنیا سے گئے۔ اس کے بعد اس فورم کی افادیت میں کمی ہونا شروع ہوئی لیکن اب لگ رہا ہے کہ شاید یہ اپنا وہ ہی مقام حاصل کرلے گا جو ایک زمانے میں اس کا تھا ، اس فورم کو افغانستان، کشمیر، فلسطین ، شام ، روہنگیا تمام مسلمانوں کے لیے آواز بلند کرنا ہوگی۔
اقوام متحدہ کے بعد او آئی سی دنیا کی دوسری بڑی تنظیم ہے، لیکن او آئی سی مسلمان ممالک کو درپیش مسائل کو حل کرنے میں کامیابی حاصل نہیں کرسکی ہے۔ عراق ، لیبیا، یمن، سوڈان ، افغانستان، لبنان اور صومالیہ کے بحران حل کرنے میں او آئی سی کا کردار کمزور رہا ہے ۔ عراق، افغانستان،کشمیر ، میانمار ، فلسطین، عراق اور شام میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا ہے مگر مسلمان ملکوں پر مشتمل یہ تنظیم ایفکٹیو رول ادا نہیں کرسکی۔
حالانکہ کانفرنس کے چارٹر میں واضح طور پر درج ہے کہ تما م ارکان اپنے باہمی تنازعات پر امن طریقے سے حل کریں گے اور باہم جنگ سے حتی الامکان گریز کریں گے لیکن عملی طور پرا س کا مظاہرہ آج تک دیکھنے میں نہیں آیا۔
مسئلہ کشمیر دو طرفہ ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ جس پر بھارت اور پاکستان دونوں ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہیں، اگر ہم او آئی سی تنظیم کی گزشتہ چند دہائیوں کے دوران کارکردگی کا جائزہ لیں، تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ رکن ممالک نے اپنے ہی منظور کردہ اور طے کردہ مقاصد کو پورا کرنے میں اپنی ذمے داریاں پوری نہیں کیں اور قراردادوں کے سوا عملی اقدامات نہیں کیے۔ مقاصد کے حصول کے لیے کوئی کامیابیاں حاصل نہیں کیں اور ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ان کے سارے دعوے لفظی اور زبانی تھے، عملی طور پر انھوں نے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے۔
اس وقت افغانستان میں انسانی بحران جنم لے چکا ہے۔ بھوک اور غربت آخری حدود کو چھو رہی ہیں، ادویات کی قلت سب سے سنگین مسئلہ ہے۔ امریکا نے افغانستان کے زرمبادلہ کے ذخائر منجمد کررکھے ہیں۔ اس حوالے سے بھی او آئی سی امریکا اور اقوام متحدہ سے مذاکرات کرے ۔
ایک اور خوفناک چیلنج یہ ہے کہ امریکا اور مغربی ممالک میں آزادی اظہار کے نام پر اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ اسلام عدم رواداری اور دہشت گردی کا دوسرا نام ہے، جب کہ اسلام امن کا دین ہے، و ہ مغربی طاقتوں یا بین الاقوامی برادری کے کسی بھی حصے کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے۔
مسلمان ممالک تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ اور پرامن تعلقات رکھنے کے حامی ہیں، لیکن وہ دوسروں کی بالادستی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی وہ دوسروں کے زیر اثر رہنے کے لیے تیار ہیں۔ او آئی سی کا دہشت گردی کے بارے میں موقف واضح ہے، یہ تنظیم ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتی ہے۔
اقوام متحدہ کی طرح مسلم دنیا کی او آئی سی نے بھی مسئلہ فلسطین کے حل پر فلسطینوں کے حقوق کا دفاع نہیں کرسکی ہے، اس پلیٹ فارم سے کوئی مضبوط فیصلہ نہ ہوسکا اور نہ ہی کوئی ایسی قرارداد متفقہ طور پر منظور ہوسکی جو اقوام عالم میں تھرتھلی مچا دے ، دراصل عالمی طاقتیں یہ چاہتی ہی نہیں ہیں کہ او آئی سی دنیا میں ایک طاقتور مسلم بلاک بن کر ابھرے یا مسلم ممالک اپنے تنازعات کو باہم اس پلیٹ فارم پر حل کرلیں۔
مسلم ممالک کی اشرافیہ بھی مختلف قسم کے تعصبات ، کمزوریوں اور مفادات کے سبب آپس میں تقسیم ہیں، یہ تقسیم بھی او آئی سی کو ایک فعال اور بااثر عالمی اتحاد بننے نہیں دے رہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا میں تیزی سے بدلتے ہوئے رحجانات کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے ایک موثر و مضبوط پلیٹ فارم بنایا جائے تاکہ یہ ایک عظیم طاقت بن سکے۔
اس میں نئی روح پھونکنے کے ساتھ ساتھ اصلاحات کی بھی ضرورت ہے، او آئی سی کے ذریعے سفارت کاری سے یہ رابطہ گروپ ممبر ممالک میں ڈیجیٹل انقلاب برپا کرنے غربت کا خاتمہ ، ٹیکنالوجی ، تعلیمی ، معاشی صنعتی ترقی کو بڑھانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے ۔