23 مارچ اور میثاق جمہوریت
اختلافات کے باوجود پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ اور پارلیمنٹ میں موجود دیگر جماعتیں آئین میں 18ویں ترمیم پر متفق ہوئیں
لاہور:
آل انڈیا مسلم لیگ نے 23 مارچ 1941 کو لاہور میں ایک قرارداد منظور کی۔ اس قرارداد کے تحت مسلمانوں کی اکثریت والے صوبوں کے درمیان کنفیڈریشن قائم ہونا تھی ، جو نئے ملک کی بنیاد ہوتی۔ اس قرارداد لاہور کو بعد میں قرارداد پاکستان کا نام دیا گیا۔
یوں ہندوستان کے بٹوارے کے بعد نیا ملک پاکستان وجود میں آیا۔ اس اساسی قرارداد کے تحت ملک کو ایک مکمل وفاقی اور جمہوری ہونا چاہیے تھا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آئین کی تیاری کا کام التواء کا شکار ہوا۔ غلام محمد، اسکندر مرزا اور جنرل ایوب خان کا کردار نظام حکومت میں بڑھنے لگا۔
1956 میں ایک آئین نافذ ہوا۔ اس آئین کے تحت پہلے صدرکا اعزاز حاصل کرنے والے میجر جنرل اسکندر مرزا نے 1958 میں آئین منسوخ کیا اور ملک میں مارشل لاء نافذ کیا۔
جنرل ایوب خان نے اسکندر مرزا کو رخصت کیا۔ جنرل ایوب نے 10 سال اور جنرل یحییٰ خان نے 3 سال حکومت کی۔ ملک کے اکثریتی صوبے مشرقی پاکستان کے عوام نے عوامی لیگ کا ساتھ دیا اور اپنی غربت کو ختم کرنے کے لیے ایک علیحدہ ملک بنانے کو ہی نجات کا راستہ سمجھا۔
پارلیمنٹ میں موجودہ منتخب اراکین نے 1973 کا آئین بنایا۔ دو آمروں نے اس آئین کو معطل کیا اور من مانی ترامیم ہوئیں، مگر یہ آج بھی پاکستان کی واحد متفقہ دستاویز ہے۔ 1988میں جنرل ضیاء الحق فضائی حادثے میں جاں بحق ہوئے اور تاریخ کے کوڑے دان میں کھوگئے۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے دو دفعہ حکومتیں قائم کیں، کچھ اچھے اور کچھ برے کام ہوئے۔ دونوں حکومتیں ڈیپ اسٹیٹ کی پالیسی کی بناء پر اپنی مقررہ مدت پوری نہیں کر پائیں۔ دوسرے دور میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے اس شق پر متفق ہو کر کہ صدر کو اسمبلیوں کو توڑنے کا اختیار ختم کیا جائے، 1973کے آئین کا ایک حقیقی حصہ بحال کیا ، تو جنرل مشرف نے نواز شریف حکومت کو برطرف کردیا۔
اس دور میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی قیادت جلاوطن ہونے پر مجبور ہوئیں۔ بے نظیر اور میاں نواز شریف اس نتیجہ پر پہنچے کہ ملک میں خودمختار الیکشن کمیشن قائم ہونا چاہیے، انتخابات شفاف ہونے چاہئیں۔ ان انتخابات کے نتائج کے ذریعے تمام کامیاب ہونے والی جماعتوں کی مینڈیٹ کو تمام دیگر سیاسی جماعتوں کو تسلیم کرنا چاہیے۔
ان رہنماؤں نے ان بنیادی نکات پر اتفاق کیا ۔ یوں 2005میں بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان ان ہی نکات پر مشتمل میثاق جمہوریت ہوا۔ اس میثاق میں دونوں جماعتوں نے عہد کیا کہ وہ برسر اقتدار آنے کے بعد 1940کی قرارداد لاہورکی روح کے مطابق صوبائی خود مختاری کو آئین کا حصہ بنانے کے علاوہ عوام کے جاننے کے حق کو بھی آئین میں شامل کیا جائے گا اور ایک خود مختار الیکشن کمیشن قائم ہوگا۔
27 دسمبر 2007 کو بے نظیر بھٹو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں دہشت گردی کا شکار ہوئیں۔ 2008 میں ہونے والے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی وفاق اور سندھ میں جب کہ پنجاب سے مسلم لیگ ن اکثریتی جماعت کے طور پر ابھری۔ سابق صوبہ سرحد میں عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچستان سے آزاد نمایندوں نے جنھوں نے بعد میں پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیارکی اور جمعیت علمائے اسلام وغیرہ نے زیادہ نشستیں حاصل کیں، یوں تمام سیاسی جماعتوں نے پہلی دفعہ ایک دوسرے کا مینڈیٹ تسلیم کیا۔ یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم اور آصف علی زرداری صدر منتخب ہوئے۔
تاریخ میں پہلی دفعہ پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ صدر پرویز مشرف کا مواخذہ کیا جائے۔ صدر پرویز مشرف مواخذہ سے پہلے مستعفی ہوگئے۔ اس دوران وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے ساتھ اے این پی ، جمعیت علماء اسلام ، ایم کیوایم اور مسلم لیگ شامل تھیں۔ پنجاب میں مسلم لیگ نے شہباز شریف کو وزیر اعلیٰ بنایا۔ پیپلز پارٹی اس حکومت میں شریک رہی۔ اے این پی کو خیبر پختون خوا میں وزارتِ اعلیٰ ملی۔
پیپلز پارٹی کے کچھ وزراء بھی اس میں شامل ہوئے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کے ساتھ ایم کیو ایم حکومت میں شامل ہوئی۔ بلوچستان میں اسلم رئیسانی پیپلز پارٹی کے وزیر اعلیٰ بنے۔ جمعیت علماء اسلام اور مسلم لیگ کے دونوں گروپ اور کئی آزاد ارکان اس کابینہ میں شامل ہوئے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے مسئلہ پر جب آصف زرداری نے معاہدہ کو توڑ دیا تو پھر مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کا اتحاد ختم ہوگیا۔
میاں نواز شریف کی قیادت میں لاہور سے لانگ مارچ شروع ہوا ، مگر گوجرانوالہ پہنچنے پر جنرل کیانی نے ایک ایمرجنسی ٹیلی فون کر کے میاں صاحب کو یہ خوش خبری سنائی کہ افتخار چوہدری کو ان کے عہدہ پر بحال کیا جارہا ہے۔
مگر ان اختلافات کے باوجود پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ اور پارلیمنٹ میں موجود دیگر جماعتیں آئین میں 18ویں ترمیم پر متفق ہوئیں۔ اس ترمیم کے تحت 23 مارچ 1940کو لاہور میں منظور ہونے والے قرارداد کی روح کے مطابق صوبائی خود مختاری کا مسئلہ حل ہوا، خود مختار الیکشن کمیشن وجود میں آیا اور عوام کے جاننے کے حق کے لیے آرٹیکل 19-Aشامل ہوئی۔ قومی مالیاتی ایوارڈ کی تشکیلِ نو ہوئی۔ اس ترمیم کے بعد نچلی سطح کا بلدیاتی نظام قائم ہونا ضروری تھا۔
(جاری ہے)