سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس پر 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیدیا
چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن‘ جسٹس مظہرعالم‘ جسٹس منیب‘ جسٹس مندوخیل پر مشتمل بینچ کل سماعت کریگا
کراچی:
سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس پر 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیدیا۔
سپریم کورٹ نے وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد سے متعلق سپریم کورٹ بار کی پٹیشن اور آرٹیکل 63اے کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس ایک ساتھ سننے کا فیصلہ کیا ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس منیب اختر پر مشتمل 2رکنی بینچ نے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد، ریڈ زون میں حکومت اور اپوزیشن کے جلسوں کے متعلق سپریم کورٹ بار کی پٹیشن اور صدارتی ریفرنس پر21مارچ کی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کردیا۔
5صفحات پر مشتمل آرڈر میں عدالت نے قرار دیا کہ اسپیکر کی طرف سے وقت پر اسمبلی اجلاس نہ بلانے جیسے معاملات میں آئین کے تحت پارلیمنٹ خود دادرسی کرسکتی ہے، سپریم کورٹ بار اور سیاسی جماعتوں کے وکلا نے اسپیکر کی طرف سے قومی اسمبلی کا اجلاس14 دن کے اندر نہ بلانے کی آئینی پابندی کو نظر انداز کرنے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے لیکن فی الوقت اس نکتے کو نہیں اٹھائیں گے کیونکہ یہ معاملہ آئینی تشریح کا متقاضی ہے اور اس ضمن میں عدالت کے سامنے صدارتی ریفرنس زیر سماعت ہے۔
عدالت پارلیمنٹ کے معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی۔ عدالت نے قرار دیا کہ سپریم کورٹ بار کی طرف سے 5 گزارشات کا جائزہ لیا گیا۔ 4 گزارشات کی حد تک اٹارنی جنرل نے دو ٹوک بیان دیا کہ وفاقی حکومت کسی رکن قومی اسمبلی بشمول تحریک انصاف کے اراکین کو اجلاس میں شرکت اور ووٹ ڈالنے سے روکے گی نہ رکاوٹ ڈالے گی اور نہ ہی مداخلت کرے گی لیکن پانچویں گزارش کا معاملہ صدارتی ریفرنس سے جڑا ہے، اس لیے دونوں معاملات کو ایک ساتھ سنا جائے گا۔
عدالت نے صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ بار اور سیاسی جماعتوں کو نوٹس جاری کرکے 24 مارچ تک جامع جواب جمع کرنے کی ہدایت کی۔ آرڈر میں کہا گیا ہے کہ حکمران جماعت کی اتحادی جماعتوں کو نوٹس جاری نہیں کیا جارہا ہے کیونکہ وہ وفاقی حکومت کا حصہ ہیں لیکن اگر وہ فریق بننا چاہتی ہیں تو وکیل کے ذریعے ان کو سنا جائے گا۔
دوران سماعت متعدد سیاسی جماعتوں کی طرف سے ریڈزون میں ریلی نکالنے اور ملک بھر سے کارکنان کو جمع ہونے کے اعلانات پر خدشات کا اظہار کیا گیا لیکن اٹارنی جنرل نے سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کو انتظامیہ کے ساتھ بیٹھ کر طریقہ کار نکالنے اور جگہ کے تعین کرنے کی تجویز دی۔
بیشتر جماعتوں نے تجویز کے ساتھ اتفاق کیا جبکہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی نے تحفظات کا اظہار کیا اور سوال اٹھایا کہ کیا اس طرح کی میٹنگ نتیجہ خیز بھی ہوگی تاہم مذکورہ جماعتوں کے وکلا نے یقین دلایا کہ وہ نیک نیتی کے ساتھ کو شش کریں گے کہ معاملہ خوش اسلوبی سے حل ہو۔ اٹارنی جنرل کی تجویز قابل عمل ہے، اس لیے ان کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ انتظامیہ اور سیاسی جماعتوں میں میٹنگ کا اہتمام کریں۔
دریں اثنا آئی جی اسلام آباد نے یقین دہانی کرائی کہ سندھ ہائوس جیسا واقعہ دوبارہ نہیں ہوگااور مقدمات کی پیروی کی جائے گی جبکہ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے درج کیے گئے مقدمات پر تحفظات کا اظہار کیا جس پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے یقین دہانی کرائی کہ اگر صوبائی حکومت کیس میں شریک ہونا چاہتی ہے تو اس پر غور کیا جائے گا۔
عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ کے تحفظات دور کرنے اور اس ضمن میں قانون کے مطابق اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی۔ عدالت نے قرار دیا کہ صدارتی ریفرنس پر سماعت اہم ہے لیکن وقت کی کمی بھی ہے اس لیے سیاسی جماعتوں کے وکیل جمعرات 24 مارچ تک تحریری دلائل جمع کرائیں، اس طرح زبانی دلائل جلد مکمل ہوسکیں گے۔
اے پی پی کے مطابق عدالت نے قرار دیا کہ اٹارنی جنرل ریڈ زون سے جلسے باہر کرنے کیلئے سیاسی جماعتوں سے مشاورت کریں۔ قومی اسمبلی اجلاس تاخیر سے بلانے پر عدالت کی کوئی دلچسپی نہیں، عدالت کے سامنے صرف بار کی درخواست اور صدارتی ریفرنس ہے، عدالت پارلیمنٹ کے معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی، بہتر ہوگا پارلیمنٹ کے معاملات پارلیمنٹ کے اندر حل کئے جائیں۔
سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس پر 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیدیا۔
سپریم کورٹ نے وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد سے متعلق سپریم کورٹ بار کی پٹیشن اور آرٹیکل 63اے کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس ایک ساتھ سننے کا فیصلہ کیا ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس منیب اختر پر مشتمل 2رکنی بینچ نے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد، ریڈ زون میں حکومت اور اپوزیشن کے جلسوں کے متعلق سپریم کورٹ بار کی پٹیشن اور صدارتی ریفرنس پر21مارچ کی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کردیا۔
5صفحات پر مشتمل آرڈر میں عدالت نے قرار دیا کہ اسپیکر کی طرف سے وقت پر اسمبلی اجلاس نہ بلانے جیسے معاملات میں آئین کے تحت پارلیمنٹ خود دادرسی کرسکتی ہے، سپریم کورٹ بار اور سیاسی جماعتوں کے وکلا نے اسپیکر کی طرف سے قومی اسمبلی کا اجلاس14 دن کے اندر نہ بلانے کی آئینی پابندی کو نظر انداز کرنے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے لیکن فی الوقت اس نکتے کو نہیں اٹھائیں گے کیونکہ یہ معاملہ آئینی تشریح کا متقاضی ہے اور اس ضمن میں عدالت کے سامنے صدارتی ریفرنس زیر سماعت ہے۔
عدالت پارلیمنٹ کے معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی۔ عدالت نے قرار دیا کہ سپریم کورٹ بار کی طرف سے 5 گزارشات کا جائزہ لیا گیا۔ 4 گزارشات کی حد تک اٹارنی جنرل نے دو ٹوک بیان دیا کہ وفاقی حکومت کسی رکن قومی اسمبلی بشمول تحریک انصاف کے اراکین کو اجلاس میں شرکت اور ووٹ ڈالنے سے روکے گی نہ رکاوٹ ڈالے گی اور نہ ہی مداخلت کرے گی لیکن پانچویں گزارش کا معاملہ صدارتی ریفرنس سے جڑا ہے، اس لیے دونوں معاملات کو ایک ساتھ سنا جائے گا۔
عدالت نے صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ بار اور سیاسی جماعتوں کو نوٹس جاری کرکے 24 مارچ تک جامع جواب جمع کرنے کی ہدایت کی۔ آرڈر میں کہا گیا ہے کہ حکمران جماعت کی اتحادی جماعتوں کو نوٹس جاری نہیں کیا جارہا ہے کیونکہ وہ وفاقی حکومت کا حصہ ہیں لیکن اگر وہ فریق بننا چاہتی ہیں تو وکیل کے ذریعے ان کو سنا جائے گا۔
دوران سماعت متعدد سیاسی جماعتوں کی طرف سے ریڈزون میں ریلی نکالنے اور ملک بھر سے کارکنان کو جمع ہونے کے اعلانات پر خدشات کا اظہار کیا گیا لیکن اٹارنی جنرل نے سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کو انتظامیہ کے ساتھ بیٹھ کر طریقہ کار نکالنے اور جگہ کے تعین کرنے کی تجویز دی۔
بیشتر جماعتوں نے تجویز کے ساتھ اتفاق کیا جبکہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی نے تحفظات کا اظہار کیا اور سوال اٹھایا کہ کیا اس طرح کی میٹنگ نتیجہ خیز بھی ہوگی تاہم مذکورہ جماعتوں کے وکلا نے یقین دلایا کہ وہ نیک نیتی کے ساتھ کو شش کریں گے کہ معاملہ خوش اسلوبی سے حل ہو۔ اٹارنی جنرل کی تجویز قابل عمل ہے، اس لیے ان کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ انتظامیہ اور سیاسی جماعتوں میں میٹنگ کا اہتمام کریں۔
دریں اثنا آئی جی اسلام آباد نے یقین دہانی کرائی کہ سندھ ہائوس جیسا واقعہ دوبارہ نہیں ہوگااور مقدمات کی پیروی کی جائے گی جبکہ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے درج کیے گئے مقدمات پر تحفظات کا اظہار کیا جس پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے یقین دہانی کرائی کہ اگر صوبائی حکومت کیس میں شریک ہونا چاہتی ہے تو اس پر غور کیا جائے گا۔
عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ کے تحفظات دور کرنے اور اس ضمن میں قانون کے مطابق اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی۔ عدالت نے قرار دیا کہ صدارتی ریفرنس پر سماعت اہم ہے لیکن وقت کی کمی بھی ہے اس لیے سیاسی جماعتوں کے وکیل جمعرات 24 مارچ تک تحریری دلائل جمع کرائیں، اس طرح زبانی دلائل جلد مکمل ہوسکیں گے۔
اے پی پی کے مطابق عدالت نے قرار دیا کہ اٹارنی جنرل ریڈ زون سے جلسے باہر کرنے کیلئے سیاسی جماعتوں سے مشاورت کریں۔ قومی اسمبلی اجلاس تاخیر سے بلانے پر عدالت کی کوئی دلچسپی نہیں، عدالت کے سامنے صرف بار کی درخواست اور صدارتی ریفرنس ہے، عدالت پارلیمنٹ کے معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی، بہتر ہوگا پارلیمنٹ کے معاملات پارلیمنٹ کے اندر حل کئے جائیں۔
سپریم کورٹ