پاک افغان تعلقات کی نئی جہتیں

وفاقی وزیر خزانہ کا دورہ کابل خاصی اہمیت کا حامل ہے، افغانستان اور پاکستان کے درمیان تجارتی رشتے مضبوط ہونے چاہئیں


Editorial February 23, 2014
وفاقی وزیر خزانہ کا دورہ کابل خاصی اہمیت کا حامل ہے، افغانستان اور پاکستان کے درمیان تجارتی رشتے مضبوط ہونے چاہئیں. فوٹو فائل

پاکستان اس وقت جن حالات سے دوچار ہے' وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں، وطن عزیز کو داخلی سطح پر بھی چیلنجز درپیش ہیں اور خارجی محاذ پر بھی چیلنجز موجود ہیں۔ پاکستان کے شمال مغرب میں جنگجوئوں کے گروپ میں جو کئی برسوں سے حکومت کے لیے مسائل کا سبب بنے ہوئے ہیں' حکومت ان گروپوں سے مذاکرات کر رہی ہے لیکن ملک میں ہونے والے ناخوشگوار واقعات کے باعث یہ مذاکرات فی الحال معطل ہیں تاہم حکومت نے مذاکرات کا آپشن ختم نہیں کیا۔ گزشتہ روز بھی یہ خبر سامنے آئی ہے کہ حکومت اور طالبان کے کچھ گروپوں کے درمیان موثر بیک چینل رابطوں کے باعث آیندہ چند دنوں میں جنگ بندی کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔

ادھر ہٹ دھرمی اور مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والے جنگجوئوں کے خلاف فضائی کارروائی بھی جاری ہے۔ یہ ایک بہتر طریقہ کار ہے۔ قوم بھی یہ چاہتی ہے کہ جو جنگجو گروپ مذاکرات پر آمادہ ہیں اور پاکستان کے آئین کو تسلیم کرتے ہیں تو ان کے ساتھ نرمی کا برتائو کیا جانا چاہیے۔ طالبان کو بھی چاہیے کہ وہ ملک اور قوم کے بہترین مفاد اور اسلام کی سربلندی کو پیش نظر رکھتے ہوئے حالات کی نزاکت کو سمجھیں اور مذاکرات کو کامیاب بنانے کی کوشش کریں۔ وفاقی حکومت پوری کوشش کر رہی ہے کہ خون خرابے سے بچا جائے لیکن ایسا لگتا ہے کہ ملک اور قوم کے دشمن حالات کو خراب کرنا چاہتے ہیں۔ طالبان کو آگے بڑھ کر ایسے عناصر کو ناکام کرنا چاہیے ۔

کئی برسوں سے جاری بدامنی نے پاکستانی معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اگر ملک میں بدامنی کا خاتمہ ہو جاتا ہے تو پاکستان چند برسوں میں اپنے معاشی نقصانات کا ازالہ کر سکتا ہے۔ ادھر افغانستان بھی نئی تبدیلیوں کی راہ پر ہے' 2014میں وہاں سے امریکی فوجوں کا انخلا شروع ہونا ہے' امریکا کے صدر اوباما ڈیڈ لائن دے چکے ہیں۔افغانستان میں نئے صدارتی انتخابات بھی سر پر آ گئے ہیں۔ صدارتی انتخابات میں موجودہ صدر حامد کرزئی حصہ نہیں لیں گے کیونکہ افغان آئین کے تحت وہ ان انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے۔ صدر حامد کرزئی کے دور میں پاکستان کے لیے خاصی مشکلات پیدا کی گئی ہیں۔ افغانستان کی سرزمین ایسے عناصر کے لیے استعمال ہوئی ہے جو پاکستان کے اندر کارروائیوں کے ذمے دار ہیں۔ حامد کرزئی کے دور میں افغانستان میں بھارت کے اثرورسوخ میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ اس وقت کم و بیش تین ہزار کے لگ بھگ افغان سیکیورٹی اہلکار بھارت میں تربیت حاصل کر رہے ہیں۔

پاکستان میں افغان مہاجرین بھی بہت سے مسائل کی وجہ بنے ہیں۔ افغان حکومت نے ان مہاجرین کو وطن واپس لانے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے حالانکہ امریکا اور مغربی ممالک نے افغانستان کو اربوں ڈالر امداد دی ہے۔ افغانستان میں تعمیراتی اور کاروباری سرگرمیاں بھی تیز ہوئی ہیں جس کی وجہ سے وہاں افرادی قوت کی ضرورت بڑھی ہے۔ بھارت سے ہزاروں کی تعداد میں ہنر مند افغانستان میں کام کر رہے ہیں ۔اگر افغان حکومت چاہتی تو ایک مربوط پالیسی تیار کرتی تو پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کو واپس بلا کر انھیں معاشی سرگرمیوں میں ایڈجسٹ کر سکتی تھی لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ اس معاملے میں پاکستان کی حکومتوں نے بھی وہ کردار ادا نہیں کیا جو انھیں کرنا چاہیے تھا۔ افغان مہاجرین کو ہینڈل کرنے والی بیورو کریسی اور اہلکاروں نے اپنے مفادات کی خاطر انھیں واپس بھیجنے کی اس طرح سفارشات نہیں کیں جیسی کہ کی جانی چاہئیں تھیں۔

بہر حال اب پاکستان کے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کابل میں موجودہیں وہاں وہ پاک افغان مشترکہ اقتصادی کمیشن کے نویں اجلاس میں شرکت کے لیے اعلیٰ سطح کے وفد کے ہمراہ گئے ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق انھوں نے کابل میں افغانستان کے صدر حامد کرزئی سے ملاقات بھی کی ہے۔ اس ملاقات میں انھوں نے وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کی جانب سے صدر کرزئی کو نیک خواہشات کاپیغام بھی پہنچایا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ نے افغان صدر کو مشترکہ اقتصادی کونسل کے ایجنڈے اور افغانستان کی تعمیر نو میں پاکستان کی کوششوں کے بارے میں آگاہ کیا۔ وفاقی وزیر خزانہ کا دورہ کابل خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ افغانستان اور پاکستان کے درمیان تجارتی رشتے مضبوط ہونے چاہئیں۔وفاقی وزیر خزانہ کو اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے افغانستان کے صدر اور افغان حکومت کے دیگر عہدیداروں سے پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کے حوالے سے بھی بات کرنی چاہیے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر فیصلے کرے اور افغانستان کے ساتھ ایسے تعلقات قائم کیے جائیں جو دو آزاد اور خود مختار ملکوں کے درمیان ہوتے ہیںاور آپس کے تنازعات سے بچتے ہوئے باہمی معاملات کو طے کیا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں