کرکٹ اور کرکٹ
کرکٹ کی طاقت آپ کی توقع سے بھی بڑھ کر ہے، یہ کھیل ملکوں کے دررمیان جنگیں روک سکتا ہے۔
بدلتے ہوئے موسم کے بعد کتنی طویل دھوپ ہو گی کسی کو اندازہ نہیں۔ آج میں نے کمپیوٹر پر ایک وین سے سربریدہ پاکستانی شہریوں کی لاشوں کو سڑک کے کنارے رکھنے کی دس منٹ کی ویڈیو دیکھی ہے۔ یقین کیجیے دل بجھ سا گیا ہے۔ یہ درندگی کسی بھی اسلامی اصول اور ضابطے کے خلاف ہے۔ اخبار کے اداریے ہر طرح کے متضاد خیالات سے بھرے ہوئے ہیں۔ بریکنگ نیوز ہیں کہ ختم ہی نہیں ہوتیں۔ ایک سے ایک بڑھ کر بری اور خونی خبر! تسلسل سے لوگوں کی نفسیات سے کھیلا جا رہا ہے۔ بریکنگ نیوز کا کلچر اب قوم کی برداشت کا امتحان لے رہا ہے۔ پوری قوم شدید اعصابی دبائو کا شکار نظر آتی ہے۔ لگتا ہے کہ خوشی کا رنگ برنگا پرندہ اس دھرتی سے اُڑ کر کسی اور جگہ نقل مکانی کر چکا ہے۔ ہم لوگ اب خوشی کی خبر کو ترستے ہیں۔
میں کرکٹ کبھی نہیں کھیلا۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے ایک کرکٹر کا چھکا پوری قوم کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر دیتا ہے۔ جب ہمارے بولر کسی مخالف ٹیم کے بیٹس مین کو آئوٹ کرتے ہیں تو سب لوگ خوشی سے نعرے مارنے لگتے ہیں۔ ہم تھوڑی دیر کے لیے اپنے اپنے لسانی، مذہبی اور نسلی تعصبات کو بھول کر صرف ایک پاکستانی کے طور پر خوش ہو جاتے ہیں اور یہی جذبہ ہم سب کو کچھ لمحوں کے لیے غم کی قید سے مکمل آزاد کر دیتا ہے۔ کوئی نہیں کہتا کہ یہ کھلاڑی پنجابی ہے، یا پٹھان۔ بلکہ وہ کھلاڑی اس وقت صرف اور صرف پاکستانی ہوتا ہے اور ہم صرف ایک قوم۔ مجھے لگتا ہے کہ کرکٹ مختلف تعصبات اور منفی رویوں کو ختم کرنے کا بہت موزوں نسخہ ہے۔ ایک زمانہ میں نواز شریف، عمران خان اور چوہدری نثار بہترین دوست تھے۔ اس کی ایک وجہ کرکٹ بھی تھی۔ میں نے عمران خان اور نواز شریف کو نیکر پہن کر باغ جناح کی کرکٹ گرائونڈ میں بار ہا جوگنگ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ یہ بات صرف تین دھائیاں پرانی ہے۔ اگر یہ تمام لیڈر آج بھی سال میں صرف دو تین دفعہ تمام کدورتیں اور اختلافات بھول کر ایک دن کرکٹ ہی کھیل لیں، تو ہمارے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ میں یہ مشورہ پوری سنجیدگی سے دے رہا ہوں۔ دنیا کے مشکل ترین سیاسی فیصلے گالف کھیلتے ہوئے یا واک کرتے ہوئے ظہور پذیر ہوئے ہیں۔ کیمپ ڈیوڈ کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں۔ آپ کو میری باتوں کی سند مل جائے گی۔
کرکٹ کا کھیل حقیقت میں کب شروع ہوا۔ اس کے متعلق وثوق سے کہنا مشکل ہے۔1598ء میں ایک گرائونڈ کی ملکیت کا کیس مقامی عدالت میں پیش کیا گیا۔ یہ تنازعہ دراصل اس گرائونڈ کی حیثیت کو قطعی شکل دینا تھا۔ یہ زمین گلڈ فورڈ، لندن کے نزدیک واقع تھی۔ 59 سالہ جان ڈیرک نے عدالت میں بیان دیا کہ پچاس برس پہلے وہ اور دیگر بچے اس گرائونڈ میں کرکٹ کھیلتے رہے ہیں۔ اس سے یہ پہلی بار ثابت ہوتا ہے کہ برطانیہ میں یہ کھیل 1550 سے کھیلا جا رہا تھا۔ لیکن اُس وقت تک یہ صرف بچوں کا کھیل تھا۔1611ء میں ہمیں پہلا ثبوت ملتا ہے کہ یہ کھیل بڑی عمر کے لوگ بھی کھیلتے تھے۔ اس کا قصہ بھی عجیب ہے۔ (Sussex) سسکس میں دو مردوں کو اس بات پر سزا دی گئی کہ وہ اتوار کے دن چرچ جانے کے بجائے کرکٹ کھیلتے رہے تھے۔ سترھویں (17) صدی میں انگریزی سول وار کے دوران بھی کئی دستاویزات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کرکٹ بہت سے دیہاتوں میں کھیلی جا رہی تھی مگر ملکی سطح پر کسی ٹیم کا کوئی وجود نہیں تھا۔ سترویں صدی میں کچھ اسکولوں میں یہ کھیل باقاعدہ طور پر شروع ہو چکا تھا۔ مگر یہ اسکول صرف وہ تھے جس میں طالب علم اپنی فیس خود اد کرتے تھے۔ چنانچہ ونچسٹر اور سینٹ پال وہ پہلے تعلیمی ادارے تھے جہاں یہ کھیل مقبول ہو چکا تھا۔ اولیور کروم ویل کی حکومت نے کرکٹ پر مکمل یا جزوی پابندی لگا دی تھی۔ اس پر قطعی طور پر رائے دینا قدرے مشکل ہے۔
1660ء میں برطانوی حکومت کی تبدیلی سے دراصل کرکٹ کی کھیل کے فروغ اور ترقی کے سال شروع ہوتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ بہت دلچسپ تھی۔1664 ء میں برطانوی پارلیمنٹ نے قانونی طور پر جوا کھیلنے کا ایکٹ منظور کر لیا تھا۔ اس قانون کے مطابق سو پائونڈ تک شرط لگائی جا سکتی تھی۔اس وقت کے سو پائونڈ آج برطانوی کرنسی کے 13000 پائونڈ بنتے ہیں۔ چنانچہ کرکٹ پر بے دریغ شرطیں لگنی شروع ہو گئیں اور اس کھیل میں جوا اور پیسہ نے لوگوں کی توجہ اس طرف مرکوز کر دی۔1697ء میں ایک اخبار میں ایک میچ کا ذکر کیا گیا ہے جو سسکس(Sussex) میں کھیلا گیا تھا اور جس میں قابل ذکر شرطیں لگائی گئیں تھیں۔ مگر اخبارات میں کرکٹ کا ذکر بہت کم ملتا تھا۔ عملاََ برطانوی پریس1696ء میں آزاد ہوا تھا اور اس پر پابندیاں ختم کر دی گئیں تھیں۔ چنانچہ اس آزادی کی بدولت پریس میں اب اس کھیل کی رپورٹنگ باقاعدہ شروع ہو گئی۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ ذکر کھیل کی ترقی یا ترویج کے لیے نہیں بلکہ صرف اور صرف شرطیں اور جوئے پر لگی ہوئی رقم بتانے کے متعلق تھا۔
اٹھارویں صدی میں برطانیہ کی اشرفیہ نے اس کھیل پر باقاعدہ توجہ دینی شروع کر دی۔ لیکن اس میں بھی پیسہ ہی مرکزی حیثیت رکھتا تھا۔ بااثر جوا کھیلنے والوں نے اس کھیل کو اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے اپنی ٹیمیں بنانی شروع کر دیں۔ اس طرح کائونٹی ٹیموں کے وجود عمل میں آیا۔ 1709ء میں ٹیموں نے پہلی بار باقاعدہ کائونٹی کا نام استعمال کیا۔ اشرافیہ کی توجہ کی بدولت اب برطانوی پریس میں بھی کرکٹ کا ہر وقت تذکرہ ہونے لگا۔ مگر آپ حیران ہونگے کہ 1731ء تک کھلاڑیوں کا نام استعمال نہیں ہوتا تھا۔ پریس نے پہلی بار اخبار میں جس کھلاڑی کا ذکر کیا وہ تھا مس وے مارک تھا۔ اٹھارویں صدی میں برطانوی سلطنت دنیا میں پھیلنی شروع ہو گئی اور اس کے ساتھ ساتھ کرکٹ کا کھیل بھی برطانیہ کے علاوہ دوسرے ملکوں میں پھیل گیا۔ شمالی امریکا میں یہ کھیل برطانوی تسلط کے ساتھ ساتھ آیا۔ ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی اس کو ہمارے ہاں لانے کا وسیلہ بنی۔ آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز میں بھی یہ کھیل برطانوی حکومت کے پھیلنے ہی سے پہنچا۔ کینیڈا واحد ملک تھا جہاں کی اشرافیہ نے اس کھیل کو ترویج دینے کی مکمل کوشش کی مگر وہ اس میں ناکام رہے۔ کینڈا میں یہ کھیل کبھی بھی عوامی مقبولیت حاصل نہ کر سکا۔
1744ء میں کرکٹ کھیلنے کے قوانین بنائے گئے۔1774ء میں ان میں بنیادی تبدیلی کر دی گئی۔ ایل۔ بی۔ ڈبلیو اور بیٹ کی چوڑائی کے متعلق قوانین اسی سال تشکیل دیے گئے۔ اسی سال دو امپائرز چننے کا قانون بھی بنایا گیا۔ یہ تمام قوانین "سٹار اینڈ گارٹر کلب" نے تشکیل دیے تھے۔1787ء میں اسی کلب کے ارکان نے لارڈز میں ایم۔ سی ۔سی کو تشکیل کیا۔ ایم سی سی کے اندر ذاتی پسند اور نا پسند شروع ہی سے موجود تھی۔ 1817ء میں میچ فکسنگ کا پہلا واقعہ رپورٹ کیا گیا۔ دراصل ایم سی سی کے دو اہم ترین ارکان لارڈ بیوکلرک اور جارج آسبدلڈسٹن آپس میں ذاتی عداوت رکھتے تھے۔1817ء میں لارڈز میں کھیلا جانے والا میچ ان دونوں نے فکس کیا ہوا تھا۔ جب اس معاملہ پر تحقیق ہوئی تو اُس وقت کے مایہ ناز کھلاڑی ولیم لیمبرٹ کو تا حیات کرکٹ کھیلنے سے روک دیا گیا۔
انٹرنیشنل کرکٹ کی ابتداء1841ء میں ہوئی جب امریکا اور کینڈا کے درمیان نیو یارک میں میچ کھیلا گیا۔ اس کے بعد برطانیہ، آسڑیلیا اور امریکا مختلف میچز کھیلتے رہے۔1890ء میں برطانیہ میں نیشنل کائونٹی چیمپیئن شپ کا آغاز ہوا۔ اس کو دیکھتے ہوئے دوسرے ملکوں نے بھی اپنے اپنے نیشنل ایوارڈ کا اعلان کر دیا۔ ایک اوور میں کتنے گیند کروائے جائینگے، یہ اصول بھی مسلسل بدلتا رہا۔ 1889ء میں ایک اوور میں چار گیند ہوتے تھے۔ بعد میں یہ پانچ کر دیے گئے یہ مختلف ادوار میں آٹھ تک گئے۔ مگر پھر 1947ء سے ان کی تعداد کو چھ تک مختص کر دیا گیا۔1909ء میں امپیرئیل کرکٹ کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس میں صرف برطانیہ، آسٹریلیا اور سائوتھ افریقہ ممبر تھے۔ لیکن بعد میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کو بھی ٹیسٹ کرکٹ ممالک کا درجہ دے دیا گیا۔ انٹرنیشنل کرکٹ کا بہت بڑا مسئلہ سائوتھ افریقہ کی نسلی پالیسی سے شروع ہوا۔ برطانیہ کی ٹیم میں ایک افریقی نزاد کھلاڑی "بے سل اولیوپرا" شامل تھا۔ سائوتھ افریقہ کی حکومت نے برطانوی ٹیم کا دورہ اسی بنیاد پر منسوخ کر دیا۔ چنانچہ 1970ء میں سائوتھ افریقہ کی I.C.C ممبر شپ معطل کر دی گئی۔ اس طرح آسٹریلوی تاجر کیری پیکر نے ایک کاروباری تنازعہ کی وجہ سے کرکٹ میں پیسے کی بنیاد پر کرکٹ میچز کا اہتمام کرنا شروع کر دیا۔ اُس نے صرف اچھے معاوضہ کے عوض دنیا کے بہترین کھلاڑی حاصل کر لیے۔
پاکستان کو امپیرئیل کرکٹ کانفرنس نے 1952ء میں ٹیسٹ میچ کھیلنے کا درجہ دے دیا۔ پاکستان نے پہلا ٹیسٹ میچ 1952ء میں ہندوستان کے خلاف کھیلا۔1954ء میں پاکستان کی ٹیم نے برطانیہ کا پہلا دورہ کیا۔ اوول میں پاکستان کے فاسٹ بائولر فضل محمود نے بارہ وکٹس حاصل کیں۔ پاکستان نے اپنی سر زمین پر 1955ء میں پہلا ٹیسٹ میچ منعقد کیا۔ یہ انڈیا کے خلاف ڈھاکہ میں کھیلا گیا۔
کرکٹ کی طاقت آپ کی توقع سے بھی بڑھ کر ہے۔ یہ کھیل ملکوں کے دررمیان جنگیں روک سکتا ہے۔ اس کی مثال صدر ضیاء الحق کا ہندوستان کا کرکٹ میچ کے لیے دورہ تھا۔ ہمارے حکمران اب کسی بات پر اتفاق نہیں کرتے۔ اگر امریکا کے کیمپ ڈیوڈ میں کھیل کے دوران دنیا کے اہم ترین فیصلے ہو سکتے ہیں تو ہمارے تمام اکابرین کرکٹ کے ذریعے اختلافات کیوں حل نہیں کر سکتے؟ شائد اب ہمارے اتحاد کی یہ ہی ایک سیڑھی رہ گئی ہے! میری دانست میں دوسرے رستے بہت طویل، تلخ اور اَن دیکھے ہیں! شائد کرکٹ ہی کام دکھا جائے! یہ نہ ہو کہ کسی بھی وقت تھرڈ امپائر تمام ٹیموں کو میچ کے بغیر ہی مکمل آئوٹ قرار دے دے؟