جان سے مار دیں مگر ’پی ایس پی‘ میں نہیں جاؤں گا رکن قومی اسمبلی علی رضا عابدی کے حالات زیست

’لندن‘ کے حکم پر اراکین پارلیمان نے اپنے استعفے بھجوا دیے


Rizwan Tahir Mubeen April 12, 2018
2001ءمیں جھینگا بریانی اور فروزن فوڈ کا کام بھی کیا، فوٹو: فائل

1987ء کے بلدیاتی انتخابات میں شاہ فیصل کالونی نمبر چار میں اس گھر کی ٹنکی پر پہلی بار پیپلز پارٹی کے ساتھ 'ایم کیوایم' کا جھنڈا بھی نصب کر دیا گیا، بہ یک وقت دو سیاسی پرچموں کا حامل، محلے کا یہ انوکھا گھر آج کے رکن قومی اسمبلی علی رضا عابدی کا تھا، یہ اُن کے میٹرک کا زمانہ تھا، کہتے ہیں کہ وہ خاندان کے پہلے فرد تھے، جو ایم کیو ایم میں گئے، باقی لوگ انتخابی نتائج کے بعد اُن کے حامی ہوئے۔

علی رضا عابدی 1988ءمیں ایس ایم آرٹس کامرس کالج میں 'اے پی ایم ایس او' (آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن) کے آفس انچارج رہے اور پر تشدد ماحول کا مشاہدہ بھی کیا۔ انٹر کے بعد 1992ءمیں ڈیفنس اتھارٹی ڈگری کالج سے بی کام کیا۔ 1993ءمیں والدین نے امریکا بھیج دیا، جہاں 'بیچلر آف سائنس اینڈ بزنس ایڈمنسٹریشن' کیا، 1998ءمیں واپس آکر 'اقرا یونیورسٹی' سے 'ایم بی اے' کیا، جو ڈبل بیچلر کے سبب ایک سال میں ہوگیا۔ اس کے بعد والد کے ایک کثیر القومی ادارے کی آئس کریم کی تقسیم کے کاروبار میں لگے۔ 2001ءمیں والد نے فشریز میں فیکٹری بنائی، تو وہاں بھی رہے۔ شام میں 'سیکٹر آفس' بھی جانے لگے۔ 2002ءمیں کچھ عرصے نئی کراچی میں بھی جھینگا بریانی فروخت کی، ساتھ ہی فروزن فوڈ (Frozen Food) بھی متعارف کرایا۔ کلفٹن میں والد کی تازہ مچھلی کی ایک دکان تھی، 2009ءمیں وہ گھر کے خانساماں کو لے کر گئے اور اسے ایک ریستوران بنا دیا۔ ابتداً صرف مچھلی اور جھینگے کی بریانی تھی، آج مچھلی کے ساتھ دیگر 270 اقسام کے کھانے ہیں۔

علی رضا عابدی 6 جولائی 1972ء کو پیدا ہوئے، والد اخلاق حسین عابدی کا تعلق دلی کے پڑوس 'سونی پت' سے ہے، کہتے ہیں کہ ہجرت کے بعد 99 فی صد خاندان پنجاب میں بسا، وہ زمیں دار تھے، انہیں وہاں زمینیں مل گئیں۔ صرف اُن کے دادا اور ایک عزیز کراچی آئے۔ 1993ء میں بننے والے ایم کیو ایم کے ایڈوائزری بورڈ میں ان کے والد بھی شامل ہوئے۔ تایا اور چچا فوج میں کرنل اور میجر رہے، والد بحری جہاز کے کپتان تھے، اس لیے علی رضا 22، 23 دن کی عمر سے مسلسل ڈیڑھ، دو سال جہاز پر رہے، وہیں لڑکھڑاتے ہوئے چلنا سیکھا۔

1975ء میں ان کے والد دبئی اور 1977ء میں سعودی عرب چلے گئے، جہاں علی رضا کی ابتدائی تعلیم ہوئی، 1985ءمیں وطن لوٹے اور 1987ءمیں سینٹ پیٹرک اسکول سے میٹرک کیا۔ پانچ بہن بھائی تھے، ایک بہن کا اپریل 1996ءمیں انتقال ہو گیا۔ دو بھائی دو بہنوں میں علی رضا سب سے بڑے ہیں۔ تینوں بہن، بھائی امریکا میں ہیں۔ بھائی الیکٹرونکس انجینئر، جب کہ ایک بہن تدریس، جب کہ دوسری طب سے وابستہ ہیں۔ علی رضا کی شادی 1998ءمیں امریکا میں مقیم ماموں زاد سے ہوئی۔ تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے، اُن کی اہلیہ کے علاوہ چاروں بچے امریکی شہری ہیں، لیکن انہوں نے امریکی شہریت نہیں لی۔ بچے پڑھ رہے ہیں، کہتے ہیں کہ منجھلی بیٹی کی سیاست میں دل چسپی ہے، جب کہ چھوٹی بیٹی اسکول میں سنتی ہے، تو گھر آکر 'عمران خان، عمران خان' کرتی ہے۔

2007ء کے ضمنی انتخاب میں اُن کے والد کیپٹن اخلاق حسین عابدی رکن قومی اسمبلی بنے، تو علی رضا نے نائن زیرو پر 'پروفیشنل ریسرچ اینڈ ایڈوائزری کاﺅنسل' (پی آر اے سی) بنائی، بتاتے ہیں بہت تیزی سے آگے گیا تو ٹانگیں کھینچنے والوں نے 2010ءمیں الطاف حسین سے تنظیمی نظم وضبط خراب کرنے کی شکایت کی، جس پر انہیں ہٹا کر علی راشد کو ذمے داری دے دی اور ان کے 'نائن زیرو' آنے اور نام لینے تک پر پابندی ہوگئی، ان کا یہ مخالف جتھا آج 'پی ایس پی' میں ہے۔ 2012ء کے اوائل میں حیدر عباس رضوی اور سفیان یوسف نے انہیں 'نائن زیرو' بلایا اور سوشل میڈیا اسٹریٹجی انچارج کا ذمہ دیا، 2013ءمیں قومی اسمبلی کا ٹکٹ ملا، تب بھی اعتراض ہوا، کہ باپ کے بعد بیٹے کو ٹکٹ دینا تو موروثی سیاست ہے۔

علی رضا کی 1988ءمیں 'اے پی ایم ایس او' کی ایک تقریب میں الطاف حسین سے پہلی ملاقات ہوئی۔ اس کے بعد 2014ءاور 2015ءمیں دو بار لندن میں ملے، کہتے ہیں کہ 'لندن' کا 'وٹس ایپ' پر براڈ کاسٹ میسج سب کو جاتا ہے، ہم نے پوچھا 'کیا لوگ توجہ دیتے ہیں؟' تو بولے، بالکل دیتے ہیں، لندن کے سارے پیغامات سب چھپ کر سنتے ہیں۔ وہاں ساری برائیاں تو نہیں تھیں نا، جب آپ ایک چیز کے ساتھ پروان چڑھیں، تو اسے اتنی آسانی سے نہیں نکال سکتے، سیاسی جماعتیں اپنے راہ نما سے جڑی ہوئی ہوتی ہیں، جبر کے ذریعے ذوالفقار بھٹو اور نواز شریف کو دلوں سے نہ نکالا جا سکا۔ اسٹیبلشمنٹ سے اختلاف کا مطلب ریاست کے خلاف ہونا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ مل جل کر ایک دوسرے کی رائے کا احترام کریں۔

علی رضا عابدی کہتے ہیں کہ 2012ءمیں گورنر ہاﺅس میں آپریشن کے حوالے سے تمام سیاسی جماعتوں نے ایک مانیٹرنگ کمیٹی پر اتفاق کیا، لیکن وہ نہیں بنی۔ ہمارے روزانہ آٹھ، دس لوگ پکڑے جا رہے تھے۔ 90 روز کے لیے حراست میں لینے کے اختیار سے خوف پھیلا، یہ ہمیں عوام سے دور کرنے کی ریاستی حکمت عملی تھی، ہمارے جلسوں میں لوگوں کی تعداد گھٹی، 2015ءمیں نائن زیرو پر چھاپا پڑا تو مزید ساکھ متاثر ہوئی۔ ہمارے 96 فی صد لوگ 90 روز بعد بے قصور قرار دے کر چھوڑ دیے گئے۔ یہ اگر مجرم ہوتے تو گھر اور دفاتر میں نہ ہوتے اور اگر ہمارا کوئی 'ملی ٹنٹ ونگ' ہوتا، تو آپریشن کی ٹھیک ٹھاک مزاحمت ہوتی۔

علی رضا عابدی کہتے ہیں کہ 23 اگست 2016ءکو فاروق ستار نے پارٹی کو سنبھالنا شروع کیا، پھر ارکان رابطہ کمیٹی بھی منظر عام پر آئے اور ہمارے بلدیاتی نمائندوں کا انتخاب ہو پایا۔ ہم اگر گھر بیٹھ جاتے، تو ایم کیو ایم پر پابندی لگ جاتی۔ انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ اکتوبر 2016ءمیں جب 'لندن' سے اراکین پارلیمان کو استعفا دینے کے لیے کہا، تو تقریباً ہم سب نے استعفے لندن بھیج دیے تھے کہ ہم منتخب ہی اس نام پر ہوئے۔ کہتے ہیں کہ میں نے فاروق ستار کو آگاہ کر دیا، مگر اور کسی نے نہ بتایا۔ بعد میں لندن سے ہی کہہ دیا گیا کہ آپ لوگ اپنا کام جاری رکھیں۔

ہم نے پوچھا اگر لندن کہہ دیتا کہ آپ فارغ ہیں؟ تو بولے کہ پھر آج یہاں ایم کیوایم کے دونوں دھڑوں کے ساتھ کوئی نہ ہوتا۔ ہم نے اِسے لندن کی بالواسطہ حمایت کہا، تو بولے انہوں نے کام کرنے کا کہا ہے، لیکن کوئی حمایت نہیں دے رہے، انہیں پتا ہے کہ اگر بٹھا دیں گے، تو جتنے لوگ ہیں، وہ بھی نہیں ہوں گے۔ آپ ایم کیو ایم کو اس کے پچھلے 35 سالوں سے کیسے الگ کر سکتے ہیں۔ ایک چیز وجود رکھتی تھی اور رکھتی ہے، لیکن اب ہم (دونوں دھڑے) اپنی کراچی قیادت کی ہدایت پر چل رہے ہیں۔ ہماری سیاسی سرگرمیوں پر غیر اعلانیہ پابندی ہے، ہمیں جتنا بھی موقع مل رہا ہے، ہم اچھے لوگوں کو لا رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ وہ آیندہ انتخابات نہیں لڑیں گے، بہتر لوگوں کو آگے لاکر پارٹی کے احیا پر توجہ مرکوز کریں گے۔ نئے لوگوں کو ٹکٹ دے کر موجودہ اراکین پارلیمان کو تنظیمی ذمے داریاں دیں گے۔

5 فروری 2018ء کو ہونے والی 'بہادر آباد' اور 'پی آئی بی' کی تقسیم کے حوالے سے علی رضا عابدی کہتے ہیں کہ اچھی بات یہ ہے کہ ہمارے لہجے ضرور کہیں اوپر نیچے ہوئے، لیکن کوئی بھی ناشائستہ واقعہ نہیں ہوا۔ ہم نے بلدیاتی نمائندوں کو کہا ہے کہ وہ بڑوں کی لڑائی میں نہ پڑیں، بلکہ اپنا کام کریں۔ علی رضا اعتراف کرتے ہیں کہ تقسیم ہو کر وہ مخالفین کے پتنگ اور ایم کیو ایم کو دفن کرنے کا منصوبہ مکمل کر رہے ہیں۔

'لندن' کی واپسی کے امکان پر علی رضا کہتے ہیں کہ سچی بات یہ ہے کہ یہ ہمارے اداروں پر منحصر ہے، ہم تو اس معاملے پر ذرا چوں بھی نہیں کر سکتے، لیکن 'سماجی ذرایع اِبلاغ' پر ہی دیکھ لیں تو ایسا لگتا ہے کہ ہم تو کچھ بھی نہیں، سارے لندن کے حامی ہیں، جو ہمیں ہی برا بھلا کہہ رہے ہیں۔ 'لندن' کے بغیر مینڈیٹ حاصل کرنا ایک دشوار مرحلہ ہے، پتنگ نے ووٹ تو لیا، لیکن جتنا ملنا چاہیے تھا، اتنا نہیں ملا۔ مستقبل ابھی کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ 'لندن' بہادر آباد اور پی آئی بی کے یک جا ہوئے بغیر ہم اپنی طاقت برقرار نہیں رکھ سکتے۔ جب 'لندن' کی طرف دیکھنے والوں کو انداز ہو جائے کہ انہیں جگہ نہیں ملے گی، تو امید ہے کہ وہ اپنی 'پتنگ' کی طرف لوٹ آئیں گے، ورنہ وہ کسی اور کو ووٹ کبھی نہیں دیں گے۔

علی رضا کے خیال میں مائنس الطاف اور مائنس ایم کیو ایم کا مقصد یہی ہے کہ کراچی کے لیے کوئی بولنے والا نہ ہو۔ اب ایم کیوایم کے انتخابی حلقے کاٹ کر نئی حد بندیاں کر دی گئی ہیں۔ پیپلزپارٹی نے ہمارے میئر سے سارے ادارے چھین لیے۔ اگر کراچی میں ہڑتال ناکام کرانے کے بہ جائے محرومیاں دور کرتے، تو ایم کیو ایم کی ضرورت ہی نہ رہتی۔

چائنا کٹنگ کے سوال پر علی رضا عابدی کہتے ہیں کہ 2005ءکے بعد سے کراچی میں سارا کرتا دھرتا انیس قائم خانی اور ان کے رفقا تھے، یہی چائنا کٹنگ میں ملوث ہوئے۔ آج یہ سب 'پی ایس پی' میں ہیں اور کوئی تفتیش نہیں ہوتی۔ ہم نے پوچھا کیا قیادت تک چائنا کٹنگ کی شکایت نہیں جاتی تھی؟ کہتے ہیں، جاتی تھی، تب ہی تو بار بار رابطہ کمیٹی ٹوٹتی تھی، مگر پھر یہ قرآن پر ہاتھ رکھ کر معافی تلافی کرلیتے۔ ان میں سے کچھ لوگ اب بھی ہمارے دونوں دھڑوں میں موجود ہیں۔

"جان سے مار دیں، مگر 'پی ایس پی' میں نہیں جاﺅں گا!"

علی رضا عابدی کہتے ہیں کہ جب پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) بنی، تو حیرت ہوئی کہ یہ کس طرح اسے گالی دے رہے ہیں، جس کا خود حصہ رہے۔ 'لندن' سے لاتعلقی کے بعد جب فاروق ستار نے الطاف حسین کو 'بھائی' کے بہ جائے 'صاحب' کہا، تو بہت عجیب لگا، میں نے سوچا کہ پیچھے ہٹ کر صرف اپنے علاقے تک محدود ہو جاتا ہوں۔ پھر ایک چینل پر جب انہوں نے یہ کہا کہ 'لاتعلقی کر لی، 'صاحب' کہہ دیا، لیکن مصطفیٰ کمال والا کام نہ کرو، گالی دے کر کسی کو عوام کے دل سے نہیں نکالا جا سکتا۔' اس کے بعد اندرونی لابی نے 5 دسمبر 2016ءکو ان کی بنیادی رکنیت خارج کرا دی، جس پر لندن سے ردعمل آیا کہ آپ کون ہوتے ہیں خارج کرنے والے۔ بعد میں رکنیت بحال ہوگئی۔ پھر نومبر 2017ءکو ایم کیو ایم اور پاک سرزمین پارٹی کے انتخابی اتحاد کی بات ہوئی، تو انہوں نے اسمبلی رکنیت چھوڑنے کا اعلان کیا، جب یہ بات ختم ہوئی تو وہ واپس ہوئے۔ علی رضا کہتے ہیں کہ 'پی ایس پی' میں شمولیت کے لیے بغیر نمبر کی فون کال پر دھمکیاں ملتیں۔ اب بھی شمولیت کے لیے پیغامات آتے ہیں، لیکن انہوں نے کہہ دیا ہے کہ 'چاہے جان سے مار دیں، لیکن میں 'پی ایس پی' میں نہیں جاﺅں گا!' اُن کا خیال ہے کہ بہت سے ارکان انتخابی ٹکٹ کے لیے وہاں جا رہے ہیں، کیوں کہ یہاں اس کی امید نہیں۔ انہوں نے مصطفیٰ کمال کو چیلینج کیا تھا کہ ضمنی انتخاب میں مقابلہ کرلیں، مگر وہ نہ آئے۔

'پتنگ' نہ ملے تو فاروق ستار بہادرآباد چلے جائیں!

علی رضا عابدی کہتے ہیں کہ 5 فروری 2018ءکو سینیٹ کے انتخابات کے لیے ہمارے چار امیدوار طے ہو گئے، مگر شام کو کامران ٹیسوری پر اعتراض ہوگیا، فاروق ستار گھر آگئے اور ایک خط بھجوایا کہ میری اجازت کے بغیر کوئی اجلاس نہیں ہو سکتا، بدقسمتی سے انہوں نے اجلاس بھی کیا اور پریس کانفرنس بھی کر دی، جواباً فاروق ستار کو بھی پریس کانفرنس کرنا پڑی۔ اسی جھگڑے کے سبب سینیٹ کے انتخاب میں ہمارے ارکان بِکے۔ 'پی ایس پی' میں جانے والے ارکان نے بھی اسمبلی جا کر اپنی بولی لگوائی اور فنکشنل لیگ نے انہیں خریدا۔ ہمارے 14 ارکان نے دوسروں کو ووٹ دیا اور صرف فروغ نسیم منتخب ہو سکے، مگر وہ پچھلی چھے سالہ مدت میں فقط چار دن سینیٹ گئے۔ اختلافات حل کرنے کے لیے فاروق ستار نے عام انتخابات تک ایڈہاک رابطہ کمیٹی کی تجویز دی ہے، مگر وہ کامران ٹیسوری کو خارج کرنے پر بضد ہیں۔ اب عدالت طے کرے گی کہ پتنگ کس کی ہے، اگر فیصلہ خلاف آئے، تو میری ذاتی رائے ہے کہ فاروق ستار بہادر آباد چلے جائیں، لوگ پتنگ کے ساتھ ہیں، اور اس پتنگ کی کھینچا تانی ٹھیک نہیں، ورنہ بہادر آباد تو شاید نئی پارٹی بنا لے، مگر میں فاروق ستار کو ایسا مشورہ نہیں دوں گا۔

"نائن زیرو پر چھاپے میں ہمارا اندرونی ہاتھ ملوث ہے!"

علی رضا عابدی کے خیال میں 2013ءمیں نائن زیرو پر راہ نماﺅں کے ساتھ تشدد کا واقعہ منصوبہ بندی کے تحت ہوا، تاکہ بے نظمی کا تاثر پیدا ہو۔ نظرانداز عام کارکن کے ذمے داروں پر برہمی کو وہ رد کرتے ہیں کہ ایسا ہوتا، تو یہ بہت پہلے ہو جاتا۔ وہ 11مارچ 2015ءکو نائن زیرو کے چھاپے میں بھی کراچی کے ذمے داران کو ملوث کہتے ہیں۔ اُن کے بقول 2013ءکے انتخابات میں متحدہ کی تنظیمی کمیٹی کے سربراہ حماد صدیقی کے پورے نیٹ ورک نے کسی کے کہنے پر تحریک انصاف کو ووٹ ڈلوائے، ورنہ ساڑھے آٹھ لاکھ میں سے تحریک انصاف کو صرف چار لاکھ ووٹ ملتے۔ کہتے ہیں کہ یہاں سے 'لندن' کو غلط خبریں دی جاتی تھیں، 22 اگست کو بھی یہی ہوا۔ الطاف حسین کو اشتعال دلا کر پاکستان کے خلاف الفاظ اُن کے منہ میں ڈالے گئے۔ علی رضا کے بقول حاضرین کی تعداد بڑھا کر انہیں اکسایا اور فاروق ستار کے خلاف بھی بھڑکایا۔ کہتے ہیں کہ لوگوں کے 'اے آر وائے' پہنچنے سے پہلے ہی وہاں توڑ پھوڑ شروع ہوگئی۔ ویڈیو میں واضح ہے، شیشہ اندر سے توڑا جا رہا ہے، باہر سے نہیں۔ یہ سب منصوبہ بندی کے تحت ہوا۔ بعد میں رینجرز نے بھی کہا کہ توڑ پھوڑ کرنے والے لوگ بینکوں میں بیٹھے تھے، آخر وہ کون لوگ تھے؟

22 اگست 2016ءکو علی رضا پریس کلب پہنچے، تو حالات بگڑ چکے تھے۔ کچھ دیر بعد وہاں سے گھر آکر اہل خانہ کو کہا کہ میں آج یا کل گرفتار ہو جاﺅں گا، پھر ڈھیلے کپڑے پہنے اور شناختی کارڈ جیب میں ڈال کر گرفتار ہونے کے انتظار میں بیٹھ گئے۔ کہتے ہیں کہ 'جب کسی کے لوگ غائب ہوں، اُن کی لاشیں ملیں، پھر اتنا دباﺅ اور پابندیاں ہوں، تو ایسی غلط حرکت اچنبھے کی بات نہیں لگتی، تب میں نے سوچا کہ ہم اس پارٹی کا حصہ ہیں، تو صورت حال کا سامنا بھی ہمیں ہی کرنا ہے۔ اگلے دن فاروق ستار کی پریس کانفرنس تھی، والدین نے جانے سے روکا کہ وہاں سے بہتر ہے کہ اپنے گھر سے گرفتار ہو۔ اس لیے پریس کانفرنس کے بعد فاروق ستار سے ملے۔

جب ریستوران سے "ٹارگٹ کلر" پکڑا گیا

24اگست 2015ءکو جب علی رضا عابدی کے ریستوران پر چھاپا پڑا، تو کہتے ہیں تب میں اپنے حلقے کے پمپنگ اسٹیشن پر نکاسی آب کا کام کرا رہا تھا، میرے ریستوران سے جو گرفتاری ظاہر کی گئی، وہ گارڈن سے ہو چکی تھی، میرے ریستوران پر چار، پانچ لوگ داخل کیے، جنہوں نے آرڈر دیا، جس کے بعد ان کے منہ پر کپڑا ڈال کر لے گئے، اور ریستوران سیل کر دیا، خبریں چلیں کہ 'ٹارگٹ کلر' پکڑ لیے۔ اس سے جو ساکھ جو خراب ہوئی، اس کا ازالہ اب تک نہ ہو سکا۔ اگر میں ملزم تھا، تو مجھے پکڑتے، بلکہ جس کی گرفتاری دکھائی اسے بھی چھوڑ دیا۔ وہ قومی اسمبلی سے فرصت کے بعد اپنے ریستوران پر بھی متوجہ ہوں گے۔ کہتے ہیں کبھی مقدمہ درج ہوا نہ گرفتار ہوا، لیکن منی لانڈرنگ کے حوالے سے سرفراز مرچنٹ کے الزامات پر 'ایف آئی اے' نے ان سے سوال جواب کیے ہیں۔

وفاق نے متحدہ کے اراکین اسمبلی کے فنڈز نہیں دیے

علی رضا عابدی کہتے ہیں کہ ہم سے اصل دشمنی مسلم لیگ (ن) نے کی، مجھے بطور رکن قومی اسمبلی پانچ کروڑ روپے سالانہ ملنے چاہیے تھے، لیکن انہوں نے اپنوں کو تو 20، 20 کروڑ دیے، ہمارے کسی رکن کو جائز فنڈ بھی نہ دیے۔ اب انہیں کچھ احساس ہوا، لیکن فنڈز وہ پھر بھی نہیں دیتے، شاید انہیں کوئی روکتا ہے۔ پچھلے پانچ سال میں روڈ ڈیولپمنٹ کے لیے دو بار دو کروڑ روپے آئے، جس میں سے پہلی مرتبہ صرف 50، 60 لاکھ لگ سکے، باقی سندھ حکومت کھا گئی۔ دوسری بار 'پی ڈبلیو ڈی' کے ذریعے آئے، جس کا ایک ایک پیسہ صرف ہوا۔ کہتے ہیں کہ ہفتے میں تین دن اپنے حلقے میں بیٹھتا ہوں، دفاتر گرنے کے بعد بھی وہیں رہا۔ ایم کیو ایم کے تین عشروں سے اقتدار میں رہنے کی بات کو غلط کہتے ہیں کہ ہم حکومتوں کا حصہ ضرور رہے، لیکن پھر آپریشن بھی سہے، آپریشنوں نے ہماری پوری نسل تباہ کی۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ اقتدار میں شمولیت سے بہت نقصان ہوا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں