سیاست منع ہے
اپنے ذہن کے مطابق لکھنا وطنِ عزیز میں کبھی آسان نہ تھا، قلم کاروں کے سروں پر روز ِاول سے تلوار لٹکتی رہی ہے
اپنے ذہن کے مطابق لکھنا وطنِ عزیز میں کبھی آسان نہ تھا۔ صحافیوں، تجزیہ نگاروں اور قلم کاروں کے سروں پر روز ِاول سے تلوار لٹکتی رہی ہے۔ جس ملک کے قیام سے تین روز قبل اس کے بانی کی دستور ساز اسمبلی میں کی گئی تقریر کو بیوروکریسی سنسر کرتے ہوئے اخبارات میں اس کی اشاعت سے روک دے، وہاں مکمل آزادیِ اظہارِ رائے کی توقع کرنا عبث ہے۔ البتہ گزشتہ ڈیڑھ دہائی سال سے سرکار پر تنقید کے حوالے سے فضاء قدرے سازگار ہوگئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود سیاسی جماعتوں اور غیر ریاستی عناصر کے بارے اظہار ِخیال کرتے ہوئے اب بھی کئی بار سوچنا پڑتا ہے۔
قیامِ پاکستان کے ابتدائی10 برسوں کے دوران ملک کی اخباری صنعت کو کاغذ کے شدید بحران کا سامنا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ حکومتیں کاغذ کے کوٹے کے نام پر اخبارات کو بلیک میل کیا کرتی تھی۔ یوں ایک طرف برطانوی دور کے بعض قوانین آزادیِ اظہار کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے، تو دوسری طرف حکومتیں اخبارات کی آزاد ی کو کنٹرول کرنے کے لیے کاغذ کے کوٹے، اشتہارات اور بجلی سمیت خام مال کی فراہمی کو بطور ہتھیار استعمال کرتی تھیں۔ اس طرح اطلاعات تک عوام کی آزادانہ رسائی پہلے دن ہی سے شدید مشکلات کا شکار ہو گئی تھی۔ لیکن7 اکتوبر1958ء کو جب جنرل ایوب خان نے 1956ء کے آئین کو منسوخ کر کے ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا اور پھر20 دن بعد صدر اسکندر مرزا کو برطرف کر کے ملک بدر کیا، تو صورتحال مزید ابتر ہو گئی۔
ملک پر مکمل قبضے کے بعد انھوں نے نہ صرف شہریوں کے بنیادی حقوق پر ڈاکہ مارا، بلکہ اپریل1959ء میں سیکیورٹی ایکٹ کے تحت پروگریسو پیپرز لمیٹڈ کے تمام اخبارات و رسائل یعنی پاکستان ٹائمز، روزنامہ امروز، ہفت روزہ لیل و نہار اور ہفت روزہ اسپورٹس ٹائمز کو سرکاری تحویل میں لے کر عوام کے اطلاعات تک رسائی کے حق کو بھی غصب کر لیا۔ ہفت روزہ لیل و نہار کے مدیر سید سبط حسن کو برطرف کر کے گرفتار کر لیا گیا، جب کہ پاکستان ٹائمز کے مدیر مظہر علی خان اور روزنامہ امروز کے مدیر احمد ندیم قاسمی از خود مستعفی ہو گئے تھے، مگر اس کے باوجود انھیں بھی گرفتار کر لیا گیا۔ اس کے بعد ایوب خان کی فوجی حکومت نے پہلے برطانوی دور کے تمام پریس قوانین کو یکجا کر کے1960ء میں پہلا پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈیننس جاری کیا، جسے 1962ء میں نئے آئین کے نفاذ کے ساتھ ہی مزید سفاکانہ بنا کر1963ء میں نافذ کر دیا گیا۔ اس آرڈیننس کے نتیجے میں اخبارات کو حاصل تھوڑی بہت آزادی بھی سلب ہو گئی۔
پاکستان، جہاں آزادیِ اظہار روز ِاول ہی سے مختلف قسم کی پابندیوں کا شکار تھی، صحافیوں کے لیے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ اپنے پیشہ ورانہ حقوق کے ساتھ آزادیِ صحافت کے لیے بھی جدوجہد کا آغاز کریں۔ یوںPFUJ (پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس) کا قیام عمل میں آیا۔PFUJ کی تاریخ صحافیوں کے حقوق اور آزادیِ صحافت اور آزادیِ اظہار کے تحفظ کے لیے جدوجہد سے عبارت ہے۔ چونکہPFUJ کا وجود دیگر ٹریڈ یونینوں اور پیشہ ورانہ تنظیموں کی طرح ریاستی اسٹیبلشمنٹ کے لیے ناقابل قبول رہا ہے، اس لیے اس کے خلاف سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا سلسلہ اس کے قیام کے ساتھ شروع ہو گیا تھا۔ اس کے رہنمائوں اور کارکنوں نے تقریبا ًہر دور میں قید و بند اور ملازمتوں سے برخاستگی کے ستم سہے مگر پیشہ کی حرمت کی خاطر میدانِ عمل میں ڈٹے رہے۔ سیاست اور ٹریڈ یونین کی طرح صحافتی شعبے میں بھی بنگالی صحافیوں کا رویہ مغربی پاکستان کے صحافیوں کے مقابلے میں زیادہ جمہوری اور پیشہ ورانہ ہوا کرتا تھا۔ وہ اطلاعات تک عوام کی رسائی کو حقیقی معنی میں یقینی بنانے کی جدوجہد میں مصروف تھے۔
1947ء میں انگریزی روزنامہ ڈان کے بنگالی ایڈیٹر الطاف حسین نے بانیِ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں تقریر کے سنسر کیے جانے پر شدید احتجاج کیا تھا۔ ان کے احتجاج کی وجہ سے اس تقریر کو ڈان میں شایع کرنے کی اجازت ملی تھی۔ جس پر اس وقت کے سیکریٹری جنرل چوہدری محمد علی خاصے سیخ پا ہوئے تھے، جو اس ملک کے بارے میں کچھ اور ہی نظریات رکھتے تھے۔ چوہدری محمد علی ہی کے ایماء پر سابقہ مشرقی پاکستان کے اخبارات کو سرکاری خبریں ایک روز تاخیر سے فراہم کی جاتی تھیں۔ ایک طرف انھوں نے اپنے حامی بیوروکریٹس کے تعاون سے مغربی پاکستان میں بعض صحافیوں کے ذریعے بنگالی صحافیوں کے خلاف لسانی تعصب کی بنیاد ڈالی۔ دوسری طرف ان تمام جماعتوں کی سرپرستی شروع کر دی جو 13 اگست تک قیامِ پاکستان کی مخالف تھیں۔ بیوروکریسی ہی کی سرپرستی میں ان جماعتوں نے ریاستی منصوبہ سازی میں مداخلت کرنے کے علاوہ ٹریڈ یونین اور پیشہ ورانہ تنظیموں میں دھڑے بندیاں کر کے انھیں کمزور کرنے کی اسٹیبلشمنٹ کی خواہش کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔
1969ء تک ملک میں سیاسی جماعتوں کے علاوہ طلبہ سیاست دائیں اور بائیں بازو میں منقسم تھی۔ مگر پیشہ ورانہ تنظیموں سمیت ٹریڈ یونین میں اس قسم کی کوئی تقسیم نہیں تھی۔ جنرل یحییٰ خان کے دور میں بعض ایسے فیصلے کیے گئے جن کے دوررس نتائج برآمد ہوئے۔ اول، اس دور کے وزیر محنت ائیر مارشل نور خان مرحوم نے انڈسٹریل ریلیشنز قوانین میں بعض ترامیم کیں اور سوداکار (Bargaining Agent) کے لیے ٹریڈ یونینوں کے درمیان ریفرنڈم کا تصور پیش کر کے ایک ہی صنعتی یونٹ میں کئی یونینوں کے قیام کا راستہ ہموار کیا۔ جس کے نتیجے میں ایک سے زائد یونینوں کا قیام شروع ہوا، جس کی بنیاد ایشوز سے زیادہ نظریاتی بنا دی گئی۔ دوسری طرف وزیر اطلاعات جنرل شیر علی خان نے گورننس پراسٹیبلشمنٹ کی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے نظریہ پاکستان کا تصور پیش کیا۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے بعض مذہبی جماعتوں کی سرکاری سرپرستی بھی شروع کر دی۔ جس کے نتیجے میں مذہبی جماعتیں صرف ریاستی منصوبہ سازی پر اثر انداز ہونے کی پوزیشن ہی میں نہیں آئیں، بلکہ انھوں نے ٹریڈ یونین اور پیشہ ورانہ تنظیموں میں بھی اپنے گروپ تشکیل دے کر ان کی پیشہ ورانہ حیثیت کو بھی نظریاتی تفاوت کی نذر کر دیا۔ اس صورتحال کے اثرات صحافیوں کی نمایندہ تنظیم PFUJ پر بھی مرتب ہوئے اور یہ تنظیم بھی دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔
پاکستان میں چونکہ آئین سازی کا معاملہ ابتدائی دس برسوں کے دوران حل نہیں ہو سکا اور 1956ء میں جو آئین تشکیل پایا، وہ جلد ہی منسوخ کر دیا گیا۔ اس لیے ایک ایسے معاشرے میں جہاں حکمرانی کے لیے کوئی متفقہ آئینی دستاویز (Consensus Consitutional Document) موجود نہ ہو، وہاں مختلف نوعیت کے فکری ابہام کا فروغ پانا ایک فطری بات ہوتی ہے۔ لہٰذا پاکستان میں شہریوں کا ریاست کے ساتھ وہ تعلق قائم نہیں ہو سکا، جو جدید ریاستی انتظام کی بنیادی ضرورت ہے۔ یہ تعلق آج تک کمزور اور بے معنی سا ہو کر رہا گیا ہے، کیونکہ ریاست پر غیر نمایندہ حکمرانی کا دورانیہ 60 فیصد سے زائد عرصہ پر محیط ہے۔ اس کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ کی یہ بھی سوچ رہی ہے کہ ریاستی انتظام اور منصوبہ سازی پر مضبوط گرفت کے لیے معاشرے کا فکری طور پر منقسم ہونا ضروری ہے۔ لہٰذا اس نے ان تنظیموں اور جماعتوں کی سرپرستی شروع کی اور آج بھی کر رہی ہے، جو معاشرے میں تہذیبی نرگسیت کے ذریعے فکری ابہام پھیلانے کا ذریعہ ہیں۔
ریاست کے منطقی جواز اور نظم حکمرانی کے حوالے سے فکری ابہام معاشرے کے رگ و پے میں اس قدر سرایت کر چکا تھا کہ بھٹو جیسا آزاد خیال رہنماء بھی ایسے فیصلے کرنے پر مجبور ہوا، جو کسی طور پر ایک جمہوری معاشرے میں ممکن نہیں ہوتے۔ بھٹو کے اقدامات کا فائدہ فوجی آمر جنرل ضیاء الحق نے اٹھایا۔ اس نے ریاست کو حقیقی معنی میں تھیوکریٹک بنانے کے بجائے تھیوکریسی کو اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے استعمال کیا، جس میں وہ کامیاب رہا۔ لیکن اس کے اقدامات کے نتیجے میں پاکستان کا پورا سیاسی اور سماجی Fabric کو تباہ ہو گیا۔ اس کے دور میں جنرل یحییٰ کے دور سے نظریاتی بنیادوں پر منقسم ٹریڈ یونینیں اور پیشہ ورانہ تنظیمیں مزید تقسیم کا شکار ہوئیں۔ دنیا کی تاریخ میں پہلی بار مزدور تنظیمیں لسانی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر منقسم ہوئیں۔ ٹریڈ یونین اور پیشہ ورانہ تنظیموں کو دوسرا نقصان سیاسی جماعتوں سے پہنچا۔ جنہوں نے اپنی جماعتوں میں لیبر بیورو قائم کر کے مزدوروں کو مزید تقسیم کر دیا۔ آج صحافت مختلف نوعیت کی جس تقسیم سے دو چار ہے، اس کی جڑیں بھی اسی رویے، رجحان اور سوچ کی عکاسی کرتی ہے، جو معاشرے کے رگ و پئے میں سرائیت کر چکی ہے۔
کثیرالقومی کاروباری تنظیموں کے مخصوص تجارتی مفادات کی خاطر ذرایع ابلاغ کو حکومتوں اور حکومتی اداروں پر تنقید کی جو چھوٹ ملی ہے، اسے کسی طور آزادیِ اظہار نہیں کہا جا سکتا۔ ہم ایک مخصوص دائرے کے اندر آزادیِ اظہار کا دعویٰ تو کر سکتے ہیں، مگر اس سے باہر نکلنا ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں ریاست کے مقابلے میں غیر ریاستی عناصر اور مختلف مافیائیں زیادہ مضبوط اور طاقتور ہوں، وہاں صرف حکومت پر تنقید کر کے دل کی بھڑاس نکالی جا سکتی ہے۔ اس سے زیادہ کی خواہش نہیں کی جا سکتی۔ اس لیے آزادیِ اظہار محض ایک خوبصورت اصطلاح اور دلفریب نعرے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ لہٰذا دوستو، اس معاشرے میں سیاست منع ہے۔ بہتر ہے کہ سبزیوں کے بھائو اور پھلوں کی کاشت کے طریقوں پر طبع آزمائی کی جائے ۔
قیامِ پاکستان کے ابتدائی10 برسوں کے دوران ملک کی اخباری صنعت کو کاغذ کے شدید بحران کا سامنا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ حکومتیں کاغذ کے کوٹے کے نام پر اخبارات کو بلیک میل کیا کرتی تھی۔ یوں ایک طرف برطانوی دور کے بعض قوانین آزادیِ اظہار کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے، تو دوسری طرف حکومتیں اخبارات کی آزاد ی کو کنٹرول کرنے کے لیے کاغذ کے کوٹے، اشتہارات اور بجلی سمیت خام مال کی فراہمی کو بطور ہتھیار استعمال کرتی تھیں۔ اس طرح اطلاعات تک عوام کی آزادانہ رسائی پہلے دن ہی سے شدید مشکلات کا شکار ہو گئی تھی۔ لیکن7 اکتوبر1958ء کو جب جنرل ایوب خان نے 1956ء کے آئین کو منسوخ کر کے ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا اور پھر20 دن بعد صدر اسکندر مرزا کو برطرف کر کے ملک بدر کیا، تو صورتحال مزید ابتر ہو گئی۔
ملک پر مکمل قبضے کے بعد انھوں نے نہ صرف شہریوں کے بنیادی حقوق پر ڈاکہ مارا، بلکہ اپریل1959ء میں سیکیورٹی ایکٹ کے تحت پروگریسو پیپرز لمیٹڈ کے تمام اخبارات و رسائل یعنی پاکستان ٹائمز، روزنامہ امروز، ہفت روزہ لیل و نہار اور ہفت روزہ اسپورٹس ٹائمز کو سرکاری تحویل میں لے کر عوام کے اطلاعات تک رسائی کے حق کو بھی غصب کر لیا۔ ہفت روزہ لیل و نہار کے مدیر سید سبط حسن کو برطرف کر کے گرفتار کر لیا گیا، جب کہ پاکستان ٹائمز کے مدیر مظہر علی خان اور روزنامہ امروز کے مدیر احمد ندیم قاسمی از خود مستعفی ہو گئے تھے، مگر اس کے باوجود انھیں بھی گرفتار کر لیا گیا۔ اس کے بعد ایوب خان کی فوجی حکومت نے پہلے برطانوی دور کے تمام پریس قوانین کو یکجا کر کے1960ء میں پہلا پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈیننس جاری کیا، جسے 1962ء میں نئے آئین کے نفاذ کے ساتھ ہی مزید سفاکانہ بنا کر1963ء میں نافذ کر دیا گیا۔ اس آرڈیننس کے نتیجے میں اخبارات کو حاصل تھوڑی بہت آزادی بھی سلب ہو گئی۔
پاکستان، جہاں آزادیِ اظہار روز ِاول ہی سے مختلف قسم کی پابندیوں کا شکار تھی، صحافیوں کے لیے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ اپنے پیشہ ورانہ حقوق کے ساتھ آزادیِ صحافت کے لیے بھی جدوجہد کا آغاز کریں۔ یوںPFUJ (پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس) کا قیام عمل میں آیا۔PFUJ کی تاریخ صحافیوں کے حقوق اور آزادیِ صحافت اور آزادیِ اظہار کے تحفظ کے لیے جدوجہد سے عبارت ہے۔ چونکہPFUJ کا وجود دیگر ٹریڈ یونینوں اور پیشہ ورانہ تنظیموں کی طرح ریاستی اسٹیبلشمنٹ کے لیے ناقابل قبول رہا ہے، اس لیے اس کے خلاف سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا سلسلہ اس کے قیام کے ساتھ شروع ہو گیا تھا۔ اس کے رہنمائوں اور کارکنوں نے تقریبا ًہر دور میں قید و بند اور ملازمتوں سے برخاستگی کے ستم سہے مگر پیشہ کی حرمت کی خاطر میدانِ عمل میں ڈٹے رہے۔ سیاست اور ٹریڈ یونین کی طرح صحافتی شعبے میں بھی بنگالی صحافیوں کا رویہ مغربی پاکستان کے صحافیوں کے مقابلے میں زیادہ جمہوری اور پیشہ ورانہ ہوا کرتا تھا۔ وہ اطلاعات تک عوام کی رسائی کو حقیقی معنی میں یقینی بنانے کی جدوجہد میں مصروف تھے۔
1947ء میں انگریزی روزنامہ ڈان کے بنگالی ایڈیٹر الطاف حسین نے بانیِ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں تقریر کے سنسر کیے جانے پر شدید احتجاج کیا تھا۔ ان کے احتجاج کی وجہ سے اس تقریر کو ڈان میں شایع کرنے کی اجازت ملی تھی۔ جس پر اس وقت کے سیکریٹری جنرل چوہدری محمد علی خاصے سیخ پا ہوئے تھے، جو اس ملک کے بارے میں کچھ اور ہی نظریات رکھتے تھے۔ چوہدری محمد علی ہی کے ایماء پر سابقہ مشرقی پاکستان کے اخبارات کو سرکاری خبریں ایک روز تاخیر سے فراہم کی جاتی تھیں۔ ایک طرف انھوں نے اپنے حامی بیوروکریٹس کے تعاون سے مغربی پاکستان میں بعض صحافیوں کے ذریعے بنگالی صحافیوں کے خلاف لسانی تعصب کی بنیاد ڈالی۔ دوسری طرف ان تمام جماعتوں کی سرپرستی شروع کر دی جو 13 اگست تک قیامِ پاکستان کی مخالف تھیں۔ بیوروکریسی ہی کی سرپرستی میں ان جماعتوں نے ریاستی منصوبہ سازی میں مداخلت کرنے کے علاوہ ٹریڈ یونین اور پیشہ ورانہ تنظیموں میں دھڑے بندیاں کر کے انھیں کمزور کرنے کی اسٹیبلشمنٹ کی خواہش کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔
1969ء تک ملک میں سیاسی جماعتوں کے علاوہ طلبہ سیاست دائیں اور بائیں بازو میں منقسم تھی۔ مگر پیشہ ورانہ تنظیموں سمیت ٹریڈ یونین میں اس قسم کی کوئی تقسیم نہیں تھی۔ جنرل یحییٰ خان کے دور میں بعض ایسے فیصلے کیے گئے جن کے دوررس نتائج برآمد ہوئے۔ اول، اس دور کے وزیر محنت ائیر مارشل نور خان مرحوم نے انڈسٹریل ریلیشنز قوانین میں بعض ترامیم کیں اور سوداکار (Bargaining Agent) کے لیے ٹریڈ یونینوں کے درمیان ریفرنڈم کا تصور پیش کر کے ایک ہی صنعتی یونٹ میں کئی یونینوں کے قیام کا راستہ ہموار کیا۔ جس کے نتیجے میں ایک سے زائد یونینوں کا قیام شروع ہوا، جس کی بنیاد ایشوز سے زیادہ نظریاتی بنا دی گئی۔ دوسری طرف وزیر اطلاعات جنرل شیر علی خان نے گورننس پراسٹیبلشمنٹ کی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے نظریہ پاکستان کا تصور پیش کیا۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے بعض مذہبی جماعتوں کی سرکاری سرپرستی بھی شروع کر دی۔ جس کے نتیجے میں مذہبی جماعتیں صرف ریاستی منصوبہ سازی پر اثر انداز ہونے کی پوزیشن ہی میں نہیں آئیں، بلکہ انھوں نے ٹریڈ یونین اور پیشہ ورانہ تنظیموں میں بھی اپنے گروپ تشکیل دے کر ان کی پیشہ ورانہ حیثیت کو بھی نظریاتی تفاوت کی نذر کر دیا۔ اس صورتحال کے اثرات صحافیوں کی نمایندہ تنظیم PFUJ پر بھی مرتب ہوئے اور یہ تنظیم بھی دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔
پاکستان میں چونکہ آئین سازی کا معاملہ ابتدائی دس برسوں کے دوران حل نہیں ہو سکا اور 1956ء میں جو آئین تشکیل پایا، وہ جلد ہی منسوخ کر دیا گیا۔ اس لیے ایک ایسے معاشرے میں جہاں حکمرانی کے لیے کوئی متفقہ آئینی دستاویز (Consensus Consitutional Document) موجود نہ ہو، وہاں مختلف نوعیت کے فکری ابہام کا فروغ پانا ایک فطری بات ہوتی ہے۔ لہٰذا پاکستان میں شہریوں کا ریاست کے ساتھ وہ تعلق قائم نہیں ہو سکا، جو جدید ریاستی انتظام کی بنیادی ضرورت ہے۔ یہ تعلق آج تک کمزور اور بے معنی سا ہو کر رہا گیا ہے، کیونکہ ریاست پر غیر نمایندہ حکمرانی کا دورانیہ 60 فیصد سے زائد عرصہ پر محیط ہے۔ اس کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ کی یہ بھی سوچ رہی ہے کہ ریاستی انتظام اور منصوبہ سازی پر مضبوط گرفت کے لیے معاشرے کا فکری طور پر منقسم ہونا ضروری ہے۔ لہٰذا اس نے ان تنظیموں اور جماعتوں کی سرپرستی شروع کی اور آج بھی کر رہی ہے، جو معاشرے میں تہذیبی نرگسیت کے ذریعے فکری ابہام پھیلانے کا ذریعہ ہیں۔
ریاست کے منطقی جواز اور نظم حکمرانی کے حوالے سے فکری ابہام معاشرے کے رگ و پے میں اس قدر سرایت کر چکا تھا کہ بھٹو جیسا آزاد خیال رہنماء بھی ایسے فیصلے کرنے پر مجبور ہوا، جو کسی طور پر ایک جمہوری معاشرے میں ممکن نہیں ہوتے۔ بھٹو کے اقدامات کا فائدہ فوجی آمر جنرل ضیاء الحق نے اٹھایا۔ اس نے ریاست کو حقیقی معنی میں تھیوکریٹک بنانے کے بجائے تھیوکریسی کو اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے استعمال کیا، جس میں وہ کامیاب رہا۔ لیکن اس کے اقدامات کے نتیجے میں پاکستان کا پورا سیاسی اور سماجی Fabric کو تباہ ہو گیا۔ اس کے دور میں جنرل یحییٰ کے دور سے نظریاتی بنیادوں پر منقسم ٹریڈ یونینیں اور پیشہ ورانہ تنظیمیں مزید تقسیم کا شکار ہوئیں۔ دنیا کی تاریخ میں پہلی بار مزدور تنظیمیں لسانی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر منقسم ہوئیں۔ ٹریڈ یونین اور پیشہ ورانہ تنظیموں کو دوسرا نقصان سیاسی جماعتوں سے پہنچا۔ جنہوں نے اپنی جماعتوں میں لیبر بیورو قائم کر کے مزدوروں کو مزید تقسیم کر دیا۔ آج صحافت مختلف نوعیت کی جس تقسیم سے دو چار ہے، اس کی جڑیں بھی اسی رویے، رجحان اور سوچ کی عکاسی کرتی ہے، جو معاشرے کے رگ و پئے میں سرائیت کر چکی ہے۔
کثیرالقومی کاروباری تنظیموں کے مخصوص تجارتی مفادات کی خاطر ذرایع ابلاغ کو حکومتوں اور حکومتی اداروں پر تنقید کی جو چھوٹ ملی ہے، اسے کسی طور آزادیِ اظہار نہیں کہا جا سکتا۔ ہم ایک مخصوص دائرے کے اندر آزادیِ اظہار کا دعویٰ تو کر سکتے ہیں، مگر اس سے باہر نکلنا ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں ریاست کے مقابلے میں غیر ریاستی عناصر اور مختلف مافیائیں زیادہ مضبوط اور طاقتور ہوں، وہاں صرف حکومت پر تنقید کر کے دل کی بھڑاس نکالی جا سکتی ہے۔ اس سے زیادہ کی خواہش نہیں کی جا سکتی۔ اس لیے آزادیِ اظہار محض ایک خوبصورت اصطلاح اور دلفریب نعرے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ لہٰذا دوستو، اس معاشرے میں سیاست منع ہے۔ بہتر ہے کہ سبزیوں کے بھائو اور پھلوں کی کاشت کے طریقوں پر طبع آزمائی کی جائے ۔