جامعہ الازہر مصر کے صدر شعبۂ اردو ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم سے ملاقات
میں پاکستانیوں سے اردو میں بات کرتا ہوں وہ انگریزی میں جواب دیتے ہیں، ابراہیم محمد ابراہیم
PESHAWAR:
وہ نہایت گرم جوشی سے ملتے ہیں ہم نے اپنے مختصر تعارف کے بعد جب کوئے موسیٰؑ سے تشریف لائے ہوئے اِن مہمان سے انٹرویو کی خواہش کی، تو انہوں نے ہمارے مصافحے کے لیے بڑھا ہوا ہاتھ اپنے دست کی مضبوط گرفت میں تھامے رکھا اور مسکراتے ہوئے ہمیں کچھ وقت عنایت کرنے پر رضا مند ہو گئے۔ ہم نے اُن کے چہرے مُہرے کے بعد جب اُن کے لب ولہجے میں بھی 'دیسی پن' محسوس کیا، تو ہمیں لگا کہ شاید وہ یا اُن کے بڑے یہیں آزو بازو کے علاقے سے ہی مصر جا کر بس گئے ہوں گے، سو ہم باقاعدہ گفتگو سے پہلے یہ بات پوچھے بغیر نہ رہ سکے، جس پر انہوں نے بے ساختہ کہا 'نہیں میں خالصتاً فرعونوں کی سرزمین سے تعلق رکھتا ہوں'
یہ ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم ہیں، جو مصر کی مشہور زمانہ جامعہ الازہر کے شعبہ ¿ اردو (زنانہ) کے سربراہ ہیں اور یہ پاکستان میں اُن کا پہلا مفصل انٹرویو ہے۔ انہوں نے 31 دسمبر 1962ءکو مصری صوبے دقھلیہ کے دارالحکومت منصورہ میں آنکھ کھولی۔ سات بہن بھائیوں میں اُن کا نمبر دوسرا ہے، اُن سے بڑی بہن ہیں۔ مصری رواج کے مطابق ایک ہی مرکب نام ہے، اُن کا نام 'ابراہیم' والد کا نام 'محمد' اور دادا بھی 'ابراہیم' ہیں، یوں وہ 'ابراہیم محمد ابراہیم' ہیں، انہیں شکایت ہے کہ اکثر پاکستانی انہیں صرف 'محمد ابراہیم' پکارتے ہیں، جب کہ اُن کا اسم گرامی 'ابراہیم' ہے۔ انہوں نے تمام تعلیمی مدارج جامعہ الازہر میں طے کیے، اعلیٰ مدارج میں وہ 'شعبہ ¿ انگریزی' میں داخلہ لینا چاہتے تھے، لیکن ان کا داخلہ 'فرانسیسی' میں ہو گیا۔ اس دوران ڈائریکٹر فیکلٹی کی نصیحت کے مطابق شعبہ ¿ اردو میں داخلہ لیا کہ اُردو کا شعبہ ابھی قائم ہوا ہے اور انگریزی پڑھنے والے بہتیرے، یہ 1979ءتھا، اسی وقت ابراہیم محمد ابراہیم نے اردو کا نام پہلی بار سنا، پھر یہاں پڑھے اور ٹاپ کیا، جس کے بعد 15 فروری 1984ءسے مختلف جامعات میں اردو کی تدریس پر مامور ہوگئے۔ وہ بتاتے ہیں کہ 1939ءمیں پہلی بار مصر میں اردو متعارف ہوئی اور قاہرہ یونیورسٹی میں برصغیر سے لقمان صدیقی اور دیگر اساتذہ پڑھانے آئے۔ قاہرہ یونیورسٹی کے ہی ایک استاد ڈاکٹر سمیر عبدالحمید ابراہیم اردو میں ڈاکٹریٹ کرنے والے مصریوں میں سرفہرست ہیں۔
ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم کہتے ہیں کہ 1947ءکے بعد پاکستانی اساتذہ کی معاونت سے ہی اردو آگے بڑھ رہی ہے۔ بھارتی سفارت خانہ بھی اردو کے لیے اساتذہ کی پیش کش کرتا ہے، لیکن وہاں عمومی رجحان ہندوستان کے بہ جائے پاکستان کی طرف ہے، کہ جس کی قومی زبان ہی اردو ہے۔ اُن کے بقول ہندوستان کے باشندوں کو مصر میں کم عقل تصور کیا جاتا ہے۔ وہاں ہندوستانی سفارت خانے کے 'ابوالکلام آزاد سینٹر' سے بھی مختلف کورس کرائے جاتے ہیں اور ہندی کے ساتھ اردو بھی پڑھائی جاتی ہے۔ ریاستی سطح پر ہندوستان اور مصر میں گہرے تعلقات ہیں، لیکن عوام پاکستان کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ ہندی اور اردو کے سمبندھ پر وہ کہتے ہیں کہ علمی طور پر ہندی زبان کا کوئی تاریخی وجود نہیں، ایک سیاسی تقسیم کے تحت اردو کو دیو ناگری رسم الخط میں لکھا گیا، اور اس میں سنسکرت کے الفاظ ڈالے گئے، اسی طرح دوسری طرف بھی عربی وفارسی کے الفاظ بڑھائے گئے، جس سے ہندی اور اردو کا فرق پیدا ہوا۔
ڈاکٹر ابراہیم کے بقول مصر میں اردو چھے بڑی جامعات میں پڑھائی جا رہی ہے، جن میں قاہرہ یونیورسٹی، عین شمس یونیورسٹی، طنطا یونیورسٹی، الازہر یونیورسٹی، منوفیہ یونیورسٹی اور منصورہ یونیورسٹی شامل ہیں۔ الازہر یونیورسٹی کے سوا باقی جگہوں پر اردو معاون مضمون کے طور پر پڑھائی جاتی ہے، جیسے شعبہ ¿ فارسی میں اردو یا ترکی منتخب کرنے کا اختیار دیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم پہلی دفعہ 1985ءمیں تین ماہ کے لیے پاکستان آئے، یہ دورہ جامعہ الازہر اور جامعہ پنجاب کے درمیان سمجھوتے کے بعد ہوا، پھر 1988ءمیں تعلیمی وظیفے پر پاکستان آئے، جس کے بعد 1989ءمیں جامعہ پنجاب سے ایم اے کیا اور 1993ءمیں پی ایچ ڈی کے بعد لوٹ گئے۔
انہوں نے ایم اے میں ڈاکٹر عطا حسین کی کتاب 'من حدیث شعر ونثر' کا ترجمہ 'شعرو نثر کی چند گفتگو' کے عنوان سے کیا۔ انہوں نے پی ایچ ڈی کا مقالہ ڈاکٹر تحسین فراقی کے زیر نگرانی لکھا، جس کا عنوان 'عربی اور اردو شاعری میں لیلیٰ مجنوں کی داستانوں کا تقابلی مطالعہ' تھا۔ کہتے ہیں یہ داستان عربی زبان سے ہے، حقیقت میں قیس اور لیلیٰ نجد میں بالکل عام لوگ تھے۔ وہ ایک دوسرے کے عشق میں مبتلا ہوئے، شادی نہ ہو سکی، تو قیس پاگل ہو گیا۔ جب یہ قصہ فارسی میں آیا، تو قیس بہت بڑے ولی اللہ بن گئے، لکھا گیا کہ وہ درندوں کی فوج میں شامل ہو کر لیلیٰ کے بھائی سے نبرد آزما ہوا۔ یہ زیب داستاں عربی میں موجود نہیں۔ یہاں صوفی حضرات کے ذریعے اسلام پھیلا، اردو ادب کی شروعات بھی اہل تصوف کے ذریعے ہوئی، اس لیے اُن کا اثر ہے۔
جامعہ الازہر میں اردو کے 'زنانہ' شعبے کا افتتاح ہوا، تو ڈاکٹر ابراہیم اس کے صدر بنے، جہاں 2006ءمیں وہ پروفیسر ہوگئے۔ شعبے میں 120 طالبات زیر تعلیم ہیں، (جامعہ الازہر میں تمام شعبے مردانہ اور زنانہ حصوں میں منقسم ہیں) شعبہ ¿ اردو کے زیر اہتمام ہر سال ترجمے یا تصنیف وتالیف وغیرہ کی ایک کتاب عربی میں شایع ہوتی ہے، جیسے ابھی اردو ادب وثقافت میں خواتین کا مقام' منظر عام پر آئی اور "مصر: اہل اردو کی نظر میں" شایع ہونے والی ہے۔ اس کے علاوہ 'اردویات' کے نام سے سالانہ مجلہ اردو اور عربی میں نکلتا ہے، سالانہ ایک کانفرنس یا سیمینار کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ رواں برس سیمینار میں 'اردو اسلامی ادب' کے عنوان سے ہوگا۔ ہم نے پوچھا کہ اس میں اسلامی کی تعریف کیا ہوگی، تو کہنے لگے کہ یہ اور اس نوع کی بحث بھی اسی میں ہوگی کہ آیا ادب کے اسلامی یا غیر اسلامی کا تعین ہو بھی سکتا ہے یا نہیں۔
جامعہ الازہر میں اردو کے نصاب کے حوالے سے ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم نے بتایا کہ وہاں اردو کی تاریخ، نشوونما، قواعد وغیرہ کے علاوہ ڈراما، تنقید، ترجمہ بھی پڑھایا جاتا ہے۔ اردو نثر اور شاعری صدی بہ صدی پڑھائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ شعبہ ¿ اردو میں دیوناگری رسم الخط بھی سکھایا جاتا ہے۔
ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم سے جب ہم نے یہ پوچھا کہ انہوں نے اردو پر عبور کتنے عرصے میں حاصل کیا، تو وہ بولے کہ 1979ءسے اب تک سیکھ ہی رہے ہیں، اسی لیے دنیا بھر کی ایسی کانفرنسوں میں جاتے ہیں، جہاں اہل زبان سے ملاقات ہو سکے، کتابیں حاصل ہوں اور ہماری اردو بہتر ہو۔ زبان آنے کے حوالے سے وہ اس 'پیمانے' سے متفق ہیں کہ یہ تب مانیے کہ جب آپ اُس زبان میں خواب دیکھنے لگیں اور اب وہ اردو میں خواب دیکھنے لگے ہیں، بلکہ خواب میں پاکستان بھی چلے آتے ہیں۔
مصر کی سیاسی صورت حال کے سوال پر انہوں نے صرف اتنا کہا کہ صورت حال بہترین ہے، مصر میں اکثر ہندوستانی فلمیں اور چینل دکھائے جاتے ہیں، لیکن وہ پاکستانی فلموں کا شوق انٹرنیٹ پر پورا کرتے ہیں۔ وہاں اردو کتابوں کا تھوڑا بہت حصول صرف پاکستانی سفارت خانے سے ہو پاتا ہے، کچھ وہ یہاں آکر لے جاتے ہیں۔ اس طرح وہاں ایک بہترین اردو کتب خانہ سجایا ہے۔
ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم کا خیال ہے کہ پاکستان میں بہت زیادہ تبدیلی آئی ہے، کہتے ہیں کہ میں اسے 'بگاڑ' نہیں کہہ سکتا، لیکن رجحان بدلا، 1985ءمیں ٹی وی پر بھی ایسے لباس نہیں ہوتے تھے، جیسے اب عام ہیں۔ یہ چیز مصر میں بھی بڑھی، مگر وہاں حجاب بھی زیادہ ہوتا جا رہا ہے۔ لوگوں میں مغربی اثرات بڑھے ہیں۔ اسے میں اچھا یا برا نہیں کہہ سکتا، لیکن جو بری چیز ہے وہ یہ ہے کہ اردو سے دوری ہو گئی ہے۔ انگریزی الفاظ کا اثر لینا بھی کوئی بات نہیں، لیکن دنیا بھر میں ملنے والے اکثر پاکستانی یہ کہتے ہیں کہ 'اردو بول کر کیا کریں، اس کا کوئی فائدہ تو ہے نہیں! اردو میڈیم میں پڑھیں گے، تو لوگ ہمیں جاہل سمجھیں گے۔'
ڈاکٹر ابراہیم کو شکایت ہے کہ وہ پاکستان میں اردو میں بات کرتے ہیں، لیکن انہیں جواب انگریزی میں ملتا ہے، کہتے ہیں کہ یہ تبدیلی مجھے بہت بری لگی۔ مغربی تہذیب میں بہت خوبیاں بھی ہوں گی، آپ بہترین انگریزی سیکھیں، لیکن آپ کی زبان آپ کا تشخص ہے، اس سے باہر نہ نکلیں۔ اُن کا خیال ہے کہ پاکستانی ہم سے زیادہ جذباتی ہیں، مشکل وقت میں اکٹھے ہو سکتے ہیں، کسی کٹھن لمحے میں نکلتے ہیں اور بات کرتے ہیں۔ میں پاکستانی بھائیوں کو کہوں گا کہ آپ کا ملک بہت خوب صورت اور ٹھیک ٹھاک ہے، کمی کے معنی سمجھنے ہوں تو کبھی مصر تشریف لائیں، جہاں لوگ صرف چھے فی صد رقبے پر رہ رہے ہیں، اور باقی 94 فی صد علاقہ صحرا ہے، مصر میں ہم بہت مشکل سے ایک درخت اُگاتے ہیں۔ یہاں تو جنگل کا جنگل ہے، یہ اللہ کی طرف سے بہت بڑی نعمت ہے، اپنی زبان اور ملک سے محبت کریں اور یہ آپ کے عمل سے واضح ہونی چاہیے۔
عرب دنیا میں پاکستانیوں کے برے تاثر کی بابت وہ کہتے ہیں مصر کا معاملہ مختلف ہے، اہل مصر کا پاکستانیوں سے محبت واحترام کا رشتہ ہے، دونوں عالم اسلام کے بڑے ممالک ہیں اور دونوں ممالک کی معاشی حالت اور خوبیاں وخامیاں بھی تقریباً یک ساں ہیں۔ دنیا بھر میں مصری اور پاکستانیوں کے درمیان جلد دوستیاں ہو جاتی ہیں۔ 1998ءمیں پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے، تو مصریوں نے بہت زیادہ خوشی کا اظہار کیا اور پاکستانی سفارت خانے کو چندے پیش کرنے لگے۔ یہ الگ بات ہے کہ دونوں حکومتوں کے درمیان تعلقات کبھی بہترین نہیں رہے، لیکن عوامی سطح پر یہ ناتے مضبوط تر ہیں۔
دیگر عرب ممالک میں پاکستانیوں کے بہتر تاثر نہ ہونے کا سبب اُن کے خیال میں 'طبقاتی فرق' ہے، کیوں کہ آجر واجیر کے درمیان تو شکوے شکایات ہو ہی جاتی ہیں، لیکن مجموعی طور پر باقی عرب دنیا بھی اہل پاکستان سے محبت میں بندھے ہوئے ہیں۔
شریک حیات کا تعلق چکوال سے ہے!
جب یہ تذکرہ ہوا کہ ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم کی شریک حیات ایک پاکستانی خاتون ہیں، تو ہم نے کہا بہت سے ماہرین، زبان سیکھنے کے لیے یہ نسخہ تجویز کرتے ہیں، کہ اُس زبان کی حامل خاتون سے شادی کر لیں، جس پر وہ کہنے لگے چلیے پھر اس کا یہ رخ بھی تو دیکھیے کہ کوئی زبان سیکھنے کے لیے کتنی قیمت دینا پڑتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم مصر میں آنکھ بند کر کے شادی نہیں کرتے، ایک دوسرے کو جاننا یا کم سے کم دیکھنا ضروری ہے۔ بچے اپنا شریک حیات خود چنتے ہیں، والدین بچوں کی شادی کرانا چاہیں، تو اس میں ان کی رضا مندی ضروری ہے، لیکن یہ فریضہ اپنے رسم ورواج کے مطابق ادا کیا جاتا ہے۔ اپنی شادی کے حوالے سے ڈاکٹر ابراہیم کہتے ہیں کہ ہم دونوں ڈاکٹر ظہور احمد اظہر کے شاگرد تھے، انہی کے توسط سے رشتہ بھیجا، کافی مرتبہ انکار کے بعد یہ رشتہ منظور ہوا اور یوں وہ 1993ءمیں رشتہ ازدواج میں بندھے، اہلیہ تبسم منہاس بھی انہی کے شعبے سے منسلک ہیں، اور اردو کی محبت میں بلا معاوضہ کام کر رہی ہیں۔ اُن کے خاندان میں اس سے پہلے کسی نے بھی ملک سے باہر شادی نہیں کی۔ اُن کا سسرال چکوال سے ہے، تاہم فیصل آباد اور لاہور میں سکونت پذیر ہے۔ ڈاکٹر ابراہیم کا ایک بیٹا دانش ہانگ کانگ میں انجینئر ہے، بیٹی 'دنیا' مصر میں اِبلاغ عامہ پڑھ رہی ہیں۔ بچے عربی، اردو اور انگریزی بولتے ہیں۔ وہ خود کو پاکستان اور مصر کے درمیان مضبوط رابطہ قرار دیتے ہیں، اُن کے بقول مصریوں اور پاکستانیوں کے درمیان جتنی شادیاں اُن کے علم میں آئیں، وہ بدقسمتی سے چل نہ سکیں۔ چند ایک جو کام یاب ہیں، وہ کسی تیسرے ملک میں رہ رہے ہیں۔ اُن کا ماننا ہے کہ ہم مسلمان ضرور ہیں، سماجی وثقافتی اعتبار سے کافی مختلف ہیں، ایسی شادیوں میں فریقین کو زبردست محبت اور قربانی دینا ہوتی ہے، اس کے بغیر زندگی اچھی نہیں ہو سکتی۔
"عربی کے تین مرکزی اسلوب ہیں"
ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم کہتے ہیں کہ عربی ایک ہی زبان ہے، جس کے مرکزی طور پر تین اسلوب ہیں، ایک مصری اور ایک خلیجی ہے، جب کہ تیسرا اسلوب مراکش اور الجزائر میں برتا جاتا ہے۔ عالم عرب میں مصری اسلوب زیادہ مقبول ومعروف ہے۔ ذرایع اِبلاغ اور فلموں میں بھی یہی روا ہے۔ عربی میں بول چال کے فرق کو بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر ابراہیم کہتے ہیں کہ مصر اور خلیج کی عربی میں فرق کچھ اس طرح ہے جیسے 'لڑکا اسکول گیا' اور 'لڑکا اسکول کی طرف روانہ ہوا۔' مصر میں ہم کسی کا حال دریافت کرنے کے لیے پوچھتے ہیں 'آپ کی پوشاک کیسی ہے؟' (یہ اس فقرے کے لغوی معنی ہیں) کیوں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا حال ہمارے لباس سے واضح ہوگا۔ عراق وغیرہ میں حال پوچھنے کے لیے کہتے ہیں 'آپ کے چہرے کا رنگ کیسا ہے؟' کیوں کہ وہ حال کو چہرے کی رنگت سے منسلک کرتے ہیں۔ دونوں عربی ہیں، اور دونوں کا مفہوم مخاطب کا حال دریافت کرنا ہے، لیکن اسلوب جدا ہے۔ عربی زبان میں سائنس کے الفاظ میں انگریزی کا اثر ہے، لیکن وہاں پاکستان کے 'ادارہ فروغ قومی زبان' (سابقہ مقتدرہ قومی زبان) کے طرز پر ایک ادارہ ترجمہ کرتا ہے، جو باقاعدہ سختی سے رائج کیا جاتا ہے، کہ یہ قرآن کی زبان ہے۔ پھر بھی کچھ انگریزی الفاظ عربی میں آجاتے ہیں، جیسے ٹیلیفون وغیرہ۔
اردو سیکھتے ہوئے عربی الفاظ الجھاتے ہیں!
ایک عربی دان ہوتے ہوئے اردو سیکھنے کے تجربے کے ذکر پر ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم کہتے ہیں کہ اردو کا عربی ذخیرہ ¿ الفاظ ہمارے لیے آسانی تو ہے، لیکن یہی سہولت بعض اوقات مشکل بن جاتی ہے، کیوں کہ عربی کے اکثر الفاظ بہ ذریعہ فارسی آئے، اس لیے اُن کے معنی بدل گئے۔ جیسے عربی میں ضعیف کے پہلے معنی کم زور کے ہیں، لیکن اردو میں ضعیف سے مراد بوڑھا لیا جاتا ہے۔ اردو سیکھتے ہوئے جب ہم عربی الفاظ پڑھتے ہیں، تو ہم اس کے عربی معنوں میں الجھ جاتے ہیں۔ عربی سامی خاندان سے، جب کہ اردو کا تعلق آریائی قبیل سے ہے، دونوں زبانوں کی جملہ بنانے کی تراکیب مختلف ہیں۔ اردو میں فعل آخر میں، جب کہ عربی میں شروع میں آتا ہے۔ یہ امر زبان سیکھتے ہوئے الجھن کا باعث بنتا ہے اور شروع میں یہ بہت دشوار بھی محسوس ہوتا ہے۔ ڑ، ڈ، ٹ، پ، ژ وغیرہ مشکلات پیدا کرتے ہیں۔
ڈاکٹر ابراہیم عربی کے رسم الخط کے حوالے سے کہتے ہیں کہ یہ بالعموم 'خط نسخ' میں لکھی جاتی ہے، لیکن ہاتھ سے لکھی جانے والی عربی تحریر میں سہولت کے لیے 'خط رقعہ' اختیار کیا جاتا ہے، جب کہ 'خط ثلث' اور 'خط نستعلیق' بھی رائج ہے۔ عربی میں ہر لفظ کے بے شمار مترادفات کے حوالے سے جب ہم نے کہا کہ اس کے مقابلے میں اردو میں ہر لفظ کے لیے اتنے زیادہ مترادفات نہیں، تو انہوں نے کہا اردو میں بھی دیکھیے تو 'موت' کے لیے کتنے الفاظ مستعمل ہیں، فوت ہو گیا، مر گیا، گزر گیا، لقمہ اَجل بن گیا، موت کے گھاٹ اتار دیا گیا وغیرہ۔ تاہم عربی اس حوالے سے کافی مالا مال اور قدیم زبان ہے، اس کا اردو سے کوئی تقابل نہیں۔
'سرسید اپنے ناقدین کے توسط سے متعارف ہوئے'
ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم نے میر تقی میر، اسد للہ غالب اور علامہ اقبال کے علاوہ پروین شاکر کے کلام کو عربی کے قالب میں ڈھالا ہے۔ کہتے ہیں کہ ہندی، چینی اور جاپانی کے برعکس اردو کے نام سے اس کا 'دیس' واضح نہیں، اسی سبب لوگ استفسار کرتے ہیں کہ یہ کہاں کی زبان ہے۔ وہ 1977ءکے بعد پاکستان سے متعارف ہوئے، اس کی وجہ ذوالفقار علی بھٹو کی اقتدار سے معزولی اور سزائے موت تھی، جس کے بعد مصری صدر کی طرف سے اُن کی معافی کی درخواست کی تھی۔ اس سے قبل تنازع کشمیر کے حوالے سے کبھی پاکستان کا نام کان میں پڑ جاتا تھا۔ 1995ءاور 2005ءمیں انہیں 'ہائر ایجوکیشن کمیشن' (پاکستان) کی طرف سے جامعہ پنجاب میں کنٹریکٹ ملا، 2011 ءمیں وہ واپس مصر چلے گئے، تاہم سال میں دو تین مرتبہ یہاں آتے ہیں۔ 2017ءمیں جامعہ کراچی میں سرسید احمد خان کی صد سالہ پیدائش پر منعقدہ کانفرنس میں مقالہ 'مصر کی جامعات میں سرسید کا مطالعہ' پڑھا۔ اُن کے بقول مصر میں سرسید اپنے ناقدین کے ذریعے متعارف ہوئے، جمال الدین افغانی کا پیرس سے نکلنے والا عربی پرچا مذہبی حلقوں میں بطور خاص پڑھا جاتا تھا، بعد میں سرسید کے موافق مواد بھی آیا، تو سرسید کا مثبت رخ واضح ہوا۔ الازہر کے شعبہ ¿ اردو میں سرسید کی زبان وادب کی خدمات پڑھائی گئیں، ان پر مقالے لکھے گئے، جس سے اُن کی مکمل شخصیت سامنے آئی۔
وہ نہایت گرم جوشی سے ملتے ہیں ہم نے اپنے مختصر تعارف کے بعد جب کوئے موسیٰؑ سے تشریف لائے ہوئے اِن مہمان سے انٹرویو کی خواہش کی، تو انہوں نے ہمارے مصافحے کے لیے بڑھا ہوا ہاتھ اپنے دست کی مضبوط گرفت میں تھامے رکھا اور مسکراتے ہوئے ہمیں کچھ وقت عنایت کرنے پر رضا مند ہو گئے۔ ہم نے اُن کے چہرے مُہرے کے بعد جب اُن کے لب ولہجے میں بھی 'دیسی پن' محسوس کیا، تو ہمیں لگا کہ شاید وہ یا اُن کے بڑے یہیں آزو بازو کے علاقے سے ہی مصر جا کر بس گئے ہوں گے، سو ہم باقاعدہ گفتگو سے پہلے یہ بات پوچھے بغیر نہ رہ سکے، جس پر انہوں نے بے ساختہ کہا 'نہیں میں خالصتاً فرعونوں کی سرزمین سے تعلق رکھتا ہوں'
یہ ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم ہیں، جو مصر کی مشہور زمانہ جامعہ الازہر کے شعبہ ¿ اردو (زنانہ) کے سربراہ ہیں اور یہ پاکستان میں اُن کا پہلا مفصل انٹرویو ہے۔ انہوں نے 31 دسمبر 1962ءکو مصری صوبے دقھلیہ کے دارالحکومت منصورہ میں آنکھ کھولی۔ سات بہن بھائیوں میں اُن کا نمبر دوسرا ہے، اُن سے بڑی بہن ہیں۔ مصری رواج کے مطابق ایک ہی مرکب نام ہے، اُن کا نام 'ابراہیم' والد کا نام 'محمد' اور دادا بھی 'ابراہیم' ہیں، یوں وہ 'ابراہیم محمد ابراہیم' ہیں، انہیں شکایت ہے کہ اکثر پاکستانی انہیں صرف 'محمد ابراہیم' پکارتے ہیں، جب کہ اُن کا اسم گرامی 'ابراہیم' ہے۔ انہوں نے تمام تعلیمی مدارج جامعہ الازہر میں طے کیے، اعلیٰ مدارج میں وہ 'شعبہ ¿ انگریزی' میں داخلہ لینا چاہتے تھے، لیکن ان کا داخلہ 'فرانسیسی' میں ہو گیا۔ اس دوران ڈائریکٹر فیکلٹی کی نصیحت کے مطابق شعبہ ¿ اردو میں داخلہ لیا کہ اُردو کا شعبہ ابھی قائم ہوا ہے اور انگریزی پڑھنے والے بہتیرے، یہ 1979ءتھا، اسی وقت ابراہیم محمد ابراہیم نے اردو کا نام پہلی بار سنا، پھر یہاں پڑھے اور ٹاپ کیا، جس کے بعد 15 فروری 1984ءسے مختلف جامعات میں اردو کی تدریس پر مامور ہوگئے۔ وہ بتاتے ہیں کہ 1939ءمیں پہلی بار مصر میں اردو متعارف ہوئی اور قاہرہ یونیورسٹی میں برصغیر سے لقمان صدیقی اور دیگر اساتذہ پڑھانے آئے۔ قاہرہ یونیورسٹی کے ہی ایک استاد ڈاکٹر سمیر عبدالحمید ابراہیم اردو میں ڈاکٹریٹ کرنے والے مصریوں میں سرفہرست ہیں۔
ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم کہتے ہیں کہ 1947ءکے بعد پاکستانی اساتذہ کی معاونت سے ہی اردو آگے بڑھ رہی ہے۔ بھارتی سفارت خانہ بھی اردو کے لیے اساتذہ کی پیش کش کرتا ہے، لیکن وہاں عمومی رجحان ہندوستان کے بہ جائے پاکستان کی طرف ہے، کہ جس کی قومی زبان ہی اردو ہے۔ اُن کے بقول ہندوستان کے باشندوں کو مصر میں کم عقل تصور کیا جاتا ہے۔ وہاں ہندوستانی سفارت خانے کے 'ابوالکلام آزاد سینٹر' سے بھی مختلف کورس کرائے جاتے ہیں اور ہندی کے ساتھ اردو بھی پڑھائی جاتی ہے۔ ریاستی سطح پر ہندوستان اور مصر میں گہرے تعلقات ہیں، لیکن عوام پاکستان کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ ہندی اور اردو کے سمبندھ پر وہ کہتے ہیں کہ علمی طور پر ہندی زبان کا کوئی تاریخی وجود نہیں، ایک سیاسی تقسیم کے تحت اردو کو دیو ناگری رسم الخط میں لکھا گیا، اور اس میں سنسکرت کے الفاظ ڈالے گئے، اسی طرح دوسری طرف بھی عربی وفارسی کے الفاظ بڑھائے گئے، جس سے ہندی اور اردو کا فرق پیدا ہوا۔
ڈاکٹر ابراہیم کے بقول مصر میں اردو چھے بڑی جامعات میں پڑھائی جا رہی ہے، جن میں قاہرہ یونیورسٹی، عین شمس یونیورسٹی، طنطا یونیورسٹی، الازہر یونیورسٹی، منوفیہ یونیورسٹی اور منصورہ یونیورسٹی شامل ہیں۔ الازہر یونیورسٹی کے سوا باقی جگہوں پر اردو معاون مضمون کے طور پر پڑھائی جاتی ہے، جیسے شعبہ ¿ فارسی میں اردو یا ترکی منتخب کرنے کا اختیار دیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم پہلی دفعہ 1985ءمیں تین ماہ کے لیے پاکستان آئے، یہ دورہ جامعہ الازہر اور جامعہ پنجاب کے درمیان سمجھوتے کے بعد ہوا، پھر 1988ءمیں تعلیمی وظیفے پر پاکستان آئے، جس کے بعد 1989ءمیں جامعہ پنجاب سے ایم اے کیا اور 1993ءمیں پی ایچ ڈی کے بعد لوٹ گئے۔
انہوں نے ایم اے میں ڈاکٹر عطا حسین کی کتاب 'من حدیث شعر ونثر' کا ترجمہ 'شعرو نثر کی چند گفتگو' کے عنوان سے کیا۔ انہوں نے پی ایچ ڈی کا مقالہ ڈاکٹر تحسین فراقی کے زیر نگرانی لکھا، جس کا عنوان 'عربی اور اردو شاعری میں لیلیٰ مجنوں کی داستانوں کا تقابلی مطالعہ' تھا۔ کہتے ہیں یہ داستان عربی زبان سے ہے، حقیقت میں قیس اور لیلیٰ نجد میں بالکل عام لوگ تھے۔ وہ ایک دوسرے کے عشق میں مبتلا ہوئے، شادی نہ ہو سکی، تو قیس پاگل ہو گیا۔ جب یہ قصہ فارسی میں آیا، تو قیس بہت بڑے ولی اللہ بن گئے، لکھا گیا کہ وہ درندوں کی فوج میں شامل ہو کر لیلیٰ کے بھائی سے نبرد آزما ہوا۔ یہ زیب داستاں عربی میں موجود نہیں۔ یہاں صوفی حضرات کے ذریعے اسلام پھیلا، اردو ادب کی شروعات بھی اہل تصوف کے ذریعے ہوئی، اس لیے اُن کا اثر ہے۔
جامعہ الازہر میں اردو کے 'زنانہ' شعبے کا افتتاح ہوا، تو ڈاکٹر ابراہیم اس کے صدر بنے، جہاں 2006ءمیں وہ پروفیسر ہوگئے۔ شعبے میں 120 طالبات زیر تعلیم ہیں، (جامعہ الازہر میں تمام شعبے مردانہ اور زنانہ حصوں میں منقسم ہیں) شعبہ ¿ اردو کے زیر اہتمام ہر سال ترجمے یا تصنیف وتالیف وغیرہ کی ایک کتاب عربی میں شایع ہوتی ہے، جیسے ابھی اردو ادب وثقافت میں خواتین کا مقام' منظر عام پر آئی اور "مصر: اہل اردو کی نظر میں" شایع ہونے والی ہے۔ اس کے علاوہ 'اردویات' کے نام سے سالانہ مجلہ اردو اور عربی میں نکلتا ہے، سالانہ ایک کانفرنس یا سیمینار کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ رواں برس سیمینار میں 'اردو اسلامی ادب' کے عنوان سے ہوگا۔ ہم نے پوچھا کہ اس میں اسلامی کی تعریف کیا ہوگی، تو کہنے لگے کہ یہ اور اس نوع کی بحث بھی اسی میں ہوگی کہ آیا ادب کے اسلامی یا غیر اسلامی کا تعین ہو بھی سکتا ہے یا نہیں۔
جامعہ الازہر میں اردو کے نصاب کے حوالے سے ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم نے بتایا کہ وہاں اردو کی تاریخ، نشوونما، قواعد وغیرہ کے علاوہ ڈراما، تنقید، ترجمہ بھی پڑھایا جاتا ہے۔ اردو نثر اور شاعری صدی بہ صدی پڑھائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ شعبہ ¿ اردو میں دیوناگری رسم الخط بھی سکھایا جاتا ہے۔
ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم سے جب ہم نے یہ پوچھا کہ انہوں نے اردو پر عبور کتنے عرصے میں حاصل کیا، تو وہ بولے کہ 1979ءسے اب تک سیکھ ہی رہے ہیں، اسی لیے دنیا بھر کی ایسی کانفرنسوں میں جاتے ہیں، جہاں اہل زبان سے ملاقات ہو سکے، کتابیں حاصل ہوں اور ہماری اردو بہتر ہو۔ زبان آنے کے حوالے سے وہ اس 'پیمانے' سے متفق ہیں کہ یہ تب مانیے کہ جب آپ اُس زبان میں خواب دیکھنے لگیں اور اب وہ اردو میں خواب دیکھنے لگے ہیں، بلکہ خواب میں پاکستان بھی چلے آتے ہیں۔
مصر کی سیاسی صورت حال کے سوال پر انہوں نے صرف اتنا کہا کہ صورت حال بہترین ہے، مصر میں اکثر ہندوستانی فلمیں اور چینل دکھائے جاتے ہیں، لیکن وہ پاکستانی فلموں کا شوق انٹرنیٹ پر پورا کرتے ہیں۔ وہاں اردو کتابوں کا تھوڑا بہت حصول صرف پاکستانی سفارت خانے سے ہو پاتا ہے، کچھ وہ یہاں آکر لے جاتے ہیں۔ اس طرح وہاں ایک بہترین اردو کتب خانہ سجایا ہے۔
ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم کا خیال ہے کہ پاکستان میں بہت زیادہ تبدیلی آئی ہے، کہتے ہیں کہ میں اسے 'بگاڑ' نہیں کہہ سکتا، لیکن رجحان بدلا، 1985ءمیں ٹی وی پر بھی ایسے لباس نہیں ہوتے تھے، جیسے اب عام ہیں۔ یہ چیز مصر میں بھی بڑھی، مگر وہاں حجاب بھی زیادہ ہوتا جا رہا ہے۔ لوگوں میں مغربی اثرات بڑھے ہیں۔ اسے میں اچھا یا برا نہیں کہہ سکتا، لیکن جو بری چیز ہے وہ یہ ہے کہ اردو سے دوری ہو گئی ہے۔ انگریزی الفاظ کا اثر لینا بھی کوئی بات نہیں، لیکن دنیا بھر میں ملنے والے اکثر پاکستانی یہ کہتے ہیں کہ 'اردو بول کر کیا کریں، اس کا کوئی فائدہ تو ہے نہیں! اردو میڈیم میں پڑھیں گے، تو لوگ ہمیں جاہل سمجھیں گے۔'
ڈاکٹر ابراہیم کو شکایت ہے کہ وہ پاکستان میں اردو میں بات کرتے ہیں، لیکن انہیں جواب انگریزی میں ملتا ہے، کہتے ہیں کہ یہ تبدیلی مجھے بہت بری لگی۔ مغربی تہذیب میں بہت خوبیاں بھی ہوں گی، آپ بہترین انگریزی سیکھیں، لیکن آپ کی زبان آپ کا تشخص ہے، اس سے باہر نہ نکلیں۔ اُن کا خیال ہے کہ پاکستانی ہم سے زیادہ جذباتی ہیں، مشکل وقت میں اکٹھے ہو سکتے ہیں، کسی کٹھن لمحے میں نکلتے ہیں اور بات کرتے ہیں۔ میں پاکستانی بھائیوں کو کہوں گا کہ آپ کا ملک بہت خوب صورت اور ٹھیک ٹھاک ہے، کمی کے معنی سمجھنے ہوں تو کبھی مصر تشریف لائیں، جہاں لوگ صرف چھے فی صد رقبے پر رہ رہے ہیں، اور باقی 94 فی صد علاقہ صحرا ہے، مصر میں ہم بہت مشکل سے ایک درخت اُگاتے ہیں۔ یہاں تو جنگل کا جنگل ہے، یہ اللہ کی طرف سے بہت بڑی نعمت ہے، اپنی زبان اور ملک سے محبت کریں اور یہ آپ کے عمل سے واضح ہونی چاہیے۔
عرب دنیا میں پاکستانیوں کے برے تاثر کی بابت وہ کہتے ہیں مصر کا معاملہ مختلف ہے، اہل مصر کا پاکستانیوں سے محبت واحترام کا رشتہ ہے، دونوں عالم اسلام کے بڑے ممالک ہیں اور دونوں ممالک کی معاشی حالت اور خوبیاں وخامیاں بھی تقریباً یک ساں ہیں۔ دنیا بھر میں مصری اور پاکستانیوں کے درمیان جلد دوستیاں ہو جاتی ہیں۔ 1998ءمیں پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے، تو مصریوں نے بہت زیادہ خوشی کا اظہار کیا اور پاکستانی سفارت خانے کو چندے پیش کرنے لگے۔ یہ الگ بات ہے کہ دونوں حکومتوں کے درمیان تعلقات کبھی بہترین نہیں رہے، لیکن عوامی سطح پر یہ ناتے مضبوط تر ہیں۔
دیگر عرب ممالک میں پاکستانیوں کے بہتر تاثر نہ ہونے کا سبب اُن کے خیال میں 'طبقاتی فرق' ہے، کیوں کہ آجر واجیر کے درمیان تو شکوے شکایات ہو ہی جاتی ہیں، لیکن مجموعی طور پر باقی عرب دنیا بھی اہل پاکستان سے محبت میں بندھے ہوئے ہیں۔
شریک حیات کا تعلق چکوال سے ہے!
جب یہ تذکرہ ہوا کہ ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم کی شریک حیات ایک پاکستانی خاتون ہیں، تو ہم نے کہا بہت سے ماہرین، زبان سیکھنے کے لیے یہ نسخہ تجویز کرتے ہیں، کہ اُس زبان کی حامل خاتون سے شادی کر لیں، جس پر وہ کہنے لگے چلیے پھر اس کا یہ رخ بھی تو دیکھیے کہ کوئی زبان سیکھنے کے لیے کتنی قیمت دینا پڑتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم مصر میں آنکھ بند کر کے شادی نہیں کرتے، ایک دوسرے کو جاننا یا کم سے کم دیکھنا ضروری ہے۔ بچے اپنا شریک حیات خود چنتے ہیں، والدین بچوں کی شادی کرانا چاہیں، تو اس میں ان کی رضا مندی ضروری ہے، لیکن یہ فریضہ اپنے رسم ورواج کے مطابق ادا کیا جاتا ہے۔ اپنی شادی کے حوالے سے ڈاکٹر ابراہیم کہتے ہیں کہ ہم دونوں ڈاکٹر ظہور احمد اظہر کے شاگرد تھے، انہی کے توسط سے رشتہ بھیجا، کافی مرتبہ انکار کے بعد یہ رشتہ منظور ہوا اور یوں وہ 1993ءمیں رشتہ ازدواج میں بندھے، اہلیہ تبسم منہاس بھی انہی کے شعبے سے منسلک ہیں، اور اردو کی محبت میں بلا معاوضہ کام کر رہی ہیں۔ اُن کے خاندان میں اس سے پہلے کسی نے بھی ملک سے باہر شادی نہیں کی۔ اُن کا سسرال چکوال سے ہے، تاہم فیصل آباد اور لاہور میں سکونت پذیر ہے۔ ڈاکٹر ابراہیم کا ایک بیٹا دانش ہانگ کانگ میں انجینئر ہے، بیٹی 'دنیا' مصر میں اِبلاغ عامہ پڑھ رہی ہیں۔ بچے عربی، اردو اور انگریزی بولتے ہیں۔ وہ خود کو پاکستان اور مصر کے درمیان مضبوط رابطہ قرار دیتے ہیں، اُن کے بقول مصریوں اور پاکستانیوں کے درمیان جتنی شادیاں اُن کے علم میں آئیں، وہ بدقسمتی سے چل نہ سکیں۔ چند ایک جو کام یاب ہیں، وہ کسی تیسرے ملک میں رہ رہے ہیں۔ اُن کا ماننا ہے کہ ہم مسلمان ضرور ہیں، سماجی وثقافتی اعتبار سے کافی مختلف ہیں، ایسی شادیوں میں فریقین کو زبردست محبت اور قربانی دینا ہوتی ہے، اس کے بغیر زندگی اچھی نہیں ہو سکتی۔
"عربی کے تین مرکزی اسلوب ہیں"
ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم کہتے ہیں کہ عربی ایک ہی زبان ہے، جس کے مرکزی طور پر تین اسلوب ہیں، ایک مصری اور ایک خلیجی ہے، جب کہ تیسرا اسلوب مراکش اور الجزائر میں برتا جاتا ہے۔ عالم عرب میں مصری اسلوب زیادہ مقبول ومعروف ہے۔ ذرایع اِبلاغ اور فلموں میں بھی یہی روا ہے۔ عربی میں بول چال کے فرق کو بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر ابراہیم کہتے ہیں کہ مصر اور خلیج کی عربی میں فرق کچھ اس طرح ہے جیسے 'لڑکا اسکول گیا' اور 'لڑکا اسکول کی طرف روانہ ہوا۔' مصر میں ہم کسی کا حال دریافت کرنے کے لیے پوچھتے ہیں 'آپ کی پوشاک کیسی ہے؟' (یہ اس فقرے کے لغوی معنی ہیں) کیوں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا حال ہمارے لباس سے واضح ہوگا۔ عراق وغیرہ میں حال پوچھنے کے لیے کہتے ہیں 'آپ کے چہرے کا رنگ کیسا ہے؟' کیوں کہ وہ حال کو چہرے کی رنگت سے منسلک کرتے ہیں۔ دونوں عربی ہیں، اور دونوں کا مفہوم مخاطب کا حال دریافت کرنا ہے، لیکن اسلوب جدا ہے۔ عربی زبان میں سائنس کے الفاظ میں انگریزی کا اثر ہے، لیکن وہاں پاکستان کے 'ادارہ فروغ قومی زبان' (سابقہ مقتدرہ قومی زبان) کے طرز پر ایک ادارہ ترجمہ کرتا ہے، جو باقاعدہ سختی سے رائج کیا جاتا ہے، کہ یہ قرآن کی زبان ہے۔ پھر بھی کچھ انگریزی الفاظ عربی میں آجاتے ہیں، جیسے ٹیلیفون وغیرہ۔
اردو سیکھتے ہوئے عربی الفاظ الجھاتے ہیں!
ایک عربی دان ہوتے ہوئے اردو سیکھنے کے تجربے کے ذکر پر ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم کہتے ہیں کہ اردو کا عربی ذخیرہ ¿ الفاظ ہمارے لیے آسانی تو ہے، لیکن یہی سہولت بعض اوقات مشکل بن جاتی ہے، کیوں کہ عربی کے اکثر الفاظ بہ ذریعہ فارسی آئے، اس لیے اُن کے معنی بدل گئے۔ جیسے عربی میں ضعیف کے پہلے معنی کم زور کے ہیں، لیکن اردو میں ضعیف سے مراد بوڑھا لیا جاتا ہے۔ اردو سیکھتے ہوئے جب ہم عربی الفاظ پڑھتے ہیں، تو ہم اس کے عربی معنوں میں الجھ جاتے ہیں۔ عربی سامی خاندان سے، جب کہ اردو کا تعلق آریائی قبیل سے ہے، دونوں زبانوں کی جملہ بنانے کی تراکیب مختلف ہیں۔ اردو میں فعل آخر میں، جب کہ عربی میں شروع میں آتا ہے۔ یہ امر زبان سیکھتے ہوئے الجھن کا باعث بنتا ہے اور شروع میں یہ بہت دشوار بھی محسوس ہوتا ہے۔ ڑ، ڈ، ٹ، پ، ژ وغیرہ مشکلات پیدا کرتے ہیں۔
ڈاکٹر ابراہیم عربی کے رسم الخط کے حوالے سے کہتے ہیں کہ یہ بالعموم 'خط نسخ' میں لکھی جاتی ہے، لیکن ہاتھ سے لکھی جانے والی عربی تحریر میں سہولت کے لیے 'خط رقعہ' اختیار کیا جاتا ہے، جب کہ 'خط ثلث' اور 'خط نستعلیق' بھی رائج ہے۔ عربی میں ہر لفظ کے بے شمار مترادفات کے حوالے سے جب ہم نے کہا کہ اس کے مقابلے میں اردو میں ہر لفظ کے لیے اتنے زیادہ مترادفات نہیں، تو انہوں نے کہا اردو میں بھی دیکھیے تو 'موت' کے لیے کتنے الفاظ مستعمل ہیں، فوت ہو گیا، مر گیا، گزر گیا، لقمہ اَجل بن گیا، موت کے گھاٹ اتار دیا گیا وغیرہ۔ تاہم عربی اس حوالے سے کافی مالا مال اور قدیم زبان ہے، اس کا اردو سے کوئی تقابل نہیں۔
'سرسید اپنے ناقدین کے توسط سے متعارف ہوئے'
ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم نے میر تقی میر، اسد للہ غالب اور علامہ اقبال کے علاوہ پروین شاکر کے کلام کو عربی کے قالب میں ڈھالا ہے۔ کہتے ہیں کہ ہندی، چینی اور جاپانی کے برعکس اردو کے نام سے اس کا 'دیس' واضح نہیں، اسی سبب لوگ استفسار کرتے ہیں کہ یہ کہاں کی زبان ہے۔ وہ 1977ءکے بعد پاکستان سے متعارف ہوئے، اس کی وجہ ذوالفقار علی بھٹو کی اقتدار سے معزولی اور سزائے موت تھی، جس کے بعد مصری صدر کی طرف سے اُن کی معافی کی درخواست کی تھی۔ اس سے قبل تنازع کشمیر کے حوالے سے کبھی پاکستان کا نام کان میں پڑ جاتا تھا۔ 1995ءاور 2005ءمیں انہیں 'ہائر ایجوکیشن کمیشن' (پاکستان) کی طرف سے جامعہ پنجاب میں کنٹریکٹ ملا، 2011 ءمیں وہ واپس مصر چلے گئے، تاہم سال میں دو تین مرتبہ یہاں آتے ہیں۔ 2017ءمیں جامعہ کراچی میں سرسید احمد خان کی صد سالہ پیدائش پر منعقدہ کانفرنس میں مقالہ 'مصر کی جامعات میں سرسید کا مطالعہ' پڑھا۔ اُن کے بقول مصر میں سرسید اپنے ناقدین کے ذریعے متعارف ہوئے، جمال الدین افغانی کا پیرس سے نکلنے والا عربی پرچا مذہبی حلقوں میں بطور خاص پڑھا جاتا تھا، بعد میں سرسید کے موافق مواد بھی آیا، تو سرسید کا مثبت رخ واضح ہوا۔ الازہر کے شعبہ ¿ اردو میں سرسید کی زبان وادب کی خدمات پڑھائی گئیں، ان پر مقالے لکھے گئے، جس سے اُن کی مکمل شخصیت سامنے آئی۔