جامعہ کراچی میں گاﺅن نہ پہننے پر نکالا گیا تو دوبارہ کلاس میں نہ گیا معروف شاعر جاوید صبا کی کتھا
ضیاالحق کے مارشل لا کے خلاف زمانہ طالب علمی کی نظم بہت مشہور ہوئی
RAWALPINDI:
جاوید صبا نے 5 مئی 1958ءکو شہر قائد میں آنکھ کھولی مشکل معاشی حالات میں ہوش سنبھالا والدین پڑھے لکھے تھے اس لیے تعلیم پر توجہ رہی، والدین کی مرضی سے 'سائنس' لی۔ لیاقت آباد نمبر چار کے ایک اسکول سے میٹرک کیا، اس کے بعد اسلامیہ کالج سے انٹر اور اردو سائنس کالج سے بی ایس سی کے مراحل طے ہوئے، 1978ءمیں جامعہ کراچی میں ارضیات (جیولوجی) کے طالب علم ہو گئے۔
جامعہ کراچی میں غیر نصابی سرگرمیوں میں توجہ زیادہ تھی، پروگریسو فرنٹ سے وابستہ رہے۔ طلبہ یونین کے انتخابات سے 'تھنڈر اسکواڈ' کے چرچے تک، سب انہی کے سامنے کے قصے ہیں کہ جب بات ہاتھا پائی سے بڑھ کر قتل تک جا پہنچی، پھر اسی زمانے میں طلبہ طیارہ اغوا کرنے میں بھی ملوث ہوئے۔ ایم ایس سی 'سال اول' میں گاﺅن نہ پہننے پر کلاس سے نکالا گیا، تو پھر کبھی کلاس میں نہ گئے، لیکن کوئی سات آٹھ برس جامعہ کراچی میں ہی دوستوں کے حلقے میں گزارے۔ اِسے وہ زندگی کے 'قیمتی سال' بتاتے ہیں کہ اس دوران لکھنے پڑھنے کی سمجھ بوجھ ملی۔ بڑے لوگوں سے ملاقاتیں رہیں اور شاعری کو مہمیز ملی۔
اُن کا اصل نام تو سید حسن جاوید ہے، لیکن مشہور وہ 'جاوید صبا' کے نام سے ہیں۔ ہمیں لگا کہ شاید اس کا کوئی دل چسپ پس منظر ہوگا، مگر وہ اس کی تردید کرتے ہیں کہ ایسا نہیں، بس جامعہ کراچی کے زمانے میں کسی طرح نام کے ساتھ 'صبا' جڑ گیا، کیسے؟ یہ یاد نہیں۔ اب تو لوگوںنے 'صبا' ہی کہنا شروع کر دیا۔ جاوید صبا کہتے ہیں کہ 'اردو میں کبھی اچھے نمبر نہ ملے۔ امتحان میں اشعار کی تشریح کرتے ہوئے فرضی شعرا کے اشعار گھڑ دیتا کہ "فلاں" نے بھی اس حوالے سے کچھ اس طرح کہا ہے، یہ سراسر ممتحن کی آنکھ میں دھول جھونکنے والی بات تھی۔'
شاعرانہ ذوق کی آب یاری کے باب میں جاوید صبا بتاتے ہیں کہ سات، آٹھ برس کے تھے، گھر میں محرم کی مجالس کے دوران والد انہیں منبر پر بٹھا کر میر انیس کے کچھ بند پڑھواتے، جس میں وہ اچھے تلفظ کی داد پاتے۔ نویں جماعت میں ایک ٹھیلے سے بنا سرورق کی ایک شاعری کی کتاب ہاتھ آئی، جس سے صحیح معنوں میں شاعری کا مطالعہ شروع ہوا۔ بعد میں پتا چلا کہ وہ ساحر لدھیانوی کا کلام تھا۔ جب کتابیں خریدنے کے پیسے نہ ہوتے، تو کتب خانوں سے استفادہ کرتے، دوستوں سے مستعار لیتے اور چرا بھی لیتے۔
کالج کے زمانے میں ریڈیو پاکستان کے لیے آڈیشن دیا۔ ڈیڑھ ہزار میں سے 52 امیدوار منتخب ہوئے، جن میں ایک وہ بھی تھے۔ 1978ءمیں مشہور پروگرام 'بزم طلبا' کے ایک مشاعرے میں حصہ لیا، جسے کافی سراہا گیا، اس کے بعد سخن آرائی کی طرف سنجیدہ ہوئے۔ ایک نظم جنرل ضیاالحق کے مارشل لا کے خلاف لکھی، جو پوری جامعہ میں مشہور ہوئی، جس کے الفاظ کچھ یوں تھے کہ 'ہمارے ٹکڑوں پہ پلنے والے ہمیں کو آنکھیں دکھا رہے ہیں' 1978-79ءمیں احمد نوید کے بھائی حسنین جعفری کے توسط سے رضویہ سوسائٹی میں پہلی بار مشاعرے میں شریک ہوئے اور بڑے شعرا کو قریب سے دیکھا۔ اس کے بعد جون ایلیا، عبید اللہ علیم اور جمال احسانی وغیرہ جیسے لوگوں کا حلقہ میسر آیا۔ 1982-83ءمیں پہلی غزل کہی۔ جاوید صبا کہتے ہیں کہ شاعری کا جنون تھا کبھی اصلاح نہیں لی، خود ہی ٹھیک کر لیتا تھا۔ 1985-86ءمیں ایک غزل کہی تو جمال احسانی کو مطلع سنایا
ملنا بھی پڑ گیا تو خوشی سے نہیں ملے
تم سے نہیں ملے تو کسی سے نہیں ملے
انہوں نے مصرع اولیٰ کو مصرع ثانی کرا دیا، ان کی یہ غزل بہت مشہور ہوئی۔ 1988ءمیں جاوید صبا کی شاعری کی پہلی کتاب 'عالم میرے دل کا' شایع ہوئی۔ وہ کہتے ہیں کہ 'میں اس پر 200 مضامین لکھوا سکتا تھا، لیکن میں نے نہیں لکھوائے کہ اگر کلام میں طاقت ہوئی تو چلے گا۔' اس کے بعد سات آٹھ برس ذہنی طور پر پریشانی کے سبب بالکل بھی شاعری نہ کر سکے کہ بغیر کیفیت کے شاعری کے وہ قائل نہیں، طبیعت رواں ہوئی، تو شعر کہے، دوسری کتاب 'کوئی دیکھ نہ لے' 2013ءمیں آئی، تو اس میں پہلی کتاب کی دس غزلیں شامل کیں۔ سخن وری کی رفتار کے سبب گزشتہ 10 برس کو وہ اپنی شاعری کا دور قرار دیتے ہیں۔ عن قریب نظموں اور غزلوں کی الگ الگ کتابیں شایع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
جاوید صبا اپنے کلام کی اشاعت سے قبل کڑے انداز میں انتخاب کرتے ہیں۔ ساتھ ہی اپنے جونیئرز کی رائے بھی لیتے ہیں کہ جو اچھا نہیں اسے رد کرو۔ کتاب کی اشاعت سے پہلے ایک ڈیڑھ ماہ اس مرحلے میں لگتا ہے۔ اگر کسی مسترد شعر میں کوئی خیال اچھا ہو تو اُسے لکھ لیتے ہیں، تاکہ اسے نئے انداز سے رقم کر سکیں۔ کہتے ہیں کہ غالب جیسے استاد بھی ایک مصرع پر تین، تین مصرع لگاتے، پھر ایک منتخب کرتے۔
جاوید صبا کے بقول وہ لابیوں کے سبب پی ٹی وی نہیں گئے۔ پہلی کتاب آنے کے بعد دبئی میں مشاعروں کے روح رواں سلیم جعفری انہیں 1993ءمیں دبئی جشن جگن ناتھ آزاد میں لے گئے، یہ ان کا ملک سے باہر پہلا مشاعرہ تھا۔ اس کے بعد ہندوستان اور امریکا وغیرہ جانا ہوا۔ جس کا ذریعہ 'سماجی ذرایع اِبلاغ' (سوشل میڈیا) بنا۔ جاوید صبا کراچی آرٹس کونسل میں بھی فعال رہے، کہتے ہیں کہ غالباً 1998-99ءمیں انہوں نے اور احمد شاہ نے ایک گروپ میں انتخاب لڑا، پھر گورننگ باڈی میں رہے، ادبی کمیٹی کے چیئرمین رہے۔ 2008 میں ہونے والی 'پہلی عالمی اردو کانفرنس' کو دستاویزی شکل بھی دی، لیکن گزشتہ چار پانچ برس سے بوجوہ غیر فعال ہوگئے۔
جاوید صبا 1983ءمیں تعلیم مکمل کرنے بلوچستان گئے، مقصد یہ تھا کہ یک سو ہو کر پڑھ سکیں۔ 1985ءمیں ایم ایس سی کیا اور کراچی لوٹ آئے۔ 1988ءمیں 'سویرا' اخبار میں نوکری ملی، سو اسے ہی مستقل پیشہ بنا لیا۔ اس سے پہلے ٹیوشن پڑھائیں، لیکن باقاعدہ ملازمت نہیں کی۔ ایک سال بعد بلوچستان کے اخبار 'انتخاب' میں آگئے، وہاں ڈھائی برس اداریے اور قطعات لکھے۔ کہتے ہیں کہ روزانہ قطعات کا ان کے پاس کوئی ریکارڈ نہیں، البتہ وہاں وہاں سارے نسخے موجود ہیں۔ 1994ءمیں وہ روزنامہ 'جنگ' کا حصہ بنے۔ سٹی ڈیسک اور مرکزی ڈیسک پر رہے، پھر کامرس ڈیسک اُن کے سپرد ہوئی تو پریشان ہوئے، کہ کامرس کا کچھ تجربہ نہ تھا، لیکن وہ کام بھی بہ حسن وخوبی کیا۔ 2003ءمیں 'اے آر وائے نیوز' چلے گئے، جہاں نامہ نگاری کے علاوہ دستاویزی فلمیں بھی تیار کیں، اس کے بعد 2008ءمیں کچھ ماہ 'سما نیوز' میں رہے، پھر 2009ءسے 'ایکسپریس نیوز' کا فعال حصہ ہیں۔
'اسکرپٹ رائٹنگ' پر اظہار خیال کرتے ہوئے جاوید صبا تحریر میں کہانی پن پر زور دیتے ہیں کہ علامتی کہانیاں بہت لکھی گئیں، مگر وہ نہ چل سکیں۔ کہانیاں ہی ہماری ذہنی بلوغت میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ہمارے ڈراموں میں کہانی کے مختلف حصوں کو باہم مربوط کیا جاتا ہے، لیکن پروگراموں میں اس کی کمی ہے۔ دوسری بڑی خامی زبان کی کم زوری ہے۔ کلام پاک میں تو 'ق' بالکل درست ادا کرتے ہیں، مگر بول چال میں 'ق' خراب ہو جاتا ہے۔ جب آپ ٹیلی ویژن پر آتے ہیں، تو آپ کا تلفظ اور املا درست ہونا چاہیے۔ اس کے لیے بعض چینلوں نے ماہرین لفظیات مقرر کیے ہیں۔ ڈراموں میں ایسے سماجی مسائل پر کام ہو رہا ہے، جن پر پہلے سوچا نہیں جا سکتا تھا، ہم ناسٹلجیا کی وجہ سے پرانے ہی پسند کریں گے، مگر نئی نسل کا مزاج بالکل مختلف ہے۔
جاوید صبا نے مشاعروں کے معیار کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ایک مرتبہ ہندوستان سے مشاعرے کے منتظمین نے کوئی شاعرہ تجویز کرنے کو کہا، ، انہوں نے ایک نام لیا، تو وہ بولے کہ "دیکھنے میں کیسی ہیں؟" یہ سن کر وہ سٹپٹا گئے اور پھر خود بھی معذرت کرلی۔ کہتے ہیں کہ خود کراچی میں بھی مشاعرہ کرنے والوں کو غالب کے اشعار کا پتا نہیں ہوتا۔ ان میں سے ایک صاحب سے تفریحاً کہا کہ ہندوستان سے شاعروں کو بلاتے ہیں، قائم چاند پوری کو تو کبھی نہیں بلایا، تو وہ کہنے لگے کہ ان کا پتا بتائیے ہم بلا لیں گے، جب کہ قائم چاند پوری کو گزرے ہوئے ڈھائی سو برس ہو چکے۔
جاوید صبا مشاعروں میں اچھے ترنم کے حق میں ہیں، کہتے ہیں 'فلمی ترنم نہ ہو، اب تو گانا ہوگیا ہے، منظر بھوپالی بہت بُرے شاعر ہیں، مگر ترنم کی وجہ سے مشاعروں میں سب سے کام یاب ہیں۔ اس کے برعکس بھارت بھوشن پنت اور انجم بارہ بنکوی ان تمام چیزوں سے دور ہیں، اس لیے آگے نہیں، ہندوستانی شعرا میں وہ راحت اندوری کو بہت سراہتے ہیں۔ ادب میں گروہ بندیوں کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ کچھ لوگوں کی ہر جگہ اجارہ داری ہے، ذرایع اِبلاغ ہی نہیں، انہوں نے تو اپنی زندگی میں ہی کراچی میں اپنے نام کی سڑکیں بنوالی ہیں۔ ان کی کوئی وقعت نہیں، لیکن اس جعلی شہرت سے ان کے بچوں کو نوکری مل جاتی ہے، وہ ملک سے باہر چلے جاتے ہیں اور ان کی بچیوں کی اچھی جگہ شادی ہو جاتی ہے۔
جاوید صبا میدان سخن میں احمد فراز، جمال احسانی، جون ایلیا اور عبیداللہ علیم سے متاثر ہیں، کہتے ہیں کہ ظفر اقبال باکمال آدمی ہیں، لیکن میری کیفیت ان کی کیفیت سے نہیں ملتی، اس لیے مجھے ان کی شاعری اچھی نہیں لگی۔ نئے شعرا کے حوالے سے جاوید صبا کہتے ہیں کہ صورت حال مایوس کن نہیں، نئے لوگ نئے تجربے کرتے ہیں، ہم نے بھی کیے، لیکن اگر وہ اپنے کلاسیکی ورثے سے جڑے رہیں گے، تو اچھا ہوگا۔ بدقسمتی سے ہم فارسی سے کٹ گئے، جب کہ ہمارے بڑے اس سے استفادہ کرتے تھے۔
٭ جب جون ایلیا کو ایم کیو ایم والے اٹھا کر لے گئے
جاوید صبا کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم اپنے ابتدا میں ٹھیک رہی، تب یہ بات بھی مشہور تھی کہ اگر کوئی کارکن غنڈہ گردی کرے اور الطاف حسین کو اس کی خبر ہو جائے، تو اس کو مار پڑتی ہے، مگر پھر بعد میں صورت حال خراب ہو گئی۔ جب ایم کیو ایم نے 'جنگ' اخبار کا بائیکاٹ کیا تو مجال ہے کہ ایک اخبار بھی تقسیم ہوا ہو، 'جنگ' کی ڈیسک کے زمانے میں ہم پر بہت دباﺅ ہوتا اور ان کی طویل پریس ریلیز کاٹ نہیں سکتے تھے۔ ایک مشاعرے میں ایم کیو ایم کے چیئرمین عظیم احمد طارق آئے، سب استقبال کے لیے کھڑے ہوگئے، اس وقت جون ایلیا شعر پڑھ رہے تھے، وہ کھڑے نہ ہوئے کہ یہ شعر کا ادب ہے۔ آنے والے کو چاہیے کہ وہ ٹھہر کر آئے، مگر ایسا نہ ہوا۔ جون ایلیا اس پر بڑبڑائے کہ یہ کیا طریقہ ہے۔ بس اس واقعے کے بعد ایم کیو ایم کے لڑکے آئے، اور وہ جون ایلیا کو اٹھا کر لے گئے اور ان پر تشدد بھی کیا۔ کسی اخبار میں اس واقعے کی خبر چھاپنے کی بھی جرا ¿ت نہ تھی، سوائے ڈان یا خیبر پوسٹ کے۔ اس کے بعد جون صاحب خائف ہو کر گھر بیٹھ گئے اور مشاعروں میں جانا چھوڑ دیا۔
دوسرے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے جاوید صبا کہتے ہیں کہ 'اس کا گواہ میں خود ہوں، ایک مشاعرے کے غالباً مہمان خصوصی الطاف حسین اور صدر عبیداللہ علیم تھے، دیگر نئے پرانے بہت سے شاعر جن میں صغیر ملال، سلیم کوثر اور صابر ظفر وغیرہ بھی شریک تھے، نصیر ترابی نظامت کر رہے تھے۔ میں، جمال احسانی اور اجمل سراج اسٹیج پر ساتھ ساتھ بیٹھے تھے۔ الطاف حسین نے اپنی تقریر میں علامہ اقبال اور فیض احمد فیض کے خلاف بات کی، جس پر اجمل سراج نے کہا کہ یہ اب شاعری پر بھی بولیں گے۔ یہ بات اسٹیج کے پیچھے کھڑے ہوئے لڑکوں نے سن لی ہوگی، جمال احسانی نے یہ محسوس کرلیا، اور مجھ سے کہا کہ اجمل سراج کے ساتھ ساتھ رہنا، لیکن مجھے اس وقت سمجھ میں نہ آیا، میں باہر نکل کر کسی سے سلام دعا کر رہا تھا کہ اچانک اجمل کی چیخ بلند ہوئی تو دیکھا کہ اجمل سراج کو ایک گاڑی میں ڈال کر لے جا رہے ہیں۔ عبیداللہ علیم کو پتا چلا، تو وہ مجھے لے کر نائن زیرو پہنچے، تو وہی صاحب جو اٹھا کر لے گئے تھے وہاں موجود تھے، انہوں نے تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے بڑی آﺅ بھگت کی، عبیداللہ علیم نے کہا فوراً میری الطاف حسین سے بات کرائیں، فون پر بات کی، تو انہیں کچھ پتا ہی نہ تھا کہ پیچھے ان کے کارندوں نے کیا کر دیا ۔ انہوں نے عبیداللہ علیم کی شکایت سن کر بہت معذرت کی ارے علیم صاحب ایسا ہو گیا وغیرہ وغیرہ۔ اس کے پندرہ، بیس منٹ میں اجمل سراج آگئے۔ اُن کے ہوش اڑے ہوئے تھے، شاید انہیں ڈرایا دھمکایا ہوگا۔ اس کے علاوہ بھی اس شہر میں بھتا خوری کی گئی۔ 'جنگ' میں کام کرنے کے زمانے میں رات کو گھر لوٹتے ہوئے ہماری بسیں روک کر رینجرز تلاشی لیتی تھی، یہ بے عزتیاں توسہی ہیں ہم نے اس شہر میں۔ صرف ایم کیو ایم نے نہیں، ساری جماعتوں کو دیکھیے، تو انہوں نے کیا کیا ہے۔ میں ابھی سندھ گیا، وہاں غربت کا یہ عالم ہے کہ بچے پھٹے ہوئے کپڑے اور ننگے پیر کھڑے 10 روپے کے عوض تین، تین کلو مچھلیاں بیچ رہے تھے، پنجاب کے دیہات میں بھی بہت غربت ہے۔ 70 سال میں ہم نہ نظریاتی طور پر ٹھیک ہو سکے نہ معاشی طور پر کچھ کر سکے۔
٭"شبیر تو دیکھے گا!"
جاوید صبا گزشتہ نو برس سے 'ایکسپریس نیوز' کے پروگرام 'شبیر تو دیکھے گا' نہایت کام یابی سے لکھ رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اس منفرد پروگرام کے لیے ہم روزانہ اخبار سے ایسی خبریں تلاش کرتے، جن کے مفصل احوال پر پروگرام لکھا جا سکے۔ اس پروگرام کا نام رکھنے کا ماجرا سناتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ آزمائشی طور پر میرپور خاص میں دو گروہوں میں تصادم کی خبر پر پروگرام لکھا، تو سوال ہوا کہ کیا یہ عام ناظر کی سمجھ میں آئے گا، اس کے لیے انتظامی عملے کے رکن شبیر کو بلا کر کہانی سنائی، اُس نے اثبات میں جواب دیا۔ اس دوران کسی نے پوچھا کہ یہ پروگرام دیکھے گا کون؟ تو جاوید صبا نے بے ساختہ کہا کہ 'شبیر تو دیکھے گا!' اسی دوران انہیں محسوس ہوا کہ نام بھی یہی رکھا جا سکتا ہے، مگر بات آئی گئی ہوگئی، بعد میں کوئی نام طے نہ ہو سکا، انہوں نے اسی نام پر اصرار کیا، شعبہ، مارکیٹنگ کی رائے ملی کہ یہ نام چلے گا۔ یوں پھر انہوں نے اس میں شبیر نام کا ایک کردار بنا دیا، جس کے بے باک ہونے کو وہ مقبولیت کا اہم سبب سمجھتے ہیں۔ صحافی وسعت اللہ خان نے شبیر نام کے مذہبی پس منظر کی وجہ سے خدشات ظاہر کیے، لیکن وہ پراعتماد تھے اور یوں یہ پروگرام آج بھی کام یابی سے رواں دواں ہے۔ اس کی بنیاد چار سطری خبر ہوتی ہے، جس کی مفصل کہانی کو اس میں عکس بند کیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں یہ حقیقی کہانیاں ہونے کے سبب ہی مقبول ہیں۔ بیرون ملک پاکستانیوں میں بھی یہ پروگرام اتنا مشہور ہوا کہ جس نے دیکھا نہ بھی ہو، مگر نام ضرور سنا ہوتا ہے۔ اس کی اب تک ساڑھے پانچ سو سے زائد اقساط ہو چکی ہیں۔ 'شبیر تو دیکھے گا' کو کتابی شکل میں لانے کا سوال کیا، تو انہوں نے بتایا کہ بہت سے ناشرین کہہ رہے ہیں، مگر اس میں ایک قباحت یہ ہے کہ یہ ٹی وی کی زبان میں ہے، اسے کتابی شکل میں دینے کے لیے اس کی ازسرنو تدوین کرنا پڑے گی۔ وہ چاہتے ہیں کہ فی الحال بیس، تیس کہانیوں کو کتابی شکل میں لایا جائے۔
٭تخلیقی تحریر کمپیوٹر پر نہیں لکھ پاتا!
جاوید صبا پروگراموں کے لیے اپنی تحریریں (اسکرپٹ) کمپیوٹر کے بہ جائے ہاتھ سے لکھنے کے عادی ہیں، اُن کا خیال ہے کہ ہاتھ سے لکھنے اور کمپیوٹر پر لکھنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اُن کا ماننا ہے کہ شاعری یا تخلیقی کہانی کمپیوٹر پر نہیں لکھ سکتے، یہ میرا ذاتی تجربہ ہے، کیوں کہ کمپیوٹر پر لکھتے ہوئے، کی بورڈ کی آواز بھی ہماری یک سوئی میں مخل ہوتی ہے۔ مجھے شور اچھا نہیں لگتا۔ شاعری لکھتے ہوئے خوش گوار آواز بھی اچھی نہیں لگتی۔ ہاتھ سے اسکرپٹ لکھنے میں بیس سے پچیس منٹ لگتے ہیں، جب کہ کمپیوٹر پر کوشش کے باوجود نہیں لکھ پایا۔ جاوید صبا شاعری کے لیے رات کے وقت کو موزوں کہتے ہیں، لیکن کسی مقررہ وقت کے قائل نہیں۔ کبھی کبھی دفتر کی چھٹی کر کے شاعری پر توجہ مرکوز کرنے کو جی چاہتا ہے، مگر دفتر آنا پڑتا ہے، ان کا ایک شعر بھی ہے
ذہن پہ بوجھ رہا یومیہ مزدوری کا
کھاگیا ایک غزل آج بھی دفتر میرا
ان کا خیال ہے کہ شاعری کے لیے موزوں فضا دو گھنٹے کے بعد نکل جاتی ہے، اس وقت توجہ نہ دی تو پھر وہ شعر نہیں ملتا۔
٭"انتخاب" میں شریک حیات کا انتخاب
جاوید صبا کے والدین کا تعلق غازی پور (یو پی) سے تھا۔ والد نیشنل بینک میں ملازم تھے، نارتھ کراچی میں رہائش رہی، 10 برس قبل ان کا انتقال ہوچکا، والدہ بقید حیات ہیں۔ تین بہنیں، چار بھائیوں میں جاوید صبا سب سے بڑے ہیں۔ شاعری کی طرف صرف انہی کا رجحان رہا۔ ایک چھوٹے بھائی فلسفے کے استاد ہیں۔ ایک بھائی میٹرک میں تھے کہ حادثے کی نذر ہو گئے، دوسرے بھائی کا کچھ برس پہلے دل کے دورے کے سبب انتقال ہوا۔ جاوید صبا کی شادی 1991ءمیں ہوئی، شریک حیات صوفیہ نیلم ان کے ساتھ 'انتخاب' اخبار میں کام کرتی تھیں، وہیں انہیں پسند کیا اور شادی ہوئی۔ تین بیٹے اور ایک بیٹی کے والد ہیں۔ بڑے بیٹے نے اِبلاغ عامہ میں ماسٹرز کیا ہے اور ایک اِبلاغی ادارے سے وابستہ ہیں۔ ایک بیٹا بی بی اے اور دوسرا نفسیات میں بی ایس کر رہے ہیں، بیٹی نہم کی طالبہ ہے، جو انگریزی کہانیاں لکھتی ہے۔ اہلیہ ایک تعلیمی ادارے میں اے لیول کے طلبہ کو اردو پڑھاتی ہیں۔
٭صرف اردو کے سہارے باعزت زندگی نہیں گزار سکتے!
جب جاوید صبا نے اپنے بچوں کے انگریزی میں لکھنے کا ذکر کیا، تو ہم نے اردو سے وابستگان کے اَگلوں کی اپنی زبان سے دوری کا دکھڑا کہا، جس پر وہ بولے اردو میں زندگی گزارنا کٹھن ہے، یہ بہت تلخ بات ہے۔ پاکستان میں آپ صرف اردو کے سہارے باعزت زندگی نہیں گزار سکتے! آپ کو فرفر انگریزی آتی ہو تو آپ کا مرتبہ بھی ہوگا اور نوکری بھی مل جائے گی، انگریزی کے علاوہ دیگر قابلیت کے بہ جائے شکل صورت دیکھی جاتی ہے اور اگر خاتون ہو تو پھر برہنگی کو بھی 'اہلیت' کا معیار بنا دیا گیا ہے۔ میرے بچوں کی اردو بہت اچھی ہے، لیکن اس میں وہ کیرئیر نہیں بنا سکتے! ہمارے گھر کا ماحول اردو کا ہے۔ ہم ان کی زبان کی تربیت بھی کرتے ہیں۔ وہ بچوں کو مختلف مضامین پڑھاتے رہے ہیں، اب ہر اتوار کو ناشتے کے بعد ادب پر بیٹھک کا اہتمام رہتا ہے، تاکہ انہیں اپنے ادب سے متعلق زیادہ سے زیادہ پتا چلے۔ ذخیرے میں موجود ڈھائی تین ہزار کتب سے بچے بھی شوق کرتے ہیں۔
٭'جب ہم نے اپنا رسالہ نکالا!
طالب علمی کے زمانے میں اپنا رسالہ نکالنے کا قصہ سناتے ہوئے جاوید صبا کہتے ہیں کہ 'ایک مرتبہ مجھے اور حسن ظہیر کو 'کراچی پریس کلب' کے دروازے پر روک لیا گیا تو ہم نے کہا کہ ہم اپنا پریس کلب خود بنائیں گے، حسن ظہیر نے ایک رسالے کا ڈیکلریشن کرائے پر لیا اور جامعہ کے ایک دوست نے پیسے لگائے، مگر پرچا نکل نہ سکا۔ ایک اور پرچا 1978ء1979ءمیں 'جواں فکر ' کے نام سے نکالا، جس کے 20، 25 صفحات کے سارے مضامین اور شاعری وغیرہ انہوں نے اور حسن ظہیر نے خود لکھی۔ حسن ظہیر کے والد نیشنل بینک میں تھے، یوں 500 روپے کا ایک اشتہار مل گیا۔ پرچا چھپ بھی گیا۔ دو ڈھائی سو نسخے چھپ کر آئے، تو یوں لگا جیسے دنیا فتح کر لی ہو۔ پھر یہ معلوم کیا کہ سب سے بڑی تقسیم کار طاہر نیوز ایجنسی ہے، شدید دھوپ میں ہم پسینے میں شرابور پرچا اٹھا کر ان کے دفتر پہنچے، کہا پرچا تقسیم کرنا ہے۔ انہوں نے اسے دیکھے بغیر کہا کہ یہ اٹھائیے اور نکل جائیے۔ وہ سمجھ گئے تھے کہ یہ بچے ہیں۔ ہمیں غصہ تو آیا مگر عزم تھا کہا کہ ہم خود کریں گے، ہر اسٹال پرتین، تین چار پرچے دیتے گئے۔ پھر چپکے چپکے جا کر دیکھتے کہ کتنے پرچے بکے۔ ایک ڈیڑھ سال بعد ایک بڑے اسٹال پر ہمیں وہ دکھائی دیا جس کا رنگ تقریباً پیلا ہو چکا تھا۔ اسے وہ ایک یادگار پرچا کہتے ہیں کہ اس میں وہ نظمیں بھی شامل تھیں، جو انہوں نے شاعری کے مقابلوں میں پڑھیں۔
جاوید صبا نے 5 مئی 1958ءکو شہر قائد میں آنکھ کھولی مشکل معاشی حالات میں ہوش سنبھالا والدین پڑھے لکھے تھے اس لیے تعلیم پر توجہ رہی، والدین کی مرضی سے 'سائنس' لی۔ لیاقت آباد نمبر چار کے ایک اسکول سے میٹرک کیا، اس کے بعد اسلامیہ کالج سے انٹر اور اردو سائنس کالج سے بی ایس سی کے مراحل طے ہوئے، 1978ءمیں جامعہ کراچی میں ارضیات (جیولوجی) کے طالب علم ہو گئے۔
جامعہ کراچی میں غیر نصابی سرگرمیوں میں توجہ زیادہ تھی، پروگریسو فرنٹ سے وابستہ رہے۔ طلبہ یونین کے انتخابات سے 'تھنڈر اسکواڈ' کے چرچے تک، سب انہی کے سامنے کے قصے ہیں کہ جب بات ہاتھا پائی سے بڑھ کر قتل تک جا پہنچی، پھر اسی زمانے میں طلبہ طیارہ اغوا کرنے میں بھی ملوث ہوئے۔ ایم ایس سی 'سال اول' میں گاﺅن نہ پہننے پر کلاس سے نکالا گیا، تو پھر کبھی کلاس میں نہ گئے، لیکن کوئی سات آٹھ برس جامعہ کراچی میں ہی دوستوں کے حلقے میں گزارے۔ اِسے وہ زندگی کے 'قیمتی سال' بتاتے ہیں کہ اس دوران لکھنے پڑھنے کی سمجھ بوجھ ملی۔ بڑے لوگوں سے ملاقاتیں رہیں اور شاعری کو مہمیز ملی۔
اُن کا اصل نام تو سید حسن جاوید ہے، لیکن مشہور وہ 'جاوید صبا' کے نام سے ہیں۔ ہمیں لگا کہ شاید اس کا کوئی دل چسپ پس منظر ہوگا، مگر وہ اس کی تردید کرتے ہیں کہ ایسا نہیں، بس جامعہ کراچی کے زمانے میں کسی طرح نام کے ساتھ 'صبا' جڑ گیا، کیسے؟ یہ یاد نہیں۔ اب تو لوگوںنے 'صبا' ہی کہنا شروع کر دیا۔ جاوید صبا کہتے ہیں کہ 'اردو میں کبھی اچھے نمبر نہ ملے۔ امتحان میں اشعار کی تشریح کرتے ہوئے فرضی شعرا کے اشعار گھڑ دیتا کہ "فلاں" نے بھی اس حوالے سے کچھ اس طرح کہا ہے، یہ سراسر ممتحن کی آنکھ میں دھول جھونکنے والی بات تھی۔'
شاعرانہ ذوق کی آب یاری کے باب میں جاوید صبا بتاتے ہیں کہ سات، آٹھ برس کے تھے، گھر میں محرم کی مجالس کے دوران والد انہیں منبر پر بٹھا کر میر انیس کے کچھ بند پڑھواتے، جس میں وہ اچھے تلفظ کی داد پاتے۔ نویں جماعت میں ایک ٹھیلے سے بنا سرورق کی ایک شاعری کی کتاب ہاتھ آئی، جس سے صحیح معنوں میں شاعری کا مطالعہ شروع ہوا۔ بعد میں پتا چلا کہ وہ ساحر لدھیانوی کا کلام تھا۔ جب کتابیں خریدنے کے پیسے نہ ہوتے، تو کتب خانوں سے استفادہ کرتے، دوستوں سے مستعار لیتے اور چرا بھی لیتے۔
کالج کے زمانے میں ریڈیو پاکستان کے لیے آڈیشن دیا۔ ڈیڑھ ہزار میں سے 52 امیدوار منتخب ہوئے، جن میں ایک وہ بھی تھے۔ 1978ءمیں مشہور پروگرام 'بزم طلبا' کے ایک مشاعرے میں حصہ لیا، جسے کافی سراہا گیا، اس کے بعد سخن آرائی کی طرف سنجیدہ ہوئے۔ ایک نظم جنرل ضیاالحق کے مارشل لا کے خلاف لکھی، جو پوری جامعہ میں مشہور ہوئی، جس کے الفاظ کچھ یوں تھے کہ 'ہمارے ٹکڑوں پہ پلنے والے ہمیں کو آنکھیں دکھا رہے ہیں' 1978-79ءمیں احمد نوید کے بھائی حسنین جعفری کے توسط سے رضویہ سوسائٹی میں پہلی بار مشاعرے میں شریک ہوئے اور بڑے شعرا کو قریب سے دیکھا۔ اس کے بعد جون ایلیا، عبید اللہ علیم اور جمال احسانی وغیرہ جیسے لوگوں کا حلقہ میسر آیا۔ 1982-83ءمیں پہلی غزل کہی۔ جاوید صبا کہتے ہیں کہ شاعری کا جنون تھا کبھی اصلاح نہیں لی، خود ہی ٹھیک کر لیتا تھا۔ 1985-86ءمیں ایک غزل کہی تو جمال احسانی کو مطلع سنایا
ملنا بھی پڑ گیا تو خوشی سے نہیں ملے
تم سے نہیں ملے تو کسی سے نہیں ملے
انہوں نے مصرع اولیٰ کو مصرع ثانی کرا دیا، ان کی یہ غزل بہت مشہور ہوئی۔ 1988ءمیں جاوید صبا کی شاعری کی پہلی کتاب 'عالم میرے دل کا' شایع ہوئی۔ وہ کہتے ہیں کہ 'میں اس پر 200 مضامین لکھوا سکتا تھا، لیکن میں نے نہیں لکھوائے کہ اگر کلام میں طاقت ہوئی تو چلے گا۔' اس کے بعد سات آٹھ برس ذہنی طور پر پریشانی کے سبب بالکل بھی شاعری نہ کر سکے کہ بغیر کیفیت کے شاعری کے وہ قائل نہیں، طبیعت رواں ہوئی، تو شعر کہے، دوسری کتاب 'کوئی دیکھ نہ لے' 2013ءمیں آئی، تو اس میں پہلی کتاب کی دس غزلیں شامل کیں۔ سخن وری کی رفتار کے سبب گزشتہ 10 برس کو وہ اپنی شاعری کا دور قرار دیتے ہیں۔ عن قریب نظموں اور غزلوں کی الگ الگ کتابیں شایع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
جاوید صبا اپنے کلام کی اشاعت سے قبل کڑے انداز میں انتخاب کرتے ہیں۔ ساتھ ہی اپنے جونیئرز کی رائے بھی لیتے ہیں کہ جو اچھا نہیں اسے رد کرو۔ کتاب کی اشاعت سے پہلے ایک ڈیڑھ ماہ اس مرحلے میں لگتا ہے۔ اگر کسی مسترد شعر میں کوئی خیال اچھا ہو تو اُسے لکھ لیتے ہیں، تاکہ اسے نئے انداز سے رقم کر سکیں۔ کہتے ہیں کہ غالب جیسے استاد بھی ایک مصرع پر تین، تین مصرع لگاتے، پھر ایک منتخب کرتے۔
جاوید صبا کے بقول وہ لابیوں کے سبب پی ٹی وی نہیں گئے۔ پہلی کتاب آنے کے بعد دبئی میں مشاعروں کے روح رواں سلیم جعفری انہیں 1993ءمیں دبئی جشن جگن ناتھ آزاد میں لے گئے، یہ ان کا ملک سے باہر پہلا مشاعرہ تھا۔ اس کے بعد ہندوستان اور امریکا وغیرہ جانا ہوا۔ جس کا ذریعہ 'سماجی ذرایع اِبلاغ' (سوشل میڈیا) بنا۔ جاوید صبا کراچی آرٹس کونسل میں بھی فعال رہے، کہتے ہیں کہ غالباً 1998-99ءمیں انہوں نے اور احمد شاہ نے ایک گروپ میں انتخاب لڑا، پھر گورننگ باڈی میں رہے، ادبی کمیٹی کے چیئرمین رہے۔ 2008 میں ہونے والی 'پہلی عالمی اردو کانفرنس' کو دستاویزی شکل بھی دی، لیکن گزشتہ چار پانچ برس سے بوجوہ غیر فعال ہوگئے۔
جاوید صبا 1983ءمیں تعلیم مکمل کرنے بلوچستان گئے، مقصد یہ تھا کہ یک سو ہو کر پڑھ سکیں۔ 1985ءمیں ایم ایس سی کیا اور کراچی لوٹ آئے۔ 1988ءمیں 'سویرا' اخبار میں نوکری ملی، سو اسے ہی مستقل پیشہ بنا لیا۔ اس سے پہلے ٹیوشن پڑھائیں، لیکن باقاعدہ ملازمت نہیں کی۔ ایک سال بعد بلوچستان کے اخبار 'انتخاب' میں آگئے، وہاں ڈھائی برس اداریے اور قطعات لکھے۔ کہتے ہیں کہ روزانہ قطعات کا ان کے پاس کوئی ریکارڈ نہیں، البتہ وہاں وہاں سارے نسخے موجود ہیں۔ 1994ءمیں وہ روزنامہ 'جنگ' کا حصہ بنے۔ سٹی ڈیسک اور مرکزی ڈیسک پر رہے، پھر کامرس ڈیسک اُن کے سپرد ہوئی تو پریشان ہوئے، کہ کامرس کا کچھ تجربہ نہ تھا، لیکن وہ کام بھی بہ حسن وخوبی کیا۔ 2003ءمیں 'اے آر وائے نیوز' چلے گئے، جہاں نامہ نگاری کے علاوہ دستاویزی فلمیں بھی تیار کیں، اس کے بعد 2008ءمیں کچھ ماہ 'سما نیوز' میں رہے، پھر 2009ءسے 'ایکسپریس نیوز' کا فعال حصہ ہیں۔
'اسکرپٹ رائٹنگ' پر اظہار خیال کرتے ہوئے جاوید صبا تحریر میں کہانی پن پر زور دیتے ہیں کہ علامتی کہانیاں بہت لکھی گئیں، مگر وہ نہ چل سکیں۔ کہانیاں ہی ہماری ذہنی بلوغت میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ہمارے ڈراموں میں کہانی کے مختلف حصوں کو باہم مربوط کیا جاتا ہے، لیکن پروگراموں میں اس کی کمی ہے۔ دوسری بڑی خامی زبان کی کم زوری ہے۔ کلام پاک میں تو 'ق' بالکل درست ادا کرتے ہیں، مگر بول چال میں 'ق' خراب ہو جاتا ہے۔ جب آپ ٹیلی ویژن پر آتے ہیں، تو آپ کا تلفظ اور املا درست ہونا چاہیے۔ اس کے لیے بعض چینلوں نے ماہرین لفظیات مقرر کیے ہیں۔ ڈراموں میں ایسے سماجی مسائل پر کام ہو رہا ہے، جن پر پہلے سوچا نہیں جا سکتا تھا، ہم ناسٹلجیا کی وجہ سے پرانے ہی پسند کریں گے، مگر نئی نسل کا مزاج بالکل مختلف ہے۔
جاوید صبا نے مشاعروں کے معیار کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ایک مرتبہ ہندوستان سے مشاعرے کے منتظمین نے کوئی شاعرہ تجویز کرنے کو کہا، ، انہوں نے ایک نام لیا، تو وہ بولے کہ "دیکھنے میں کیسی ہیں؟" یہ سن کر وہ سٹپٹا گئے اور پھر خود بھی معذرت کرلی۔ کہتے ہیں کہ خود کراچی میں بھی مشاعرہ کرنے والوں کو غالب کے اشعار کا پتا نہیں ہوتا۔ ان میں سے ایک صاحب سے تفریحاً کہا کہ ہندوستان سے شاعروں کو بلاتے ہیں، قائم چاند پوری کو تو کبھی نہیں بلایا، تو وہ کہنے لگے کہ ان کا پتا بتائیے ہم بلا لیں گے، جب کہ قائم چاند پوری کو گزرے ہوئے ڈھائی سو برس ہو چکے۔
جاوید صبا مشاعروں میں اچھے ترنم کے حق میں ہیں، کہتے ہیں 'فلمی ترنم نہ ہو، اب تو گانا ہوگیا ہے، منظر بھوپالی بہت بُرے شاعر ہیں، مگر ترنم کی وجہ سے مشاعروں میں سب سے کام یاب ہیں۔ اس کے برعکس بھارت بھوشن پنت اور انجم بارہ بنکوی ان تمام چیزوں سے دور ہیں، اس لیے آگے نہیں، ہندوستانی شعرا میں وہ راحت اندوری کو بہت سراہتے ہیں۔ ادب میں گروہ بندیوں کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ کچھ لوگوں کی ہر جگہ اجارہ داری ہے، ذرایع اِبلاغ ہی نہیں، انہوں نے تو اپنی زندگی میں ہی کراچی میں اپنے نام کی سڑکیں بنوالی ہیں۔ ان کی کوئی وقعت نہیں، لیکن اس جعلی شہرت سے ان کے بچوں کو نوکری مل جاتی ہے، وہ ملک سے باہر چلے جاتے ہیں اور ان کی بچیوں کی اچھی جگہ شادی ہو جاتی ہے۔
جاوید صبا میدان سخن میں احمد فراز، جمال احسانی، جون ایلیا اور عبیداللہ علیم سے متاثر ہیں، کہتے ہیں کہ ظفر اقبال باکمال آدمی ہیں، لیکن میری کیفیت ان کی کیفیت سے نہیں ملتی، اس لیے مجھے ان کی شاعری اچھی نہیں لگی۔ نئے شعرا کے حوالے سے جاوید صبا کہتے ہیں کہ صورت حال مایوس کن نہیں، نئے لوگ نئے تجربے کرتے ہیں، ہم نے بھی کیے، لیکن اگر وہ اپنے کلاسیکی ورثے سے جڑے رہیں گے، تو اچھا ہوگا۔ بدقسمتی سے ہم فارسی سے کٹ گئے، جب کہ ہمارے بڑے اس سے استفادہ کرتے تھے۔
٭ جب جون ایلیا کو ایم کیو ایم والے اٹھا کر لے گئے
جاوید صبا کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم اپنے ابتدا میں ٹھیک رہی، تب یہ بات بھی مشہور تھی کہ اگر کوئی کارکن غنڈہ گردی کرے اور الطاف حسین کو اس کی خبر ہو جائے، تو اس کو مار پڑتی ہے، مگر پھر بعد میں صورت حال خراب ہو گئی۔ جب ایم کیو ایم نے 'جنگ' اخبار کا بائیکاٹ کیا تو مجال ہے کہ ایک اخبار بھی تقسیم ہوا ہو، 'جنگ' کی ڈیسک کے زمانے میں ہم پر بہت دباﺅ ہوتا اور ان کی طویل پریس ریلیز کاٹ نہیں سکتے تھے۔ ایک مشاعرے میں ایم کیو ایم کے چیئرمین عظیم احمد طارق آئے، سب استقبال کے لیے کھڑے ہوگئے، اس وقت جون ایلیا شعر پڑھ رہے تھے، وہ کھڑے نہ ہوئے کہ یہ شعر کا ادب ہے۔ آنے والے کو چاہیے کہ وہ ٹھہر کر آئے، مگر ایسا نہ ہوا۔ جون ایلیا اس پر بڑبڑائے کہ یہ کیا طریقہ ہے۔ بس اس واقعے کے بعد ایم کیو ایم کے لڑکے آئے، اور وہ جون ایلیا کو اٹھا کر لے گئے اور ان پر تشدد بھی کیا۔ کسی اخبار میں اس واقعے کی خبر چھاپنے کی بھی جرا ¿ت نہ تھی، سوائے ڈان یا خیبر پوسٹ کے۔ اس کے بعد جون صاحب خائف ہو کر گھر بیٹھ گئے اور مشاعروں میں جانا چھوڑ دیا۔
دوسرے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے جاوید صبا کہتے ہیں کہ 'اس کا گواہ میں خود ہوں، ایک مشاعرے کے غالباً مہمان خصوصی الطاف حسین اور صدر عبیداللہ علیم تھے، دیگر نئے پرانے بہت سے شاعر جن میں صغیر ملال، سلیم کوثر اور صابر ظفر وغیرہ بھی شریک تھے، نصیر ترابی نظامت کر رہے تھے۔ میں، جمال احسانی اور اجمل سراج اسٹیج پر ساتھ ساتھ بیٹھے تھے۔ الطاف حسین نے اپنی تقریر میں علامہ اقبال اور فیض احمد فیض کے خلاف بات کی، جس پر اجمل سراج نے کہا کہ یہ اب شاعری پر بھی بولیں گے۔ یہ بات اسٹیج کے پیچھے کھڑے ہوئے لڑکوں نے سن لی ہوگی، جمال احسانی نے یہ محسوس کرلیا، اور مجھ سے کہا کہ اجمل سراج کے ساتھ ساتھ رہنا، لیکن مجھے اس وقت سمجھ میں نہ آیا، میں باہر نکل کر کسی سے سلام دعا کر رہا تھا کہ اچانک اجمل کی چیخ بلند ہوئی تو دیکھا کہ اجمل سراج کو ایک گاڑی میں ڈال کر لے جا رہے ہیں۔ عبیداللہ علیم کو پتا چلا، تو وہ مجھے لے کر نائن زیرو پہنچے، تو وہی صاحب جو اٹھا کر لے گئے تھے وہاں موجود تھے، انہوں نے تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے بڑی آﺅ بھگت کی، عبیداللہ علیم نے کہا فوراً میری الطاف حسین سے بات کرائیں، فون پر بات کی، تو انہیں کچھ پتا ہی نہ تھا کہ پیچھے ان کے کارندوں نے کیا کر دیا ۔ انہوں نے عبیداللہ علیم کی شکایت سن کر بہت معذرت کی ارے علیم صاحب ایسا ہو گیا وغیرہ وغیرہ۔ اس کے پندرہ، بیس منٹ میں اجمل سراج آگئے۔ اُن کے ہوش اڑے ہوئے تھے، شاید انہیں ڈرایا دھمکایا ہوگا۔ اس کے علاوہ بھی اس شہر میں بھتا خوری کی گئی۔ 'جنگ' میں کام کرنے کے زمانے میں رات کو گھر لوٹتے ہوئے ہماری بسیں روک کر رینجرز تلاشی لیتی تھی، یہ بے عزتیاں توسہی ہیں ہم نے اس شہر میں۔ صرف ایم کیو ایم نے نہیں، ساری جماعتوں کو دیکھیے، تو انہوں نے کیا کیا ہے۔ میں ابھی سندھ گیا، وہاں غربت کا یہ عالم ہے کہ بچے پھٹے ہوئے کپڑے اور ننگے پیر کھڑے 10 روپے کے عوض تین، تین کلو مچھلیاں بیچ رہے تھے، پنجاب کے دیہات میں بھی بہت غربت ہے۔ 70 سال میں ہم نہ نظریاتی طور پر ٹھیک ہو سکے نہ معاشی طور پر کچھ کر سکے۔
٭"شبیر تو دیکھے گا!"
جاوید صبا گزشتہ نو برس سے 'ایکسپریس نیوز' کے پروگرام 'شبیر تو دیکھے گا' نہایت کام یابی سے لکھ رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اس منفرد پروگرام کے لیے ہم روزانہ اخبار سے ایسی خبریں تلاش کرتے، جن کے مفصل احوال پر پروگرام لکھا جا سکے۔ اس پروگرام کا نام رکھنے کا ماجرا سناتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ آزمائشی طور پر میرپور خاص میں دو گروہوں میں تصادم کی خبر پر پروگرام لکھا، تو سوال ہوا کہ کیا یہ عام ناظر کی سمجھ میں آئے گا، اس کے لیے انتظامی عملے کے رکن شبیر کو بلا کر کہانی سنائی، اُس نے اثبات میں جواب دیا۔ اس دوران کسی نے پوچھا کہ یہ پروگرام دیکھے گا کون؟ تو جاوید صبا نے بے ساختہ کہا کہ 'شبیر تو دیکھے گا!' اسی دوران انہیں محسوس ہوا کہ نام بھی یہی رکھا جا سکتا ہے، مگر بات آئی گئی ہوگئی، بعد میں کوئی نام طے نہ ہو سکا، انہوں نے اسی نام پر اصرار کیا، شعبہ، مارکیٹنگ کی رائے ملی کہ یہ نام چلے گا۔ یوں پھر انہوں نے اس میں شبیر نام کا ایک کردار بنا دیا، جس کے بے باک ہونے کو وہ مقبولیت کا اہم سبب سمجھتے ہیں۔ صحافی وسعت اللہ خان نے شبیر نام کے مذہبی پس منظر کی وجہ سے خدشات ظاہر کیے، لیکن وہ پراعتماد تھے اور یوں یہ پروگرام آج بھی کام یابی سے رواں دواں ہے۔ اس کی بنیاد چار سطری خبر ہوتی ہے، جس کی مفصل کہانی کو اس میں عکس بند کیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں یہ حقیقی کہانیاں ہونے کے سبب ہی مقبول ہیں۔ بیرون ملک پاکستانیوں میں بھی یہ پروگرام اتنا مشہور ہوا کہ جس نے دیکھا نہ بھی ہو، مگر نام ضرور سنا ہوتا ہے۔ اس کی اب تک ساڑھے پانچ سو سے زائد اقساط ہو چکی ہیں۔ 'شبیر تو دیکھے گا' کو کتابی شکل میں لانے کا سوال کیا، تو انہوں نے بتایا کہ بہت سے ناشرین کہہ رہے ہیں، مگر اس میں ایک قباحت یہ ہے کہ یہ ٹی وی کی زبان میں ہے، اسے کتابی شکل میں دینے کے لیے اس کی ازسرنو تدوین کرنا پڑے گی۔ وہ چاہتے ہیں کہ فی الحال بیس، تیس کہانیوں کو کتابی شکل میں لایا جائے۔
٭تخلیقی تحریر کمپیوٹر پر نہیں لکھ پاتا!
جاوید صبا پروگراموں کے لیے اپنی تحریریں (اسکرپٹ) کمپیوٹر کے بہ جائے ہاتھ سے لکھنے کے عادی ہیں، اُن کا خیال ہے کہ ہاتھ سے لکھنے اور کمپیوٹر پر لکھنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اُن کا ماننا ہے کہ شاعری یا تخلیقی کہانی کمپیوٹر پر نہیں لکھ سکتے، یہ میرا ذاتی تجربہ ہے، کیوں کہ کمپیوٹر پر لکھتے ہوئے، کی بورڈ کی آواز بھی ہماری یک سوئی میں مخل ہوتی ہے۔ مجھے شور اچھا نہیں لگتا۔ شاعری لکھتے ہوئے خوش گوار آواز بھی اچھی نہیں لگتی۔ ہاتھ سے اسکرپٹ لکھنے میں بیس سے پچیس منٹ لگتے ہیں، جب کہ کمپیوٹر پر کوشش کے باوجود نہیں لکھ پایا۔ جاوید صبا شاعری کے لیے رات کے وقت کو موزوں کہتے ہیں، لیکن کسی مقررہ وقت کے قائل نہیں۔ کبھی کبھی دفتر کی چھٹی کر کے شاعری پر توجہ مرکوز کرنے کو جی چاہتا ہے، مگر دفتر آنا پڑتا ہے، ان کا ایک شعر بھی ہے
ذہن پہ بوجھ رہا یومیہ مزدوری کا
کھاگیا ایک غزل آج بھی دفتر میرا
ان کا خیال ہے کہ شاعری کے لیے موزوں فضا دو گھنٹے کے بعد نکل جاتی ہے، اس وقت توجہ نہ دی تو پھر وہ شعر نہیں ملتا۔
٭"انتخاب" میں شریک حیات کا انتخاب
جاوید صبا کے والدین کا تعلق غازی پور (یو پی) سے تھا۔ والد نیشنل بینک میں ملازم تھے، نارتھ کراچی میں رہائش رہی، 10 برس قبل ان کا انتقال ہوچکا، والدہ بقید حیات ہیں۔ تین بہنیں، چار بھائیوں میں جاوید صبا سب سے بڑے ہیں۔ شاعری کی طرف صرف انہی کا رجحان رہا۔ ایک چھوٹے بھائی فلسفے کے استاد ہیں۔ ایک بھائی میٹرک میں تھے کہ حادثے کی نذر ہو گئے، دوسرے بھائی کا کچھ برس پہلے دل کے دورے کے سبب انتقال ہوا۔ جاوید صبا کی شادی 1991ءمیں ہوئی، شریک حیات صوفیہ نیلم ان کے ساتھ 'انتخاب' اخبار میں کام کرتی تھیں، وہیں انہیں پسند کیا اور شادی ہوئی۔ تین بیٹے اور ایک بیٹی کے والد ہیں۔ بڑے بیٹے نے اِبلاغ عامہ میں ماسٹرز کیا ہے اور ایک اِبلاغی ادارے سے وابستہ ہیں۔ ایک بیٹا بی بی اے اور دوسرا نفسیات میں بی ایس کر رہے ہیں، بیٹی نہم کی طالبہ ہے، جو انگریزی کہانیاں لکھتی ہے۔ اہلیہ ایک تعلیمی ادارے میں اے لیول کے طلبہ کو اردو پڑھاتی ہیں۔
٭صرف اردو کے سہارے باعزت زندگی نہیں گزار سکتے!
جب جاوید صبا نے اپنے بچوں کے انگریزی میں لکھنے کا ذکر کیا، تو ہم نے اردو سے وابستگان کے اَگلوں کی اپنی زبان سے دوری کا دکھڑا کہا، جس پر وہ بولے اردو میں زندگی گزارنا کٹھن ہے، یہ بہت تلخ بات ہے۔ پاکستان میں آپ صرف اردو کے سہارے باعزت زندگی نہیں گزار سکتے! آپ کو فرفر انگریزی آتی ہو تو آپ کا مرتبہ بھی ہوگا اور نوکری بھی مل جائے گی، انگریزی کے علاوہ دیگر قابلیت کے بہ جائے شکل صورت دیکھی جاتی ہے اور اگر خاتون ہو تو پھر برہنگی کو بھی 'اہلیت' کا معیار بنا دیا گیا ہے۔ میرے بچوں کی اردو بہت اچھی ہے، لیکن اس میں وہ کیرئیر نہیں بنا سکتے! ہمارے گھر کا ماحول اردو کا ہے۔ ہم ان کی زبان کی تربیت بھی کرتے ہیں۔ وہ بچوں کو مختلف مضامین پڑھاتے رہے ہیں، اب ہر اتوار کو ناشتے کے بعد ادب پر بیٹھک کا اہتمام رہتا ہے، تاکہ انہیں اپنے ادب سے متعلق زیادہ سے زیادہ پتا چلے۔ ذخیرے میں موجود ڈھائی تین ہزار کتب سے بچے بھی شوق کرتے ہیں۔
٭'جب ہم نے اپنا رسالہ نکالا!
طالب علمی کے زمانے میں اپنا رسالہ نکالنے کا قصہ سناتے ہوئے جاوید صبا کہتے ہیں کہ 'ایک مرتبہ مجھے اور حسن ظہیر کو 'کراچی پریس کلب' کے دروازے پر روک لیا گیا تو ہم نے کہا کہ ہم اپنا پریس کلب خود بنائیں گے، حسن ظہیر نے ایک رسالے کا ڈیکلریشن کرائے پر لیا اور جامعہ کے ایک دوست نے پیسے لگائے، مگر پرچا نکل نہ سکا۔ ایک اور پرچا 1978ء1979ءمیں 'جواں فکر ' کے نام سے نکالا، جس کے 20، 25 صفحات کے سارے مضامین اور شاعری وغیرہ انہوں نے اور حسن ظہیر نے خود لکھی۔ حسن ظہیر کے والد نیشنل بینک میں تھے، یوں 500 روپے کا ایک اشتہار مل گیا۔ پرچا چھپ بھی گیا۔ دو ڈھائی سو نسخے چھپ کر آئے، تو یوں لگا جیسے دنیا فتح کر لی ہو۔ پھر یہ معلوم کیا کہ سب سے بڑی تقسیم کار طاہر نیوز ایجنسی ہے، شدید دھوپ میں ہم پسینے میں شرابور پرچا اٹھا کر ان کے دفتر پہنچے، کہا پرچا تقسیم کرنا ہے۔ انہوں نے اسے دیکھے بغیر کہا کہ یہ اٹھائیے اور نکل جائیے۔ وہ سمجھ گئے تھے کہ یہ بچے ہیں۔ ہمیں غصہ تو آیا مگر عزم تھا کہا کہ ہم خود کریں گے، ہر اسٹال پرتین، تین چار پرچے دیتے گئے۔ پھر چپکے چپکے جا کر دیکھتے کہ کتنے پرچے بکے۔ ایک ڈیڑھ سال بعد ایک بڑے اسٹال پر ہمیں وہ دکھائی دیا جس کا رنگ تقریباً پیلا ہو چکا تھا۔ اسے وہ ایک یادگار پرچا کہتے ہیں کہ اس میں وہ نظمیں بھی شامل تھیں، جو انہوں نے شاعری کے مقابلوں میں پڑھیں۔