مِٹھی کے ہندو ہمارے ادارے کو ’بھگوان بینک‘ کہتے ہیں ’اخوت‘ کے روح رواں ڈاکٹر امجد ثاقب سے ملاقات

ٹاٹ کے اسکول سے امریکا کی یونیورسٹی پہنچا، مجھے ڈاکٹری بھائی نہ نوکر شاہی میں رہ سکا


Rizwan Tahir Mubeen August 09, 2018
والد نے میری خواہش پر اپنی گھڑی مجھے دی، اور پھر کبھی نہیں پہنی، فوٹو: ایکسپریس نیوز

ISLAMABAD: "میرے بزرگوں نے ننگے پاﺅں یہاں ہجرت کی وہ مشرقی پنجاب سے نکلے، تو اُن کے پاس چند کپڑوں کے سوا کچھ نہ تھا اُس وقت میرے پر دادا 60، دادا 40 اور والد 20 سال کے تھے، پھر انہوں نے نئے سرے سے زندگی شروع کی اور بہت کچھ پایا، اس لیے میرا فرض ہے کہ میں بھی اس دھرتی کو کچھ لوٹاﺅں"

یہ کلام ڈاکٹر امجد ثاقب کا ہے، جو بلاسود قرضوں کی فراہمی کے ایک عظیم منصوبے کے بانی ہیں، جتنا حیرت انگیز اُن کا منصوبہ ہے، اس سے زیادہ تعجب خیز ان کے دیے گئے قرضوں کی واپسی کی شرح ہے یعنی لگ بھگ سو فی صد!
ہمارے سماج میں تو یہ کسی خیالی قصے کا کوئی خوش کُن باب معلوم ہوتا ہے کہ کتاب بند کرتے ہی ذہن میں آئے گا "کاش یہ حقیقت ہوتی!" لیکن جب یہ سب فرضی کہانی نہ ہو اور یہ سچ کر دکھانے والی ہستی سے ملاقات ہو جائے تو کیا ہی کہنے

جب ہمیں خبر ہوئی کہ ڈاکٹر امجد ثاقب ہمارے نگر میں جلوہ افروز ہیں تو بیٹھک کے لیے کچھ وقت مانگا، خوش قسمتی سے اگلے روز کے کچھ لمحے طے ہو گئے تب سمندری ہواﺅں کے بار بار روٹھ جانے سے شہر قائد میں گرمی بہت زوروں پر چل رہی تھی، اُس روز بھی پارہ بہت چڑھا ہوا تھا، جب ہم بندر روڈ کے کنارے موجود نارائن جگن ناتھ ویدیا ہائی اسکول (این جے وی) پہنچے، جہاں نیم کے دسیوں گھنے پیڑ تپش زدہ ماحول میں راحت پیدا کر رہے تھے، تب ہمیں ڈاکٹر امجد ثاقب بھی مصائب کی کڑی دھوپ میں جھلستے ہوئے سماج میں کسی شجر سایہ دار و پھل دار کی طرح معلوم ہوئے۔ کچھ انتظار کے بعد ہم بھی اس شجر کی چھاﺅں میں تھے جس طرح ایک درخت کو ثمر آور ہونے کے لیے کچھ انتظارکاٹنا پڑتا ہے، ایسے ہی امجد ثاقب کو بھی موجودہ راہ تک آنے کے لیے دو مختلف راہوں سے گزرنا پڑا، یہ اُن کا تیسرا انتخاب ہے۔

اُن کے اکلوتے بھائی ڈاکٹر اور انگلستان میں ورلڈ سائیکٹریسٹ ایسوسی ایشن کے پہلے پاکستانی صدر ہیں۔ ڈاکٹر امجد کا ایک بیٹا اور بیٹی ہے، صاحب زادے ایم بی اے کے بعد ملازمت کرتے ہیں، جب کہ صاحب زادی نے 'ایل ایل ایم' کیا ہے، اب شادی کے بعد آسٹریلیا میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ اپنی جدوجہد میں شریک حیات کی معاونت کا کھل کر اعتراف کرتے ہیں کہ گھر کو وقت نہ دے سکنے کے باوجود انہوں نے ہمیشہ میرا ساتھ دیا، کہتے ہیں کہ اس ملک میں کوئی پٹواری کی نوکری نہیں چھوڑتا، میں نے اعلیٰ سرکاری ملازمت چھوڑی، گھر بھی اپنا نہ تھا، مگر انہوں نے بخوشی کہا اللہ ہمارا حامی وناصر ہوگا۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جب کوئی مخلوق کے کام اپنے ہاتھ میں لیتا ہے، تو پھر اللہ تعالی اس کے کام اپنے ذمے لے لیتا ہے۔

مجھے سول سروس سے زیادہ وسائل ملے، گھر ملا، بچوں کی اعلیٰ تعلیم ہوگئی۔ اُن کے والد مقامی حکومت میں ملازم تھے، جب وہ فرسٹ ائیر میں تھے، تب والد سے گھڑی کی خواہش کی، ملازمت پیشہ والد کے اتنے وسائل نہ تھے، انہوں نے اپنی کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی اتار کر انہیں دے دی، اور پھر زندگی بھر کبھی گھڑی نہیں پہنی!

ڈاکٹر امجد نے گورنمنٹ کالج لاہور سے 'ایف ایس سی' اور 'کنگ ایڈورڈ' کالج سے 'ایم بی بی ایس' کیا، کہتے ہیں ڈاکٹر بن تو گیا، مگر ایسا لگا کہ شعبہ طب میرے مزاج کے مطابق نہیں۔ والد سے 'سی ایس ایس' کا امتحان دینے کی اجازت چاہی، کچھ تامل کے بعد وہ راضی ہوئے۔ یوں 1985ءمیں 'سی ایس ایس' کے بعد ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ میں منتخب ہوئے اور مختلف جگہوں پر اسسٹنٹ کمشنر رہے۔ اس دوران لوگوں کے دکھ درد، غربت وافلاس اور دیگر مسائل حل کرنے میں حکومت اور لوگوں کے کردار کے بارے میں سوچا۔ 1993-95 میں اسکالر شپ پر امریکا گئے اور انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ میں ماسٹرز کیا۔ وہاں کی ترقی کا اپنے ہاں سے موازنہ کیا۔ امریکا سے واپسی کے بعد ادراک ہوا کہ اُن کا مزاج اس کام میں بھی مطمئن نہیں۔

وہ زندگی کو تلاش سے تعبیر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ کام کرنا چاہیے جو آپ کو پسند ہو۔ وہ آزادی فکر چاہتے تھے اور حکومتی ذمہ داریوں میں انہیں بندشیں محسوس ہوئیں، تو دلی تسکین کے لیے منصب چھوڑ دیا۔ عزت، اختیار اور نیک نامی کے باوجود ایک عام شہری کی طرح جدوجہد کرنا، بعض اوقات انسان کو بلندی کی طرف لے جاتا ہے۔ یہاں زیادہ مسرت محسوس کی۔ ڈاکٹر امجد کہتے ہیں کہ ہم سے پہلے بلا سود قرض دینے والا کوئی نہ تھا، سو 'اخوت' کے نام سے اس کام کا ڈول ڈالا، ہم 100، 200 افراد کی مدد کا خیال رکھے ہوئے تھے مانگنے والا اپنی بساط کے مطابق مانگتا ہے اور دینے والا اپنے ظرف کے مطابق دیتا ہے۔

پہلا قرض 2001ءمیں ایک بیوہ کو سلائی مشین کے لیے 10 ہزار روپے کا دیا، وعدے کے مطابق یہ رقم واپس ملی۔ 'اخوت' نے ایسے لوگوں کی وجہ سے ترقی کی، وہ بہت بڑے لوگ ہیں جنہوں نے لاکھوں کروڑوں روپے سے ہماری امداد کی، مگر وہ 28 لاکھ خاندان (تقریباً سوا کروڑ افراد) جنہوں نے 61 ارب روپے کے قرضے لیے اور 99.9 فی صد کی شرح سے لوٹائے اور آج ان میں سے 70 فی صد لوگ ہمارے مددگار (عطیہ کنندہ) ہیں۔

ڈاکٹر امجد 'اخوت' سے مستفید ہونے والوں کی دعاﺅں کو عزت، طاقت اور اثاثہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں ایک دفعہ دل کے عارضے کے سبب اسپتال میں داخل ہوا تو بیسیوں لوگ باہر بیٹھے گڑگڑا کر دعائیں کرتے رہے، میں اسی سے صحت یاب ہوا، بالخصوص اس بیوہ کی دعا سے، جو ایک لمحے کو بھی وہاں سے نہ اٹھی۔ ہم ان چیزوں کی طرف نہیں سوچتے، ہمارے سماج اسی لیے محفوظ ہیں کہ ہم ایک، ایک لاکھ لوگوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔

'اخوت' کے طریقہ ¿ کام پر روشنی ڈالتے ہوئے امجد ثاقب کہتے ہیں کہ "ملک بھر میں ہمارے 800 دفاتر ہیں، جو اپنے گرد ایک دو کلو میٹر کا دائرہ لگاتے ہیں، پھر وہاں مستحقین کو ڈھونڈ کر قرض دیتے ہیں۔ وہیں اُن کا معائنہ اور وصولی کی جاتی ہے۔ اگر انہوں نے اچھا کام کیا ہے، تو مزید رقم بھی دیتے ہیں۔" وہ معاشرے کو دیانت دار قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب دوسرے شہروں میں کام شروع کیا تو کہا گیا کہ یہاں تو لوگ واپس نہیں کریں گے، جب کہ لوگ بد دیانتی کے جواب میں بد دیانتی کرتے ہیں۔ ہمارے پروگرام کی ایک جہت یہ ہے کہ ہم امید کا پرچار کرتے ہیں۔ ہم قرض حَسنہ کی اسلامی روایت کے تحت بغیر کسی ضمانت کے 20، 30 ہزار روپے دے دیتے ہیں جسے وہ نہ صرف محنت کر کے لوٹاتے ہیں، بلکہ پھر دوسروں کے لیے بھی دیتے ہیں۔ اور امید بھلا کیا ہوتی ہے؟ زندگی امید کے سہارے گزاری جاتی ہے، قومیں غربت سے نہیں ناامیدی سے برباد ہوتی ہیں۔

امجد ثاقب نے بتایا کہ گزشتہ 11سال سے حکومتوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ 2010ءمیں حکومت پنجاب کا ایک پروگرام ملا۔ ہم نے اصولوں اور انتظامی خود مختاری کی شرط پر یہ کام کیا۔ وفاقی حکومت اور گلگت بلتستان کے بعد حکومت سندھ نے 'این جے وی' اسکول (کراچی) ہمیں دیا، ہمارا کوئی سیاسی تعلق نہیں، ہم حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں۔ دنیا بھر میں حکومتیں اچھے اداروں سے تعاون کرتی ہے، بہت سے کام حکومت خود نہیں کر سکتی، وہاں مختلف ادارے حکومت کو معاونت فراہم کرتے ہیں۔

ہم نے پوچھا تھا کہ اگر 1985ءمیں ہی 'اخوت' شروع کر دیتے تو یک سر انکار کیا کہ میں اُس وقت کر ہی نہیں سکتا تھا، اس وقت یہ سوچ تھی اور نہ ایسے لوگ ساتھ تھے، کہتے ہیں کہ قدرت کے کارخانے میں ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے۔ پھر جب تک آپ کو گورننس، سیاسی، معاشی اور سماجی حقائق کا علم نہ ہو آپ کوئی بڑا نظام نہیں بنا سکتے۔ وہ اپنے میڈیکل کالج کے دنوں کو انسانیت سے محبت کا راستہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ انسان اپنے ماحول کا حاصل ہوتا ہے۔ شخصیت کی تعمیر میں ہمارا ایک ایک لمحہ شامل ہوتا ہے، میڈیکل، سول سروس اور امریکا کے سفر نے بہت کچھ سکھایا۔ مطالعے، مشاہدے اور تجربات سے اس فکر پر پہنچا۔ یہ خدا کی مہربانی تھی کہ میں ایک ٹاٹ کے اسکول سے امریکا کی بہترین یونیورسٹی پہنچا۔

ڈاکٹر امجد ثاقب کے بقول غربت صرف معاشی نہیں، بلکہ سماجی، سیاسی، روحانی اور اقدار کی بھی ہوتی ہے۔ ہمارے دفاتر مسجد سے منسلک ہوتے ہیں، بہت سے کام دفتر اور بہت سے امور مسجد میں ہوتے ہیں، مسجد میں بیٹھنے سے خدا ملتا ہے اور اخلاق کا افلاس کم ہوتا ہے، دنیاوی فائدہ یہ ہوتا ہے کہ شفافیت، شرکت، جواب دہی، بچت اور وقت کی پابندی ہوتی ہے۔ مسجد کو ہم مذہبی نہیں ایک سماجی ادارہ سمجھتے ہیں۔ ہمارے نبی ﷺ نے مسجد سے حکومت بھی چلائی ہے۔ میرے نزدیک مسجد میں آنے کی حکمت یہ ہے کہ لوگوں کے حال چال پتا چلیں گے، ہم نے اسی کردار کے احیا کی کوشش کی ہے۔ اس طرح دوسرے مسلک کے لوگوں کے آنے سے ہم آہنگی بھی بڑھی۔ ہمارے قرضوں کی تقسیم مساجد میں ہوتی ہے، دیگر کارروائی دفتر میں ہوتی ہے۔ مِٹھی (سندھ) میں ہم مندروں میں قرض دیتے ہیں، وہاں ہندوﺅں نے ہمارے ادارے کا نام 'بھگوان بینک' رکھ دیا ہے۔ ہمارا کام اپنے دین کی اچھی تصویر پیش کرنا ہے، انہیں یہ بتانا ہے کہ کہ اسلام امن، ایثار اور قربانی ہے۔ ہم مسلمان ہیں، لیکن پاکستان میں جو دیگر لوگ رہتے ہیں، ان کی مدد کرنا بھی ہمارا فرض ہے۔

ڈاکٹر امجد ثاقب کا خیال ہے کہ ہر گلی میں ایک 'اخوت' قائم ہونا چاہیے۔ لاہور میں 20 ہزار مساجد ہیں، کراچی میں 50 ہزار تو ہوں گی۔ اگر ہر مسجد کو سماجی مدد کا مرکز بنالیں، ساتھ ہی گرجا گھر اور دیگر عبادت گاہیں بھی ملا لیں تو معاشرے میں کس قدر بہتری ہونے لگے گی۔ مذہبی اداروں کو ترقی کے عمل میں حصے دار بننا چاہیے، لیکن ہمارے ہاں پڑھے لکھے لوگ اور مولوی صاحب کے درمیان اعتماد کی کمی ہے۔
ڈاکٹر امجد ثاقب رکاوٹوں کو مشکلات کے بہ جائے چیلینجز کا نام دیتے ہیں، جن میں وسائل کی کمی نمایاں ہے، غیر تربیت یافتہ عملہ ہے، جس کی تربیت کرنا پڑتی ہے۔ گزشتہ چند ماہ میں اِن کے دفاتر میں 10 ڈکیتیاں پڑیں، مگر وہ اپنے مضبوط عزم کا اظہار یوں کرتے ہیں

ہیں سختیِ سفر سے بہت تنگ پر منیر
گھر کو پلٹ ہی جائیں گے ایسے بھی ہم نہیں

ہم نے کہا کہ آپ کے آسان قرضوں سے بینکوں نے خطرہ محسوس نہیں کیا؟ تو کہنے لگے کہ ابھی کام اتنا نہیں بڑھا کہ یہ نوبت آئے۔ ابھی دو کروڑ لوگوں کو چھوٹے قرضوں کی ضرورت ہے، ہم صرف پچاس لاکھ تک ہی پہنچے ہیں۔ بھیک اور سرمایہ داری نظام ناکام ہیں۔ ان کے درمیان مواخات اور بھائی چارے کا راستہ ہے، ہم اسی کے پرچارک ہیں۔

14 اگست کو 'بلامعاوضہ جامعہ' کا افتتاح ہوگا

'اخوت' کی رکن فضہ ندیم بتاتی ہیں کہ بلاسود قرضوں کی فراہمی کے بعد 'اخوت' نے 2005ءمیں تعلیم کے شعبے میں کام شروع کیا، ایک انسٹی ٹیوٹ فیصل آباد میں، جب کہ 'اخوت کالج' لاہور قائم ہوا، جہاں ملک بھر کے بچوں کے لیے نشستیں مختص ہیں اور طالب علموں کے تمام اخراجات بھی برداشت کیے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ قصور میں ایسی ہی بلامعاوضہ جامعہ کا افتتاح 14 اگست 2018ءکو ہوگا۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کے بقول "جب علم کی 'قیمت' لگا دی گئی، تو یہ رسوا ہو گیا۔ ہماری بلا معاوضہ جامعہ میں جو طلبہ فیس دے سکتے ہیں وہ ضرور دیں، لیکن جو نہیں دے سکتے، وہ بھی پڑھیں۔" کراچی کے تاریخی 'این جے وی' ہائی اسکول کے حوالے سے وہ بتاتے ہیں کہ 2015ءمیں یہ ہمارے سپرد کیا گیا، جسے ہم شفافیت، معیار، تعلیم، نظم وضبط، سہولیات میںکراچی کا بہترین اسکول بنانا چاہتے ہیں۔ یہاں شہر کے پس ماندہ اور مضافاتی علاقوں سے آنے والے بچوں کو انگریزی میڈیم میں بلامعاوضہ تعلیم دی جاتی ہے۔ اندرون سندھ اور دیگر علاقوں کے بچوں کے لیے ہاسٹل بھی زیر تعمیر ہے، تاکہ پیسے کی کمی ان کی تعلیم میں رکاوٹ نہ ہو۔ اس کے بعد اندرون سندھ بھی یہی تجربہ دُہرانے کی کوشش کریں گے۔ 'این جی اوز' کا کام قابل تقلید مثال بنانا ہوتا ہے۔" فضہ ندیم کے مطابق لاہور، فیصل آباد، میانوالی اور چکوال وغیرہ میں اب تک 300 اسکول گود لیے جا چکے ہیں، عنقریب سندھ سے 15 اسکول گود لیے جائیں گے۔ 'اخوت' کے مرکزی دفتر میں بہت سے خواجہ سرا بھی ملازم ہیں، ایک 'کلاتھ بینک' خواجہ سراﺅں کے سپرد ہے، جہاں مستحق افراد کے لیے کپڑے جمع اور تقسیم کیے جاتے ہیں، ان کی مرمت اور رفو وغیرہ کا کام بھی ہوتا ہے۔ 'فاﺅنٹین' نام کے اسپتال میں خواجہ سراﺅں کو طبی سہولیات دی جاتی ہیں۔

ایک روپیا دینے والوں نے30 کروڑ جمع کرلیے!

ڈاکٹر امجد بتاتے ہیں کہ ایک شخص نے 20 ہزار روپے قرض لے کر ریڑھی پر پھل فروخت کیے، اب وہ روزانہ ہزار روپے گھر لے جاتا ہے، تو ساتھ ایک روپیا 'اخوت' کے قرض حسنہ کے لیے بھی نکالتا ہے۔ اُسے کوئی فرق نہیں پڑتا، لیکن خدا کی نظر میں فرق پڑتا ہے اور ایسے ایک، ایک روپیے پچھلے سال 30 کروڑ روپے کی خطیر رقم بنی۔ اخوت سماج کی تعمیر کی ایک کاوش ہے۔ ہم کسی کو یہ نہیں کہتے کہ تمہیں قرض دینے آئے ہیں بلکہ کہتے ہیں کہ ہم تم سے 'مواخات مدینہ' کی پیروی میں تم سے رشتہ جوڑنے آئے ہیں۔ اس بھائی چارے کا تقاضا یہ ہے کہ تمہیں تنگی ہے تو یہ لو 20، 30، 40 ہزار روپے مگر بھیک نہ مانگو، ہمیں تمہارے اندر ایک دینے والا نظر آتا ہے، کام کرو اور غربت سے نکلو۔ پھر اگر توفیق ملے تو اپنے جیسے کسی اور کی مدد کرو۔

"قرض داروں کا برا تاثر انسانیت کی توہین ہے!"

قرض داروں سے متعلق برے تاثر کا ذکر ہوا، امجد ثاقب نے اُسے انسانیت کی توہین قرار دیتے ہوئے کہا کہ بالکل ایسا نہیں، 28 لاکھ میں زیادہ سے زیادہ ہزار ہوں گے، جو ناکامی کے سبب منہ چھپاتے ہوں گے، وہ بھی شرمندگی کے سبب، ڈھٹائی سے نہیں۔ ہم نے پوچھا "پھر سماج میں ایسا کیوں سمجھا جاتا ہے؟" کہنے لگے شاید اخلاص کی کمی یا استحصالی رویہ اس کا سبب ہو۔ محبت دے کر محبت ملتی ہے۔ زرعی ترقیاتی بینک سے قرض لینا چاہتا ہو تو اسے دس مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، لیکن اگر میں محبت کروں اور عزت دوں تو جواب میں مجھے کوئی گالی دے یاپتھر مارے؟ 100 میں شاید کوئی ایک ایسا ہو۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کا ماننا ہے کہ معاشرے ایثار،محبت، اعتماد اور قربانی پر کھڑے ہوتے ہیں۔ طبعی اصول ہے، عمل اور ردعمل برابر ہوتے ہیں، جو دیتے ہیں، وہی لوٹتا ہے، محبت، رزق، ایثار، قربانی اور روپیا۔ نبی پاک ﷺ نے سماج کی تعمیر محبت سے کی، جب کہ ہم کہتے ہیں کہ لوگ ہم سے ہماری شرائط پر محبت کریں، یہ نہیں ہو سکتا۔

فلاحی تنظیمیں سرمایہ دارانہ نظام کی مددگار ہیں؟

ایک خیال یہ ہے کہ فلاحی تنظیمیں نچلے طبقے کی داد رسی کر کے دراصل سماج کے ظالم طبقے کے جبر کے خلاف کسی مزاحمت کو روک دیتی ہیں؟' ڈاکٹر امجد اِسے ایک سیاسی بحث قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم اگر سیاسی ڈھانچے کو تبدیل نہیں کر سکتے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ غریبوں کو کھانا، لباس اور تعلیم دینا بند کر دیں، تاکہ وہ مسلح جدوجہد شروع کریں۔ اُن کا خیال ہے کہ اگر آگ لگی ہوئی ہو تو پہلے آگ بجھانی چاہیے، بھوکے کو پہلے روٹی تو دینی ہوگی۔

لوگوں کے حقوق سیاسی جماعتوں کا کام ہے۔ ہم بطور سماجی کارکن اس بنیادی خیال کے تحت کام کرتے ہیں کہ ہم سے یہ سوال ہوگا کہ تمہارا ہم سایہ بھوکا کیوں سویا؟ وہ کہتے ہیں کہ اگر ہمارے اندر سیاسی جدوجہد کی صلاحیت نہیں، تو کیا سماجی جدوجہد بھی نہ کریں؟ ذمہ داریاں پوری کرنے والے افراد مل کرمعاشرے میں تبدیلی لا سکتے ہیں، ہم سیاسی جدوجہد کا راستہ بند نہیں کر رہے۔ غریب بچوں کو اچھی تعلیم ملنا انقلاب ہی کا راستہ ہے۔ انقلاب مسلح جدوجہد سے نہیں، تعلیم سے آئے گا۔ حقوق چھینے نہیں جا سکتے۔ ہمارے لیے تو رسالت مآب ﷺکا انقلاب مثال ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں