میرے بچے بھی اردو سے زیادہ انگریزی کی لکھائی اچھی کرنا چاہتے ہیں سینئر کاتب محمد منیر کی باتیں
اگر فن کتابت کو بچانا ہے تو پہلے کاتب کا پیٹ بھریں
قوت گویائی انسان کو دیگر جان داروں سے ممتاز کرنے والا ایک اہم عمل کہا جاتا ہے ارتقائی عمل کے بعد یہ گویائی تحریری صورت میں سامنے آئی اس صورت میں آواز تھی، تاثرات اور نہ لب ولہجے کا زیر و بم، صرف لفظ تھے، جو لکھنے والی کی بات پڑھنے والے تک پہنچاتے، گویا اس سے کسی فرد کی اپنے مخاطب کے سامنے موجودگی بھی ضروری نہ رہی لیکن پتھر کی تختیوں کے بعد جب یہ تحریر کاغذ جیسے لطیف وسیلے پر منتقل ہوئی، تو حساس قارئین نے اُسے صرف پڑھا ہی نہیں، بلکہ اس میں اظہار کرنے والے کے ہاتھوں کا لمس بھی چھوا اور اس کے وجود کی خوش بو بھی محسوس کی اس وسیلے نے جب 'خط وکتابت' کا روپ دھارا تو اس کا رومان کئی گنا بڑھ گیا تحریر کے ذریعے فاصلوں کو پاٹنے والا یہ وسیلہ ہماری زندگیوں ہی نہیں، بلکہ ادبی تحریروں میں بھی ایک اہم مقام کا حامل رہا۔
پھر دیگر شعبہ ہائے زندگی کی طرح تحریر کے شعبے میں بھی مشینوں نے دخل دینا شروع کی، پہلے طباعت واشاعت کا دور شروع ہوا مگر طباعت کے مرحلے سے پہلے دستی کتابت کی محتاجی باقی رہی زندگی کی عام تحریروں میں بھی دستی تحریر کا چلن برقرار رہا، مگر مشینوں کی پیش قدمی کہاں رکنے والی تھی، آخر اس نے دستی تحریر اور کتابت پر بھی 'حملہ' کر دیا تحریریں قلم کے بہ جائے کمپیوٹر کے پردے پر لکھی جانے لگیں۔ تھا تو یہ بھی ارتقا کامرحلہ، مگر جو ذائقہ کاغذ پر ہاتھ سے لکھنے اور پڑھنے میں تھا، وہ جاتا رہا اب آنے والی نسلیں مکمل طور پر اس منفرد 'اِبلاغ' سے عاری ہوجائیں گی بقول شخصے کہ وہ جب خط لکھنے والے کے جذبے آنکھ سے ٹپک کر کاغذ پر جذب ہو جاتے اور پڑھنے والے کو پھیلتی ہوئی روشنائی سے صداقت کی گواہی دے جایا کرتے تھے وہ برقی پردوں پر ابھرتے مٹتے 'بے جان'سے الفاظ میں کہاں سے لائیے گا!
کہنے کو لکھتے ہوئے تحریر کا وسیلہ ¿ قلم ہوتا، لیکن ایسا لگتا کہ لفظوں کی روشنائی قلم کے بہ جائے انگلیوں کے پوروں سے نکل کر کاغذ پر اتری ہو۔ اس لیے روایت پسندوں کو یہ ڈھب آج بھی فطرت سے قریب محسوس ہوتا ہے۔ اسی فطری طریقہ ¿ تحریر یعنی کتابت کے کام سے جڑے ہوئے محمد منیر آج ہمارے مہمان ہیں، جنہوں نے 1959ءمیں وہاڑی میں آنکھ کھولی، ان کے چار بھائی اور تین بہنیں ہیں، دیگر بہن بھائی بھی کتابت کے فن سے وابستہ رہے۔
محمد منیر نے یہ فن اپنے بہنوئی جمیل بہار سے ڈھائی برس کی محنت کے بعد سیکھا اور ملتان میں کام شروع کیا۔ یہ سال 1974ءکا تھا شمار کیجیے، تو آج 44 برس ہو چکے ہیں۔ انہوں نے روزنامہ سنگ میل، روزنامہ آفتاب اور روزنامہ آغاز میں کتابت کے فرائض انجام دیے۔ 1979ءمیں انہوں نے کراچی کا رخ کیا، اور روزنامہ 'آغاز' سے منسلک ہو گئے، اس کے بعد 'جاسوسی ڈائجسٹ' میں آگئے اور تاحال اسی سے وابستہ ہیں۔ یہاں وہ 'جاسوسی ڈائجسٹ' کے مختلف ماہانہ رسائل کے علاوہ کچھ کتابوں کی کتابت کی۔ اس کے علاوہ ریڈیو پاکستان کے ماہانہ جریدے کے لیے بھی خدمات انجام دیں۔
محمد منیر بتاتے ہیں کہ 1990ءکے زمانے میں کمپیوٹر پر اردو کتابت کا چلن بڑھا، تو انہوں نے نوشتہ دیوار پڑھ لیا اور وہ بجلی کی مصنوعات کے کام سے منسلک ہو گئے، ایمپلی فائر، کیمرے اور ٹی وی وغیرہ کی ریئپرنگ کا کام سیکھا اور لیاقت آباد، کراچی میں اس جز وقتی کام کے لیے ایک دکان کر لی، جہاں دفتر سے واپسی پر بیٹھتے، مختلف برقی مصنوعات میں سہولت پیدا کرنے کے لیے انہوں نے بہت سی اختراعات بھی کیں، جس سے بہت اچھی یافت ہوئی۔ یہ سلسلہ 15 برس جاری رہا، اس کے بعد اِن کے صاحب زادے بڑے ہوگئے، انہوں نے ماسٹرز کے بعد ہوٹل مینجمنٹ سیکھی اور اب وہ اِن کا ریستوران چلاتے ہیں، جو آمدن کا بڑا ذریعہ ہے۔
جب محمد منیر نے کتابت شروع کی، تو اس زمانے میں ٹائپ رائٹر پر اردو لکھی جانے لگی تھی، جو 'خط نسخ' میں ہوتی تھی، لیکن 1990ءمیں طباعت واشاعت کی صنعت میں کمپیوٹر پر اردو کا چلن تیزی سے عام ہونے لگا اُس وقت ایک ادارے میں عموماً 35، 40 کاتب ہوتے تھے۔ ہاتھ کی کتابت کرنے والوں پر 'کمپیوٹرائزڈ اردو' نے وار کیا، اور 1994ءمیں آدھے کاتب فارغ ہو گئے، رہ جانے والے بھی فارغ ہوتے گئے اور 1997ءمیں وہ اپنے ادارے میں اکیلے رہ گئے، جو اب کمپیوٹر پر ہونے والی کتابت میں ہاتھ سے مزید درستی کا کام کرتے ہیں، پہلے وہ ایک دن میں تین چار صفحات کی کتابت کر لیتے تھے۔
محمد منیر نے کمپیوٹر پر 'کمپوزنگ' سیکھی، مگر مطلوبہ رفتار نہ پا سکے، اس لیے چھوڑ دیا۔ کہتے ہیں، جب کمپیوٹر پر ایک گھنٹے میں پندرہ سطریں 'کمپوز' کیں، تو باس نے خوش ہو کر انہیں کمپوزنگ کا کام شروع کرنے کی پیش کش کی اور کہا کہ ہم دیگر 'کمپوزروں' کو ڈھائی ہزار دیتے ہیں، آپ کو تین ہزار روپے دیں گے اور کمپیوٹر کے شعبے کا انچارج بھی بنا دیں گے، لیکن انہوں نے اس شعبے کو دوسرے میدانوں کے برعکس نفع بخش محسوس نہ کیا، اس لیے وہ یہاں روایتی کتابت سے ہی جڑے رہے۔
محمد منیر بتاتے ہیں کہ جب اردو کمپوزنگ کا سوفٹ ویئر 'شاہ کار' آیا، تو اُسے چلانے کے لیے لوگ بھی فراہم کیے گئے، لیکن صرف دس فی صد کاتب ہی کمپوزنگ سیکھ پائے، باقی دیگر شعبوں کی سمت چلے گئے۔ محمد منیر کتابت کے شعبے میں اپنے بہن اور بھائی کے کام کے دل دادہ ہیں کہ عام کاتب دو گھنٹے میں ایک صفحہ لکھتے، وہ اُسی معیار کے ساتھ چار صفحے لکھ لیتے تھے۔ اُن کا خیال ہے کہ "خوب صورتی تو ہاتھ کی کتابت میں تھی، لیکن برق رفتاری کمپیوٹر میں ہے۔ ہاتھ کی کتابت چھپنے کے بعد واضح اور گہری ہونے کے سبب پڑھنے میں سہل ہوتی ہے، جب کہ کمپیوٹر کی کتابت کو اس معیار تک لے جائیں، تو اخراجات بڑھ جاتے ہی، اس لیے ادارے اس سے بچتے ہیں۔"
شوقیہ کتابت سیکھنے کا تذکرہ ہوا تو محمد منیر نے بتایا کہ پہلے کچھ شائقین ایسا کرتے تھے، لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ آج کل کے بچے تو پینسل اور پین مانگتے ہیں۔ ہم اپنے زمانے میں حقے کی 'نے' سے قلم بنایا کرتے تھے، کتابت سیکھنے کے لیے لکڑی کا قلم ہی درکار ہوتا ہے، روشنائی میں بھیگے ہوئے قلم کے ذریعے ہی ہمارا 'خط' پختہ ہوتا ہے، جس کے بعد آپ کسی بھی چیز سے بنے ہوئے قلم سے یہ فن دکھا سکتے ہیں۔ برش سے بھی کتابت کی جا سکتی ہے، کیوں کہ لکھنا تو اسی ڈھپ پر ہی ہے، لیکن طریقہ مختلف اور محنت طلب ہوگا۔ قلم پر ہم حسب ضرورت دباﺅ ڈال سکتے ہیں، جب کہ برش کو ذرا نرم ہاتھ سے استعمال کرنا پڑتا ہے۔
محمد منیر کے مطابق کتابت سیکھنے والوں کے لیے قلم اور تختی ہی زیادہ معاون ہے، اگر کاغذ پر کتابت سیکھیں گے، تو کاغذ بہت زیادہ صرف ہوگا، کیوں کہ قلم پر قابو رکھنے کے لیے چکنا کاغذ درکار ہوتا ہے، تاکہ روشنائی نہ پھیلے۔ بنیادی کتابت سیکھنے میں دو سے ڈھائی برس لگتے ہیں، اس کے بعد جتنا مشق کریں گے، ہاتھ اُتنا ہی صاف ہوگا۔ ہم نے تو جب کتابت سیکھی، تو زیادہ سے زیادہ قلم چلانے کی کوشش کرتے اور 12، 12 لکھتے رہتے۔ ہم نے پوچھا کہ اگر کوئی کتابت کا شائق آپ سے کتابت سیکھنا چاہے، تو اسے سکھائیں گے؟ تو انہوں نے نفی کرتے ہوئے کہا کہ اب اس کے لیے وقت نہیں ہے۔
کتابت کے ساتھ خطاطی سیکھنے کے سوال پر کہا کہ اس میں مصروفیات آڑے رہیں اور اب تو تمام کام کمپیوٹر پر ہوتا ہے، اگر دیدہ زیب کتابت کرائی جائے، تو صرف اس کام سے گزارا ممکن نہیں۔ کاتب کے ذریعے 200 روپے والے کام کے 1500 روپے لگتے ہیں، صرف ایک فی صد لوگ ہوں گے جو ایسا چاہیں، باقی سب کمپیوٹر والوں کو ڈھونڈتے ہیں۔
محمد منیر کی شادی 1980ءمیں شادی ہوئی، پانچ بچے ہیں، وہ اعتراف کرتے ہیں کہ میرے بچوں کی لکھائی اچھی نہیں ہے، وہ اردو کے بہ جائے اپنی انگریزی کی لکھائی بہتر کرنا چاہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کمپیوٹر کے ذریعے 'کمپوزنگ' سے پہلے کمپیوٹر کا مطلوبہ ہر لفظ پہلے ہاتھ سے ہی لکھا جاتا ہے۔ کتابت کے ذریعے ہی کمپیوٹر میں کسی نئے خط کا در ابھی کھلا ہوا ہے۔
کچھ نئے 'خط' بھی ایسے ہوتے ہیں، جنہیں ہم مختلف رسائل، ٹی وی اور اشتہارات وغیرہ میں دیکھتے ہیں۔ کہتے ہیں اس کے باوجود کاتبوں کے لیے صورت حال حوصلہ افزا نہیں، ہماری اب وہاں بھی کھپت نہیں رہی، وہ بھی اب سارا کام کمپیوٹر کے ذریعے ہی کر رہے ہیں۔ پندرہ، بیس سال کے بعد اب ہم بھی نہیں ملیں گے۔ فن کتابت کو بچانا ہے، تو پہلے اس کا پیٹ تو بھریں! جب تک ہم ہیں، جب تک کتابت بھی ہے۔ اس کے بعد نہیں۔ ابھی کچھ ناشر اور رسائل وجرائد کے اداروں میں مکمل کام کمپیوٹر پر ہونے کے ساتھ ایک، ایک کاتب موجود ہے۔
محمد منیر کو 'جاسوسی ڈائجسٹ' میں خدمات انجام دیتے ہوئے 40 برس ہو گئے ہیں، کہتے ہیں کہ اِس ادارے نے بھی میرا ساتھ دیا، میں نے یہیں رہتے ہوئے اپنی اور بچوں کی شادیاں کیں، لیکن گزر بسر کے لیے اس ملازمت کے ساتھ دوسرے کام بھی کرنے پڑے۔
کتابت کے تجربات مذکور کرتے ہوئے محمد منیر بتاتے ہیں کہ ایک اخبار میں کتابت کرتے ہوئے انہوں نے ایک خبر کی سرخی کے نیچے دوسری خبر لکھ دی تھی، جو شایع بھی ہوگئی۔ ہم نے پوچھا کہ وہ خبر کیا تھی؟ ہنستے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ ایک سیاسی خبر تھی، باقی کچھ نہیں بتاﺅں گا
پھر دیگر شعبہ ہائے زندگی کی طرح تحریر کے شعبے میں بھی مشینوں نے دخل دینا شروع کی، پہلے طباعت واشاعت کا دور شروع ہوا مگر طباعت کے مرحلے سے پہلے دستی کتابت کی محتاجی باقی رہی زندگی کی عام تحریروں میں بھی دستی تحریر کا چلن برقرار رہا، مگر مشینوں کی پیش قدمی کہاں رکنے والی تھی، آخر اس نے دستی تحریر اور کتابت پر بھی 'حملہ' کر دیا تحریریں قلم کے بہ جائے کمپیوٹر کے پردے پر لکھی جانے لگیں۔ تھا تو یہ بھی ارتقا کامرحلہ، مگر جو ذائقہ کاغذ پر ہاتھ سے لکھنے اور پڑھنے میں تھا، وہ جاتا رہا اب آنے والی نسلیں مکمل طور پر اس منفرد 'اِبلاغ' سے عاری ہوجائیں گی بقول شخصے کہ وہ جب خط لکھنے والے کے جذبے آنکھ سے ٹپک کر کاغذ پر جذب ہو جاتے اور پڑھنے والے کو پھیلتی ہوئی روشنائی سے صداقت کی گواہی دے جایا کرتے تھے وہ برقی پردوں پر ابھرتے مٹتے 'بے جان'سے الفاظ میں کہاں سے لائیے گا!
کہنے کو لکھتے ہوئے تحریر کا وسیلہ ¿ قلم ہوتا، لیکن ایسا لگتا کہ لفظوں کی روشنائی قلم کے بہ جائے انگلیوں کے پوروں سے نکل کر کاغذ پر اتری ہو۔ اس لیے روایت پسندوں کو یہ ڈھب آج بھی فطرت سے قریب محسوس ہوتا ہے۔ اسی فطری طریقہ ¿ تحریر یعنی کتابت کے کام سے جڑے ہوئے محمد منیر آج ہمارے مہمان ہیں، جنہوں نے 1959ءمیں وہاڑی میں آنکھ کھولی، ان کے چار بھائی اور تین بہنیں ہیں، دیگر بہن بھائی بھی کتابت کے فن سے وابستہ رہے۔
محمد منیر نے یہ فن اپنے بہنوئی جمیل بہار سے ڈھائی برس کی محنت کے بعد سیکھا اور ملتان میں کام شروع کیا۔ یہ سال 1974ءکا تھا شمار کیجیے، تو آج 44 برس ہو چکے ہیں۔ انہوں نے روزنامہ سنگ میل، روزنامہ آفتاب اور روزنامہ آغاز میں کتابت کے فرائض انجام دیے۔ 1979ءمیں انہوں نے کراچی کا رخ کیا، اور روزنامہ 'آغاز' سے منسلک ہو گئے، اس کے بعد 'جاسوسی ڈائجسٹ' میں آگئے اور تاحال اسی سے وابستہ ہیں۔ یہاں وہ 'جاسوسی ڈائجسٹ' کے مختلف ماہانہ رسائل کے علاوہ کچھ کتابوں کی کتابت کی۔ اس کے علاوہ ریڈیو پاکستان کے ماہانہ جریدے کے لیے بھی خدمات انجام دیں۔
محمد منیر بتاتے ہیں کہ 1990ءکے زمانے میں کمپیوٹر پر اردو کتابت کا چلن بڑھا، تو انہوں نے نوشتہ دیوار پڑھ لیا اور وہ بجلی کی مصنوعات کے کام سے منسلک ہو گئے، ایمپلی فائر، کیمرے اور ٹی وی وغیرہ کی ریئپرنگ کا کام سیکھا اور لیاقت آباد، کراچی میں اس جز وقتی کام کے لیے ایک دکان کر لی، جہاں دفتر سے واپسی پر بیٹھتے، مختلف برقی مصنوعات میں سہولت پیدا کرنے کے لیے انہوں نے بہت سی اختراعات بھی کیں، جس سے بہت اچھی یافت ہوئی۔ یہ سلسلہ 15 برس جاری رہا، اس کے بعد اِن کے صاحب زادے بڑے ہوگئے، انہوں نے ماسٹرز کے بعد ہوٹل مینجمنٹ سیکھی اور اب وہ اِن کا ریستوران چلاتے ہیں، جو آمدن کا بڑا ذریعہ ہے۔
جب محمد منیر نے کتابت شروع کی، تو اس زمانے میں ٹائپ رائٹر پر اردو لکھی جانے لگی تھی، جو 'خط نسخ' میں ہوتی تھی، لیکن 1990ءمیں طباعت واشاعت کی صنعت میں کمپیوٹر پر اردو کا چلن تیزی سے عام ہونے لگا اُس وقت ایک ادارے میں عموماً 35، 40 کاتب ہوتے تھے۔ ہاتھ کی کتابت کرنے والوں پر 'کمپیوٹرائزڈ اردو' نے وار کیا، اور 1994ءمیں آدھے کاتب فارغ ہو گئے، رہ جانے والے بھی فارغ ہوتے گئے اور 1997ءمیں وہ اپنے ادارے میں اکیلے رہ گئے، جو اب کمپیوٹر پر ہونے والی کتابت میں ہاتھ سے مزید درستی کا کام کرتے ہیں، پہلے وہ ایک دن میں تین چار صفحات کی کتابت کر لیتے تھے۔
محمد منیر نے کمپیوٹر پر 'کمپوزنگ' سیکھی، مگر مطلوبہ رفتار نہ پا سکے، اس لیے چھوڑ دیا۔ کہتے ہیں، جب کمپیوٹر پر ایک گھنٹے میں پندرہ سطریں 'کمپوز' کیں، تو باس نے خوش ہو کر انہیں کمپوزنگ کا کام شروع کرنے کی پیش کش کی اور کہا کہ ہم دیگر 'کمپوزروں' کو ڈھائی ہزار دیتے ہیں، آپ کو تین ہزار روپے دیں گے اور کمپیوٹر کے شعبے کا انچارج بھی بنا دیں گے، لیکن انہوں نے اس شعبے کو دوسرے میدانوں کے برعکس نفع بخش محسوس نہ کیا، اس لیے وہ یہاں روایتی کتابت سے ہی جڑے رہے۔
محمد منیر بتاتے ہیں کہ جب اردو کمپوزنگ کا سوفٹ ویئر 'شاہ کار' آیا، تو اُسے چلانے کے لیے لوگ بھی فراہم کیے گئے، لیکن صرف دس فی صد کاتب ہی کمپوزنگ سیکھ پائے، باقی دیگر شعبوں کی سمت چلے گئے۔ محمد منیر کتابت کے شعبے میں اپنے بہن اور بھائی کے کام کے دل دادہ ہیں کہ عام کاتب دو گھنٹے میں ایک صفحہ لکھتے، وہ اُسی معیار کے ساتھ چار صفحے لکھ لیتے تھے۔ اُن کا خیال ہے کہ "خوب صورتی تو ہاتھ کی کتابت میں تھی، لیکن برق رفتاری کمپیوٹر میں ہے۔ ہاتھ کی کتابت چھپنے کے بعد واضح اور گہری ہونے کے سبب پڑھنے میں سہل ہوتی ہے، جب کہ کمپیوٹر کی کتابت کو اس معیار تک لے جائیں، تو اخراجات بڑھ جاتے ہی، اس لیے ادارے اس سے بچتے ہیں۔"
شوقیہ کتابت سیکھنے کا تذکرہ ہوا تو محمد منیر نے بتایا کہ پہلے کچھ شائقین ایسا کرتے تھے، لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ آج کل کے بچے تو پینسل اور پین مانگتے ہیں۔ ہم اپنے زمانے میں حقے کی 'نے' سے قلم بنایا کرتے تھے، کتابت سیکھنے کے لیے لکڑی کا قلم ہی درکار ہوتا ہے، روشنائی میں بھیگے ہوئے قلم کے ذریعے ہی ہمارا 'خط' پختہ ہوتا ہے، جس کے بعد آپ کسی بھی چیز سے بنے ہوئے قلم سے یہ فن دکھا سکتے ہیں۔ برش سے بھی کتابت کی جا سکتی ہے، کیوں کہ لکھنا تو اسی ڈھپ پر ہی ہے، لیکن طریقہ مختلف اور محنت طلب ہوگا۔ قلم پر ہم حسب ضرورت دباﺅ ڈال سکتے ہیں، جب کہ برش کو ذرا نرم ہاتھ سے استعمال کرنا پڑتا ہے۔
محمد منیر کے مطابق کتابت سیکھنے والوں کے لیے قلم اور تختی ہی زیادہ معاون ہے، اگر کاغذ پر کتابت سیکھیں گے، تو کاغذ بہت زیادہ صرف ہوگا، کیوں کہ قلم پر قابو رکھنے کے لیے چکنا کاغذ درکار ہوتا ہے، تاکہ روشنائی نہ پھیلے۔ بنیادی کتابت سیکھنے میں دو سے ڈھائی برس لگتے ہیں، اس کے بعد جتنا مشق کریں گے، ہاتھ اُتنا ہی صاف ہوگا۔ ہم نے تو جب کتابت سیکھی، تو زیادہ سے زیادہ قلم چلانے کی کوشش کرتے اور 12، 12 لکھتے رہتے۔ ہم نے پوچھا کہ اگر کوئی کتابت کا شائق آپ سے کتابت سیکھنا چاہے، تو اسے سکھائیں گے؟ تو انہوں نے نفی کرتے ہوئے کہا کہ اب اس کے لیے وقت نہیں ہے۔
کتابت کے ساتھ خطاطی سیکھنے کے سوال پر کہا کہ اس میں مصروفیات آڑے رہیں اور اب تو تمام کام کمپیوٹر پر ہوتا ہے، اگر دیدہ زیب کتابت کرائی جائے، تو صرف اس کام سے گزارا ممکن نہیں۔ کاتب کے ذریعے 200 روپے والے کام کے 1500 روپے لگتے ہیں، صرف ایک فی صد لوگ ہوں گے جو ایسا چاہیں، باقی سب کمپیوٹر والوں کو ڈھونڈتے ہیں۔
محمد منیر کی شادی 1980ءمیں شادی ہوئی، پانچ بچے ہیں، وہ اعتراف کرتے ہیں کہ میرے بچوں کی لکھائی اچھی نہیں ہے، وہ اردو کے بہ جائے اپنی انگریزی کی لکھائی بہتر کرنا چاہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کمپیوٹر کے ذریعے 'کمپوزنگ' سے پہلے کمپیوٹر کا مطلوبہ ہر لفظ پہلے ہاتھ سے ہی لکھا جاتا ہے۔ کتابت کے ذریعے ہی کمپیوٹر میں کسی نئے خط کا در ابھی کھلا ہوا ہے۔
کچھ نئے 'خط' بھی ایسے ہوتے ہیں، جنہیں ہم مختلف رسائل، ٹی وی اور اشتہارات وغیرہ میں دیکھتے ہیں۔ کہتے ہیں اس کے باوجود کاتبوں کے لیے صورت حال حوصلہ افزا نہیں، ہماری اب وہاں بھی کھپت نہیں رہی، وہ بھی اب سارا کام کمپیوٹر کے ذریعے ہی کر رہے ہیں۔ پندرہ، بیس سال کے بعد اب ہم بھی نہیں ملیں گے۔ فن کتابت کو بچانا ہے، تو پہلے اس کا پیٹ تو بھریں! جب تک ہم ہیں، جب تک کتابت بھی ہے۔ اس کے بعد نہیں۔ ابھی کچھ ناشر اور رسائل وجرائد کے اداروں میں مکمل کام کمپیوٹر پر ہونے کے ساتھ ایک، ایک کاتب موجود ہے۔
محمد منیر کو 'جاسوسی ڈائجسٹ' میں خدمات انجام دیتے ہوئے 40 برس ہو گئے ہیں، کہتے ہیں کہ اِس ادارے نے بھی میرا ساتھ دیا، میں نے یہیں رہتے ہوئے اپنی اور بچوں کی شادیاں کیں، لیکن گزر بسر کے لیے اس ملازمت کے ساتھ دوسرے کام بھی کرنے پڑے۔
کتابت کے تجربات مذکور کرتے ہوئے محمد منیر بتاتے ہیں کہ ایک اخبار میں کتابت کرتے ہوئے انہوں نے ایک خبر کی سرخی کے نیچے دوسری خبر لکھ دی تھی، جو شایع بھی ہوگئی۔ ہم نے پوچھا کہ وہ خبر کیا تھی؟ ہنستے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ ایک سیاسی خبر تھی، باقی کچھ نہیں بتاﺅں گا