فرہاد زیدی
ان کی ذہانت اور جدت طرازی نے اخبار کو چار چاند لگا دیے اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے بلندی کی انتہائی حدوں کو چھونے لگا
ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
نابغہ روزگار فرہاد زیدی بھی آسودہ خاک ہوگئے۔ ان کے انتقالِ پرملال کی خبر ہمارے عزیز دوست اور ممبئی سے شایع ہونے والے روزنامہ انقلاب سے وابستہ ممتاز اور سینئر صحافی ندیم صدیقی کے توسط سے ہم تک پہنچی جب ہم دبئی میں تھے۔
انا للہ و انا الیہ راجعون!
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
اللّہ تعالیٰ ان کے پسماندگان کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔ زیدی صاحب مرحوم بے شمار خوبیوں کے مالک تھے۔ ان کی شخصیت بڑی تہ دار اور ہمہ صفت تھی ، وہ فطری طور پر ذہین شخص تھے، فرہاد زیدی اپنے کرداری تشخص میں شرافت اور وقار کا ایک مثالی نمونہ تھے۔ وہ اپنی عملی زندگی میں صحافتی آزادی اور جمہوری قدروں کے علم بردار تھے۔ وہ ایک اعلیٰ پایہ کے صحافی، شاعر اور دانشور تھے۔ وہ پاکستان میں اپنے وقت کے نہایت موقر روزنامہ مشرق (لاہور) (یہ 1958 کے آس پاس کا زمانہ تھا) سے اور پھر اسلام آباد میں ایک انگریزی اخبار سے وابستہ رہے۔
انھوں نے اسلام آباد سے ایک نہایت معیاری ادبی جریدہ بھی نکالا جس میں اس وقت کے ممتاز اہل ادب کے انٹرویوز کا سلسلہ شروع کیا۔ فرہاد زیدی نے ایک اردو روزنامہ کی بھی ادارت کی مگر وہ انتہائی بے نیاز قسم کے ''شریف آدمی'' تھے۔ انھوں نے آمروں کے زمانے میں قید و بند کی صعوبتیں بھی جھیلیں۔ فرہاد زیدی نے پاکستان ٹیلی وژن کے مینیجنگ ڈائریکٹر کی حیثیت سے بھی گراں قدر خدمات سر انجام دیں۔ وہ APNS آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی کے صدر نشین اور پاکستان آرٹس کونسل کے سربراہ بھی رہے۔
ندیم صدیقی نے زیدی صاحب کی رحلت پر انتہائی افسوس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''یہ بات باعث عبرت ہے کہ ایسے بڑے بڑے اخبارات کے سابق مدیر اور پاکستان ٹیلی وژن کے اعلیٰ ترین عہدے دار کی کسی اردو اخبار نے 'خبر' کو نمایاں نہیں کیا جبکہ یہ ان کا حق تھا۔ ہم لوگ اپنے نام کے ساتھ 'سابق' لکھنے یا چھپوانے کے خواہش مند ہوتے ہیں سو پتہ چلا کہ ہمارے معاشرے میں 'سابق ایڈیٹر' کی کیا قدر و قیمت ہو سکتی ہے۔''
فرہاد زیدی مرحوم کس پایہ کے شاعر تھے ، اِس کا اندازہ ان کی برسوں پرانی اِس نظم سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے جس کا عنوان ہے ''شریف آدمی'' ملاحظہ فرمائیں:
کبھی کبھی مَیں یہ سوچتا ہوں
کہ سارے نمرود، سارے شداد
سارے فرعون، ان کی اولاد
سب صحیح تھے،
وہ سب صحیح تھے کہ اپنے اپنے مشن کی تکمیل کررہے تھے
وہ سب صحیح ہیں کہ اپنے اپنے مشن کی تکمیل کررہے ہیں ...
غلط تو مَیں تھا
غلط تو مَیں ہوں
.........
کہ ہر زمانے سے اجنبی سا گزر گیا مَیں
نہ ٹھیک سے جی سکا کبھی میں نہ ٹھیک سے مَر سکا کبھی میں' ...
غلط تو مَیں تھا
کہ میری تقویم ِروز و شب میں
کبھی کسی فیصلے کی کوئی گھڑی نہیں تھی،
مِرے قبیلے کے واسطے تو
کوئی قیامت بڑی نہیں تھی '
کہیں کوئی کربلا بپا ہو'
کسی عقوبت کدے میں زنداں کے ' کوئی سورج ہی بجھ رہا ہو'
فرازِدار و رسن سے کوئی صدائے حق ہی لگا رہا ہو'
تو ہر شریف آدمی کی مانند
مَیں اپنے حقِ آگہی کے با وصف سوچتا ہوں
نہ مَیں ادھر ہوں، نہ مَیں اِدھر ہوں
فرہاد زیدی1931 میں غیر منقسم ہندوستان کے مردم خیز شہر جونپور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد بسلسلہ ملازمت اورنگ آباد (دکن) میں تھے چنانچہ فرہاد زیدی کے اوائل عمری کے ایام اورنگ آباد میں ہی گزرے۔ فرہاد زیدی سے ہماری سلام دعا برسوں پرانی بات ہے لیکن چونکہ حافظہ ساتھ نہیں دے رہا ، اِس لیے ٹھیک سے نہیں کہا جاسکتا کہ یہ ملاقات کب اور کہاں ہوئی تھی لیکن اس ملاقات کا تاثر ابھی تک قائم ہے۔ ایسی ہی ایک اور یادگار ملاقات اسلام آباد میں اس وقت ہوئی تھی جب انھوں نے آغا مرتضیٰ پویا کے زیرِ انتظام اسلام آباد سے شائع ہونے والے ایک انگریزی روزنامہ کی ادارت سنبھالی تھی۔
یہ منفرد اخبار انگریزی صحافت میں ایک انقلاب کی حیثیت رکھتا تھا اور اِس لیے اس نے بہت قلیل مدت میں اپنا مقام بنالیا۔ اِس اخبار کی مقبولیت سے زیدی صاحب کی انگریزی صحافت کے جوہر بھی کھل کر سامنے آگئے اور معلوم ہوا کہ وہ نہ صرف اردو صحافت کے طرہ دار ہیں بلکہ انگریزی صحافت کے بھی تاجدار ہیں۔
ان کی ذہانت اور جدت طرازی نے اخبار کو چار چاند لگا دیے اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے بلندی کی انتہائی حدوں کو چھونے لگا۔ زیدی صاحب نے ہمیں بھی اپنے اخبار میں لکھنے کی دعوت دی تھی جسے ہم بہ وجوہ قبول نہیں کرسکے۔ تاہم ہمارا وقتاً فوقتاً ملنا جاری رہا پھر اس کے بعد ایک ایسا طویل وقفہ آیا کہ برسوں تک ان سے ملاقات نہ ہوسکی۔
وہ اسلام آباد سے کراچی آگئے اور پھر چند برسوں بعد ہم بھی کراچی منتقل ہوگئے۔ پھر ایک روز یوں ہوا کہ ہم ایک شام ہم اپنے گھر سے نکل کر چہل قدمی کرتے ہوئے آرٹس کونسل کراچی پہنچ گئے تو حسنِ اتفاق سے ہماری ان سے ملاقات ہوگئی اور بہت اچھا وقت گزرا لیکن اس کے بعد کوئی رابطہ نہ ہوا۔
ہماری ان سے آخری ملاقات بھی اتفاق سے کراچی آرٹس کونسل میں ہی ہوئی۔ ماشاء اللہ اس وقت ان کی صحت ٹھیک ٹھاک تھی اور وہ خوش و خرم تھے اور غالباً کوئی اخبار نکالنے کی سوچ رہے تھے۔ کچھ دیر اِدھر ادھر کی باتیں ہوئیں۔ ایک دوسرے کو خدا حافظ کہہ کر رخصت ہوگئے۔ ہم نے ان کی خو بو میں کوئی فرق محسوس نہیں کیا ان میں وہی ملنساری اور شگفتگی تھی جو ان کی شخصیت کا خاصہ تھا۔ پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ۔