خوفزدہ سرکار اور غیر آئینی اقدام
ایسا محسوس ہورہا ہے حکومت بند گلی میں پھنس چکی ہے اور باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں بچا
تحریک عدم اعتماد وہ جن ثابت ہورہا ہے جو بوتل سے باہر آنے کے بعد تبدیلی سرکار کے لیے درد سر بن چکا ہے۔ اوچھے ہتھکنڈوں اور اوٹ پٹانگ بیان بازی سے حکمرانوں کی بوکھلاہٹ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
ایسا محسوس ہورہا ہے حکومت بند گلی میں پھنس چکی ہے اور باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں بچا۔ اس تحریک کے روح رواں مولانا فضل الرحمان ہی ہیں، وہ پہلے دن سے ثابت قدم رہے اور ایک لمحے کے لیے بھی اپنے پاؤں کی مٹی چھوڑنے پر تیار نہیں ہوئے۔
اس جبلِ استقامت نے ہی دوسری سیاسی جماعتوں کے قائدین اور کارکنوں کو حوصلہ بخشا جو آج پوری قوت کے ساتھ مولانا کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور عوام کے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
کپتان سمیت پوری ٹیم کو سوتے میں ہی نہیں بلکہ جاگتے ہوئے بھی مولانا فضل الرحمان کا چہرہ نظر آتا ہوگا۔ یہ چہرہ جہاں تبدیلی سرکار کے لیے ایک ڈراؤنا خواب بن چکا ہے وہاں پاکستانی عوام کے لیے امید کی علامت بھی ہے۔کروڑوں پاکستانی مولانا فضل الرحمان کو اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں اور ان کی ایک کال پر باہر نکلنے کو تیار بیٹھے ہیں۔
اس وقت تبدیلی سرکار تحریک عدم اعتماد سے بچنے کے لیے ہر آئینی و غیر آئینی حربہ استعمال کررہی ہے۔ یہ دنیا کی پہلی سرکار ہے جو اپوزیشن کے خلاف ملک گیر سطح پر جلسے جلوس کررہی ہے، 27مارچ کو اسلام آباد میں دس لاکھ لوگوں کا جلسہ کرنے کی دھمکی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، دنیا کی سیاسی تاریخ میں اس سے پہلے ایسی کوئی مثال ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی۔
اس جلسے کو "امر بالمعروف"کا نام دیا گیا ہے، کپتان نے نجانے کیسے کیسے مشیر پال رکھے ہیں، ایسے مشیروں کے ہوتے ہوئے بھلا انھیں کسی دشمن کی کیا ضرورت ہے۔ اب جلسے کا یہ عنوان بھی انھیں مشیروں کا کارنامہ ہوگا، حالانکہ وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ خود اور ان کے کپتان دینی علوم پر کتنی دسترس رکھتے ہیں اور عربی زبان کے الفاظ کی ادائیگی پر کتنا عبور حاصل ہے۔ ایسے وزراء و مشیران جنھوں نے کبھی عربی پڑھی نہ ہو 'ان کے جلسوں کے عنوان قرآنی الفاظ سے رکھنا، نا انصافی ہی تو ہے۔
اس ضمن میں سب سے پہلے پی ٹی آئی قائدین' وزراء' مشیران و معاونین کو قرآن پاک کی تعلیم دی جائے، تاکہ ایک مسلمان کی حیثیت سے ان کی زبان سے ادا ہونے والے اسلام کے بنیادی الفاظ کی ادائیگی درست ہوسکے۔ دوسری بات یہ کہ خدارا حکومت کے نزدیک جو گنتی کے ایک دو علماء موجود ہیں انھیں چاہیے کہ وہ پی ٹی آئی کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا مطلب اور اس کی تفسیر بتا دیں۔
کپتان اور ان کی ٹیم کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ جس طرح اسلام میں امر با لمعروف، یعنی: اچھی باتوں کی تلقین کرنے کی اہمیت ہے، اسی طرح برائیوں اور گناہ کے کاموں سے روکنے اور حسب استطاعت اْن پر نکیر کا حکم ہے۔ نہی عن المنکر ایک مستقل فریضہ ہے، یہ بات غلط ہے کہ صرف امر بالمعروف کافی ہے، اسی سے منکرات ختم ہوجاتے ہیں، حسب حیثیت اور استطاعت ہر شخص پر نہی عن المنکر کی بھی ذمے داری ہے۔ البتہ علماء نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی شرائط اور اْس کے اصول بتائے ہیں۔
سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 104اور105میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے کہ ''اور چاہیے کہ تم میں سے ایک جماعت ایسی ہو جو نیک کام کی طرف بلاتی رہے اور اچھے کاموں کا حکم کرتی رہے اور برے کاموں سے روکتی رہے، اور وہی لوگ نجات پانے والے ہیں۔ ان لوگوں کی طرح مت ہو جو متفرق ہو گئے بعد اس کے کہ ان کے پاس واضح احکام آئے انھوں نے اختلاف کیا، اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔''
دین اور عقل کی نظر میں بہت سے کام معروف اور پسندیدہ ہیں جیسے نماز اور دوسرے فروغ دین، سچ بولنا، وعدہ وفا کرنا، صبر و استقامت، فقراء اور ناداروں کی مدد، عفو و گذشت، امید و رجاء، راہ خدا میں انفاق، صلہ رحمی، والدین کا احترام، سلام کرنا ، حسن خلق اور اچھا برتاؤ، علم کو اہمیت دینا، ہم نوع ، طہارت و پاکیزگی، ہر کام میں اعتدال اور میانہ روی اور دیگر سیکڑوں نمونے۔ اس کے مقابلے میں بہت سے ایسے امور پائے جاتے ہیں۔
جنھیں دین اور عقل نے منکر اور ناپسند شمار کیا ہے، جیسے: ترک نماز، روزہ نا رکھنا، حسد، کنجوسی، جھوٹ، تکبر، غرور، منافقت، عیب جوئی اور تجسس، افواہ پھیلانا، چغلخوری، ہوا پرستی، براکہنا، جھگڑاکرنا، ناامیدی پھیلانا، ظلم اور ظالم کی حمایت کرنا، مہنگا بیچنا، سود خوری، رشوت لینا، انفرادی اور اجتماعی حقوق کو پامال کرنا وغیرہ وغیرہ۔ ان میں سے بے شمار معاملات ایسے ہیں جن کی زد میں خود حکومت آرہی ہے، اس لیے سب سے زیادہ ضرورت امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی تبدیلی سرکار کو ہے۔
جلسوں میں کھڑے ہوکر اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف توہین آمیز زبان کا استعمال، لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق کی پامالی، الیکشن میں لوگوں سے کیے وعدوں سے انحراف کرنا، ہر معاملے میں یو ٹرن لینا، آئین اور قانون کی پرواہ نہ کرنا۔ یہ سب معاملات تبدیلی سرکار کے کھاتے میں موجود ہیں اور سب کے سب امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی زد میں آتے ہیں۔ پہلے ریاست مدینہ کا مقدس اور پاکیزہ نام کا استعمال کرکے سادہ لوح مسلمانوں کے جذبات سے کھیلا گیا اور اب قرآنی آیات کو اپنے سیاسی جلسوں کا عنوان بنا کر سادہ لوح لوگوں سے سیاسی کھیل کھیلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
متحدہ اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد پیش کردی ہے، حکومت کے درجنوں اراکین اسمبلی کھل کر کپتان کے خلاف کھڑے ہیں، اتحادی جماعتیں اڈاری بھرنے کو تیار ہیں۔ کپتان کے لیے بہتر راستہ استعفیٰ تھا جس سے ان کی سیاسی عزت باقی رہ جاتی لیکن اس عدم اعتماد کی تحریک سے بچنے کے لیے غیر آئینی ہتھکنڈے استعمال کرکے ملک کو بڑے بحران سے دوچار کرنے کی سازش تیار ہورہی ہے۔
جس دن تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی اس کے چودہ دن کے اندر اجلاس بلانا اسپیکر کی آئینی ذمے داری ہے لیکن جان بوجھ کر اجلاس 25مارچ کو تاخیر سے بلایا گیا۔ اس غیر آئینی اقدام کے خلاف بلاول بھٹو زرداری نے سپریم کورٹ جانے کا اعلان کردیا ہے۔ اپنے باغی اراکین کا پیچھا کرتے ہوئے حکومت کے دو ایم این ایز نے اپنے ورکروں کے ساتھ سندھ ہاؤس پر حملہ کیا، اراکین اسمبلی کے گھروں پر حملے ہورہے ہیں، وزراء انھیں کھلی دھمکیاں دے رہے ہیں۔
ایسی حرکتوں سے تبدیلی سرکار اپنے نامہ اعمال کو مزید سیاہ کرنے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں کرسکتی اس لیے باعزت راستہ یہی ہے کہ ملک کو کسی بحرانی کیفیت کی جانب دھکیلنے کے بجائے آئین و قانون کا راستہ اختیار کیا جائے۔ اسٹیبلشمنٹ بھی اس وقت نیوٹرل دکھائی دے رہی ہے، وہ اپنے آپ کو سیاسی معاملات میں الجھانا نہیں چاہتی البتہ قومی سلامتی کے معاملات سے وہ لاتعلق نہیں رہ سکتی، اگر خدانخواستہ ٹکراؤ اور خون خرابے کی جانب حالات بڑھے تو یقیناً اسٹیبلشمنٹ اپنا کردار ادا کرنے کے لیے میدان میں آئے گی جو یقیناً جمہوری عمل کے لیے بہتر نہیں ہوگا۔ اس لیے بہتر ہے کہ حکومت آئین کے مطابق سیاسی قوتوں کو راستہ بنانے دے یہی ملک و قوم کے لیے بھی بہتر ہوگا اور جمہوریت کے لیے بھی۔ اللہ کریم پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔
میں آخر میں او آئی سی وزرائے خارجہ کا اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس کے بارے میں گزارش کرنا چاہوں گا۔ او آئی سی دنیا بھر کے مسلمانوں کا متفقہ پلیٹ فارم ہے، یہ پلیٹ فارم کتنا مؤثر اور کتنا غیر مؤثر ہے، اس بحث میں جائے بغیر ایک مسلمان کی حیثیت سے مجھے اس تنظیم کا احترام ہے۔ تمام اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ پاکستان آئے ہوئے ہیں، وہ ہم سب کے مشترکہ مہمان ہیں، ان کی عزت و تعظیم ہم سب پر لازم ہے۔
میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں مولانا فضل الرحمان کو جنھوں نے پی ڈی ایم کے لانگ مارچ کی تاریخ او آئی سی اجلاس کی وجہ سے تبدیل کی۔ یہ ان کی حب الوطنی کی دلیل ہے، باقی سیاسی جماعتوں کے قائدین کو بھی ذمے داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور غیر ذمے دارانہ بیانات سے گریز کرنا چاہیے۔