کراچی کو تباہ ہونے سے بچائیں

حکومت جمہوری انداز میں چلانا ہے تو سب کے ساتھ انصاف کیا جانا چاہیے۔۔۔

ہمارے شہر کراچی میں ملک کی تمام قومیتیں آباد ہیں۔ اسی لیے اسے ''منی پاکستان'' بھی کہا جاتا ہے۔ تمام قومیتوں کی اپنی علیحدہ تہذیب و تمدن ہے۔ ثقافت الگ الگ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف الرائے لوگ رہتے ہیں اور ایک دوسرے سے تعاون کا فقدان بھی ہے۔ ہر ایک تہذیب و تمدن کا فرد یہی چاہتا ہے کہ اس کے طبقے کی بالادستی ہو۔ تو یہاں ہلچل، گڑبڑ، فساد، جھگڑے ہونا حقیقی امر ہے۔ اس کی ذمے داری زیادہ تر برسر اقتدار حکومت پر عاید ہوتی ہے کیونکہ شہر، صوبے اور ملک کا نظم و نسق چلانا ان ہی کے سپرد ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ لوگ عوام کے ووٹوں ہی سے برسر اقتدار آتے ہیں۔ ان کی ذمے داری بن جاتی ہے کہ عوام کے حقوق اور مفادات کو ترجیح دیں۔ یوں کہوں تو مناسب ہوگا کہ عوام کے حقوق و مفادات کا تحفظ ان کی ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے نہ کہ ذاتی مفادات کو ترجیحات میں شامل کریں۔ اسی طرح سے وہ ملک کو ترجیحات میں بہتر طریقے سے چلاسکتے ہیں اور تمام تفرقات سے بچے رہتے ہیں ۔

کہنے کو تو وعدے وعید بہت کیے جاتے ہیں بڑے خوش کن منصوبوں کی نوید سناتے ہیں۔ لیکن جب اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوجاتے ہیں تو وہی چکنی کے تین پات کی صورت محسوس کی جاتی ہے۔ عوام تو ووٹ دے کر اور انھیں ایوانوں میں بھیج کر اپنے ہاتھ پہلے ہی کٹوا دیتے ہیں۔ اب کریں تو کیا کریں ہاتھ تو کٹے ہوئے ہیں اسی صورت حال سے منتخب نمایندے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی من مانی کرنے پر اتر آتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ قوم کی بدقسمتی ہے کہ ''جن پتوں پر کیا تھا بھروسہ وہی ہوا دینے لگے''۔ جب حکومتی ارکان کی طرف سے اس طرح کی بے رخی کا رویہ اختیار کرنا، باعث بدنظمی، بدعنوانی، کرپشن اور دیگر خرابیوں کو فروغ حاصل نہیں ہوگا تو پھر اور کیا حاصل ہوگا۔ کانٹے بوکر پھولوں کی امید رکھنا کہاں کی عقلمندی ہوتی ہے۔ اسی طرح جن منتخب نمایندوں کو ایوانوں میں بھیجا گیا وہ کانٹوں کی پیداوار ثابت ہوں تو عوام کا کیا قصور؟ انھوں نے تو ان کی شخصیت اور معاشرے میں ان کی حیثیت اور مقام کو پرکھا تھا۔ ان کے دلوں کا حال تو نہیں جانتے تھے۔

جب تک سونے کو کسوٹی پر نہیں کسا جاتا اس کے کھرے اور کھوٹے ہونے کا پتہ نہیں چل سکتا۔ اسی طرح جب تک یہ منتخب نمایندے ایوانوں میں جاکر اپنی کارکردگی نہیں دکھاتے عوام اپنے انتخاب کا فیصلہ نہیں کرسکتے کہ وہ صحیح تھا یا غلط۔

بدانتظامی اور نااہلی کی حد یہ ہوگئی ہے کہ امن و امان کا مسئلہ قابو میں نہیں آ رہا ہے۔ روزانہ 15-14 افراد کا قتل معمول بن گیا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر جرائم بھی ساتھ ساتھ وقوع پذیر ہو رہے ہیں۔ اغوا کاری، بھتہ خوری وغیرہ وغیرہ۔ دہشت گرد علیحدہ اپنی کارروائیوں میں مصروف ہیں اور ان کی کارروائیاں مسلسل عروج پر ہیں۔ جس کا نتیجہ ابھی ہم نے چند دن قبل ہمارے صوبے کے جواں مرد اور جاں نثار پولیس کے اعلیٰ ایس ایس پی اسلم چوہدری کے قتل کی صورت میں دیکھا۔ بتائیے جناب! کہ اتنا اعلیٰ صلاحیتوں کا مالک قانون کا محافظ اور عوام کے جان و مال کا محافظ دہشت گردوں کا نشانہ بن گیا۔ ایسے میں اعلیٰ صلاحیتوں اور باہمت اور حوصلہ مند اہلکار اور افسر ہمیں کیسے میسر آئیں گے۔ دراصل دہشت گردی کے عفریت پر قابو نہ پانے کی وجہ سے ان کے حوصلے اتنے بلند ہوگئے کہ وہ اب ملک کی نامور اعلیٰ شخصیات کو اپنا ٹارگٹ بنا رہے ہیں۔ ایسے میں عام آدمی کا شمار ہما شما میں ہونا حقیقت ہے۔ دہشت گرد ڈھٹائی سے کہہ رہے ہیں کہ اب عام آدمی نہیں بلکہ عوامی نمایندگان اور اعلیٰ شخصیات ان کے نشانے پر ہوں گے۔ یعنی دوسرے معنوں میں دہشت گرد حکومتی رٹ کو چیلنج کر رہے ہیں۔


دوسری طرف ہماری صوبائی حکومت کے وزرا ان اہم ایشوز پر بات کرنے اور سخت قانونی کارروائیاں کرنے کی بجائے اپنے مخالفین کی طرف اپنی توپوں کا رخ کیے ہوئے ہیں زیادہ دور کی بات نہیں ابھی چند روز قبل ہی دہشت گردوں نے اپنے ہدف کی نشاندہی کردی کہ کون سی شخصیات ان کی ہٹ لسٹ پر ہیں لیکن اس کے باوجود حکومت سندھ کی جانب سے خاموشی ماورائے عقل ہے۔ کیا یہ حکومت سندھ کی ذمے داری نہیں بنتی کہ اپنے صوبے کے منتخب ایوان نمایندگان کی سیکیورٹی سخت کردیں اور ان ملک دشمن عناصر کے گرد قانون کا دائرہ تنگ کردیں۔مگر یہاں معاملہ اس کے برعکس نظر آرہا ہے۔

سمجھ نہیں آتا کہ آخر شہر کراچی کے ساتھ ساتھ اس کے منتخب نمایندوں کی طرف سے بے رخی، لاپرواہی، دیدہ یا نادانستہ خاموشی کیا معنی رکھتی ہے۔ شہر کا امن و سکون پہلے ہی برباد ہوچکا ہے اب کیا دہشت گردوں کی کارروائیوں کے نتیجے میں اس شہر کو تباہی کے کنارے پر پہنچادیا گیا ہے۔ یہ مت بھولیے یہ شہر کراچی ملک کا معاشی حب ہے۔ کراچی تباہ ہوگا تو پاکستان کی سلامتی و بقا بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔ خدارا! ہوش کے ناخن لیں اور کراچی کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے اور جمہوری روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے دہشت گردی کے عفریت پر قابو پانے کی ترکیب کیجیے۔

حکومت جمہوری انداز میں چلانا ہے تو سب کے ساتھ انصاف کیا جانا چاہیے امتیازی سلوک کسی طرح مناسب نہیں۔ پھر تو جمہوریت کی نفی ہی ہوگی۔ مثبت اقدامات اٹھانے مثبت انداز میں حکومت چلانے ہی سے جمہوریت پنپے گی، پروان چڑھے گی۔ اس ساری بداعمالیوں کا خمیازہ کراچی اور اس کے باسیوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے ۔ انصاف کا تقاضہ یہی ہے کہ چونکہ حکومت سندھ پورے صوبے کی نمایندگی کرتی ہے اس لیے سندھ کے تمام شہروں کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے۔ اندھا بانٹے ریوڑیاں اپنے اپنوں کو دے والا حساب ٹھیک نہیں۔ شہر کراچی گندگی کا ڈھیر بنا ہوا ہے۔ کچرے کے انبار جگہ جگہ لگے ہوئے ہیں، سڑکیں، گلیاں اور شاہراہیں شکستہ حال ہیں، گٹروں اور ٹوٹی ہوئی رستی ہوئی پائپ لائنوں کا پانی تقریباً ہر محلے میں ابلتا اور جوہڑ کی شکل اختیار کرتا نظر آتا ہے۔ اسی شہر کو ''منی پاکستان'' کہا جاتا ہے۔ یہی شہر صوبہ سندھ کا دارالخلافہ بھی کہلاتا ہے۔ کیا دارالخلافے کا یہی حشر ہوتا ہے؟کہاں تک شہر کی خستہ حالی، بدنمائی، اجڑی شکل کو بیان کروں؟ اگر اور کچھ زیادہ لکھوں تو کہا جائے گا کہ یہ کوئی دل جلا ہے۔ اپنے دل کے پھپھولے پھوڑ رہا ہے۔ ''دیوانہ ہے جانے دو اسے پتھر نہ مارو'' کی صدائیں بلند ہوں گی۔ لیکن میں نے تو حقیقی صورتحال بیان کی ہے اور کراچی کی بگڑتی صورتحال کو سدھارنے کی بات کی ہے۔ میں اس شہر کراچی کا درد اس لیے رکھتا ہوں کہ میں اپنی ہجرت کے سال 1948 سے کراچی میں رہائش پذیر ہوں۔ کراچی کے نشیب و فراز سے خوب واقف ہوں۔ سنی سنائی باتیں نہیں کر رہا ہوں۔

بات دراصل یہ ہے کہ درد کا احساس اسی کو ہوتا ہے جو درد سہتا ہے۔ کراچی کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو کراچی کے باسی ہی محسوس کرسکتے ہیں اور خصوصاً جو ہجرت کے بعد کراچی ہی میں رہائش اختیار کیے ہوئے ہیں یا جو پیدا ہی کراچی میں ہوا ہو۔ جس طرح گزشتہ کئی سالوں سے شہری و دیہی آبادی ایک ساتھ رہ رہی ہیں خوشگوار ماحول میں رہ رہی ہیں اسی طرح نظام کو چلنے دیا جائے نہ کراچی کو تباہی کے راستے پر ڈالیں اور نہ ہی دیگر شہروں کے درمیان نفاق پیدا کریں۔ اتحاد ہی میں اتفاق ہوتا ہے لہٰذا اس اتحاد کو پارہ پارہ نہ ہونے دیں۔

کراچی تو پہلے ہی کرچی کرچی ہے اب مزید کرچیاں نہ ہونے دیں۔ آخر میں یہی کہوں گا کہ کراچی کے حالات درست کرنے اور اس کی تعمیر و ترقی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں۔
Load Next Story