شام اور دہشت گرد قوتیں
بات ہے پاکستان کی، شام نہیں تو پاکستان ہی سہی، شاید موجودہ حالات اور واقعات اسی قسم کی پیشن گوئی کر رہے ہیں ۔۔۔
ANKARA:
شام کے بحران کو مارچ 2014ء میں پورے تین برس مکمل ہونے کو ہیں لیکن تاحال وہاں پر لڑنے والے گروہ کسی بھی قسم کی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو پائے ہیں۔ البتہ یہ ضرور ہوا ہے کہ شام میں موجود مقدس مقامات کو نقصان پہنچایا گیا، دوسری طرف اسلحے اور طاقت کے نشے میں دھت گروہوں نے عوام کو بھی بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا اور معصوم بچوںسمیت خواتین اور بزرگوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام کیا،یہی نہیں بلکہ شامی افواج کو بھی دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا، کیمیائی ہتھیاروں سے حملے کیے گئے،جہاد النکاح کے نام پر اسلام کے چہرے کو مسخ کیا گیا، الغرض دنیا کا کوئی ایسا جرم نہیں ہے جو شام میں انجام نہ دیا گیا ہو۔
شام کے ان حالات کا پس منظر دیکھا جائے تو بڑا واضح ہے کہ تیونس سے شروع ہونے والی اسلامی بیداری کی لہر مصر پہنچی جہاں تھوڑے عرصے کے لیے ہی سہی لیکن اسلامی انقلاب کو کامیابی ہوئی لیکن بعد میں صیہونی سازشوں کے شکنجے میں جکڑ لیا گیا، اسی طرح عالمی دہشت گرد امریکا اور اسرائیل نے کوشش کی کہ اسلامی بیداری کی لہر کی آڑ میں شام میں بھی اسی قسم کی کوئی تحریک چلوائی جائے جس کا واضح مقصد شام کی حکومت کا خاتمہ اور شام میں امریکی اور اسرائیلی پٹھوئوں کی حکومت کا قیام تھا تاکہ شام جو کہ روز اول سے ہی فلسطین کاز کے لیے جد وجہد میں مصروف عمل تھا اسے فلسطین کی حمایت سے دور رکھا جائے اور شام میں موجود اسلامی مزاحمتی تحریکوں بشمول حماس، حزب اللہ، جہاد اسلامی، فلسطین فرنٹ اور دیگر کے دفاتر کو بند کر دیا جائے۔
شام کے، جس نے ہمیشہ فلسطینی کاز کی نہ صرف سیاسی حمایت کی بلکہ عملی طور پر بھی حمایت کی ، جب کبھی فوج کی ضرورت پیش آئی شامی افواج غاصب اسرائیل کے خلاف سینہ سپر ہو گئیں، اور جب کبھی اسلامی مزاحمتی تحریکوں کو مسلح کرنے کی بات آئی تو اس حوالے سے بھی شام کی حکومت ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہوئی۔ تاہم یہی وہ بنیادی نقطہ ہے کہ جو عالمی دہشت گرد امریکا اور اسرائیل کو پسند نہیں۔ تاہم شام کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے لیے یہ کہا جانے لگا کہ مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک بشمول تیونس، مصر، بحرین، یمن، لیبیا اور دیگر کی طرح شام میں بھی اسلامی بیداری کی لہر بیدار ہو گئی ہے جو کہ حقیقت کے بالکل بر عکس تھا، کیونکہ تیونس سمیت دیگر مقامات پر جہاں کہیں بھی عوام اسلامی بیداری کی لہر میں نکلے وہاں مسلح جد وجہد دیکھنے میں نہیں آئی بلکہ عوامی جد وجہد تھی جس نے کامیابی حاصل کی لیکن شام میں چونکہ عالمی قوتوں کا پروگرام کچھ اور ہی تھا لہذٰا یہاں پر دہشت گرد گروہوں کو دنیا بھر سے جمع کر کے شام لایا گیا اور اس حوالے سے بعض مسلم ممالک بھی شریک ہیں۔
بہر حال شام میں دنیا بھر سے دہشت گردوں کو لا کربسایا گیا اور انھیں بھاری مقدار میں جدید اسرائیلی اسلحہ فراہم کیا گیا جس کے بعد کی صورتحال آج ہم سب لوگ جانتے ہیں کہ شام میں کس طرح خانہ جنگی شروع کر دی گئی اور اب تک لاکھوں افراد موت کی نیند سو چکے ہیں۔ جہاں دنیا کی طاغوتی قوتوں نے شام کے خلاف سازشوں میںکسی قسم کی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی وہاں شام نے بھی اپنی پائیدار استقامت کو ایک لمحے کے لیے بھی لڑکھڑانے نہ دیا اور دشمن اندرونی محاذ پر بھی اور بیرونی محاذ پر بھی بھرپور مقابلہ کیا،یہی وجہ ہے کہ تین سال کی خانہ جنگی میں اب تک امریکی اور اسرائیلی ایماء پر لڑنے والے شامی حکومت کے مخالف دہشت گردوں کو کسی قسم کی کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو پائی۔اقوام متحدہ کی آفیشل ویب سائٹ پر بارہا نشر کیا جا چکا ہے کہ شام میں ستر سے زائد ممالک سے آئے ہوئے دہشت گرد شامی حکومت کے خلاف اور شامی عوام کو قتل کرنے میںملوث ہیں ۔
البتہ شام کے معاملے میں کسی بھی اسلامی ملک نے شام کا ساتھ نہیں دیا لیکن شام کا ساتھ دینے والوں میں ایران واحد ایسا ملک تھا کہ جس نے شام کی حکومت کی حمایت کی اور شا م میں جاری خونریزی کو عالمی استعماری سازش قرار دیتے ہوئے اس مسئلے کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کیا، ایران کے ساتھ ساتھ دیگر جن ممالک نے شام کی حمایت کی ان میں روس اور چین بھی شامل ہیں۔
بعض محقق اوردانشور حضرات یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ شام کے معاملے میںایران کو کردار ادا کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اور ایران کیوں اس معاملے میں دخل اندازی کر رہا ہے؟ خیر میں یہاں یہی کہنا چاہتا ہوںکہ ہمیں ایران سے پوچھنے کے بجائے امریکا اور اسرائیل سے یہی سوال کرنا چاہیے کہ آخر کس نے امریکا کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ افغانستان سمیت عراق اور دنیا کے دیگر ممالک میں در اندازی کرے اور پھر شام میں بھی یہی کام کرے اور ہم خاموش تماشائی بنے رہیں،آٓخر کیوں؟
بات ہے پاکستان کی، شام نہیں تو پاکستان ہی سہی، شاید موجودہ حالات اور واقعات اسی قسم کی پیشن گوئی کر رہے ہیں کہ جس میں ایسا لگ رہا ہے کہ چلو اب شام میں تو کسی قسم کی کامیابی ہوئی نہیں پاکستان میں ہی اپنی مرضی کی حکومت قائم کر لی جائے۔ دہشت گردانہ کارروائیوں اور دہشت گرد گروہوں میں پوری ایک سو فیصد مماثلت پائی جاتی ہے، شام میں بری طرح ناکامی کے بعد اب شام میں موجود دہشت گرد کہاں جائے پناہ لیں گے؟ کیا کوئی مسلم ملک ان کو اجازت دے گا کہ وہ اس کے ہاں آ جائیں؟ پاکستان پوری دنیا میں اسلام کا قلعہ سمجھا جاتا ہے اور اگر اسلام کے قلعے پر ہی اسلام کے چہرے کو بگاڑنے والوں کا غلبہ ہو گیا تو پھر آپ کیا کہیں گے؟
شام کے بحران کو مارچ 2014ء میں پورے تین برس مکمل ہونے کو ہیں لیکن تاحال وہاں پر لڑنے والے گروہ کسی بھی قسم کی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو پائے ہیں۔ البتہ یہ ضرور ہوا ہے کہ شام میں موجود مقدس مقامات کو نقصان پہنچایا گیا، دوسری طرف اسلحے اور طاقت کے نشے میں دھت گروہوں نے عوام کو بھی بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا اور معصوم بچوںسمیت خواتین اور بزرگوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام کیا،یہی نہیں بلکہ شامی افواج کو بھی دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا، کیمیائی ہتھیاروں سے حملے کیے گئے،جہاد النکاح کے نام پر اسلام کے چہرے کو مسخ کیا گیا، الغرض دنیا کا کوئی ایسا جرم نہیں ہے جو شام میں انجام نہ دیا گیا ہو۔
شام کے ان حالات کا پس منظر دیکھا جائے تو بڑا واضح ہے کہ تیونس سے شروع ہونے والی اسلامی بیداری کی لہر مصر پہنچی جہاں تھوڑے عرصے کے لیے ہی سہی لیکن اسلامی انقلاب کو کامیابی ہوئی لیکن بعد میں صیہونی سازشوں کے شکنجے میں جکڑ لیا گیا، اسی طرح عالمی دہشت گرد امریکا اور اسرائیل نے کوشش کی کہ اسلامی بیداری کی لہر کی آڑ میں شام میں بھی اسی قسم کی کوئی تحریک چلوائی جائے جس کا واضح مقصد شام کی حکومت کا خاتمہ اور شام میں امریکی اور اسرائیلی پٹھوئوں کی حکومت کا قیام تھا تاکہ شام جو کہ روز اول سے ہی فلسطین کاز کے لیے جد وجہد میں مصروف عمل تھا اسے فلسطین کی حمایت سے دور رکھا جائے اور شام میں موجود اسلامی مزاحمتی تحریکوں بشمول حماس، حزب اللہ، جہاد اسلامی، فلسطین فرنٹ اور دیگر کے دفاتر کو بند کر دیا جائے۔
شام کے، جس نے ہمیشہ فلسطینی کاز کی نہ صرف سیاسی حمایت کی بلکہ عملی طور پر بھی حمایت کی ، جب کبھی فوج کی ضرورت پیش آئی شامی افواج غاصب اسرائیل کے خلاف سینہ سپر ہو گئیں، اور جب کبھی اسلامی مزاحمتی تحریکوں کو مسلح کرنے کی بات آئی تو اس حوالے سے بھی شام کی حکومت ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہوئی۔ تاہم یہی وہ بنیادی نقطہ ہے کہ جو عالمی دہشت گرد امریکا اور اسرائیل کو پسند نہیں۔ تاہم شام کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے لیے یہ کہا جانے لگا کہ مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک بشمول تیونس، مصر، بحرین، یمن، لیبیا اور دیگر کی طرح شام میں بھی اسلامی بیداری کی لہر بیدار ہو گئی ہے جو کہ حقیقت کے بالکل بر عکس تھا، کیونکہ تیونس سمیت دیگر مقامات پر جہاں کہیں بھی عوام اسلامی بیداری کی لہر میں نکلے وہاں مسلح جد وجہد دیکھنے میں نہیں آئی بلکہ عوامی جد وجہد تھی جس نے کامیابی حاصل کی لیکن شام میں چونکہ عالمی قوتوں کا پروگرام کچھ اور ہی تھا لہذٰا یہاں پر دہشت گرد گروہوں کو دنیا بھر سے جمع کر کے شام لایا گیا اور اس حوالے سے بعض مسلم ممالک بھی شریک ہیں۔
بہر حال شام میں دنیا بھر سے دہشت گردوں کو لا کربسایا گیا اور انھیں بھاری مقدار میں جدید اسرائیلی اسلحہ فراہم کیا گیا جس کے بعد کی صورتحال آج ہم سب لوگ جانتے ہیں کہ شام میں کس طرح خانہ جنگی شروع کر دی گئی اور اب تک لاکھوں افراد موت کی نیند سو چکے ہیں۔ جہاں دنیا کی طاغوتی قوتوں نے شام کے خلاف سازشوں میںکسی قسم کی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی وہاں شام نے بھی اپنی پائیدار استقامت کو ایک لمحے کے لیے بھی لڑکھڑانے نہ دیا اور دشمن اندرونی محاذ پر بھی اور بیرونی محاذ پر بھی بھرپور مقابلہ کیا،یہی وجہ ہے کہ تین سال کی خانہ جنگی میں اب تک امریکی اور اسرائیلی ایماء پر لڑنے والے شامی حکومت کے مخالف دہشت گردوں کو کسی قسم کی کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو پائی۔اقوام متحدہ کی آفیشل ویب سائٹ پر بارہا نشر کیا جا چکا ہے کہ شام میں ستر سے زائد ممالک سے آئے ہوئے دہشت گرد شامی حکومت کے خلاف اور شامی عوام کو قتل کرنے میںملوث ہیں ۔
البتہ شام کے معاملے میں کسی بھی اسلامی ملک نے شام کا ساتھ نہیں دیا لیکن شام کا ساتھ دینے والوں میں ایران واحد ایسا ملک تھا کہ جس نے شام کی حکومت کی حمایت کی اور شا م میں جاری خونریزی کو عالمی استعماری سازش قرار دیتے ہوئے اس مسئلے کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کیا، ایران کے ساتھ ساتھ دیگر جن ممالک نے شام کی حمایت کی ان میں روس اور چین بھی شامل ہیں۔
بعض محقق اوردانشور حضرات یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ شام کے معاملے میںایران کو کردار ادا کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اور ایران کیوں اس معاملے میں دخل اندازی کر رہا ہے؟ خیر میں یہاں یہی کہنا چاہتا ہوںکہ ہمیں ایران سے پوچھنے کے بجائے امریکا اور اسرائیل سے یہی سوال کرنا چاہیے کہ آخر کس نے امریکا کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ افغانستان سمیت عراق اور دنیا کے دیگر ممالک میں در اندازی کرے اور پھر شام میں بھی یہی کام کرے اور ہم خاموش تماشائی بنے رہیں،آٓخر کیوں؟
بات ہے پاکستان کی، شام نہیں تو پاکستان ہی سہی، شاید موجودہ حالات اور واقعات اسی قسم کی پیشن گوئی کر رہے ہیں کہ جس میں ایسا لگ رہا ہے کہ چلو اب شام میں تو کسی قسم کی کامیابی ہوئی نہیں پاکستان میں ہی اپنی مرضی کی حکومت قائم کر لی جائے۔ دہشت گردانہ کارروائیوں اور دہشت گرد گروہوں میں پوری ایک سو فیصد مماثلت پائی جاتی ہے، شام میں بری طرح ناکامی کے بعد اب شام میں موجود دہشت گرد کہاں جائے پناہ لیں گے؟ کیا کوئی مسلم ملک ان کو اجازت دے گا کہ وہ اس کے ہاں آ جائیں؟ پاکستان پوری دنیا میں اسلام کا قلعہ سمجھا جاتا ہے اور اگر اسلام کے قلعے پر ہی اسلام کے چہرے کو بگاڑنے والوں کا غلبہ ہو گیا تو پھر آپ کیا کہیں گے؟