زندہ
بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کوئی مقصد بناتے ہیں تو پوری طرح اس کی طرف کام کرتے ہیں محنت کرتے ہیں
انسان جب چھوٹا ہوتا ہے تو ساری دنیا اسے حاصل کرنا آسان لگتا ہے، پائلٹ، کرکٹر، سیاستدان، ایکٹر سب بن کر دکھانا ہوتا ہے اور وہ یقین رکھتا ہے کہ ایک ہی زندگی میں وہ یہ سب کرپائے گا۔ پھر زندگی کے خواب دیکھتی بند آنکھوں پر وقت کے پانی کی چھینٹیں پڑتی ہیں، انسان بڑا ہونے لگتا ہے اور وہ منزلیں جو کنکر جیسی لگتی تھیں پہاڑ لگنے لگتی ہیں۔
وہ درجنوں پروفیشن جو ایک بچہ اپنانا چاہتا ہے میٹرک تک آتے آتے ان میں سے ایک کا بھی ممکن ہونا مشکل نظر آنے لگتا ہے، اداکار اورکرکٹر بننے کے خواب اب صرف خواب ہوتے اور سچائی دن رات کہتی ہے کہ اپنا سارا زور پڑھنے میں لگا دو تاکہ کسی میڈیکل یا انجینئرنگ کالج میں داخلہ مل سکے۔
سوچ ایک بڑی سی کتابوں کی لائبریری کی طرح ہوتی ہے ہر امید ہر کوشش ہر منصوبہ اس لائبریری میں رکھی ہماری خود کی لکھی ایک کتاب ہے ہم سب ہی زندگی میں سیکڑوں منصوبے بناتے ہیں اور پھر ان گنت سوچ سے بھری لائبریری میں سے صرف چارکتابیں اٹھا لیتے ہیں اور باقی ہر سوچ سے منہ پھیر کر ساری عمر صرف اس سوچ کے ساتھ زندگی گزار دیتے ہیں عام سی نوکری، گھر، گاڑی، بال بچے۔ وہ ملک کے لیے کچھ کر دکھانا یا پھر سیاست کے میدان میں نام کرنے والی دھول کھاتی سوچ کی طرف ہم زندگی بھر پیٹھ کیے بیٹھے رہتے ہیں کبھی مڑ کر اس سوچ پر نظر بھی پڑی تو اس پر سے دھول نہیں ہٹائی۔
بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کوئی مقصد بناتے ہیں تو پوری طرح اس کی طرف کام کرتے ہیں محنت کرتے ہیں عمران خان کہتے ہیں انھیں نو سال کی عمر سے پتہ تھا کہ وہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان بنیں گے اور اپنی اسی سوچ کی کتاب کو وہ روز پڑھتے تھے۔
امریکا میں بہت کم پاکستانی ایسے ہیں جو ملینیئر ہیں ان میں سے کچھ سے ہم نے سوال کیا کہ ان کی کامیابی کا راز کیا ہے؟ تو ان سب نے ایک ہی جواب دیا کہ ہم نے کبھی ہمت نہیں ہاری اور اپنے مقصد کی طرف کام کرتے رہے۔
یہ سچ ہے کہ جو لوگ زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے صدق دل سے کوشش کرتے ہیں کامیابی ان کے قدم چومتی ہے کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے ہونے سے کئی لوگوں کی زندگیوں کو فائدہ پہنچتا ہے وہ اپنی زندگی میں ایسے کام کرتے ہیں جن سے یہ دنیا بہتر ہوتی ہے اور ایسے ہی مقصد رکھنے والا فیصل آباد کا ایک نوجوان شاہ زیب باجوہ ہے وہ نوجوان جس کا مقصد دنیا کو بہتر بنانا تھا۔
شاہ زیب نے بچپن سے جو خواب دیکھا اسے پورا کرنے کی کوشش کی، اس کے آس پاس کے بچے جب عام سی زندگی حاصل کرنے کی جدوجہد میں لگے ہوئے تھے وہیں شاہ زیب نے زندگی میں کامیابی کو ایک اونچی چوٹی پر رکھ دیا، پاکستان کا ایک نامور تعلیمی ادارہ ہے وہاں کسی کو بھی داخلہ ملنا مشکل ہوتا ہے، اکثر لوگ کوشش کرنے سے پہلے ہی ہار مان جاتے ہیں لیکن شاہ زیب ہار ماننے والوں میں سے نہیں تھا۔
محنت کرکے اچھے نمبر لانے سے شاہ زیب کو اس ادارے میں داخلہ مل گیا نہ صرف داخلہ ملا بلکہ انھیں وہاں کے ٹاپ موسٹ طلبا کی فہرست میں شامل ہونے کا اعزاز بھی ملا اس کے علاوہ وہ انٹرنیشنل نان پرافٹ اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن کے بھی فعال ممبر تھے۔
''خودی کو کر بلند اتنا'' پر یقین کرنے والے شاہ زیب ایکسچینج اسٹوڈنٹ پروگرام میں منتخب ہوکر امریکا جانے والے طلبا میں شامل ہوگئے۔شاہ زیب اس سڑک پر سفر کر رہے تھے جو کامیابی کی طرف جاتی تھی۔ آج امریکا جاکر کسی پاکستانی طالب علم کا تعلیم حاصل کرنا پہلے سے بہت مشکل ہوچکا ہے، شاہ زیب اس موقعے کی اہمیت سمجھتے تھے اسی لیے وہ امریکا میں تعلیم حاصل کرکے واپس اپنے وطن پاکستان جاکر خدمت کرنا چاہتے تھے لیکن ان کی امید سے بھری سفر کرتی گاڑی کو ایک دم بریک لگانا پڑ گئے۔
نومبر 2013 میں وسکانسن میں شاہ زیب اپنی گاڑی میں ہائی وے پر جا رہے تھے جب نہ چاہتے ہوئے شاہ زیب کو زندگی کے ہر منصوبے کو بریک لگانا پڑا۔ ان کی گاڑی کے سامنے ہرن آگیا، شاید یہ بات سب کے علم میں نہ ہو کہ گاڑی کی ہیڈلائٹس آنکھوں میں پڑتے ہی ہرن سکتے میں آجاتا ہے سڑک کے بیچوں بیچ کھڑا رہتا ہے اپنی طرف آتی گاڑی کو دیکھ کر ہٹتا نہیں ہے اور اندھیرے میں آنے والے ڈرائیور کو جب تک ہرن نظر آتا ہے بریک لگانے کے لیے بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔
شاہ زیب کا ایکسیڈنٹ ہوگیا اور ان کے سر سمیت جسم کے کئی حصوں پر چوٹیں آئیں انھیں اسپتال لے جایا گیا جہاں انھوں نے خود سب کو بتایا کہ کیا ہوا تھا لیکن تھوڑی دیر میں انھیں خون کی الٹی ہوئی اور اچھو لگنے کی وجہ سے ان کی سانس بند ہوگئی، چھ سات منٹ بعد جب ڈاکٹرز ان کی دل کی دھڑکن واپس لانے میں کامیاب ہوئے تو دماغ کو شدید نقصان پہنچ چکا تھا۔
آج شاہ زیب کو اسپتال میں چار مہینے ہوچکے ہیں وہ بات نہیں کرتے لیکن آنکھیں کھولتے ہیں کبھی بولنے کی کوشش کرتے ہیں کبھی آنکھوں سے آنسو نکلتے ہیں کبھی ٹانگ کبھی ہاتھ ہلاتے ہیں۔ ڈاکٹرز کے مطابق ان کے دماغ کو کتنا نقصان پہنچا ہے یہ بتانا فی الحال مشکل ہے اور ان کے علاج میں بہت وقت لگ سکتا ہے۔
شاہ زیب امریکا میں اسٹوڈنٹ ویزہ پر ہیں اور کلاسز نہ لینے کی وجہ سے ان کا ویزہ بہت جلد ختم ہونے والا ہے۔
ڈاکٹرز کی کوشش کے باوجود یونیورسٹی بغیر ان کے کلاسس اٹینڈ کیے ویزہ بڑھانے پر تیار نہیں، ان کے مطابق وہ بھی امریکن قانون کی وجہ سے مجبور ہیں، امریکا سے اگر انھیں اس حال میں واپس لانے کی کوشش کی گئی تو ان کے لیے خطرناک ہوگا۔ پاکستان میں انھیں وہ طبی سہولتیں بھی نہیں مل پائیں گی جو انھیں اس وقت امریکا میں میسر ہیں۔
یہ وہ لڑکا ہے جو ہمارا کل بدلنے نکلا تھا لیکن ایک برے موڑ پر آکر اس کی زندگی تھم گئی اب ہمیں اس کا کل بدلنا ہے ہماری اپنی حکومت سے اپیل ہے کہ وہ شاہ زیب کے ویزے اور علاج کے لیے امریکی حکومت سے درخواست کرے تاکہ وہ اس وقت تک اسے وہاں رہنے دیں جب تک وہ سنبھل نہیں جاتا۔
کئی لوگ ڈاکٹرز کے Brain Dead ڈکلیئر کردینے کے بعد بھی تندرست ہوئے ہیں جب شاہ زیب کو بہتر کل کی امید تھی تو ہم کیسے وہ امید اس کے لیے چھوڑ دیں۔ اس کا کل بہتر ہوگا کیونکہ اس کا آج زندہ ہے اور اسے ہمارے بہتر مستقبل کے لیے زندہ رہنا ہوگا۔