عورتوں کے ساتھ ناروا سلوک کیوں…

ماؤں کا عالمی دن، بچوں کا عالمی دن، امن کا عالمی دن، پیار کا عالمی دن، مزدوروں کا عالمی دن، آلودگی کا عالمی دن ۔۔۔

ماؤں کا عالمی دن، بچوں کا عالمی دن، امن کا عالمی دن، پیار کا عالمی دن، مزدوروں کا عالمی دن، آلودگی کا عالمی دن اور اب ''عورتوں کا قومی دن''۔ ہم بھی عجیب لوگ ہیں سال کے 364 دن جن کا حشر نشر کرتے ہیں ان ہی کے نام ایک دن کرتے ہیں اور جن کا حشر نشر ہم نہیں کرسکتے ان کے نام ایک دن بھی نہیں کرتے بلکہ اپنی زندگی ان کے نام کردیتے ہیں مثلاً حکمران، سیاستدان، عوام کے خدمت گزار، وغیرہ وغیرہ۔

چوں کہ ''عورتوں'' پر ظلم و ستم پوری دنیا میں کیا جاتا ہے اس لیے پوری دنیا کے لوگ ''عورتوں'' کے غم میں شریک ہونے کے لیے یہ دن مناتے ہیں۔ چوںکہ ترقی یافتہ اور مہذب معاشرے میں عورتیں گھر سے باہر یہ وقت زیادہ گزارتی ہیں لہٰذا ان کے یہاں گھریلو تشدد کی شرح کم ہے باقی جنسی، جسمانی، ذہنی تشدد کے اعداد و شمار کافی ڈرا دینے والے ہیں۔

خیر کم تو ہمارے یہاں بھی یہ اعداد و شمار نہیں ہیں اور ہمارے یہاں بھی یہ شرح بڑھتی جا رہی ہے شاید اس لیے ہم نے ''عورتوں کا قومی دن '' بھی منانا شروع کردیا ہے یوں تو ہم عورتیں لگ بھگ 49 فیصد ملک کی آبادی کا حصہ ہیں۔ معاشرے میں ہمیں عزت والے نام یعنی ماں، بہن ، بیٹی اور بیوی سے پکارا جاتا ہے۔ مگر اسی ملک میں ایک ''عورت'' جوکہ ملک کی وزیر اعظم بھی رہی ہے ،جان گنوا دیتی ہے۔ معاشرے کی اس قومی دن کو منانے سے اس شہید کو بھی کوئی فائدہ نہ ملا نہ اس کے قاتل آج تک گرفتار ہوئے ہیں۔ فائدہ تو اس دن سے ان بسوں میں اور سوزوکیوں میں سفر کرنے والیوں کو بھی نہ ملا جو اکثر بسوں کے اور سوزوکیوں کے مرد مسافروں کے ہاتھوں کی چیرہ دستیاں برداشت کرتی ہیں کہ ''مجبوری ہے کام کی خاطر نکلے ہیں''۔ پھر دفاتر اور فیکٹریوں میں ماسیوں اور مالکوں کے تشدد کا شکار ہوتی ہیں کیسے کیسے گھناؤنے روپ زندگی ان حوا کی بیٹیوں کو دکھاتی ہے شاید اسی لیے گئے وقتوں میں کہا گیا تھا کہ:

اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجیو

اور جب سارے معاشرے سے نبرد آزما ہوکر اپنے گھر پہنچتی ہے تو وہاں بھی فقط ''پیر کی جوتی'' ہوتی ہے اور گھر میں رہنے والی کی آواز بھی اتنی ہی نکلتی ہے جتنی ان کے ''والی وارثوں'' کو پسند ہو اور اگر نہ پسند ہو تو گونگے بن کر زندگی گزارنی پڑتی ہے۔


یہ حقیقت ہے کہ اس قومی دن کو منانے سے ان پانچ کوہستانی خواتین کو بھی کوئی فائدہ نہیں ملا جو شادی کی تقریب میں رقص کی پاداش میں لاپتہ ہیں اور وہ جو سرداروں کے گھروں میں بی بی یا ملکانی بہنیں اور بیٹیاں ہوتی ہیں، انھیں تو اس دن کا پتہ ہی نہیں اس لیے اسی لاعلمی میں اکثر ''قرآن پاک'' کے ذریعے ان سے حق بخشوا لیا جاتا ہے۔

فروری کے اس دن کی بے توقیری فاخرہ کے چہرے کو دیکھ کر اور بڑھ جاتی ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی اس کے چہرے کو نہ بچا سکے۔اور یہ سب کہانیاں کوئی ایسی دل چھو لینے والی بھی نہیں ہیں اور نہ اس کا مقصد ان عزت داروں کی دل آزاری جن کی حویلی جیل کی مانند ''کمی کماروں'' کی زنانیوں سے بھری ہوتی ہیں جو چند روٹیوں کے عوض اپنے آپ کو گروی رکھ کر گھر والوں کو بھوک سے بچاتی ہیں۔ افسوس صد افسوس کہ ان ناقص عقلوں کو خبر ہی نہیں کہ ہماری قومی اسمبلی نے بہت پہلے ہی ہماری اشک شوئی کے لیے ''چادر اور چار دیواری'' کے تحفظ کا بل منظور کیا ہے اور عورتوں کے قومی دن کے حوالے سے اس کا دائرہ کار تعلیمی اداروں تک بڑھا دیا ہے۔

یہ وہی بل ہے جس کے تحت زیادہ تر مقدمات صرف زیادتی کے بھی درج ہوتے ہیں اسکولوں میں اساتذہ کی جانب سے ہراساں کرنا، بازاروں میں دکانداروں کی جانب سے ہراساں کرنا، دفاتر اور فیکٹریوں میں سربراہوں کی جانب سے عورتوں کا ہراساں کرنے کے مقدمات شاید اس بل کے زمرے میں نہیں آتے ہیں۔اس لیے پولیس بھی ان کی طرف توجہ نہیں دیتی یا یہ تو چھوٹی موٹی باتیں ہیں اب ان پر کیا غور کیا جائے۔ اس لیے شاید رمضان شریف کے مہینے میں ایک نجی چینل پر ایک سنگل لائن خبر چلی کہ ایک خاتون نے بینک کے عملے کے رویے کے خلاف خودکشی کرلی۔ مگر اگلے دن نہ کسی اور اخبار نے اس کو جگہ دی اور نہ کسی اور چینل نے اسے قابل غور سمجھا۔ اسی طرح کراچی کے ہوٹل میں دو لڑکیوں کی دوران انٹرویو کے منیجر کے ہراساں کیا جانے پر خودکشی کی خبر بھی بس خبر ہی بن گئی۔ شاید ''عورت'' خبر بننے کے لیے ہے۔

ارے ہاں ایک اچھی خبر یہ ہے کہ ایک محکمہ ترقی نسواں بھی ہے جس کی ایک ہیلپ لائن بھی مگر ٹھہریے! کبھی آپ زیادہ پریشان ہوں یا کوئی آپ کو تنگ کر رہا ہو تو ہر گز بھی اس کا نمبر نہ ملائیے گا کیونکہ نمبر کبھی ملے گا ہی نہیں آزمائش شرط ہے۔ایک اور خواتین سے متعلق ایک ادارہ ہمارے حیدرآباد کے علاقے قاسم آباد میں بھی ہے کچھ عرصے پہلے ایک ضرورت کے تحت جب ہم نے رابطہ کیا تو جو صاحب تھے انھوں نے بتایا کہ میڈم نہیں ہیں اور کہا کہ آپ اگلے دن آئیے گا اور جب اگلے دن ہم گئے تو وہاں ایک ینگ سی خاتون ملیں اور ہمارے مسئلے کو سن کر بولیں کہ ہمارے پاس تو اس سے متعلق عملہ نہیں ہے آپ خود ہی اپنے مسئلے کو حل کرلیں۔ واپس نکلتے وقت ہم نے دیکھا کہ ایک گاڑی بھی کھڑی ہے جوکہ پنکچر تھی اور کافی وقت سے ناکارہ کھڑی تھی۔ اور افسر اعلیٰ فقط مجھ سے ملنے آئی تھیں اور میرے نکلتے ہی وہ بھی واپسی کے لیے چل پڑی۔

چلیں میرا مسئلہ تو حل نہیں ہوا اور نہ ایسے بہت سے محکموں سے میرے جیسوں کا مسئلہ حل ہوا البتہ ان محکموں سے کچھ اور خواتین کا بھلا ہو رہا ہے یہ اکثر شہر کے پوش علاقوں میں رہتی ہیں۔ مثلاً کراچی میں یہ کلفٹن کی رہائشی ہوکر ''ملیر، اورنگی، کورنگی اور لیاری جیسے غریب علاقوں میں خواتین کے لیے NGO's بناکر اپنے جیسی خواتین کا بھلا کرتی ہیں اکثر گرین کارڈ ہولڈر بھی ہوتی ہیں اور دیار غیر بھی آنا جانا لگا ہوتا ہے ان کی سخت جدوجہد کے باوجود بھی اب ان علاقوں کی خواتین کی قسمت نہیں بدل رہی ہے تو ظاہر ہے اس میں ان کا تو قصور نہیں ہے یہ تو عوام ہی جاہل ہے اور ہاں اکثر یہ پوش علاقوں میں رہنے کی وجہ سے بھی دہشت گردوں سے بھی بچی رہتی ہیں اب یہ کوئی پولیو ورکر تو ہیں نہیں کہ کوئی انھیں ٹارگٹ کرے۔ میرا ماتم تو بس اب تمام ہوا، میرے صدمات تو بہت تھوڑے ہیں اس سات ماہ کی بچی سے جس کی جان تو بچ گئی ہے لیکن کیا اسے درندگی سے بچانے کے لیے بھی کوئی محکمہ ہے؟
Load Next Story