پاکستان میں تعلیمی پالیسی کا کوئی وجود ہی نہیں

پرائیویٹ سیکٹر میں کوئی ادارہ منہاج یونیورسٹی کا مقابلہ نہیں کرسکتا


Shahbaz Anwer Khan February 24, 2014
ڈپٹی چیئرمین بورڈ آف گورنرز منہاج یونیورسٹی لاہور ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کی گفتگو۔ فوٹو: ایکسپریس

(ڈاکٹر حسین محی الدین قادری، تحریک منہاج القرآن کے سربراہ و معروف مذہبی سکالر ڈاکٹر طاہر القادری کے چھوٹے صاحبزادے ہیں۔ ڈاکٹر حسین محی الدین نے ابتدائی تعلیم ایچی سن کالج سے حاصل کی۔ انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کرکے گریجوایشن کے لئے کینیڈا چلے گئے۔ بعد ازاں فرانس کی یونیورسٹی سے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ دوران تعلیم طلبہ کے حقوق کے لیے بھی متحرک و فعال کردار اداکیا۔ خصوصاً مسلمان طلبہ کی شناخت اور ان کو باوقار مقام دلانے کے لیے کوشاں رہے۔ جدید علوم کے حصول کے ساتھ ساتھ انہوں نے دینی علوم بھی حاصل کیے۔ کم عمر ہونے کے باوجود اپنے ویژن، قابلیت اور خداداد صلاحیتوں کی بنا پر وہ اپنے ہم عصروں میں ممتاز دکھائی دیتے ہیں۔ ڈاکٹر حسین محی الدین درجن سے زائد کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ انہوںنے اکنامکس، ایگریکلچر کے موضوع پر گراں قدر کتب لکھیں۔ بہت کم لوگوں کوعلم ہے کہ ڈاکٹر حسین محی الدین ایک خوبصورت شاعر بھی ہیں۔ انہوںنے شاعری کی کم وبیش تمام اصناف میں طبع ازمائی کی ہے۔ ان کی شاعری کا مجموعہ ''نقشِ اول '' کے عنوان سے شائع ہوچکاہے اور اہم علم سے داد و تحسین حاصل کرچکا ہے۔ ان کے لہجے میں ایک وقار و تمکنت اور دلائل و براہین سے آراستہ گفتگو ان کی شخصیت کے نمایاں اوصاف ہیں۔ وہ دوران گفتگو الفاظ کا استعمال بڑی موزونیت کے ساتھ کرنے پر قدرت رکھتے ہیں۔ انہیں اپنا مافی الضمیر آسان اور موثر انداز میں سامع تک پہنچانے کا ملکہ حاصل ہے۔ انہیں انگریزی، اردو، فرانسیسی زبانوں پر مکمل عبور حاصل ہے۔ وہ منہاج القرآن کی سپریم کونسل کے رکن، منہاج القرآن ایجوکیشن سوسائٹی کے سربراہ اور منہاج یونیورسٹی لاہور کے بورڈ آف گورنرز کے ڈپٹی چیئرمین کی حیثیت سے خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ وہ ماہر تعلیم بھی ہیں اور ریسرچ سکالر بھی۔ گزشتہ دنوں ان کے ساتھ ایک نشست ہوئی جس میں یونیورسٹی کے حوالے سے بات چیت ہوئی۔ اس نشست کی روئیداد پیش خدمت ہے۔)

ہم مدرسہ نہیں علوم اسلامیہ اور جدید سائنس و ٹیکنالوجی سے آراستہ ایسے تعلیمی ادارے بنانے کا عزم رکھتے ہیں، جہاں پر طالب علم کی شخصیت کے ساتھ ساتھ کردار سازی بھی ہوسکے۔ ہم ملاں نہیں سکالرز پیدا کرتے ہیں۔ منہاج ایجوکیشن سوسائٹی کے تحت ملک بھر میں پھیلے 6 سو سے زائد سکول، منہاج انٹرکالج، منہاج کالج فارویمن اور منہاج یونیورسٹی ہمارے انہی عزائم کی عکاس و آئینہ دار ہے۔ ہم مقدار یا تعداد پر نہیں معیار پر یقین رکھتے ہیں۔ ہماری نظر میں دنیا اور دین الگ الگ نہیں بلکہ ان دونوں کی منزل ایک ہی ہے۔ ہمارا ویژن دنیا میں رہتے ہوئے اﷲ کی رضا کے تابع زندگی بسر کرنا ہے، چنانچہ طلبہ کی اسی نہج پر تربیت کی جاتی ہے۔ ڈپٹی چیئرمین بورڈ آف گورنرز منہاج یونیورسٹی لاہور ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے خصوصی ملاقات کے دوران مزید بتایاکہ ادارہ منہاج القرآن کی بنیاد 1980ء میں رکھی گئی جبکہ یونیورسٹی 1984 ء میں قائم ہوئی، جس میں علوم اسلامیہ، سائنس، ریاضی، اکنامکس، بزنس ایڈمنسٹریشن، منیجمنٹ سائنسز، سیاسیات، انفارمیشن ٹیکنالوجی، سماجی علوم، کمپیوٹر سائنسز اور لینگویج اینڈ لٹریچر سمیت تمام قابل ذکر مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔ دس سال قبل اسے یونیورسٹی چارٹر ملا۔ پرائیویٹ سیکٹر میں کوئی یونیورسٹی تعلیمی معیار اور فیسوں میں کمی کے اعتبار سے منہاج یونیورسٹی کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ رواں سال یونیورسٹی میں کیمیکل اینڈ سول اینجینئرنگ کا شعبہ قائم کیا جا رہا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کا کہنا تھا کہ انہوں نے جب یونیورسٹی کا چارج سنبھالا تو ان کی یہ سوچ اور خواہش تھ کہ وہ اسے اعلیٰ پائے کی مادر علمی بنائیں گے اور پاکستان کے غریب طلبہ و طالبات جن کی نجی تعلیمی اداروں میں بھاری بھرکم فیسوں کی بناپر رسائی نہیں ہوتی انہیں ارزاں لیکن معیاری تعلیم کے مواقع مہیا کریں گے۔ پروفیشنل کورسز اور ٹریننگ کے ذریعے معاشرے میں باوقار روزگار کمانے کا اہل بنائیں گے۔ انہوں نے بتایاکہ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آبا د کے بعد منہاج یونیورسٹی لاہور پاکستان کا سب سے بڑا ریسرچ سنٹر ہے۔ جہاں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلبہ بڑی تعداد میں زیر تعلیم ہیں اور قابل اساتذہ کی زیر نگرانی اپنے تھیسز مکمل کررہے ہیں۔

ڈاکٹر حسین محی الدین کو اس بات کادکھ ہے کہ پاکستان میں آج تک کوئی قابل عمل پالیسی نہیں بنی۔ یہاں خارجہ پالیسی ہے نہ نیشنل سکیورٹی پالیسی، ایجوکیشن اور ہیلتھ پالیسی کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ کسی نے بھی آج تک یہ جائزہ لینے کی ضرورت محسو س نہیں کی کہ اٹھارہ کروڑ کی آبادی کے اس ملک میں کس قسم کی افرادی قوت درکار ہے۔ ماہرین تعلیم، سائنسدان، قانون دان، انجینئرز یا ڈاکٹرز کی یہاں کس قدر کمی ہے اور اس قومی ضرورت کو پورا کرنے کا کیا اہتمام کیاگیاہے؟۔ انہوں نے کہا کہ ایسی پالیسیاں بنانا وقت کی ضرورت ہے اور پھر اس کی بنیاد پر یونیورسٹیوں میں کوٹہ تقسیم کیاجانا چاہئے۔ منہاج یونیورسٹی کوئی کاروباری ادارہ نہیں ہے۔ ہم تعلیم کے فروغ کے لیے کوشاں ہیں اور اسی شناخت کے ساتھ قائم رہنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے دعویٰ کیاکہ اگلے پانچ برسوں میں ہم تعلیم کے میدان میں ایسا انقلاب برپا کردیں گے کہ نجی سطح پر کوئی بھی ادارہ ہمارا مقابلہ نہیں کرسکے گا۔ ماہ اپریل میں گلوبل ایم بی اے کی کلاسیں شروع کی جائیں گی۔ اٹھارہ ماہ کے اس پروگرام میں تمام فیکلٹی امریکہ اور کینیڈا کی یونیورسٹیوں کے اساتذہ پر مشتمل ہوگی، جو آن لائن لیکچر دیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ اس کورس کی فیس کا دس فیصد انڈوومنٹ فنڈ کی صورت میں مختص کیا جائے گا اور کورس مکمل ہونے پر اس رقم سے نجی کمپنی قائم کی جائے گی، جسے اسی کورس کے طلبہ عملی طورپر چلائیں گے اور ان کی حیثیت کمپنی کے شیئر ہولڈر کی ہوگی۔ یہ وہ آئیڈیا ہے جو اس سے پہلے کسی یونیورسٹی نے نہیں دیا۔ اس کے علاوہ المواخات اسلامک مائیکرو فنانس کا منصوبہ بھی شروع کرنے جارہے ہیں جس کے تحت ضرورت مند افراد کو بلاسود قرضہ دیاجائے گا۔ ملک کے بڑی صنعتی اداروں کے ساتھ ہمارا رابطہ قائم ہے جہاں ہم اپنے فنی تعلیم سے آراستہ طلبہ کو ملازمت کے حصول میں مدد فراہم کرتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں