مستقبل سے مایوس نوجوان کس راستے پر جا رہا ہے

نوجوانوں کو نظرانداز کرنے سے ملک کا مستقبل داؤ پر لگ سکتا ہے


محمد نورالہدیٰ February 24, 2014
نوجوانوں کو نظرانداز کرنے سے ملک کا مستقبل داؤ پر لگ سکتا ہے۔ فوٹو: فائل

کسی بھی سماج کو بنانے یا بگاڑنے میں نوجوانوں کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔

نوجوان ہی ملک کا سرمایہ بنتے اور یہی ملک کو مزید تباہی کی طرف بھی لے جانے کا باعث ہیں۔ ملک کے مجموعی حالات پر نظر ڈالیں اور حکومتی رویوں کو دیکھیں تو اندیشہ لاحق ہوتا ہے کہ کہیں یہ نسل ملک کے عدم استحکام کا باعث نہ بن جائے، کیوں کہ وطن عزیز میں سٹریٹ کرائمز اور دن دیہاڑے چوری، ڈکیتی جیسی وارداتوں میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ایک عام تاثر یہ ہے کہ ان وارداتوں میں زیادہ تر بے روزگار نوجوان ملوث ہوتے ہیں اور ان میں بیشتر میٹرک اور انٹر کے طالبعلم بھی ہوتے ہیں، جنہیں گھریلو و ملکی حالات، معاشی بدحالی اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری نے جرائم کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔

پاکستان 65 فیصد نوجوان آبادی پر مشتمل دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے، لیکن نوجوانوں کی تربیت اور ان کی صلاحیتوں کو آزمانے کے مواقع مہیا کرنے کے حوالے سے یہاں کوئی منصوبہ بندی موجود نہیں۔ نوجوانوں کے مسائل کا حل صرف قرضہ سکیموں جیسے پراجیکٹس کے اجراء اور ٹیبلٹ کمپیوٹر و لیپ ٹاپس کی فراہمی کو سمجھ لیا گیا ہے۔ بالفرض اگر نوجوان حکومت سے قرضہ حاصل کر بھی لیں تو کیا گارنٹی ہے کہ ان سے قرض بروقت واپس ہوسکے گا، کیا وہ اس ضمن میں ذہنی تنائو میں مبتلا نہیں رہیں گے؟۔ پاکستان میں دو ہی نسلیں آباد ہیں۔ ایک نسل کے منہ میں سونے کا چمچہ ... مٹھی میں اقتدار ... سرشت میں حکمرانی ... زبان پر ''خدمت'' کا نعرہ ہے، تو دوسری نسل کے ہاتھ میں کشکول ... آنکھ میں حسرت ... چہرے پر دکھ ...دل میں سوال اور کسک ہے ... ایک نسل خوشحال ہے تو دوسری مایوس ... ایک نسل وہ ہے جو خاک نشین تھی مگر محلوں میں پہنچی اور قومی وسائل پر سانپ بن کر بیٹھ گئی ... قوم مفلس ہوگئی مگر ان کا ایوان دمکتا رہا ... دوسری نسل وہ ہے جو محلات میں پیدا ہوئی اور قوم کے لئے چیتھڑوں میں رہی ... لیکن جو لوگ منہ میں سونے کا چمچہ لیکر پیدا ہوئے ہوں، انہیں بھلا ایک عام آدمی کے دکھ کا احساس اور حالات کا اندازہ کیسے ہو سکتا ہے۔

ارباب اقتدار و اختیار کے استحصال کا شکار آج کی نوجوان نسل نے ہماری جگہ سنبھالنی ہے لیکن کیا وہ شعوری طور پر اتنی باصلاحیت ہے کہ پرانی نسل کی جگہ لے کر ملک کو تعمیر و ترقی کی طرف لے جاسکے ؟ یہ اپنے تئیں بنیادی سوال ہے، جس کے جواب کی یقیناً ان سطور میں ضرورت نہیں۔ تاہم اس امر کا اظہار ضروری ہے کہ تالیاں بجانے اور تماشے دکھانے والے کبھی ایک نہیں ہوسکتے۔ نوجوانوں کے حقیقی مسائل کو نظرانداز کرکے ارباب اختیار یہ امر فراموش کیے بیٹھے ہیں کہ سفر نعروں سے نہیں، کردار اور عمل سے کٹتے ہیں۔ وزیراعظم اور وزراء اعلیٰ آئے دن بیرون ممالک دورے کرتے اور سرمایہ کاری کے معاہدوں پر دستخط کرکے لوٹ آتے ہیں۔ اگر ان معاہدوں پر ذرا سی بھی عملداری یقینی بنائی گئی ہوتی تو آج نوجوان نسل مایوس ہوکر ملک چھوڑ رہی ہوتی اور نہ ہی بے راہ روی کا شکار ہوتی۔ لیکن نوجوان طبقے کو ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی گرداننے والے سیاست کے یہ عطائی ڈاکٹر اس ہڈی کا کردار تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں۔

دنیا کے بے شمار ملکوں نے اپنی افرادی قوت کی بنا پر ترقی کی۔ سب سے بڑی آبادی والے ملک چین نے بہتر حکمت عملی اپنا کر نوجوانوں کو صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع دیئے اور آج وہ ایک مضبوط معیشت کا حامل ملک گردانا جاتا ہے۔ چین نے اپنی آبادی کو سرمایہ بنایا اور یہی آبادی ملک و قوم کی ترقی کا باعث بنی۔ چین نے جان لیا تھا کہ اگر اس نے اپنے ملک کے نوجوانوں کو تحفظ نہ دیا تو انہی کی وجہ سے ایسے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں جن پر نہ صرف قابو پانا چیلنج ہوگا بلکہ ملکی وقار اور استحکام کو بھی ٹھیس پہنچے گی۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان کی قیادت کے منصب پر جو لوگ فائز ہیں، ان میں عمل کا فقدان ہے۔ ایجوکیشن پالیسی ہو یا نوجوانوں کیلئے مکینزم، ہماری حکومتوں نے 66 سال ضائع کردیے اور اس عرصہ میں ایک بھی موثر اور ٹھوس پالیسی مرتب نہیں کی جاسکی۔ جن ممالک کو ترقی مقصود ہوتی ہے وہاں نوجوانوں کیلئے یوتھ پالیسیوں، یوتھ فیسٹیولز اور لیپ ٹاپس و ٹیبلٹ کی تقسیم کو ایجنڈا نہیں بنایا جاتا اور نہ ہی قرض کی لت میں دبایا جاتا ہے، بلکہ عملی اقدامات وضع کرنے کے ساتھ تمام سرکاری و نجی شعبہ جات میں مواقع پیدا کرنے اور ان کا دائرہ کار بڑھاتے چلے جانے پر توجہ دی جاتی ہے۔

نوجوان نسل حوصلہ افزائی نہ ہونے کے سبب مایوسی کا شکار اور اپنا مستقبل تاریک دیکھ رہی ہے۔ اعلیٰ تعلیم کا معاملہ ہو یا وائٹ کالر جاب کا، انہوں نے پردیس کو ہی اپنا مسکن بنانے کو ترجیح دی۔ بدقسمتی سے ہمارا المیہ ہے کہ پاکستان میں اول تو مواقع دستیاب نہیں، اگر ہیں تو صلاحیتوں کے مطابق معاوضہ نہیں ...ان کے پاس تعلیم ہے تو نوکری نہیں، نو کری ہے تو اس کا کوئی مستقبل نہیں۔ کام زیادہ لیا جاتا اور پیسے کم دیے جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں ہر کوئی آسان ذرائع اور شارٹ کٹ طریقے سے پیسہ کمارہا ہے، ایسے میں اہل اور ضرورتمند نوجوانوں کا کردار انتہائی محدود ہوکر رہ گیا ہے جس نے ان کی مایوسی میں اضافہ اور بیرون ملک مواقع تلاش کرنے پر مجبور کیا ہے، جس کے بھیانک نتائج سامنے آرہے ہیں۔ اس کی کئی مثالیں ہمارے ارد گرد موجود ہیں جس کے ثمرات میں جہاں جرائم کی شرح میں اضافہ شامل ہے، وہیں نفسیاتی اور سماجی مسائل بھی پیدا ہورہے ہیں۔ آغا خان میڈیکل یونیورسٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر دس میں سے آٹھ افراد ذہنی دبائو کا شکار ہیں اور ذہنی مسائل کا شکار نسل کو کسی صورت بھی صحت مند قوم کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوانوں کو فیصلہ سازی کے عمل میں شریک، ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کے یکساں مواقع فراہم کئے جائیں۔ حکومت، سیاسی و مذہبی رہنما، سول سوسائٹی، این جی اوز، دانشور سب ایک میز پر بیٹھیں اور ایک موثر پالیسی ترتیب دیں جس کے ذریعے نوجوانوں کے مسائل حل کیلئے ایسا واضح لائحہ عمل مرتب کیا جاسکے، جس میں بیرون ممالک کی نسبت اپنے ہی ملک میں انہیں کشش دکھائی دے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں