تجارتی دنیا کی شہ سوار۔۔۔ انٹرنیشنل ویمن لیڈرز سمٹ

معاشی جدوجہد میں مصروف مایۂ نازخواتین کا میلہ

معاشی جدوجہد میں مصروف مایۂ نازخواتین کا میلہ۔ فوٹو: فائل

عمومی طور پر کاروبار کی دنیا کو مردوں سے منسلک کیا جاتا ہے، لیکن خواتین کی بھی اس شعبے میں شمولیت کوئی نئی بات نہیں رہی۔

خواتین کو ان پُر پیچ راہوں میں اپنا راستہ بنانے کے لیے مردوں سے کہیں زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کچھ معاشرتی مسائل تو کچھ روایتی اور ثقافتی رکاوٹیں۔۔۔ کاروبار کی دنیا میں انہیں سنبھل کر آگے بڑھنا ہوتا ہے اور اپنی منازل طے کرنا ہوتی ہیں۔ وہ اپنے کاروبار میں چاہے کس قدر بھی مصروف ہوں، انہیں ایک بیٹی، بہن، بیوی اور ماں جیسے ناتوں کو بھی بہ حسن وخوبی نبھانا ہوتا ہے۔ یوں وہ بہ یک وقت کئی محاذوں پر سرگرم ہوتی ہے اور صنف قوی کے مقابلے میں واضح طور پر زیادہ ذمہ داریاں ادا کر رہی ہوتی ہیں۔

گزشتہ دنوں خواتین کے پیشہ وارانہ مسائل اور معاملات کے حوالے سے شہر قائد میں پہلی بار ''انٹرنیشنل ویمن لیڈرز سمٹ'' کا انعقاد کیا گیا، جس میں دنیا بھر سے کاروبار کی دنیا میں کام یاب خواتین نے شرکت کی اور حاضرین کو اپنے تجربات سے مستفید کیا۔ نیو ورلڈ کانسیپٹس کی جانب سے کرائی جانے والی اس کانفرنس کا مقصد معاش کی دنیا میں جدوجہد کرنے والی خواتین کی راہ نمائی کرنا تھا۔ پروگرام میں دنیا بھر سے آئے ہوئے مقررین نے اپنی پیشہ ورانہ مشکلات کا ذکر کیا اور ان پر قابو پانے کے طریقوں سے آگاہ کیا۔



برطانیہ کی سینئر وزیر برائے دفتر خارجہ اور مذہبی امور سعیدہ وارثی نے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے خطاب میں ترقی کے لیے خواتین کی تعلیم اور معاشرے میں ان کے اعتماد کی ضرورت پر زور دیا۔ او پی آئی سی (اوور سیز پرائیوٹ انویسٹمنٹ کارپوریشن) یو ایس اے کی صدر اور سی ای او ایلزبتھ لٹل نے اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے کہا کہ تحقیق کے مطابق کاروبار میں خواتین کی شمولیت کے نہایت مثبت اثرات سامنے آ رہے ہیں۔ خواتین کو چاہیے کہ وہ اپنی محنت اور جدوجہد کے ذریعے خود کو اس دنیا میں بااختیار بنائیں۔

ایلزبتھ لٹل نے بتایا کہ امریکا کے 1000 بڑے کاروباری اداروں میں سے 46 کی سی ای اوز خواتین ہیں۔ 2013 ء کے اعدادوشمار کے مطابق دنیا بھر کے پارلیمان میں خواتین اراکین کی تعداد 21 فی صد ہے۔ ترکی کی مندوب ڈیورم گرسیل نے کہا کہ کام اور بچوں کی پرورش ایک ساتھ کرنا کٹھن کام سمجھے جاتے ہیں، مگر سخت محنت کے ذریعے ان کاموں کو آسان بنایا جا سکتا ہے۔




اس بین الاقوامی کانفرنس میں ملازمت پیشہ میاں بیوی کی ملازمت اور گھریلو زندگی میں توازن رکھنے جیسے اہم موضوع پر بھی ایک منفرد نشست رکھی گئی تھی۔ اس نشست کا مقصد خواتین کے لیے گھر اور معاش کی ذمہ داریوں کے دوران پیدا ہونے والے مسائل کا حل پیش کرنا تھا۔ اس نشست میں مقررین نے اجتماعی طور پر تبادلہ خیال کیا۔ بالخصوص سابق وزیر اطلاعات شیری رحمٰن اور ان کے شوہر ندیم حسن نے اپنی روزمرہ زندگی کے واقعات سے آگاہ کیا۔

ممبئی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی 177 سالہ تاریخ میں پہلی خاتون صدر بننے والی مس نیرا ساگی بھی اس کانفرنس میں موجود تھیں۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ ممبئی میں خواتین کی ترقی کے لیے بہت زیادہ مواقع موجود ہیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے نائب صدرقاضی عبدالمقتدر نے اپنے خطاب میں ایک تحقیق کاحوالہ دیا کہ پاکستان اُن آخری دو ممالک میں شامل ہے، جہاں کاروبار میں خواتین کی شمولیت سب سے کم ہے۔ انہوں نے کہا مذہبی طور پر خواتین کو کاروبار کا حق حاصل ہے۔ آئی بی اے کراچی کے ڈین ڈاکٹر عشرت حسین نے معیشت کی بحالی میں خواتین کے کردار پر اظہار خیال کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے ادارے میں طلبا کے مقابلے میں طالبات زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ کثیر القومی ادارے سے وابستہ جون سیوارڈ John Seward نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جائے ملازمت پر عورت کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ مرد ہے۔



انٹرنیشنل ویمن لیڈر سمٹ کی میزبان اور نیو ورلڈ کانسیپٹس کی سی ای او یاسمین حیدر کا کہنا ہے کہ کراچی میں خواتین کو پہلی بار اس طرح مقامی اور بین االاقوامی سطح پر کام یاب خواتین کو براہ راست سننے کا موقع ملا۔ اس کانفرنس کے ذریعے پیشہ ورانہ محاذ پر سرگرم خواتین کو اپنے مسائل سے نبردآزما ہونے میں خاطرخواہ مدد ملے گی۔ اس کانفرنس کے بعد دنیا بھر کی کام یاب خواتین کے بیچ تعاون بڑھنے کی امید ہے اور آیندہ بھی اسی طرح کے مزید پروگرام منعقد کیے جائیں گے۔

کانفرنس کے دیگر مقررین میں نوشین احمد، ڈاکٹر انیتا زیدی، ڈیورم گرسیل (ترکی) کاملہ صدیقی (افغانستان)، اکبر زیدی، شیریںارشد، نیبلہ مقصود وغیرہ بھی شامل تھے۔ مقررین نے سامعین کے مختلف سوالات کے جواب بھی دیے۔
Load Next Story