او آئی سی کا مشترکہ اعلامیہ

او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس کے اختتام پر ’’اسلام آباد اعلامیہ‘‘ جاری کر دیا گیاہے


Editorial March 25, 2022
او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس کے اختتام پر ’’اسلام آباد اعلامیہ‘‘ جاری کر دیا گیاہے فوٹوٹوئٹر

او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس کے اختتام پر ''اسلام آباد اعلامیہ'' جاری کر دیا گیاہے۔ اس اعلامیے کے اہم نکات میں''اتحاد، انصاف اور ترقی کے لیے شراکت''کے مرکزی موضوع کو شامل کیا گیا ہے۔اعلامیہ میں جموں و کشمیر کے لوگوں کے ساتھ یکجہتی کی تجدید کی گئی اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور او آئی سی کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حق خودارادیت کی حمایت کا اظہار کیا گیا جب کہ وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کی گئی۔

اعلامیہ کے مطابق 5 اگست 2019 سے بھارت کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کو مسترد کیا گیا جن کا مقصد مقبوضہ علاقے کی آبادیاتی ساخت کو تبدیل کرنا ہے۔ بھارت کی جانب سے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی اورمسافر طیاروں کو لاحق خطرات جب کہ 9 مارچ کو سپرسونک میزائل کے لانچ سے جنوبی ایشیا میں امن و سلامتی کو لاحق خطرات پرتشویش کا اظہار کیا گیا۔

بھارت سے عالمی قوانین اور ذمے دار ریاستی رویے کے اصولوں کی پاسداری اور حقائق تک رسائی کے لیے پاکستان کے ساتھ مشترکہ تحقیقات پر زور دیا گیا۔ جنوبی ایشیا میں استحکام کے لیے پاکستان کاکردار تسلیم اور اقوام متحدہ کے منشور کے اصولوں پر مبنی علاقائی امن کے فروغ کے لیے اس کے کردار اور کوششوں کو سراہا گیا۔اعلامیہ میں مالی، افغانستان، صومالیہ، سوڈان، کوٹ ڈیوائر، کوموروس ، جبوتی، بوسنیا اور ہرزیگووینا اور جموں و کشمیر کے عوام اور ترک قبرص کے ساتھ یکجہتی کا اعادہ کیا گیا۔

اعلامیے کے مندرجات، او آئی سی کے چارٹر میں درج عظیم اسلامی اقدار اور نظریات سے ماخوذ ہیں اور اقوام متحدہ کے منشور میں درج اصولوں اور مقاصد سے مطابقت رکھتے ہیں۔اعلامیہ عالمی سیاسی، سلامتی، انسانی، اقتصادی اور تکنیکی مسائل کے متعلق جائزے اور ان سے نمٹنے کے لیے وژن اور نظریات کی نمایندگی کرتا ہے۔

اعلامیہ او آئی سی کا عزم واضح کرتا ہے جن میں مشترکہ مفادات کو فروغ اور تحفظ فراہم کرنا؛ فلسطین، کشمیر اور دیگرمشترکہ مسائل سے نمٹنے کے لیے منصفانہ مقاصد کی حمایت ،او آئی سی ممالک میں مسلم اقلیتوں کے حقوق اور مفادات کا تحفظ ، مسلم دنیا کے اندر اور باہر کی سماجی، اقتصادی، سائنسی اور تکنیکی ترقی اور انضمام کے لیے مشترکہ وژن پر عمل کرنا، ہم آہنگی، رواداری، پرامن بقائے باہمی، زندگی کے بہتر معیار، انسانی وقار اور تمام لوگوں کے درمیان افہام و تفہیم کو فروغ دینا شامل ہے جو اجتماعی خواہش کی عکاسی کرتا ہے۔ اعلامیہ میں اس سال کے آخر یا اگلے سال تنازعات روکنے اور امن کو فروغ دینے کے لیے طریقہ کار طے کرنے کے لیے وزارتی اجلاس بلانے کی تجویز دی گئی ۔یہ اعلامیہ افغانستان ہیومینیٹیرین ٹرسٹ فنڈ کے فعال ہونے کا خیرمقدم کرتا ہے۔

یہ اعلامیہ دہشت گردی کی تمام جہتوں کو مسترد کرتا ہے اوراسے کسی بھی ملک، مذہب، قومیت، نسل یا تہذیب کے خلاف استعمال کرنے کی مذمت کرتا ہے۔ یہ حق خود ارادیت کے لیے لوگوں کی جائز جدوجہد کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوششوں کے خلاف او آئی سی کے مضبوط موقف کا اعادہ کرتا ہے۔ او آئی سی کے منشور اور تمام پچھلی سربراہی کانفرنسوں اور وزرائے خارجہ کی کونسلوں کے اعلامیوں میں موجود تمام وعدوں پر عملدرآمدکے اپنے عزم کا اعادہ اور اپنے لوگوں اور رکن ممالک کے درمیان اتحاد اور یکجہتی کے بندھن کو مضبوط کرنے کا عزم کیا گیا ہے۔

امن، سلامتی، ترقی اور انسانی حقوق کے لیے مشترکہ عالمی وژن کی پیروی کا عزم، مساوات ، انصاف، خود مختاری، علاقائی سالمیت اور ریاستوں کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کے عالمی اصولوں کی وفاداری ،اقوام متحدہ اور او آئی سی چارٹر کے اصولوں اور مقاصد کے لیے رکن ممالک کے عزم کا اعادہ کیا گیاہے اور مشترکہ مفادات کے تحفظ اور امت مسلمہ کو درپیش چیلنجوں سے اجتماعی طور پر نمٹنے کے لیے کوششوں کو مربوط کرنے پر اتفاق کیا گیا۔

یورپ سمیت دنیا بھر میں جاری مسلح تنازعات پرتشویش اور دشمنیوں کے خاتمے، جانوں کا ضیاع روکنے، انسانی امداد بڑھانے اور سفارت کاری میں اضافے پر زور دیا گیا۔اعلامیہ میں امت مسلمہ اور انسانیت کی ترقی اور خوشحالی کے لیے امن، رواداری، اتحاد، ہم آہنگی اور انصاف کے ابدی اسلامی اصولوں کے لیے عزم کا اعادہ کیا گیا۔

پاکستان نے او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس کی میزبانی کر کے ثابت کردیا کہ اگر اسلامی ممالک ساتھ دیں تو پاکستان میں وہ قائدانہ صلاحیتیں موجود ہیں کہ وہ امت مسلمہ کو درپیش مسائل میں ان کی رہنمائی اور انھیں اس بحرانی کیفیت سے نکال سکتا ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اقوام متحدہ کے بعد دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ او آئی سی میں 57 ممبر ممالک شامل ہیں۔

پاکستان نے اسلامی ممالک کے سربراہان کی کانفرنس کی تاریخی میزبانی1974 میں لاہور میں کی تھی۔ اسلامی تاریخ میں اگر کسی ایک ملک میں پوری مسلم دنیا کے سربراہان ایک وقت میں سب سے زیادہ اکٹھے ہوئے ہیں تو یہ اعزاز بھی پاکستان کو حاصل ہوا۔ اس کانفرنس میں 50 کے قریب اسلامی ممالک کے سربراہان شریک ہوئے، اس کانفرنس کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ یاسر عرفات کی تنظیم آزادی فلسطین یعنی پی ایل او کو اسلامی سربراہ کانفرنس میں فلسطینی ریاست کی نمایندہ تنظیم کے طور پر شامل کیا گیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس کے بعد یاسر عرفات کو اقوام متحدہ میں خطاب کی دعوت دی گئی اور فلسطین کی نمایندہ تنظیم کو تسلیم کیا گیا ۔

ایک بات تو یہ اہم ہوئی کہ اس کانفرنس کے بعد پاکستان اسلامی دنیا میں ایک لیڈر بن کر ابھرا ۔ اقوام متحدہ کے بعد او آئی سی دنیا کی دوسری بڑی تنظیم ہونے کے باوجود مسلمان ممالک کو درپیش مسائل کو حل کرنے میں کامیابی حاصل نہیں کرسکی ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات اور اسباب ہیں ،جب تک مسلم دنیا کے درپیش مسائل پر عملدرآمد کی حقیقی قوت کو حاصل نہیں کیا جاتا ،بات اعلامیہ سے آگے نہیں بڑھ سکتی۔ عراق ، لیبیا، یمن، سوڈان ، افغانستان، لبنان اور صومالیہ کے بحران حل کرنے میں او آئی سی کا کردار کمزور رہا ہے۔

عراق، افغانستان،کشمیر ، میانمار ، فلسطین اور شام میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا ہے مگر مسلمان ملکوں پر مشتمل یہ تنظیم موثر کردار ادا نہیں کرسکی۔ حالانکہ کانفرنس کے چارٹر میں واضح طور پر درج ہے کہ تما م ارکان اپنے باہمی تنازعات پر امن طریقے سے حل کریں گے اور باہم جنگ سے حتی الامکان گریز کریں گے لیکن عملی طور پر اس کا مظاہرہ آج تک دیکھنے میں نہیں آیا۔ مسئلہ کشمیر دو طرفہ ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ جس پر بھارت اور پاکستان دونوں ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہیں، اگر ہم او آئی سی تنظیم کی گزشتہ چند دہائیوں کے دوران کارکردگی کا جائزہ لیں، تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ رکن ممالک نے اپنے ہی منظور کردہ اور طے کردہ مقاصد کو پورا کرنے میں اپنی ذمے داریاں پوری نہیں کیں اور قراردادوں کے سوا عملی اقدامات نہیں کیے۔

مقاصد کے حصول کے لیے کوئی کامیابیاں حاصل نہیں کیں اور ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ان کے سارے دعوے لفظی اور زبانی تھے۔ عملی طور پر انھوں نے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے۔ اس وقت افغانستان میں انسانی بحران جنم لے چکا ہے۔ بھوک اور غربت آخری حدوں کو چھو رہی ہیں، ادویات کی قلت سب سے سنگین مسئلہ ہے۔ امریکا نے افغانستان کے زرمبادلہ کے ذخائر منجمد کررکھے ہیں۔ اس حوالے سے بھی او آئی سی امریکا اور اقوام متحدہ سے مذاکرات کرے ۔ اقوام متحدہ کی طرح مسلم دنیا کی او آئی سی نے بھی مسئلہ فلسطین کے حل پر فلسطینوں کے حقوق کا دفاع نہیں کرسکی ہے، اس پلیٹ فارم سے کوئی مضبوط فیصلہ نہ ہوسکا اور نہ ہی کوئی ایسی قرارداد متفقہ طور پر منظور ہوسکی جو اقوام عالم میں تھرتھلی مچا دے۔ مسلم ممالک کی اشرافیہ بھی مختلف قسم کے تعصبات ، کمزوریوں اور مفادات کے سبب آپس میں تقسیم ہیں، یہ تقسیم بھی او آئی سی کو ایک فعال اور بااثر عالمی اتحاد بننے نہیں دے رہی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا میں تیزی سے بدلتے ہوئے رحجانات کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے ایک موثر و مضبوط پلیٹ فارم بنایا جائے تاکہ یہ ایک عظیم طاقت بن سکے۔ اس میں نئی روح پھونکنے کے ساتھ ساتھ اصلاحات کی بھی ضرورت ہے، او آئی سی کے ذریعے سفارت کاری سے یہ رابطہ گروپ ممبر ممالک میں ڈیجیٹل انقلاب برپا کرنے ،غربت کا خاتمہ ، ٹیکنالوجی ، تعلیمی ، معاشی اور صنعتی ترقی کو بڑھانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔