وزیر اعظم کا خطاب انصافی ڈنڈا فورس اور نواز شریف
جناب وزیرا عظم کی تقریر سُننا آسان نہیں ہے
KABUL:
الحمد للہ، عالمی اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کے وزرائے خارجہ کی کونسل کا48واں اجلاس اسلام آباد میں بخریت گزر گیا ہے۔ ہماری اپوزیشن جماعتوں نے اس اجلاس کے بارے میں جس تعاون ، تحمل اور صبر کا وعدہ کیا تھا، اس وعدے کو پوری طرح نبھایا گیا ہے ۔ اِس ضمن میں اپوزیشن شاباش اور تحسین کی مستحق ہے کہ اُس کا یہ تعاون واقعی معنوں میں ملکی اور قومی مفاد میں تھا۔ بلاول بھٹو زرداری، نے بوجوہ ''او آئی سی '' کے اجلاس کے انعقاد بارے دھمکی تو دی تھی لیکن پھر، قومی مفاد میں، رجوع بھی کرلیا ۔ بجائے اس کے کہ رجوع کیے جانے کے بیان پر بلاول بھٹو کی تحسین کی جاتی ،اُلٹا وفاقی وزیروں نے بلاول صاحب اور اپوزیشن کا ٹھٹھہ اُڑایا۔
او آئی سی کے مذکورہ اجلاس سے قبل بلاول بھٹو زرداری نے ایک نجی ٹی وی کو تفصیلی انٹرویو دیتے ہُوئے یہ بھی کہا تھا:''عمران خان او آئی سی کا یہ اجلاس پاکستان اور کشمیر کے لیے نہیں، افغانستان کے مسائل اور مفاد میں بلا رہے ہیں۔''او آئی سی کے اجلاس کے اختتام پر بلاول بھٹو کی یہ دعویٰ قدرے سچا ثابت ہُوا۔
جناب وزیرا عظم کی تقریر سُننا آسان نہیں ہے لیکن اس مشکل کے باوجود ہم نے یہ خطاب بغور سُنا۔ او آئی سی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہُوئے جناب عمران خان نے جتنا زور افغانستان کی تعریف کرتے ہُوئے، افغانوں کی حریت پسندی اور افغان حکومت کی بھرپور مدد امداد کرنے کی اپیل پر صَرف کیا، اتنا زور مظلوم کشمیریوں اور مسئلہ کشمیر کے ذکر پر نہیں دیا۔ پاکستان کے مسائل بھی حل کرنے کے لیے عالمِ اسلام کی اس نمایندہ تنظیم کے وزرائے خارجہ کے سامنے کچھ تجاویز رکھی جاتیں تو خان صاحب کا خطاب زیادہ معتبر، دلکش اور تاریخ ساز ہوتا ۔ افسوس یہ موقع گنوا دیا گیا۔
او آئی سی وزرائے خارجہ کے تازہ اجلاس سے عین دو دن قبل(20مارچ کو)وزیر اعظم عمران خان نے بھارتی وزارتِ خارجہ کی پالیسیوں کی تعریف و تحسین کر ڈالی۔ خان صاحب نے فرمایا:''انڈیا نے اپنے ملک اور عوام کے لیے آزاد خارجہ پالیسی بنائی ۔ اس پر مَیں بھارت کوداد دیتا ہُوں۔''او آئی سی وزرائے خارجہ کے اہم ترین عالمی اجلاس کے آس پاس بھارت کی تعریف کرنے کا بھلا یہ کیا موقع تھا؟ ساری پاکستانی قوم تو اس بیان پر ہکا بکا ہی رہ گئی ۔
ہم تو یہ اُمید لگائے بیٹھے تھے کہ او آئی سی کے22مارچ کے اجلاس میں ہمارے وزیر اعظم صاحب مظلوم کشمیریوں کے حوالے سے بھارت کی بھرپور مذمت کریں گے لیکن خان صاحب تو اُلٹا بھارتی وزارتِ خارجہ کی پالیسیوں کے عاشق نکلے۔ بھارت ، نریندر مودی انڈین میڈیا اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کے اس تحسینی اور تعریفی الفاظ کو غنیمت جانا ہے، چنانچہ ہم نے دیکھا کہ بھارت کے ہر بڑے اخبار اور ٹی وی چینلز نے خان صاحب کے ان الفاظ کو بطورِ شہ سرخیاں شایع اور نشر کیا ۔'' بھارت نواز'' یہ بیان دراصل نریندر مودی کے اگلے قومی انتخابات میں فتح کے لیے بطورِ ہتھیار بھی بروئے کار لایا جائے گا۔ مقبوضہ کشمیر میںجن کشمیریوں نے او آئی سی کے تازہ اجلاس کے حوالے سے جان ہتھیلی پر رکھ کر، کشمیر بھر کے درو دیوار پر پاکستان اور عمران خان کے حق میں پوسٹرز چسپاں کیے تھے ، جناب عمران خان کے مذکورہ بیان کے پس منظر میں اُن کی توقعات کو شدید دھچکا لگا ہوگا۔
مبینہ طور پر افغانستان اور طالبان کی افغان حکومت کی امداد کے لیے او آئی سی کے وزرائے خارجہ کو قائل اور مائل کرنے کے لیے ہی او آئی سی کا یہ 48واں اجلاس بلایا گیا تھا۔ افغانستان کا وزیر خارجہ مگر اس اجلاس میں موجود ہی نہیں تھا(ایران اور بنگلہ دیش کے وزرائے خارجہ بھی نہیں آئے ) شاید اس لیے کہ پاکستان نے بھی ابھی تک افغان طالبان کی حکومت کو باقاعدہ تسلیم نہیں کیا ہے ۔ یہ بھی عجب تماشا ہے کہ آئے روز طالبان حکام اور افغان وزراء پاکستان آئے ہوتے ہیں لیکن پاکستان طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے سے گریز پا ہے، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ''او آئی سی'' کے اس اجلاس کے موقع پر جماعتِ اسلامی پاکستان نے حکومت کو مطالبات کی شکل میں جو تجاویز پیش کی تھیں ، وہ بھی بوجوہ تسلیم ہی نہیں کی گئیں۔
امیرِجماعتِ اسلامی ، جناب سراج الحق، کی جانب سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ(1)او آئی سی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں پر بھارت کو جارح قرار دے کر اس کا بائیکاٹ کرے(2)او آئی سی کے وزرائے خارجہ کانفرنس افغانستان کی طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا اعلان کرے اور اس کے لیے امریکا و مغربی ممالک کی جانب نہ دیکھیں (3)اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی کو روکنے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دیا جائے ۔ہم نے مگر دیکھا کہ ان مطالبات کو او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کانفرنس کے شرکت کنندگان نے درخورِ اعتنا ہی نہ سمجھا۔ مجموعی طور پر او آئی سی اجلاس کا نتیجہ ماٹھا ہی نکلا ہے۔''ایکسپریس نیوز'' کے پروگرام ''ایکسپرٹس'' میں بھی سینئر تجزیہ نگار نے یہی بات کہی کہ ''او آئی سی کا کوئی بڑا نتیجہ نہیں نکلے گا'' او آئی سی کے اعلامئے سے بھی یہی تاثر نکلا ہے۔
جس وقت اسلام آباد میں ''او آئی سی'' وزرائے خارجہ کانفرنس ہو رہی تھی، اُسی وقت قومی میڈیا پر تین خبروں کا بھی غلبہ تھا(1) برطانیہ کی براڈ شیٹ کمپنی کے سر براہ، کاوے موسوی، نے نواز شریف سے کرپشن کے الزام لگانے پر معافی مانگ لی(2) چین کے وزیر خارجہ (وانگ ژی) کی پاکستان آمد اور پاکستانی وزیر خارجہ کے ساتھ افغانستان اور یوکرائن کے بحرانوں پر قابو پانے کے لیے مشترکہ اور پاکستان کے لیے اُمید افزا پریس کانفرنس(3) بعض شہروں میں ،27مارچ کے لیے ، پی ٹی آئی کارکنان کی ''خاص'' تیاریاں۔ او آئی سی کانفرنس کے عین موقعے پر چینی وزیر خارجہ نے پاکستان تشریف لا کر اور افغانستان کے مسائل حل کرنے کی بات کرکے پاکستان کی کوششوں کو بروقت بڑھاوا اور سہارا دیا ہے ۔
''براڈ شیٹ '' کے سربراہ کی جانب سے سابق وزیر اعظم ، جناب نواز شریف، کو بے گناہ اور کرپشن کے الزامات سے بالا قرار دیے جانے کی خبر بازگشت بن کر پاکستان کے میڈیا اور عوام میں چھائی ہُوئی ہے۔ براڈ شیٹ کی طرف سے نواز شریف پر کرپشن کے سنگین الزامات عائد کیے جانے کے بعد اب جس طرح معافی مانگی گئی ہے، میاں شہباز شریف کی اس موقع پر کی گئی پریس کانفرنس سے اُن کے اطمینان اور خوشی کا بجا طور پر اظہار ہوتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ نواز شریف پر عائد کیے گئے کئی الزامات رفتہ رفتہ ختم ہو رہے ہیں۔
کاوے موسوی نے ''نیب' کی جانبداری کے بارے میں جو بیان دیا ہے، اِسے بھی ہم نظر انداز نہیں کر سکتے۔ آج 25مارچ ہے ، ممکن ہے آج قومی اسمبلی کے بلائے گئے اجلاس میں ، تحریکِ عدم اعتماد کے حوالے سے، کوئی یُدھ بھی پڑے ۔ میڈیا میں یہ خبر آئی تھی کہ فیصل آباد میں پی ٹی آئی کے کارکنان (ٹائیگر فورس) میں ایک ہزار سے زائد (پی ٹی آئی پرچم میں رنگے) ڈنڈے تقسیم کیے گئے ہیں ، اس خبر کی ابھی تک تردید نہیں کی گئی ہے ۔ فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے وزیر مملکت اور وزیر اعظم کے مشیر بھی اس ضمن میں خاموش ہیں ۔ یہ مبینہ ڈنڈا بردار پی ٹی آئی ٹائیگر فورس 27مارچ کو اسلام آباد جلسے میں آئیں گے ۔اللہ ہی خیر کرے ۔
الحمد للہ، عالمی اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کے وزرائے خارجہ کی کونسل کا48واں اجلاس اسلام آباد میں بخریت گزر گیا ہے۔ ہماری اپوزیشن جماعتوں نے اس اجلاس کے بارے میں جس تعاون ، تحمل اور صبر کا وعدہ کیا تھا، اس وعدے کو پوری طرح نبھایا گیا ہے ۔ اِس ضمن میں اپوزیشن شاباش اور تحسین کی مستحق ہے کہ اُس کا یہ تعاون واقعی معنوں میں ملکی اور قومی مفاد میں تھا۔ بلاول بھٹو زرداری، نے بوجوہ ''او آئی سی '' کے اجلاس کے انعقاد بارے دھمکی تو دی تھی لیکن پھر، قومی مفاد میں، رجوع بھی کرلیا ۔ بجائے اس کے کہ رجوع کیے جانے کے بیان پر بلاول بھٹو کی تحسین کی جاتی ،اُلٹا وفاقی وزیروں نے بلاول صاحب اور اپوزیشن کا ٹھٹھہ اُڑایا۔
او آئی سی کے مذکورہ اجلاس سے قبل بلاول بھٹو زرداری نے ایک نجی ٹی وی کو تفصیلی انٹرویو دیتے ہُوئے یہ بھی کہا تھا:''عمران خان او آئی سی کا یہ اجلاس پاکستان اور کشمیر کے لیے نہیں، افغانستان کے مسائل اور مفاد میں بلا رہے ہیں۔''او آئی سی کے اجلاس کے اختتام پر بلاول بھٹو کی یہ دعویٰ قدرے سچا ثابت ہُوا۔
جناب وزیرا عظم کی تقریر سُننا آسان نہیں ہے لیکن اس مشکل کے باوجود ہم نے یہ خطاب بغور سُنا۔ او آئی سی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہُوئے جناب عمران خان نے جتنا زور افغانستان کی تعریف کرتے ہُوئے، افغانوں کی حریت پسندی اور افغان حکومت کی بھرپور مدد امداد کرنے کی اپیل پر صَرف کیا، اتنا زور مظلوم کشمیریوں اور مسئلہ کشمیر کے ذکر پر نہیں دیا۔ پاکستان کے مسائل بھی حل کرنے کے لیے عالمِ اسلام کی اس نمایندہ تنظیم کے وزرائے خارجہ کے سامنے کچھ تجاویز رکھی جاتیں تو خان صاحب کا خطاب زیادہ معتبر، دلکش اور تاریخ ساز ہوتا ۔ افسوس یہ موقع گنوا دیا گیا۔
او آئی سی وزرائے خارجہ کے تازہ اجلاس سے عین دو دن قبل(20مارچ کو)وزیر اعظم عمران خان نے بھارتی وزارتِ خارجہ کی پالیسیوں کی تعریف و تحسین کر ڈالی۔ خان صاحب نے فرمایا:''انڈیا نے اپنے ملک اور عوام کے لیے آزاد خارجہ پالیسی بنائی ۔ اس پر مَیں بھارت کوداد دیتا ہُوں۔''او آئی سی وزرائے خارجہ کے اہم ترین عالمی اجلاس کے آس پاس بھارت کی تعریف کرنے کا بھلا یہ کیا موقع تھا؟ ساری پاکستانی قوم تو اس بیان پر ہکا بکا ہی رہ گئی ۔
ہم تو یہ اُمید لگائے بیٹھے تھے کہ او آئی سی کے22مارچ کے اجلاس میں ہمارے وزیر اعظم صاحب مظلوم کشمیریوں کے حوالے سے بھارت کی بھرپور مذمت کریں گے لیکن خان صاحب تو اُلٹا بھارتی وزارتِ خارجہ کی پالیسیوں کے عاشق نکلے۔ بھارت ، نریندر مودی انڈین میڈیا اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کے اس تحسینی اور تعریفی الفاظ کو غنیمت جانا ہے، چنانچہ ہم نے دیکھا کہ بھارت کے ہر بڑے اخبار اور ٹی وی چینلز نے خان صاحب کے ان الفاظ کو بطورِ شہ سرخیاں شایع اور نشر کیا ۔'' بھارت نواز'' یہ بیان دراصل نریندر مودی کے اگلے قومی انتخابات میں فتح کے لیے بطورِ ہتھیار بھی بروئے کار لایا جائے گا۔ مقبوضہ کشمیر میںجن کشمیریوں نے او آئی سی کے تازہ اجلاس کے حوالے سے جان ہتھیلی پر رکھ کر، کشمیر بھر کے درو دیوار پر پاکستان اور عمران خان کے حق میں پوسٹرز چسپاں کیے تھے ، جناب عمران خان کے مذکورہ بیان کے پس منظر میں اُن کی توقعات کو شدید دھچکا لگا ہوگا۔
مبینہ طور پر افغانستان اور طالبان کی افغان حکومت کی امداد کے لیے او آئی سی کے وزرائے خارجہ کو قائل اور مائل کرنے کے لیے ہی او آئی سی کا یہ 48واں اجلاس بلایا گیا تھا۔ افغانستان کا وزیر خارجہ مگر اس اجلاس میں موجود ہی نہیں تھا(ایران اور بنگلہ دیش کے وزرائے خارجہ بھی نہیں آئے ) شاید اس لیے کہ پاکستان نے بھی ابھی تک افغان طالبان کی حکومت کو باقاعدہ تسلیم نہیں کیا ہے ۔ یہ بھی عجب تماشا ہے کہ آئے روز طالبان حکام اور افغان وزراء پاکستان آئے ہوتے ہیں لیکن پاکستان طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے سے گریز پا ہے، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ''او آئی سی'' کے اس اجلاس کے موقع پر جماعتِ اسلامی پاکستان نے حکومت کو مطالبات کی شکل میں جو تجاویز پیش کی تھیں ، وہ بھی بوجوہ تسلیم ہی نہیں کی گئیں۔
امیرِجماعتِ اسلامی ، جناب سراج الحق، کی جانب سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ(1)او آئی سی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں پر بھارت کو جارح قرار دے کر اس کا بائیکاٹ کرے(2)او آئی سی کے وزرائے خارجہ کانفرنس افغانستان کی طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا اعلان کرے اور اس کے لیے امریکا و مغربی ممالک کی جانب نہ دیکھیں (3)اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی کو روکنے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دیا جائے ۔ہم نے مگر دیکھا کہ ان مطالبات کو او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کانفرنس کے شرکت کنندگان نے درخورِ اعتنا ہی نہ سمجھا۔ مجموعی طور پر او آئی سی اجلاس کا نتیجہ ماٹھا ہی نکلا ہے۔''ایکسپریس نیوز'' کے پروگرام ''ایکسپرٹس'' میں بھی سینئر تجزیہ نگار نے یہی بات کہی کہ ''او آئی سی کا کوئی بڑا نتیجہ نہیں نکلے گا'' او آئی سی کے اعلامئے سے بھی یہی تاثر نکلا ہے۔
جس وقت اسلام آباد میں ''او آئی سی'' وزرائے خارجہ کانفرنس ہو رہی تھی، اُسی وقت قومی میڈیا پر تین خبروں کا بھی غلبہ تھا(1) برطانیہ کی براڈ شیٹ کمپنی کے سر براہ، کاوے موسوی، نے نواز شریف سے کرپشن کے الزام لگانے پر معافی مانگ لی(2) چین کے وزیر خارجہ (وانگ ژی) کی پاکستان آمد اور پاکستانی وزیر خارجہ کے ساتھ افغانستان اور یوکرائن کے بحرانوں پر قابو پانے کے لیے مشترکہ اور پاکستان کے لیے اُمید افزا پریس کانفرنس(3) بعض شہروں میں ،27مارچ کے لیے ، پی ٹی آئی کارکنان کی ''خاص'' تیاریاں۔ او آئی سی کانفرنس کے عین موقعے پر چینی وزیر خارجہ نے پاکستان تشریف لا کر اور افغانستان کے مسائل حل کرنے کی بات کرکے پاکستان کی کوششوں کو بروقت بڑھاوا اور سہارا دیا ہے ۔
''براڈ شیٹ '' کے سربراہ کی جانب سے سابق وزیر اعظم ، جناب نواز شریف، کو بے گناہ اور کرپشن کے الزامات سے بالا قرار دیے جانے کی خبر بازگشت بن کر پاکستان کے میڈیا اور عوام میں چھائی ہُوئی ہے۔ براڈ شیٹ کی طرف سے نواز شریف پر کرپشن کے سنگین الزامات عائد کیے جانے کے بعد اب جس طرح معافی مانگی گئی ہے، میاں شہباز شریف کی اس موقع پر کی گئی پریس کانفرنس سے اُن کے اطمینان اور خوشی کا بجا طور پر اظہار ہوتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ نواز شریف پر عائد کیے گئے کئی الزامات رفتہ رفتہ ختم ہو رہے ہیں۔
کاوے موسوی نے ''نیب' کی جانبداری کے بارے میں جو بیان دیا ہے، اِسے بھی ہم نظر انداز نہیں کر سکتے۔ آج 25مارچ ہے ، ممکن ہے آج قومی اسمبلی کے بلائے گئے اجلاس میں ، تحریکِ عدم اعتماد کے حوالے سے، کوئی یُدھ بھی پڑے ۔ میڈیا میں یہ خبر آئی تھی کہ فیصل آباد میں پی ٹی آئی کے کارکنان (ٹائیگر فورس) میں ایک ہزار سے زائد (پی ٹی آئی پرچم میں رنگے) ڈنڈے تقسیم کیے گئے ہیں ، اس خبر کی ابھی تک تردید نہیں کی گئی ہے ۔ فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے وزیر مملکت اور وزیر اعظم کے مشیر بھی اس ضمن میں خاموش ہیں ۔ یہ مبینہ ڈنڈا بردار پی ٹی آئی ٹائیگر فورس 27مارچ کو اسلام آباد جلسے میں آئیں گے ۔اللہ ہی خیر کرے ۔