شریعہ زندگی کا حُسن ہے
قارئینِ کرام رمضان المبارک کا رحمتوں اور برکتوں بھرا مہینہ بہت جلد سایہ فگن ہونے کو ہے
قارئینِ کرام رمضان المبارک کا رحمتوں اور برکتوں بھرا مہینہ بہت جلد سایہ فگن ہونے کو ہے۔ رسولِ کریمﷺ نے اس کی تیاری کرنے اور اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانے کی تعلیم دی ہے۔اس لیے مناسب ہو گا کہ ہم شریعتِ مطہرہ پر ایک نظر ڈال لیں کہ یہ ایمان والوں کے لیے کیسی کیسی نعمتیں اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اور اس آبِ حیات سے سیراب ہونا ہمارے لیے کتنا فائدہ مند ہو سکتا ہے۔
شریعہ کا لفظ قرآنِ کریم میں چار مرتبہ آیا ہے۔ شریعہ کا مطلب پانی کا گھاٹ،پانی کی گزرگاہ،صاف ستھرے پانی کا تسلسل سے بہنا،اس کا بہت آسانی سے قابلِ حصول ہونا اور میٹھے چشمۂ رواں سے جاری وساری ہونا ہے۔شریعہ انسانی روح کے لیے اسی طرح باعثِ حیات ہے جس طرح پانی سے جسم کا میل کچیل دور ہوتا ہے جب کہ شریعت سے جسم و روح کی آلائشیں دور ہوتی ہیں۔ اس سے انسانی اخلاق سر سبز و شاداب ہوتے ہیں۔
قانون سے مراد وہ قواعد و ضوابط ہوتے ہیں جنھیں کوئی بھی ریاست،کوئی بھی مملکت معاشرے کی تنظیم کے لیے نافذ کرتی ہے۔ان قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی پر عموماً سزا ملتی ہے۔فقہ وہ قواعد و ضوابط ہوتے ہیں جنھیں فقہائے اسلام نے قرآن و سنتِ رسول اﷲ سے اخذ کر کے قابلِ نفاذ قرار دیا ہو۔بہر حال یہ ضروری نہیں کہ ان میں سے ہر ایک کی خلاف ورزی پر سزا بھی ملے۔دینِ اسلام میں قواعد و ضوابط کا تعلق چار چیزوں سے ہے اور وہ یہ ہیں۔
1۔عقائد2۔عبادات3۔معاملات4۔ اخلاقیات۔
ان میں سے عقائد اور عبادات حقوق اﷲ کے زمرے میں آتے ہیں جب کہ معاملات اور اخلاقیات کا تعلق حقوق العباد سے مانا جاتا ہے۔معاملات میں سول لاز،پرسنل لاز،خریدو فروخت،آپسی لین دین اور نکاح و طلاق وغیرہ جیسے امور شامل ہوتے ہیں۔جب کہ ہر رشتے،ہر تعلق کو خوبصورت ترین طریقے سے نبھانے کو اخلاق کہا جاتا ہے۔عقائد کا علم ،علمِ کلام کہلاتا ہے۔عبادات کاعلم ،علمِ فقہ کہلاتا ہے۔معاملات کا علم بھی علمِ فقہ ہی کہلاتا ہے جب کہ اخلاقیات کا علم،علمِ اخلاقیات کہلاتا ہے۔
اس سلسلے میں بنیادی طور پر چار مکتبہ فکر پائے جاتے ہیں۔
1مادیت Materialism 2تصوریتIdealism ثنو یت Materialism and Idealism together.ارتباتیت Scepticism
روحانی یا Spiritual Sideکے لوگوں نے اول و آخر ایک ہی بات کہی یعنی کس طرح انسانی فلاح کا حصول ممکن بنایا جا سکے۔
انسان کا بنایا ہوا قانون حالت و واقعات کے تابع رہتا ہے،حالات و واقعات کو فالوFollowکرتا ہے،انھیں کی وجہ سے جنم لیتا ہے،انھی کی وجہ سے اس میں ترامیم ہوتی ہیں اور حالات و واقعات ہی کی وجہ سے یہ ختم بھی ہو جاتا ہے جب کہ خدا کا دیا ہوا قانوں حالات و واقعات کوReact نہیں کرتا،متاثر نہیں ہوتا بلکہ خدا کا قانون رہبری کرتا ہے،Leadکرتا ہے۔
یہ اس وجہ سے ہے کہ باری تعالیٰ کا علم All Encompassing ہے یعنی اس پاک ذات کا علم، علمِ محیط ہے۔فرمان ہے کہ اس عظیم اور قدیر ذات نے اپنے علم اور اپنی رحمت سے ساری کائنات کا احاطہ کر رکھا ہے۔اس کی رحمت، رحمتِ کاملہ ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ علیم و خبیر ہستی جس کے پاس تمام قدرت و اقتدارہے وہ عظیم ہستی ہر لحاظ سے غیر جانبدار ہے۔اﷲ کریم کی ان ہی صفات کی وجہ سے یعنی اس کے علمِ محیط،رحمتِ کاملہ،قدرتِ تامہ اور ہر لحاظ سے غیر جانبدار ہونے کی وجہ سے اس کا دیا ہوا قانون حالات و واقعات کو فالو نہیں کرتا بلکہ لیڈ کرتا ہے،رہنمائی کرتا ہے۔
قرآن فرماتا ہے کہ آسمانوں اور زمین اور اس کے درمیان پائی جانے والی ہر شے اسلام قبول کرتی ہے۔ قرآن صرف مذہبی صحیفوں کا مجموعہ نہیں بلکہ بشمول اور چیزوں کے بے شمار قوانین عطا فرمانے والی کتابِ مقدس ہے۔اس کتابِ مقدس میں
509آیات آئینی قوانین سے متعلق ہیں۔
70آیات سول قوانین کے متعلق ہیں۔
70آیات پرسنل لاء کے متعلق ہیں۔
30آیات فوجداری قوانین کے متعلق ہیں۔
13آیات Proceduralقانون سے متعلق ہیں۔
25آیات مالی معاملات سے متعلق ہیں
جب کہ 10آیات بین الاقوامی قانون سے متعلق ہیں۔(یہ اعداد و شمارمرحوم جسٹس فدا محمد خان صاحب کے ارشادات سے ماخوذ ہیں۔)
غور طلب بات یہ ہے کہ آنکھ صرف روشنی میں دیکھ سکتی ہے۔صرف اس چیز کو دیکھ سکتی ہے جس پر مناسب روشنی پڑ رہی ہو،جو سامنے ہو یا سامنے کے حکم میں ہو،جو دیکھے جانے کے لائق ہو،دیکھے جانے کے لیے مناسب فاصلے پر ہو نیز یہ کہ مناسب حجم رکھتی ہو۔ انھی کمزوریوں کی وجہ سے عقل صحیح فیصلہ کرنے سے عام طور پر قاصر رہتی ہے اسی لیے اُسے صحیح فیصلے پر پہنچنے کے لیے وحی الٰہی کی ضرورت رہتی ہے۔
بنیادی طور پر شریعہ کے دو ماخذ ہیں ایک کتاب اﷲ)قرآن(اور دوسری سنتِ رسول اﷲ۔خطبہ حجتہ الوداع میں آپ نے فرمایا کہ میں تمہیں ان دو چیزوں کے ساتھ چھوڑتا ہوں اگر ان کو مضبوطی سے پکڑو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے۔ شریعت تین اصولوں کے اندر رہ کر کام کرتی ہے۔قطعی حکم یعنی صاف اور واضح طور پر نام لے کر حرام یا حلال کر دیا۔اصولی یعنی اصول وضح کر دیا جیسے کہ نشہ حرام ہے اور حدود یعنی اﷲ نے حدLimit مقرر کر دی یعنی اس حد سے آگے نہیں بڑھنا۔ اجتہاد کا مطلب اﷲ کا حکم جاننے اور جان کر ماننے اور اس پر عمل کرنے کی پوری کوشش کا نام ہے۔عقائد،عبادات اور اخلاقیات میں اجتہاد نہیں ہو سکتا البتہ معاملات میں اجتہاد کی اجازت نظر آتی ہے۔
شریعت کی پابندی اولادِ آدمؑ کو بشریت کی بلندیوں پر پہنچا دیتی ہے جب کہ یہی آدمی شریعت کو چھوڑ کر اﷲ کی نافرمانی کی وجہ سے جانوروں کی مختلف Categoriesمیں منقسم ہو جاتا ہے۔ لیکن اﷲ کا بندہ وہ ہے جو شریعت کی پابندی کرتے ہوئے اپنے لیے اپنے کردار کا تعین کرے۔شریعت کی پابندی سے فطرتِ سلیم حاصل ہوتی ہے۔ایک ٹھوس بھرپور اور جامع کردار ابھرتا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے مٹی اگر خاک ہو جائے تو ہوائیں اُسے اُڑاتی پھرتی ہیںجب کہ اگر یہی خاک اکٹھی ہو جائے،جڑ جائے تو چٹان کی خاصیت حاصل کر لیتی ہے۔مٹی کی یہی چٹان جس چیز پر گرے،توڑ کر رکھ دے اور جو چیز اُس پر گرے ،ٹوٹ جائے۔شریعت کی نافرمانی سے فطرت بگڑ کر تبدیل ہو جاتی ہے۔اس لیے ہمیں ہر دم اپنی ذات کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے اور شریعت کے ذریعے ،ازشریعت احسنِ تقویم شو۔۔وارث ِایمان ابراہیم شو۔
شریعہ کا لفظ قرآنِ کریم میں چار مرتبہ آیا ہے۔ شریعہ کا مطلب پانی کا گھاٹ،پانی کی گزرگاہ،صاف ستھرے پانی کا تسلسل سے بہنا،اس کا بہت آسانی سے قابلِ حصول ہونا اور میٹھے چشمۂ رواں سے جاری وساری ہونا ہے۔شریعہ انسانی روح کے لیے اسی طرح باعثِ حیات ہے جس طرح پانی سے جسم کا میل کچیل دور ہوتا ہے جب کہ شریعت سے جسم و روح کی آلائشیں دور ہوتی ہیں۔ اس سے انسانی اخلاق سر سبز و شاداب ہوتے ہیں۔
قانون سے مراد وہ قواعد و ضوابط ہوتے ہیں جنھیں کوئی بھی ریاست،کوئی بھی مملکت معاشرے کی تنظیم کے لیے نافذ کرتی ہے۔ان قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی پر عموماً سزا ملتی ہے۔فقہ وہ قواعد و ضوابط ہوتے ہیں جنھیں فقہائے اسلام نے قرآن و سنتِ رسول اﷲ سے اخذ کر کے قابلِ نفاذ قرار دیا ہو۔بہر حال یہ ضروری نہیں کہ ان میں سے ہر ایک کی خلاف ورزی پر سزا بھی ملے۔دینِ اسلام میں قواعد و ضوابط کا تعلق چار چیزوں سے ہے اور وہ یہ ہیں۔
1۔عقائد2۔عبادات3۔معاملات4۔ اخلاقیات۔
ان میں سے عقائد اور عبادات حقوق اﷲ کے زمرے میں آتے ہیں جب کہ معاملات اور اخلاقیات کا تعلق حقوق العباد سے مانا جاتا ہے۔معاملات میں سول لاز،پرسنل لاز،خریدو فروخت،آپسی لین دین اور نکاح و طلاق وغیرہ جیسے امور شامل ہوتے ہیں۔جب کہ ہر رشتے،ہر تعلق کو خوبصورت ترین طریقے سے نبھانے کو اخلاق کہا جاتا ہے۔عقائد کا علم ،علمِ کلام کہلاتا ہے۔عبادات کاعلم ،علمِ فقہ کہلاتا ہے۔معاملات کا علم بھی علمِ فقہ ہی کہلاتا ہے جب کہ اخلاقیات کا علم،علمِ اخلاقیات کہلاتا ہے۔
اس سلسلے میں بنیادی طور پر چار مکتبہ فکر پائے جاتے ہیں۔
1مادیت Materialism 2تصوریتIdealism ثنو یت Materialism and Idealism together.ارتباتیت Scepticism
روحانی یا Spiritual Sideکے لوگوں نے اول و آخر ایک ہی بات کہی یعنی کس طرح انسانی فلاح کا حصول ممکن بنایا جا سکے۔
انسان کا بنایا ہوا قانون حالت و واقعات کے تابع رہتا ہے،حالات و واقعات کو فالوFollowکرتا ہے،انھیں کی وجہ سے جنم لیتا ہے،انھی کی وجہ سے اس میں ترامیم ہوتی ہیں اور حالات و واقعات ہی کی وجہ سے یہ ختم بھی ہو جاتا ہے جب کہ خدا کا دیا ہوا قانوں حالات و واقعات کوReact نہیں کرتا،متاثر نہیں ہوتا بلکہ خدا کا قانون رہبری کرتا ہے،Leadکرتا ہے۔
یہ اس وجہ سے ہے کہ باری تعالیٰ کا علم All Encompassing ہے یعنی اس پاک ذات کا علم، علمِ محیط ہے۔فرمان ہے کہ اس عظیم اور قدیر ذات نے اپنے علم اور اپنی رحمت سے ساری کائنات کا احاطہ کر رکھا ہے۔اس کی رحمت، رحمتِ کاملہ ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ علیم و خبیر ہستی جس کے پاس تمام قدرت و اقتدارہے وہ عظیم ہستی ہر لحاظ سے غیر جانبدار ہے۔اﷲ کریم کی ان ہی صفات کی وجہ سے یعنی اس کے علمِ محیط،رحمتِ کاملہ،قدرتِ تامہ اور ہر لحاظ سے غیر جانبدار ہونے کی وجہ سے اس کا دیا ہوا قانون حالات و واقعات کو فالو نہیں کرتا بلکہ لیڈ کرتا ہے،رہنمائی کرتا ہے۔
قرآن فرماتا ہے کہ آسمانوں اور زمین اور اس کے درمیان پائی جانے والی ہر شے اسلام قبول کرتی ہے۔ قرآن صرف مذہبی صحیفوں کا مجموعہ نہیں بلکہ بشمول اور چیزوں کے بے شمار قوانین عطا فرمانے والی کتابِ مقدس ہے۔اس کتابِ مقدس میں
509آیات آئینی قوانین سے متعلق ہیں۔
70آیات سول قوانین کے متعلق ہیں۔
70آیات پرسنل لاء کے متعلق ہیں۔
30آیات فوجداری قوانین کے متعلق ہیں۔
13آیات Proceduralقانون سے متعلق ہیں۔
25آیات مالی معاملات سے متعلق ہیں
جب کہ 10آیات بین الاقوامی قانون سے متعلق ہیں۔(یہ اعداد و شمارمرحوم جسٹس فدا محمد خان صاحب کے ارشادات سے ماخوذ ہیں۔)
غور طلب بات یہ ہے کہ آنکھ صرف روشنی میں دیکھ سکتی ہے۔صرف اس چیز کو دیکھ سکتی ہے جس پر مناسب روشنی پڑ رہی ہو،جو سامنے ہو یا سامنے کے حکم میں ہو،جو دیکھے جانے کے لائق ہو،دیکھے جانے کے لیے مناسب فاصلے پر ہو نیز یہ کہ مناسب حجم رکھتی ہو۔ انھی کمزوریوں کی وجہ سے عقل صحیح فیصلہ کرنے سے عام طور پر قاصر رہتی ہے اسی لیے اُسے صحیح فیصلے پر پہنچنے کے لیے وحی الٰہی کی ضرورت رہتی ہے۔
بنیادی طور پر شریعہ کے دو ماخذ ہیں ایک کتاب اﷲ)قرآن(اور دوسری سنتِ رسول اﷲ۔خطبہ حجتہ الوداع میں آپ نے فرمایا کہ میں تمہیں ان دو چیزوں کے ساتھ چھوڑتا ہوں اگر ان کو مضبوطی سے پکڑو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے۔ شریعت تین اصولوں کے اندر رہ کر کام کرتی ہے۔قطعی حکم یعنی صاف اور واضح طور پر نام لے کر حرام یا حلال کر دیا۔اصولی یعنی اصول وضح کر دیا جیسے کہ نشہ حرام ہے اور حدود یعنی اﷲ نے حدLimit مقرر کر دی یعنی اس حد سے آگے نہیں بڑھنا۔ اجتہاد کا مطلب اﷲ کا حکم جاننے اور جان کر ماننے اور اس پر عمل کرنے کی پوری کوشش کا نام ہے۔عقائد،عبادات اور اخلاقیات میں اجتہاد نہیں ہو سکتا البتہ معاملات میں اجتہاد کی اجازت نظر آتی ہے۔
شریعت کی پابندی اولادِ آدمؑ کو بشریت کی بلندیوں پر پہنچا دیتی ہے جب کہ یہی آدمی شریعت کو چھوڑ کر اﷲ کی نافرمانی کی وجہ سے جانوروں کی مختلف Categoriesمیں منقسم ہو جاتا ہے۔ لیکن اﷲ کا بندہ وہ ہے جو شریعت کی پابندی کرتے ہوئے اپنے لیے اپنے کردار کا تعین کرے۔شریعت کی پابندی سے فطرتِ سلیم حاصل ہوتی ہے۔ایک ٹھوس بھرپور اور جامع کردار ابھرتا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے مٹی اگر خاک ہو جائے تو ہوائیں اُسے اُڑاتی پھرتی ہیںجب کہ اگر یہی خاک اکٹھی ہو جائے،جڑ جائے تو چٹان کی خاصیت حاصل کر لیتی ہے۔مٹی کی یہی چٹان جس چیز پر گرے،توڑ کر رکھ دے اور جو چیز اُس پر گرے ،ٹوٹ جائے۔شریعت کی نافرمانی سے فطرت بگڑ کر تبدیل ہو جاتی ہے۔اس لیے ہمیں ہر دم اپنی ذات کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے اور شریعت کے ذریعے ،ازشریعت احسنِ تقویم شو۔۔وارث ِایمان ابراہیم شو۔