علی بھائی سب کے بھائی

اداکار محمد علی مرحوم کا تذکرہ کرتے ہوئے دل پر غم کا بوجھ ضرور ہوتا ہے

meemsheenkhay@gmail.com

اداکار محمد علی مرحوم کا تذکرہ کرتے ہوئے دل پر غم کا بوجھ ضرور ہوتا ہے ان کی فلم انڈسٹری کے لیے گراں قدر خدمات کو آبرو مندانہ تسلیم کرنا ہوگا ، وہ اپنی مثال آپ تھے۔ راقم کا ان سے بہت محبت کا رشتہ رہا جب بھی صحافتی ذمے داری کے حوالے سے لاہور جاتا ، ان سے طویل نشستیں ہوتیں بہت ساری باتیں ان سے ماضی کے حوالے سے ہوتیں ، کبھی کبھی گفتگو میں اداس رنگ بھی بکھر جایا کرتے تھے میری رہنمائی کے لیے فلم انڈسٹری کے ماضی پر خوب روشنی ڈالتے وہ فلم انڈسٹری کے انسائیکلوپیڈیا تھے۔

روزنامہ ایکسپریس لاہور میں میرا کالم جو شوبز پر ہوتا بہت خوش ہوتے تھے اور ہنس کرکہتے کہ '' بیٹے اب تمہیں بھی لکھنا آتا جا رہا ہے'' وہ تو شائقین کے دل کے مہمان بنے رہتے تھے۔ ان کی سحرانگیز شخصیت تو سراپا حسن تھی یہ واحد پاکستانی فنکار تھے جو بین الاقوامی شہرت کے حامل تھے۔ ان کی فلم سلاخیں، حیدر علی، آس دیکھ کر دلیپ کمار نے کہا تھا کہ اگر علی انڈیا میں ہوتے تو میرے سب سے بڑے حریف ہوتے (جب کہ دلیپ کمار نے کبھی کسی اداکار کے لیے ایسے الفاظ ادا نہیں کیے یہ تاریخ ہے فلم انڈسٹری کی) رب نے انھیں خوبصورت شخصیت مردانہ وجاہت اور خوبصورت آواز سے نوازا تھا جب وہ بھارت گئے تو آنجہانی اندرا گاندھی نے ان کے اعزاز میں وزیر اعظم ہاؤس میں عشائیہ دیا۔

یہ مرتبہ تو ہمارے سیاستدانوں کو بھی نہ ملا، فلم ''جانے انجانے'' کے لیے بنگلہ دیش گئے تو صدر بنگلہ دیش نے ایوان صدر میں ظہرانہ دیا اور انھیں صدارتی اعزاز سے نوازا گیا ، ایسا اعزاز اب تک کسی بھی پاکستانی فنکار کو نہیں ملا۔ محمدعلی بھارت کے شہر رام پور میں پیدا ہوئے اور ہجرت کرکے سندھ کے شہر حیدرآباد آئے ، انھوں نے کئی ملاقاتوں میں اپنی زندگی کے حوالے سے ہمیں بتایا، وہ حیدرآباد کے علاقے ٹھنڈی سڑک اولڈ کمپلیکس کے برابر والی گلی کے مکان نمبر3 میں رہتے تھے، ہجرت کے بعد علی مرحوم کے والد سید مرشد علی، بہنیں عصمت آپا اور رضیہ آپا ان کے ہمراہ تھے تین سال کی عمر میں یتیم ہوگئے، ان کی دیکھ بھال عصمت آپا نے کی۔

1955میں ملتان کے گورنمنٹ کالج ایمرین سے ایف اے کیا اور حیدرآباد آگئے، کلیم آفس میں بحیثیت کلرک کے 88 روپے ماہانہ کی نوکری کرلی، نوکری چھوڑ کر حیدرآباد ریڈیو جوائن کرلیا، ان کے ڈرامے آخری چٹان اور اندھیرا اجالا ریڈیو کے مقبول ترین ڈرامے تھے، پھر کراچی آ کر ریڈیو جوائن کیا، ایس ایم سلیم مرحوم جو بڑے پروڈیوسر تھے نے ان کو دو ڈراموں آوازیں اور دھڑکن میں کاسٹ کیا یہ ڈرامے سپرہٹ ہوئے۔ انھوں نے بتایا کہ کراچی میں آئی آئی چندریگر کی ایک بلڈنگ میں میرے سگے چچا جان اشرف علی رہا کرتے تھے۔میں چچا کے گھر سے ریڈیو پاکستان پیدل جایا کرتا تھا ۔

میری بھابھی، بھائی ارشاد کی بیوی (ارشاد علی نے بھی کافی فلموں میں اولڈ کردار کیے) کے گھر کے سامنے قائد اعظم محمد علی جناح کے ڈرائیور اداکار آزاد مرحوم ناظم آباد نمبر 4 میں رہا کرتے تھے انھوں نے مجھے مصنف سلیم احمد کی فلم ''آگ اور خون'' میں مہمان اداکار کی حیثیت سے چانس دلوایا، یہ میری پہلی فلم تھی، مگر ریلیز نہ ہوسکی جس کا مجھے بہت افسوس ہوا۔ زیڈ اے بخاری ریڈیو سے وابستہ تھے انھوں نے مجھے احمد کریم فضلی سے کہہ کر فلم ''چراغ جلتا رہا'' میں کاسٹ کروادیا فلم کا افتتاح نشاط سینما میں ''محترمہ فاطمہ جناح'' نے کیا، فلم 19 مارچ 1962کو ریلیز ہوکر سپر ہٹ ہوئی، بحیثیت ہیرو کے پہلی فلم ''شرارت'' تھی، علی بھائی نے بتایا جب ندیم کی فلم ''اناڑی'' سپرہٹ ہوئی تو ہر پروڈیوسر ندیم کو مزاحیہ فلموں میں کاسٹ کرنا چاہتا تھا، شباب کیرانوی بڑے ہدایت کار تھے۔

انھوں نے مجھے فون کیا، گھر پر اور فوری ملنے کے لیے کہا، میں ان سے ملا انھوں نے ایک مزاحیہ اسکرپٹ دیا کہ اسے پڑھ لو، میں نے ان سے کہا میں اور مزاحیہ کردار۔۔۔۔یہ کردار آپ ندیم سے کروا لیں، وہ بہت ناراض ہوئے، میں نے ان سے کہا اچھی فلم 13 لاکھ میں بنتی ہے، فلم فلاپ ہوگئی تو آپ کا پیسہ ڈوب جائے گا، انھوں نے کہا '' پیسہ میرا ڈوبے گا ، تمہیں کیا تکلیف ہے؟'' پھر اس فلم میں کام کرنا پڑا، اور یوں فلم ''آئینہ صورت'' ریلیز ہوئی اور پاکستان میں ریکارڈ بزنس کیا۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ میری فلم ''رواج'' سے شمع سینما کا افتتاح ہوا۔


شیریں سینما کا افتتاح میری فلم ''صنم'' سے ہوا، فلم ''صاعقہ'' میری وہ فلم تھی جو کیپری سینما میں ریلیز ہوئی، یہ پہلی اردو فلم تھی جو کیپری سینما میں ریلیز ہوئی، علی پاکستان سے بہت محبت کرتے تھے، اپنی پسندیدہ گلوکارہ ''نسیم بیگم'' کے حوالے سے بتایا کہ ''مادر وطن'' فلم مجھے بہت پسند تھی، میں ان کی بہت عزت کرتا ہوں، ان کے گیت ''اے راہ حق کے شہیدوں'' نے ہماری پاک فوج کو بہت عزت سے نوازا ، اور ہمارے دل ایمان افروز کردیے، راقم کو پروڈیوسر زینت بیگم مرحومہ نے بتایا تھا مجھے پیسوں کی بہت ضرورت تھی، میں نے علی بھائی سے کہا '' آپ سپرہٹ ہیرو ہیں، آپ اس وقت میری مدد کردیں، میری فلم 'بن بادل برسات' سائن کردیں، تاکہ میں معاشی پریشانی سے نکل سکوں۔'' انھوں نے اس فلم میں کام کیا، فلم ریلیز ہوکر سپرہٹ ہوئی، میں معاوضہ لے کر ان کے گھر گئی کہ علی بھائی یہ نذرانہ قبول کرلیں، انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا '' بھائی بہنوں سے پیسے تھوڑی لیتے ہیں'' اور پھر میرے آنسو ہچکیوں میں بدل گئے، میں روتی رہی اور وہ دلاسا دیتے رہے۔

ہدایت کار ایم اے رشید ٹرپل ایم اے تھے، وجہ شہرت فلم پاٹے خان تھی، انھوں نے ایک واقعہ سنایا کہ جب میں نے فلم ''تم سلامت رہو'' شروع کی تو کافی عرصے کے بعد وحید مراد اور علی کو کاسٹ کیا، میں نے علی کے مقابل رانی کو کاسٹ کیا، رانی بہت مصروف تھیں، اداکارہ آسیہ نے علی سے درخواست کی کہ رانی بہت مصروف ہیں، آپ میری سفارش ایم اے رشید سے کردیں کہ وہ رانی کی جگہ مجھے کاسٹ کرلیں، میں اسی شام علی سے ملا کہ آپ اجازت دیں تو میں رانی کی جگہ زیبا بھابی کو کاسٹ کرلوں، علی شرافت کا مجسمہ تھے انھوں نے کہا '' آپ میری درخواست پر آسیہ کو کاسٹ کرلیں'' میں نے انکار کیا، پھر علی کے اصرار پر آسیہ کو کاسٹ کرلیا مگر ان کا ظرف دیکھیں کہ بیوی کے بجائے آسیہ کی بات کی، جب کہ زیبا تو ان کی اہلیہ تھیں اور پھر آسیہ کو کاسٹ کرلیا، اداکار آزاد مرحوم کراچی ناظم آباد نمبر4 میں رہتے تھے۔

ان کے پڑوسی سہیل احمد مرحوم نے ہمیں بتایا تھا یہ 1966 کی بات ہے فلم ''تم ملے پیار ملا'' کی شوٹنگ کراچی میں ہو رہی تھی، علی بھائی اور زیبا کراچی آئے تو ان کا نکاح آزاد مرحوم کے گھر ہوا، نکاح قاضی سعید احتشام مرحوم نے پڑھایا، مہر کی رقم 37,500 تھی، ہدایت کار ایم اے رشید، یونس ملک، اقبال کاشمیری مرحوم نے مشترکہ بات بتائی کہ علی پاکستان تو کیا دنیا کے واحد اداکار تھے جن کی عزت و توقیر کا یہ عالم تھا کہ سیٹ پر ہیروئنیں تک انھیں علی بھائی کہہ دیا کرتی تھیں، وہ نیک انسان تھے۔

راقم جب بھی ان کے گھر گیا بہت محبت کا ثبوت دیتے، ان کا دسترخوان بہت وسیع ہوتا تھا، ہدایت کار ظفر شباب بتاتے تھے کہ جب بھی شوٹنگ ہوتی، دوپہر کا کھانا گھر سے منگواتے، جو دس پندرہ افراد کے لیے ہوتا اور خود بھی مزدوروں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے ، تکبر سے انھیں بہت نفرت تھی، حسین و جمیل انسان تھے کبھی اسکینڈل نہیں سنا، بھٹو مرحوم، ضیا الحق ان سے بہت محبت کا ثبوت دیتے تھے، صوبہ پنجاب میں شائقین فلم انھیں بہت پسند کرتے تھے حالانکہ اردو فلموں کی مارکیٹ کراچی تھی، راقم کو بتایا کرتے تھے بیٹے حسن، عروج سب مٹی میں مل جاتے ہیں، برے وقت کو کبھی نظرانداز مت کرنا، لوگوں کے دلوں کے مہمان بننے کی کوشش کرنا، ان کے لیے ایندھن بننے کی کوشش نہ کرنا، ایسا کرو گے تو آخری وقت بھی تمہارا ہوگا۔ علی بھیا کی خوبصورت فلموں میں انسان اور آدمی، انصاف اور قانون، گھرانہ، خاموش رہو، صاعقہ، ایک گناہ اور سہی، ان داتا، انتخاب، دشمن، دوریاں، حیدر علی، وحشی، صورت اور سیرت، سنگھرام، پھول میرے گلشن کا، آس اور سلاخیں قابل ذکر ہیں۔ فلم ''آسرا'' وہ فلم تھی جس میں علی پر کوئی گیت فلم بند نہیں ہوا، علی زیب کی آخری فلم ''محبت ہو تو ایسی ہو'' تھی۔

خاموش رہو پہلی سپرہٹ فلم ہیڈ کانسٹیبل۔ علی زیب کی پہلی فلم ''شیر دی بچی'' پہلی پنجابی فلم، کنیز پہلی گولڈن جوبلی فلم، جان پہچان پہلی رنگین فلم، علی زیب کی مثالی محبت 40 سال رہی، مختلف القابات پانیوالے علی بھیا حیدرآباد کا نام بھورے میاں، انڈسٹری کے غریب کارکنان اچھے میاں والدین عزیز و اقارب منا کے نام سے انھیں پکارتے تھے۔ اچھے میاں سب کو اداس کرکے 16 مارچ کو صبح 11 بجے 74 سال 11 ماہ کی عمر میں بروز اتوار اپنے رب کی طرف لوٹ گئے اور مرنے سے قبل ان کی وصیت کے مطابق روحانی شخصیت ماہ میر میں سپردخاک ہوئے آج بھی ماہ میر کے مزار میں جب لوگ داخل ہوتے ہیں تو پہلے ان کی قبر آتی ہے تو لوگ فاتحہ پڑھ کر آگے بڑھتے ہیں ان کی تعداد روزانہ ہزاروں میں ہوتی ہے ان کے مرنے کے بعد زیبا بھابھی نے راقم سے کہا تھا:

''دو ہنسوں کا جوڑا بچھڑگیا رے''
Load Next Story