کراچی میں بھی یادگار پاکستان کی تعمیر
یہ حقیقت ہے کہ قرارداد پاکستان لاہور میں 23 مارچ 1940 کو منظورکی گئی تھی
یہ حقیقت ہے کہ قرارداد پاکستان لاہور میں 23 مارچ 1940 کو منظورکی گئی تھی ، جس کے نتیجے میں پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی تاریخ ساز قیادت میں وجود میں آیا تھا۔ بعد میں لاہور میں اس مقام پر یادگار پاکستان تعمیرکی گئی ہے جو تعمیراتی حسن کا ایک بے نظیر نمونہ ہے اور دنیا کے بڑے بڑے رہنماؤں نے مینار پاکستان کو دیکھ کر اس کی تعریف کی ہے۔
تاریخ میں زندہ قومیں اپنی ماضی کی یادگاریں تعمیرکرتی ہیں اور ان یادگاروں کو ہمیشہ اہمیت دی جاتی ہے لیکن یہ بھی ایک روشن حقیقت ہے اور مسلم لیگ کی تاریخ اور دستاویزات سے ثابت ہوتا ہے کہ سب سے پہلے 10،9،8 اکتوبر 1938 کوکراچی کے عید گاہ میدان میں منعقد ہونے والے مسلم لیگ کے اجلاس میں اس وقت کے بزرگ سیاستدان اور مسلم لیگی رہنما شیخ عبدالمجید سندھی کی پیش کردہ قرارداد پاکستان اتفاق رائے سے منظور کی گئی تھی ، یہ اجتماع عمومی نوعیت کا نہیں تھا۔
سندھ صوبائی مسلم لیگ کے زیر اہتمام تین روزہ اجلاس کی صدارت خود قائداعظم محمد علی جناح نے کی تھی اور قائداعظم سندھ میں مسلم لیگ کے کراچی کے اس اجتماع کی کامیابی پر بہت خوش ہوئے تھے۔ یہ وہ دور تھا کہ جب مسلم لیگ تاریخ ساز سیاسی کامیابیوں کی طرف بڑھ رہی تھی اور قائداعظم کو سندھ مسلم لیگ کے اس اجلاس سے سیاسی طور پر بہت تقویت حاصل ہوئی تھی۔ جس وقت پورے ہندوستان کی نظریں کراچی پر تھیں اس وقت کانگریس کی قیادت نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ مسلم لیگ مسلمانوں کی نمایندہ جماعت نہیں ہے اور اسے مسلمانوں کی سیاسی ترجمانی کا حق نہیں ہے ، جب کہ قائداعظم کا اس بارے میں کھلا موقف تھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی واحد سیاسی ترجمان مسلم لیگ ہے اور مستقبل کے کسی بھی آئین اور سیاسی ڈھانچے میں مسلم لیگ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
سندھ مسلم لیگ کے اس تین روزہ اجلاس کے آخری دن یعنی 10 اکتوبر 1938 کو اس وقت سندھ سے قانون ساز اسمبلی کے رکن اور ممتاز و معروف دانشور شیخ عبدالمجید سندھی نے مسلم اکثریت پر مشتمل وفاق کی تجویز پیش کی تھی۔ یہ تجویز ایک قرار داد کی شکل میں پیش کی گئی تھی جس میں اس وقت کے تمام جملہ آئینی اور سیاسی مسائل کا احاطہ کیا گیا تھا اور ہندوستان کی سب سے مکروہ ترین چھوت چھات کی روایت پر بھی شدید تنقید کی گئی اور اسے انسانیت کے مہذب اصولوں کے خلاف قرار دیا گیا تھا۔ شیخ عبدالمجید سندھی کی اس قرار داد میں کہا گیا کہ ہندوستان میں ہزار ہا سال سے چھوت چھات کی بدترین غیر اخلاقی روایت قائم رہی ہے۔ یہ رسم اور روایت قوم پرستی '' انسانی مساوات '' جمہوریت اور تمام مہذب اصولوں کے برعکس ہے جس کو جدید دنیا پہلے ہی تسلیم کرچکی ہے۔
اس ظالمانہ اور غیر انسانی رسم کی وجہ سے آج ہندوستان کے کروڑوں انسان اقتصادی اور سماجی طور پر عدم مساوات کا شکار ہوچکے ہیں اور دائمی غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ چھوت چھات اور اس طرح کے غیر انسانی رویوں کی وجہ سے مشترکہ توقعات اور نظریات کی بناء پر متحد ہندوستان اور متحد قومیت کا ارتقا اور فروغ اب ناممکن بن چکا ہے۔ جس کی بنیادی وجہ چھوت چھات کی مکروہ ذہنیت ہے۔
شیخ عبدالمجید سندھی کی قرار داد میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ یہ کانفرنس اب نہایت ضروری سمجھتی ہے کہ برصغیر میں دائمی اور مسلمان و ہندو قوموں میں آزادانہ ثقافتی ترقی اقتصادی اور سماجی اصلاح اور سیاسی حق خود ارادی حاصل کرنے کی خاطر آل انڈیا مسلم لیگ سے سفارش کی جائے کہ وہ اس بات پر ازسر نو غورکرے کہ ہندوستان کے لیے کونسا آئین مناسب ہوگا جس کے ذریعے ان دونوں قوموں کو اپنا اپنا صحیح مقام حاصل ہوسکے اور اپنے لیے ایسا منصوبہ تیارکرے جس کے تحت مسلمان قوم مکمل طور پر آزادی حاصل کرسکے۔ مزید یہ کانفرنس آل انڈیا مشترکہ وفاق (جس کے لیے 1935گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ میں بندوبست کیا گیا ہے) کو سختی سے نامنظورکرتی ہے اور حکومت برطانیہ سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اس ایکٹ کو عمل میں لانے سے گریز کرے۔ یہ کانفرنس یہ بھی اعلان کرتی ہے کہ ہندوستان کے مسلمان ایسا کوئی بھی آئین قبول نہیں کریں گے جو مسلم لیگ کے مشورے اور منظوری کے بغیر نافذ کیا جائے۔
شیخ عبدالمجید سندھی کی اس قرار داد کے حق میں سندھ سے قائداعظم کے دست راست سر عبد اللہ ہارون، پنجاب سے مشتاق احمد گورمانی ، سی پی سے سید عبدالرؤف شاہ اور یو پی سے مولانا عبدالحامد بدایونی نے بھی تقاریر کی تھیں اور اس قرار داد کو ہندوستان کے تمام مسلمانوں کی سیاسی خواہشات کا مظہر قرار دیا تھا۔ قائداعظم محمد علی جناح سمیت مسلم لیگ کے سرکردہ رہنماؤں نے یہ تاریخی قرار داد پیش کرنے اور اس کی منظوری پر شیخ عبدالمجید سندھی کو مبارکباد دی تھی۔ اس وقت کانگریس بھی اس قرار داد کی منظوری سے خوفزدہ ہوچکی تھی۔ تمام مورخین اور تجزیہ نگار اس امر پر متفق ہیں کہ کراچی کے مسلم لیگ کے اجلاس کی اسی قرار داد کی بنیاد پر بعد میں لاہور میں 23 مارچ 1940 کو قرار داد پاکستان منظور کی گئی تھی۔
کراچی پاکستان کا دل اور روح ہے یہ قائداعظم کا شہر ہے اس لیے ضروری ہے کہ عید گاہ میدان یا کراچی میں کسی اور اہم مقام پر اس قرار داد کی منظوری کے حوالے سے یادگار پاکستان تعمیر کی جائے جس میں شیخ عبدالمجید سندھی کی منظور ہونے والی قرار داد کا مکمل متن لکھا جائے اور اس کانفرنس کے شرکاء کے نام بھی درج ہوں۔ کراچی وہ شہر ہے جہاں کے لوگوں نے پاکستان کے حق میں ہجرت کی تھی اور اہل کراچی نے قیام پاکستان کے بعد معمار وطن کا کردار ادا کیا ہے اور قربانیاں بھی دی ہیں۔ کراچی کے شہریوں نے ہمیشہ پاکستان کے تحفظ اور سلامتی کی جدوجہد میں حصہ لیا ہے اس لیے ضرورت یہی ہے کہ نئی نسل کو اپنے اکابرین کے کارناموں سے روشناس کرانے کے لیے لاہور کی طرح کراچی میں بھی یادگار پاکستان تعمیر کی جائے۔ وفاقی حکومت، سندھ حکومت کو اس سلسلے میں جامع منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔
تاریخ میں زندہ قومیں اپنی ماضی کی یادگاریں تعمیرکرتی ہیں اور ان یادگاروں کو ہمیشہ اہمیت دی جاتی ہے لیکن یہ بھی ایک روشن حقیقت ہے اور مسلم لیگ کی تاریخ اور دستاویزات سے ثابت ہوتا ہے کہ سب سے پہلے 10،9،8 اکتوبر 1938 کوکراچی کے عید گاہ میدان میں منعقد ہونے والے مسلم لیگ کے اجلاس میں اس وقت کے بزرگ سیاستدان اور مسلم لیگی رہنما شیخ عبدالمجید سندھی کی پیش کردہ قرارداد پاکستان اتفاق رائے سے منظور کی گئی تھی ، یہ اجتماع عمومی نوعیت کا نہیں تھا۔
سندھ صوبائی مسلم لیگ کے زیر اہتمام تین روزہ اجلاس کی صدارت خود قائداعظم محمد علی جناح نے کی تھی اور قائداعظم سندھ میں مسلم لیگ کے کراچی کے اس اجتماع کی کامیابی پر بہت خوش ہوئے تھے۔ یہ وہ دور تھا کہ جب مسلم لیگ تاریخ ساز سیاسی کامیابیوں کی طرف بڑھ رہی تھی اور قائداعظم کو سندھ مسلم لیگ کے اس اجلاس سے سیاسی طور پر بہت تقویت حاصل ہوئی تھی۔ جس وقت پورے ہندوستان کی نظریں کراچی پر تھیں اس وقت کانگریس کی قیادت نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ مسلم لیگ مسلمانوں کی نمایندہ جماعت نہیں ہے اور اسے مسلمانوں کی سیاسی ترجمانی کا حق نہیں ہے ، جب کہ قائداعظم کا اس بارے میں کھلا موقف تھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی واحد سیاسی ترجمان مسلم لیگ ہے اور مستقبل کے کسی بھی آئین اور سیاسی ڈھانچے میں مسلم لیگ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
سندھ مسلم لیگ کے اس تین روزہ اجلاس کے آخری دن یعنی 10 اکتوبر 1938 کو اس وقت سندھ سے قانون ساز اسمبلی کے رکن اور ممتاز و معروف دانشور شیخ عبدالمجید سندھی نے مسلم اکثریت پر مشتمل وفاق کی تجویز پیش کی تھی۔ یہ تجویز ایک قرار داد کی شکل میں پیش کی گئی تھی جس میں اس وقت کے تمام جملہ آئینی اور سیاسی مسائل کا احاطہ کیا گیا تھا اور ہندوستان کی سب سے مکروہ ترین چھوت چھات کی روایت پر بھی شدید تنقید کی گئی اور اسے انسانیت کے مہذب اصولوں کے خلاف قرار دیا گیا تھا۔ شیخ عبدالمجید سندھی کی اس قرار داد میں کہا گیا کہ ہندوستان میں ہزار ہا سال سے چھوت چھات کی بدترین غیر اخلاقی روایت قائم رہی ہے۔ یہ رسم اور روایت قوم پرستی '' انسانی مساوات '' جمہوریت اور تمام مہذب اصولوں کے برعکس ہے جس کو جدید دنیا پہلے ہی تسلیم کرچکی ہے۔
اس ظالمانہ اور غیر انسانی رسم کی وجہ سے آج ہندوستان کے کروڑوں انسان اقتصادی اور سماجی طور پر عدم مساوات کا شکار ہوچکے ہیں اور دائمی غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ چھوت چھات اور اس طرح کے غیر انسانی رویوں کی وجہ سے مشترکہ توقعات اور نظریات کی بناء پر متحد ہندوستان اور متحد قومیت کا ارتقا اور فروغ اب ناممکن بن چکا ہے۔ جس کی بنیادی وجہ چھوت چھات کی مکروہ ذہنیت ہے۔
شیخ عبدالمجید سندھی کی قرار داد میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ یہ کانفرنس اب نہایت ضروری سمجھتی ہے کہ برصغیر میں دائمی اور مسلمان و ہندو قوموں میں آزادانہ ثقافتی ترقی اقتصادی اور سماجی اصلاح اور سیاسی حق خود ارادی حاصل کرنے کی خاطر آل انڈیا مسلم لیگ سے سفارش کی جائے کہ وہ اس بات پر ازسر نو غورکرے کہ ہندوستان کے لیے کونسا آئین مناسب ہوگا جس کے ذریعے ان دونوں قوموں کو اپنا اپنا صحیح مقام حاصل ہوسکے اور اپنے لیے ایسا منصوبہ تیارکرے جس کے تحت مسلمان قوم مکمل طور پر آزادی حاصل کرسکے۔ مزید یہ کانفرنس آل انڈیا مشترکہ وفاق (جس کے لیے 1935گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ میں بندوبست کیا گیا ہے) کو سختی سے نامنظورکرتی ہے اور حکومت برطانیہ سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اس ایکٹ کو عمل میں لانے سے گریز کرے۔ یہ کانفرنس یہ بھی اعلان کرتی ہے کہ ہندوستان کے مسلمان ایسا کوئی بھی آئین قبول نہیں کریں گے جو مسلم لیگ کے مشورے اور منظوری کے بغیر نافذ کیا جائے۔
شیخ عبدالمجید سندھی کی اس قرار داد کے حق میں سندھ سے قائداعظم کے دست راست سر عبد اللہ ہارون، پنجاب سے مشتاق احمد گورمانی ، سی پی سے سید عبدالرؤف شاہ اور یو پی سے مولانا عبدالحامد بدایونی نے بھی تقاریر کی تھیں اور اس قرار داد کو ہندوستان کے تمام مسلمانوں کی سیاسی خواہشات کا مظہر قرار دیا تھا۔ قائداعظم محمد علی جناح سمیت مسلم لیگ کے سرکردہ رہنماؤں نے یہ تاریخی قرار داد پیش کرنے اور اس کی منظوری پر شیخ عبدالمجید سندھی کو مبارکباد دی تھی۔ اس وقت کانگریس بھی اس قرار داد کی منظوری سے خوفزدہ ہوچکی تھی۔ تمام مورخین اور تجزیہ نگار اس امر پر متفق ہیں کہ کراچی کے مسلم لیگ کے اجلاس کی اسی قرار داد کی بنیاد پر بعد میں لاہور میں 23 مارچ 1940 کو قرار داد پاکستان منظور کی گئی تھی۔
کراچی پاکستان کا دل اور روح ہے یہ قائداعظم کا شہر ہے اس لیے ضروری ہے کہ عید گاہ میدان یا کراچی میں کسی اور اہم مقام پر اس قرار داد کی منظوری کے حوالے سے یادگار پاکستان تعمیر کی جائے جس میں شیخ عبدالمجید سندھی کی منظور ہونے والی قرار داد کا مکمل متن لکھا جائے اور اس کانفرنس کے شرکاء کے نام بھی درج ہوں۔ کراچی وہ شہر ہے جہاں کے لوگوں نے پاکستان کے حق میں ہجرت کی تھی اور اہل کراچی نے قیام پاکستان کے بعد معمار وطن کا کردار ادا کیا ہے اور قربانیاں بھی دی ہیں۔ کراچی کے شہریوں نے ہمیشہ پاکستان کے تحفظ اور سلامتی کی جدوجہد میں حصہ لیا ہے اس لیے ضرورت یہی ہے کہ نئی نسل کو اپنے اکابرین کے کارناموں سے روشناس کرانے کے لیے لاہور کی طرح کراچی میں بھی یادگار پاکستان تعمیر کی جائے۔ وفاقی حکومت، سندھ حکومت کو اس سلسلے میں جامع منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔