اسلام میں بیٹی کا مقام

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’وہ عورت مبارک ہوتی ہے جس کی پہلی اولاد بیٹی ہو۔‘‘

فوٹو : فائل

زمانہ قبل از اسلام کی تاریخ کا اگر مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت عالم انسانیت مختلف قسم کی معاشرتی و اخلاقی بیماریوں سے دوچار تھی، تعلیم و تربیت کا فقدان تھا، ظلمت و جہالت عروج پر تھی، غربت و افلاس نے ڈیرے ڈال رکھے تھے، ایسے میں ظالمانہ و جاہلانہ رسومات کا جنم لینا ایک بدیہی سی بات ہے، ایسی ہی جاہلانہ رسومات میں سے ایک قبیح رسم بعض قبیلوں میں بیٹی کو زندہ درگور کرنے کی بھی تھی، اِس رسم کی بنیاد بے جا غیرت پر مبنی تھی کہ کل کسی کو بیٹی دینی نہ پڑے، کوئی ہمارا داماد نہ بن سکے، کسی کے سامنے ہماری نظریں جھک نہ سکیں، اِس لیے جب بھی بیٹی کسی کے گھر میں پیدا ہوتی وہ اسے زندہ زمین میں دفن کردیتا۔

قرآنِ مجید نے اِن ہی لوگوں کے بارے میں فرمایا ہے، مفہوم: ''اور جب اُن میں سے کسی کو بیٹی کی (پیدائش) کی خوش خبری دی جاتی ہے تو اُس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ دل ہی دل میں کڑھتا رہتا ہے، اِس خوش خبری کو بُرا سمجھ کر لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے (اور سوچتا ہے) ذلّت برداشت کرکے اسے اپنے پاس رہنے دے، یا اسے زمین میں گاڑ دے، دیکھو! انہوں نے کتنی بُری باتیں طے کررکھی ہیں۔'' (سورۃ النحل)

مفہوم: ''اور جس بیٹی کو زندہ زمین میں گاڑھ دیا گیا تھا اُس سے پوچھا جائے گا کہ اسے کس جرم میں قتل کیا گیا؟'' (سورۃ التکویر)

اسلام نے جب دُنیا میں اپنی کرنیں بکھیرنا شروع کیں اور اُس کو تمام مذاہب پر غلبہ نصیب ہوا تو اُس نے ساری دُنیا کا نقشہ ہی بدل ڈالا، اُس نے زمانۂ جاہلیت کی رسومات کو توڑا، لوگوں کو ظلمت و جہالت سے نکالا، اُن کی صحیح تعلیم تربیت کی، اور اُنہیں انسانیت کا کھویا ہوا مقام واپس دلایا۔ زمانۂ جاہلیت میں بیٹی کو جتنا منحوس اور نامبارک خیال کیا جاتا تھا، اسلام نے اُتنا ہی اُس کو خوش قسمت اور بابرکت بتایا۔

حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''جس شخص نے اپنی بیٹی کو زندہ درگور نہیں کیا، نہ ہی اُس کو ذلیل سمجھا اور نہ ہی بیٹے کو اُس پر مقدم کیا تو ایسے شخص کو اﷲ تعالیٰ جنّت میں داخل فرمائیں گے۔'' (سنن ابی داؤد)

حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''وہ عورت مبارک ہوتی ہے جس کی پہلی اولاد بیٹی ہو۔'' (تفسیر روح البیان)

حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہم سے مروی ہے کہ حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''جس شخص کے یہاں دو بیٹیاں پیدا ہوئیں اور جب تک وہ اُس کے پاس رہیں اُس نے اُن کے ساتھ بھلائی کی ، تو یہ اُس کو جنّت میں لے جائیں گی۔'' (مستدرک حاکم)

حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''جس شخص نے دو یا تین بیٹیوں یا دو یا تین بہنوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہوگئیں یا مر گئیں تو میں اور وہ جنّت میں ایسے ہوں گے جس طرح دو انگلیاں آپس میں ملی ہوئی ہوتی ہیں۔''


(صحیح ابن حبان)

حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''جس شخص نے دو بیٹیوں کی پرورش کی تو وہ اور میں اِس طرح جنّت میں داخل ہوں گے جس طرح یہ دو انگلیاں آپس میں ملی ہوئی ہیں، پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دونوں اُنگلیوں کو ملا کر بھی دکھایا۔'' (ترمذی)

حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''اگر کوئی شخص بیٹیوں کی آزمائش میں مبتلا کیا گیا اور پھر اُس نے خوش دلی کے ساتھ اُن کی پرورش کی اور اُن پر احسان کیا تو یہ بیٹیاں جہنّم کی آگ سے اُس کے لیے آڑ بن جائیں گی۔''

(صحیح بخاری۔ صحیح مسلم)

حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی خدمت میں ایک عورت حاضر ہوئی، اُس کے ساتھ اُس کی دو بیٹیاں تھیں، حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے اُس عورت کو تین کھجوریں دیں، اُس نے ایک ایک کھجور تو اپنی دونوں بیٹیوں کو دے دی اور تیسری خود کھانا چاہتی تھی، لیکن بیٹیوں نے وہ بھی مانگ لی ، اُس عورت نے اُس کھجور کے دو ٹکڑے کرکے وہ بھی آدھی آدھی اُن دونوں بیٹیوں کو دے دی۔ حضور ِاقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کو جب اِس واقعہ کا علم ہوا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اِس عورت کو جہنّم سے آزاد کردیا گیا ہے اور اِس پر جنّت واجب ہوچکی ہے۔'' (صحیح مسلم)

امام ابو الفرج اصبہانیؒ نے اپنی کتاب ''الاغانی'' میں بیٹیوں کے زندہ درگور کرنے کے خاتمے کا پس منظر اِس طرح بیان فرمایا ہے: ''بیٹیوں کو سب سے پہلے زندہ درگور کرنے سے روکنے کا والا شخص صعصعہ بن ناجیہ فرزدق کا دادا ہے، اُس کا واقعہ یہ ہے کہ صعصعہ کی دو اُونٹنیاں گم ہوگئی تھیں، وہ اُن کی تلاش میں نکلا، جب رات کی تاریکی چھاگئی تو اُس نے اپنے سامنے (کچھ فاصلے پر) آگ روشن ہوتی ہوئی دیکھی، اُس نے آگ کا قصد کیا، اور جب آگ کے پاس پہنچا تو اُس نے اچانک وہاں ایک بوڑھے اور ایک دردِ زہ میں مبتلا عورت کو پایا، صعصعہ نے سلام کیا اور بوڑھے سے اپنی دو اُونٹنیوں کے بارے میں پوچھا، بوڑھے نے کہا میں نے اُن کو پایا ہے، اور اﷲ نے اُن کے ذریعے ہم کو زندہ کردیا ہے۔

پھر بوڑھے نے اُن عورتوں سے کہا جو اُس کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں اگر ہمارے بیٹا پیدا ہُوا تو اُس کے متعلق تو میں کچھ نہیں جانتا کہ میں اُس کا کیا کروں گا اور اگر بیٹی پیدا ہوئی تو یقیناً میں اُس کو قتل کردوں گا، اور اُس کی آواز تک نہیں سنوں گا، چناں چہ اُس کے ہاں بیٹی ہی پیدا ہوئی، صعصعہ نے اپنی دونوں اونٹنیوں اور اُس اونٹ کے عوض جس پر وہ سوار ہوکر اُونٹنیاں تلاش کرنے کے لیے نکلا تھا، اس بچی کو زندہ درگور ہونے سے بچالیا۔ اُس کے بعد صعصعہ نے اپنا یہ شیوہ بنالیا کہ جو شخص بھی اپنی بیٹی کو زندہ درگور کرنا چاہتا تھا وہ دو اونٹنیوں اور ایک اونٹ کے عوض میں وہ اُس سے خرید لیتا، یہاں تک کہ دورِ اسلام کی آمد تک تین سو زندہ درگور ہونے والی بیٹیوں کو چُھڑا چکا تھا۔ (کتاب الاغانی)

جب اسلام دُنیا میں آیا تو صعصعہ بن ناجیہ حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے اسلام قبول کیا، پھر حضور صلی اﷲ علیہ سے عرض کیا: ''یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم! میں نے زمانۂ جاہلیت میں کچھ اچھے کام کیے ہیں، کیا مجھے اُن کا اجر ملے گا؟'' حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: ''کیا کیا کام کیے ہیں؟'' حضرت صعصعہ بن ناجیہ رضی اﷲ عنہ نے بتایا: ''تین سو بچیوں کو ایک اونٹ اور دو اونٹنیوں کے عوض خرید کر زندہ کیا ہے۔'' حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''یہ صلۂ رحمی کے باب میں سے ہے، اور تمہیں اِس کا اجر ملے گا، کیوں کہ اﷲ تعالیٰ نے اسلام کی دولت سے نواز کر تم پر احسان کیا ہے۔'' (نفحۃ العرب)

افسوس! بیٹی کو منحوس اور نامبارک سمجھی جانے والی زمانۂ جاہلیت کی یہ قبیح اور بُری رسم آج ہم مسلمانوں میں در آئی ہے، ہم مسلمانوں کی اکثریت بیٹی کی پیدائش کو اچھا نہیں سمجھتی، اُس سے تنگ دل ہوتی ہے، اُس کو بوجھ سمجھتی ہے، اور اُس کو انتہائی حقارت اور نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے، حالاں کہ اکثر و بیشتر مشاہدہ میں آتا رہتا ہے کہ بیٹوں کی بہ نسبت بیٹیاں ماں باپ کی زیادہ خدمت زیادہ کرتی ہیں، اُن کی اطاعت و فرماں برداری میں بیٹوں سے بڑھ کر ہوتی ہیں، اُن کے مر جانے کے بعد اُن کے لیے پڑھ پڑھ کر اور اُن کی طرف سے صدقہ و خیرات کرکے بیٹوں کے مقابلے میں اُن کو زیادہ ثواب پہنچاتی ہیں، تو پھر بیٹیوں کی پیدائش سے ہم کیوں پریشان ہوں، اُن کے وجود کو ہم کیوں بوجھل سمجھیں اور اُن کی تعلیم و تربیت اور اُن کی پرورش سے ہم کیوں سفاکی اور بُخل کا ثبوت دیں، بالخصوص جب کہ اسلام نے اُن کی پیدائش کو مصیبت و ذلّت سمجھنے سے منع کیا ہے اور اسے کافروں اور مشرکوں کا فعل اور اُن کا شعار قرار دیا ہے۔
Load Next Story