حقوق نسواں کی پاس داری
’’کامل ترین مومن وہ ہے جو اخلاق میں اچّھا ہو اور اپنے اہل و عیال کے لیے نرم خُو ہو۔‘‘
ISLAMABAD:
آئیے! چودہ سو سال پیچھے چلتے ہیں یہ وہ دور تھا جب خواتین کی عزت تو درکنار مختلف تہذیبوں میں انہیں انسان سمجھنے کے حوالے سے بھی سوچ بچار کی جا رہی تھی۔ ظلم، جبر اور تحقیر آمیز روّیہ معمولی بات تھی۔ عرصہ دراز سے عورت مظلوم چلی آرہی تھی۔
یونان، مصر، عراق، ہند، چین، غرض ہر قوم اور خطے میں کوئی ایسی جگہ نہیں تھی، جہاں عورتوں پر ظلم کے پہاڑ نہ ٹوٹے ہوں۔ لوگ ان کی اپنے عیش و عشرت کی غرض سے خرید و فروخت کرتے اور ان کے ساتھ حیوانوں سے بھی بُرا سلوک کیا جاتا تھا، حتٰی کہ اہلِ عرب عورت کے وجود کو موجبِ عار سمجھتے تھے اور لڑکیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے۔
ہندوستان میں شوہر کی چتا پر اس کی بیوہ کو جلایا جاتا تھا۔ دیگر مذاہب عورت کو گناہ کا منبع اور مجسّم شر سمجھتے تھے۔ اس سے تعلق رکھنا روحانی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھا جاتا تھا۔ دنیا کی زیادہ تر تہذیبوں میں اس کی سماجی حیثیت ہی نہیں تھی۔ اسے حقیر و ذلیل سمجھا جاتا تھا۔ اس کے معاشی و سیاسی حقوق نہیں تھے، وہ آزادانہ طریقے سے کوئی لین دین نہیں کرسکتی تھی۔ پھر اﷲ رب العزت کی رحمت جوش میں آئی اور دین مبین کے ذریعے خواتین کو وہ عزت و مقام حاصل ہُوا جس کا تصور تک نہ تھا۔
یہ اسلام کا ہی اعجاز ہے جس کی بہ دولت خواتین ناصرف معاشرے کا معزز اور باوقار رکن قرار پائیں بل کہ انہیں مذہبی، روحانی، معاشی، معاشرتی، تعلیمی، قانونی اور سیاسی غرض ہر طرح کے حقوق بھی ملے۔ صنف نازک ہونے کی حیثیت سے اسلام نے انہیں بعض ذمے داریوں سے مستثنیٰ رکھنے کا بھی اہتمام کیا۔ اسلام کی رُو سے معاشی ذمے داری خاندان کے مرد کی ہے اور عورت پر کوئی بوجھ نہیں ڈالا گیا، گویا اسے اپنی ضروریات کے لیے کام کرنے کی ضرورت نہیں، تاہم ناگزیر حالات میں اسے میں روکا بھی نہیں گیا، بس اس کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ شرعی حدود میں ہو۔ خواتین کی حفاظت کے پیش نظر ان کی راہ نمائی بھی کی جن پر عمل کر کے وہ مسائل سے بچ سکیں۔ جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے کہ خواتین کو معاشی فکر سے آزاد رکھا گیا ہے تا ہم اگر وہ کام کرتی بھی ہے تو بھی اس کی کمائی ذاتی ملکیت ہے مرد بہ ہر حال اپنی ذمے داری پوری کرنے کا پابند ہے۔
اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے عورت پر احسان عظیم کیا اور اس کو ذلت و پستی کے گڑھوں سے نکالا جب کہ وہ اس کی انتہاء کو پہنچ چکی تھی، اس کے وجود کو گو ارا کرنے سے بھی انکار کیا جا رہا تھا تو نبیِ کریم رحمۃ للعالمین ﷺ بن کر تشریف لائے، اس زندہ دفن کرنے دینے والی عورت کو بے پناہ حقوق عطا فرمائے اور قومی و ملی زندگی میں عورتوں کی کیا اہمیت ہے، اس کو سامنے رکھ کر اس کی فطرت کے مطابق اس کو ذمے داریاں سونپیں۔
اسلام نے ہر روپ میں عورت کو عزت دی ہے۔
بہ حیثیت بیٹی اور بہن اسلام میں عورت کا مقام:
حضرت ابُوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: جس شخص کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں، یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں، اور وہ ان کے ساتھ بہت اچھے طریقے سے زندگی گزارے (یعنی ان کے جو حقوق شریعت نے مقرر فرمائے ہیں وہ ادا کرے، ان کے ساتھ احسان اور سلوک کا معاملہ کرے، ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے) اور ان کے حقوق کی ادائیگی میں اﷲ تعالی سے ڈرتا رہے تو اﷲ تعالی اس کی بہ دولت اس کو جنّت میں داخل فرمائیں گے۔
(ترمذی: باب ما جا فی النفقہ علی البنات)
اسی مضمون کی حدیث حضرت ابُوہریرہؓ سے بھی مروی ہے مگر اس میں اتنا اضافہ ہے کہ آپ ﷺ کے ارشاد فرمانے پر کسی نے سوال کیا کہ اگر کسی کی ایک بیٹی ہو (تو کیا وہ اس ثواب عظیم سے محروم رہے گا؟) آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص ایک بیٹی کی اسی طرح پرورش کرے گا، اس کے لیے بھی جنّت ہے۔ (اتحاف الساد المتقین)
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''جس شخص پر لڑکیوں کی پرورش اور دیکھ بھال کی ذمے داری ہو اور وہ اس کو صبر و تحمل سے انجام دے تو یہ لڑکیاں اس کے لیے جہنّم سے آڑ بن جائیں گی۔'' (ترمذی )
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''جس شخص کی دو یا تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان کی اچھے انداز سے پرورش کرے (اور جب شادی کے قابل ہوجائیں تو ان کی شادی کردے) تو میں اور وہ شخص جنّت میں اس طرح داخل ہوں گے جس طرح یہ دونوں انگلیاں ملی ہوئی ہیں۔
(ترمذی۔ باب ما جا فی النفقہ علی البنات)
بہ حیثیت ماں اسلام میں عورت کا مقام:
حضور اکرم ﷺ نے تو اپنی تعلیمات میں جا بہ جا والدین بالخصوص ماں کی عظمت شان اور رفعت مقام کو ظاہر کیا۔ ایک بار ایک صحابیؓ، نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یارسول اﷲ ﷺ! میں نے اپنی ماں کو اپنے کاندھوں پر بٹھا کر حج کرایا ہے، کیا میں نے ماں کا حق ادا کر دیا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: نہیں! تُونے ابھی اپنی ماں کی ایک رات کے دودھ کا حق بھی ادا نہیں کیا۔
حضرت ابُوہریرہؓ فرماتے ہیں: ایک شخص نے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: یارسول اﷲ ﷺ! سب سے زیادہ کون اس کا مستحق ہے کہ میں اس کے ساتھ خیر خواہی کروں؟ آپؐ نے فرمایا: تیری ماں۔ عرض کیا پھر؟ فرمایا: تیری ماں۔ عرض کیا پھر؟ فرمایا: تیری ماں۔ عرض کیا پھر؟ فرمایا: تیرا باپ۔ (بخاری )
بہ حیثیت بیوی اسلام میں عورت کا مقام:
بیویوں کے حقوق کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: لوگو! عورتوں کے بارے میں میری وصیت قبول کرو وہ تمہاری زیر نگین ہیں تم نے ان کو اﷲ کے عہد پر اپنی رفاقت میں لیا ہے۔ اور ان کے جسموں کو اﷲ ہی کے قانون کے تحت اپنے تصرف میں لیا ہے، تمہارا ان پر یہ حق ہے کہ گھر میں کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جس کا آنا تمہیں ناگوار ہے اور تم پر ان کو کھانا کھلانا اور پلانا فرض ہے۔
آپؐ نے ایک جگہ اور فرمایا، مفہوم: تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنی بیویوں کے لیے بہترین ثابت ہو اور خود میں اپنے اہل و عیال کے لیے تم سب سے بہتر ہوں۔ کامل ترین مومن وہ ہے جو اخلاق میں اچھا ہو اور اپنے اہل و عیال کے لیے نرم خُو ہو۔
نبی کریم ﷺ کے فرمان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مردوں کو خواتین کے حق میں سراپا محبت و شفقت ہونا چاہیے اور ہر جائز امور میں ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ آج ہم اسلام کے بتائے گئے آفاقی اصولوں سے ہٹ گئے ہیں اور تباہی کو دعوت دے رہے ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے آپ اور اپنی ذمے داریوں کو پہچانیں، اس کے لیے درد مندی، اخلاص اور سنجیدگی کی ضرورت ہے۔
آئیے! چودہ سو سال پیچھے چلتے ہیں یہ وہ دور تھا جب خواتین کی عزت تو درکنار مختلف تہذیبوں میں انہیں انسان سمجھنے کے حوالے سے بھی سوچ بچار کی جا رہی تھی۔ ظلم، جبر اور تحقیر آمیز روّیہ معمولی بات تھی۔ عرصہ دراز سے عورت مظلوم چلی آرہی تھی۔
یونان، مصر، عراق، ہند، چین، غرض ہر قوم اور خطے میں کوئی ایسی جگہ نہیں تھی، جہاں عورتوں پر ظلم کے پہاڑ نہ ٹوٹے ہوں۔ لوگ ان کی اپنے عیش و عشرت کی غرض سے خرید و فروخت کرتے اور ان کے ساتھ حیوانوں سے بھی بُرا سلوک کیا جاتا تھا، حتٰی کہ اہلِ عرب عورت کے وجود کو موجبِ عار سمجھتے تھے اور لڑکیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے۔
ہندوستان میں شوہر کی چتا پر اس کی بیوہ کو جلایا جاتا تھا۔ دیگر مذاہب عورت کو گناہ کا منبع اور مجسّم شر سمجھتے تھے۔ اس سے تعلق رکھنا روحانی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھا جاتا تھا۔ دنیا کی زیادہ تر تہذیبوں میں اس کی سماجی حیثیت ہی نہیں تھی۔ اسے حقیر و ذلیل سمجھا جاتا تھا۔ اس کے معاشی و سیاسی حقوق نہیں تھے، وہ آزادانہ طریقے سے کوئی لین دین نہیں کرسکتی تھی۔ پھر اﷲ رب العزت کی رحمت جوش میں آئی اور دین مبین کے ذریعے خواتین کو وہ عزت و مقام حاصل ہُوا جس کا تصور تک نہ تھا۔
یہ اسلام کا ہی اعجاز ہے جس کی بہ دولت خواتین ناصرف معاشرے کا معزز اور باوقار رکن قرار پائیں بل کہ انہیں مذہبی، روحانی، معاشی، معاشرتی، تعلیمی، قانونی اور سیاسی غرض ہر طرح کے حقوق بھی ملے۔ صنف نازک ہونے کی حیثیت سے اسلام نے انہیں بعض ذمے داریوں سے مستثنیٰ رکھنے کا بھی اہتمام کیا۔ اسلام کی رُو سے معاشی ذمے داری خاندان کے مرد کی ہے اور عورت پر کوئی بوجھ نہیں ڈالا گیا، گویا اسے اپنی ضروریات کے لیے کام کرنے کی ضرورت نہیں، تاہم ناگزیر حالات میں اسے میں روکا بھی نہیں گیا، بس اس کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ شرعی حدود میں ہو۔ خواتین کی حفاظت کے پیش نظر ان کی راہ نمائی بھی کی جن پر عمل کر کے وہ مسائل سے بچ سکیں۔ جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے کہ خواتین کو معاشی فکر سے آزاد رکھا گیا ہے تا ہم اگر وہ کام کرتی بھی ہے تو بھی اس کی کمائی ذاتی ملکیت ہے مرد بہ ہر حال اپنی ذمے داری پوری کرنے کا پابند ہے۔
اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے عورت پر احسان عظیم کیا اور اس کو ذلت و پستی کے گڑھوں سے نکالا جب کہ وہ اس کی انتہاء کو پہنچ چکی تھی، اس کے وجود کو گو ارا کرنے سے بھی انکار کیا جا رہا تھا تو نبیِ کریم رحمۃ للعالمین ﷺ بن کر تشریف لائے، اس زندہ دفن کرنے دینے والی عورت کو بے پناہ حقوق عطا فرمائے اور قومی و ملی زندگی میں عورتوں کی کیا اہمیت ہے، اس کو سامنے رکھ کر اس کی فطرت کے مطابق اس کو ذمے داریاں سونپیں۔
اسلام نے ہر روپ میں عورت کو عزت دی ہے۔
بہ حیثیت بیٹی اور بہن اسلام میں عورت کا مقام:
حضرت ابُوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: جس شخص کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں، یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں، اور وہ ان کے ساتھ بہت اچھے طریقے سے زندگی گزارے (یعنی ان کے جو حقوق شریعت نے مقرر فرمائے ہیں وہ ادا کرے، ان کے ساتھ احسان اور سلوک کا معاملہ کرے، ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے) اور ان کے حقوق کی ادائیگی میں اﷲ تعالی سے ڈرتا رہے تو اﷲ تعالی اس کی بہ دولت اس کو جنّت میں داخل فرمائیں گے۔
(ترمذی: باب ما جا فی النفقہ علی البنات)
اسی مضمون کی حدیث حضرت ابُوہریرہؓ سے بھی مروی ہے مگر اس میں اتنا اضافہ ہے کہ آپ ﷺ کے ارشاد فرمانے پر کسی نے سوال کیا کہ اگر کسی کی ایک بیٹی ہو (تو کیا وہ اس ثواب عظیم سے محروم رہے گا؟) آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص ایک بیٹی کی اسی طرح پرورش کرے گا، اس کے لیے بھی جنّت ہے۔ (اتحاف الساد المتقین)
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''جس شخص پر لڑکیوں کی پرورش اور دیکھ بھال کی ذمے داری ہو اور وہ اس کو صبر و تحمل سے انجام دے تو یہ لڑکیاں اس کے لیے جہنّم سے آڑ بن جائیں گی۔'' (ترمذی )
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''جس شخص کی دو یا تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان کی اچھے انداز سے پرورش کرے (اور جب شادی کے قابل ہوجائیں تو ان کی شادی کردے) تو میں اور وہ شخص جنّت میں اس طرح داخل ہوں گے جس طرح یہ دونوں انگلیاں ملی ہوئی ہیں۔
(ترمذی۔ باب ما جا فی النفقہ علی البنات)
بہ حیثیت ماں اسلام میں عورت کا مقام:
حضور اکرم ﷺ نے تو اپنی تعلیمات میں جا بہ جا والدین بالخصوص ماں کی عظمت شان اور رفعت مقام کو ظاہر کیا۔ ایک بار ایک صحابیؓ، نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یارسول اﷲ ﷺ! میں نے اپنی ماں کو اپنے کاندھوں پر بٹھا کر حج کرایا ہے، کیا میں نے ماں کا حق ادا کر دیا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: نہیں! تُونے ابھی اپنی ماں کی ایک رات کے دودھ کا حق بھی ادا نہیں کیا۔
حضرت ابُوہریرہؓ فرماتے ہیں: ایک شخص نے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: یارسول اﷲ ﷺ! سب سے زیادہ کون اس کا مستحق ہے کہ میں اس کے ساتھ خیر خواہی کروں؟ آپؐ نے فرمایا: تیری ماں۔ عرض کیا پھر؟ فرمایا: تیری ماں۔ عرض کیا پھر؟ فرمایا: تیری ماں۔ عرض کیا پھر؟ فرمایا: تیرا باپ۔ (بخاری )
بہ حیثیت بیوی اسلام میں عورت کا مقام:
بیویوں کے حقوق کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: لوگو! عورتوں کے بارے میں میری وصیت قبول کرو وہ تمہاری زیر نگین ہیں تم نے ان کو اﷲ کے عہد پر اپنی رفاقت میں لیا ہے۔ اور ان کے جسموں کو اﷲ ہی کے قانون کے تحت اپنے تصرف میں لیا ہے، تمہارا ان پر یہ حق ہے کہ گھر میں کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جس کا آنا تمہیں ناگوار ہے اور تم پر ان کو کھانا کھلانا اور پلانا فرض ہے۔
آپؐ نے ایک جگہ اور فرمایا، مفہوم: تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنی بیویوں کے لیے بہترین ثابت ہو اور خود میں اپنے اہل و عیال کے لیے تم سب سے بہتر ہوں۔ کامل ترین مومن وہ ہے جو اخلاق میں اچھا ہو اور اپنے اہل و عیال کے لیے نرم خُو ہو۔
نبی کریم ﷺ کے فرمان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مردوں کو خواتین کے حق میں سراپا محبت و شفقت ہونا چاہیے اور ہر جائز امور میں ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ آج ہم اسلام کے بتائے گئے آفاقی اصولوں سے ہٹ گئے ہیں اور تباہی کو دعوت دے رہے ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے آپ اور اپنی ذمے داریوں کو پہچانیں، اس کے لیے درد مندی، اخلاص اور سنجیدگی کی ضرورت ہے۔