لَمپی سکن ڈیزیز مویشیوں کی خطرناک وباء پاکستان میں پھیلنے لگی

تیزی سے پھیلنے والی بیماری کو روکنے کا سب سے موثر ذریعہ ویکسین ہے

لَمپی ڈیزیز کا وائرس انسانوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔

ISLAMABAD:
ماہر صحت عامہ
اس وقت عالمی سطح پر مویشیوں کی lumpy skin disease (LSD) نامی بیماری بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے۔یہ ایک تباہ کن بیماری ہے جو کیپری پوکس وائرس کی وجہ سے ہوتی ہے جو بھیڑوں کو متاثر کرنے والا وائرس ہے ۔ اسے لمپی جلدی بیماری اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں مویشیوں کی جلد اور جسم پر گومڑ یا گلٹیاں بن جاتی ہیں۔ یہ انتہائی متعدی ہونے کے ساتھ ساتھ جلد کے پھٹنے والی بیماری ہے۔

اس کی خصوصیت میں جلد اور جسم پر گومڑبننے کے بعد ہونے والے زخم اور بیکٹیریل انفیکشن ہیں جو اکثر مرض کو بڑھاتے ہیں اور متاثرہ مویشیوں کی اموت کی بڑ ی وجہ بنتے ہیں۔

یہ بیماری وبائی طور پر یا وقفے وقفے سے ظاہر ہو رہی ہے۔ اکثر، انفیکشن کے نئے کیس ان علاقوں میں ظاہر ہوتے ہیں جو ابتدائی پھیلنے والی جگہ سے دور ہوتے ہیں۔ اس کا پھیلاو موسم گرما اور برسات میں سب سے زیادہ ہوتا ہے لیکن یہ بیماری سردیوں میں بھی ہوسکتی ہے۔

بیماری کی تاریخ
اس بیماری کو پہلی بار 1929 میں زیمبیا میں ایک وبا کے طور پر دیکھا گیا تھا اور پھر یہ افریقی ممالک کے متعدد علاقوں میں رپورٹ کی گئی۔1943 اور 1945 کے درمیان بوٹسوانا، زمبابوے اور جنوبی افریقہ میں اضافی کیسز سامنے آئے۔ 1949 میں جنوبی افریقہ میں انفیکشن سے تقریباً 8 ملین مویشی متاثر ہوئے، جس سے بہت زیادہ معاشی نقصان ہوا۔جبکہ 1950 اور 1980 کی دہائی کے درمیان یہ پورے افریقہ میں پھیل گئی، جس نے کینیا، سوڈان، تنزانیہ، صومالیہ اور کیمرون میں مویشیوں کو زیادہ متاثر کیا۔

1989 میں اسرائیل میں یہ وبا پھیلی اور یہ وبا صحرائے صحارا کے شمال میں اور افریقی براعظم سے باہر بیماری کی پہلی مثال تھی۔ جب یہ وباء مصر میں پہنچی تواگست اور ستمبر 1989 کے درمیان 37 دنوں کی مدت کے دوران پیدویم میں ڈیری ریوڑ کے سترہ میں سے چودہ ریوڑ اس سے متاثر ہوئے۔ گاؤں میں تمام مویشیوں کے ساتھ ساتھ بھیڑوں اور بکریوں کے چھوٹے ریوڑ وںکو ذبح کر دیا گیا۔

2000کے بعد سے یہ افریقہ اور مشرق وسطی سے جنوب مشرقی یورپ میں پھیل گئی ہے، جس سے یورپی یونین (EU) کے رکن ممالک یونان،بلغاریہ اور بلقان کے کئی دوسرے ممالک متاثر ہوئے۔

2013 میں اس بیماری کی شناخت سعودی عرب، لبنان، اردن، عراق،، ترکی اور ایران میں کی گئی۔ 2015 سے یہ روس، آذربائیجان، آرمینیا، البانیہ، کوسوو، سربیا اور مونٹینیگرو میں پھیل چکی ہے۔ لہذا یورپ اور ایشیا کے باقی حصوں میں بیماری کے پھیلاؤ کے خطرات پر غور کیا جانا ضروری ہے۔ ابھی حال ہی میں جارجیا، روس، عوامی جمہوریہ چین اور بنگلہ دیش میں پہلی بار اس بیماری کے پھیلنے کی اطلاع ملی ہے۔

بنگلہ دیش میں محکمہ لائیو سٹاک سروسز کو جولائی 2019 میں اسے رپورٹ کیا گیا۔ اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن نے بڑے پیمانے پر ویکسینیشن کی سفارش کی ہے ساتھ ہی مویشیوں کی اس بیماری کی نگرانی اور ہنگامی ردعمل کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ اس بیماری کے حالیہ جغرافیائی پھیلاؤ بین الاقوامی تشویش کا باعث بنا ہوا ہے۔

2020 کے دوران، براعظم ایشیا میں بھوٹان، ہانگ کانگ، میانمار، نیپال، تائیوان، ویتنام اور سری لنکا سمیت کئی ممالک میں اس کے پھیلنے کی اطلاعات ملیں۔ 2021 میںتھائی لینڈ اور ملائیشیا میں اس بیماری کی تصدیق ہوئی۔ انڈونیشیا نے مارچ 2022 میں تصدیق شدہ کیسز کی اطلاع دی ہے جبکہ گزشتہ ہفتے یہ مرض پاکستان کے صوبوں سندھ اور پنجاب داخل ہو چکا ہے۔ یاد رہے کہ تا حال یہ بیماری مغربی نصف کرہ یا آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں ریکارڈ نہیں کی گئی ہے۔

وائرس کیسے پھیلتا ہے؟
یہ پوری طرح سے سمجھ میں نہیں آیا کہ اس بیماری کا وائرس جانوروں کے درمیان کیسے منتقل ہوتا ہے۔تاہم یہ خیال کیا جاتا ہے کہ مکھیوں مچھروں اور چیچڑوں کا کاٹنا،جانوروں کے آپس کے براہ راست میل جول، متاثرہ خوراک و پانی اور بیمار جانوروں کی استعمال شدہ ٹیکے کی سوئیوں کا استعمال سبھی بیماری کو پھیلا سکتے ہیں۔

یہ وائرس متاثرہ جانوروں کی جلد کی گٹھلیوں اور خارش والی جگہ میں زیادہ تعداد میں موجود ہوتا ہے اور اسے خون، تھوک، آنکھ اور ناک سے خارج ہونے والے مادہ اورجنسی رطوبات میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

اس بیماری کا وائرس انفیکشن کے بعد 21 دنوں تک متاثرہ جانوروںکے خون میں موجود رہ سکتا ہے جبکہ انفیکشن کے بعد کم از کم 42 دنوں تک یہ تولیدی مواد میں رہ سکتا ہے۔

بیماری کی شرح 5 سے 45 فیصد کے درمیان ہوتی ہے اور شرح اموات عام طور پر 10 فیصد سے کم رہتی ہے لیکن جب یہ وباء مویشیوں کی زیادہ آبادی میں پھیلتی ہے تو دونوں شرحیں کافی زیادہ ہو سکتی ہیں۔

بیماری کی علامات
انفیکشن کے 4 سے 14 دن کے درمیان یہ علامات پیدا ہوتی ہیں:۔

٭تیز بخار C 41 اور سوجن، مویشیوں کی جلد پر بڑے سخت گومڑ بن جاتے ہیں جن کا قطر جلد میں 5 سینٹی میٹر تک ہوتا ہے۔یہ پورے جسم میں بھی پائے جا سکتے ہیں لیکن عموماً ان جگہوں پر موجود ہو سکتے ہیں:

1۔سر، 2۔گردن، 3۔تھن، 4۔پیشاب،پخانے کے اعضاء، 4۔جنسی اعضاء
٭آنکھیں سے پانی کا جاری ہونا
٭ناک اور تھوک کی رطوبتوں میں اضافہ
٭دودھ کی پیداوار میں واضح کمی
٭ڈپریشن
٭بے حسی اور کھانے میں ہچکچاہٹ
٭یہ گومڑیا گلٹیاں یا زخم اندرونی طور پر بھی نشوونما پا سکتے ہیں، خاص طور پر سانس اور معدے کی نالیوں میں۔
٭گلٹیاں یا گومڑ کے بیچ میں خارش کا ہونا جس سے بڑے سوراخ بننا اور ان میں انفیکشن ہونا۔
٭شدید طور پر متاثرہ جانوروں میں زخم کا سڑنا ۔
٭اس کے علاوہ بیماری والے کچھ جانور غیر علامتی بھی ہو سکتے ہیں (یہ بیمار ہوتے ہیں لیکن علامات ظاہر نہیں کرتے)۔

جیسے کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ یہ گلٹیاں یا گومڑ گول، قدرے ابھرے ہوئے،سخت اور تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ لمف نوڈ سوج جاتے ہیں اور تھن، کوہلوں اور ٹانگوں میں ورم پیدا ہوتا ہے۔ ثانوی انفیکشن بھی ہوتا ہے نتیجے کے طور پرجانور انتہائی کمزور ہو سکتا ہے اور اس وجہ سے مویشی کو ہلاک کرنے کی سفارش کی جا سکتی ہے۔

وائرس کے اہم معاشی اثرات ہیں کیونکہ متاثرہ جانوروں کی جلد کو مستقل نقصان پہنچتا ہے، جس سے ان کی کھال کی تجارتی قیمت کم ہو جاتی ہے۔ مزید برآں بیماری اکثر دائمی کمزوری،گوشت اور دودھ کی پیداوار میں کمی، ناقص نشوونما، بانجھ پن، اسقاط حمل اور بعض اوقات موت کا باعث بن سکتی ہے۔

اہم اورقابل توجہ بات یہ ہے کہ زیادہ تر مویشی بیماری سے صحت یاب ہونے کے بعد عمر بھر کے لئے اس بیماری کے خلاف قوت مدافعت حاصل کر لیتے ہیں۔ مزید برآں مدافعت حاصل کر لینے والی گایوں کے بچھڑوں کے خون میں بھی دوران زچگی اینٹی باڈیز بن جاتی ہیں اور یوں وہ تقریباً 6 ماہ کی عمر تک اس بیماری کے خلاف قدرتی مزاحمت رکھتے ہیں۔

تشخیص
بیماری کی تشخیص وائرس کی شناخت بذریعہ پی سی آر اور بائیوآپسی سے کی جا سکتی ہے۔
ٹیسٹ کے لیے جانوروں کے جسم سے حاصل کیے جانے والے نمونے:

٭جلد یا زخم کے نمونے (بائیوآپسی وغیرہ)
٭خون کے نمونے۔
٭لعاب یا رطوبات کے نمونے
٭اس کے علاوہ وائرس کے خلاف اینٹی باڈیز ٹیسٹ بھی کیے جا سکتے ہیں۔

ورلڈ آرگنائزیشن فار اینیمل ہیلتھ (OIE) نے تمام ممبر ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ وائرس کے ملک میں داخلے سے پہلے ویکسینیشن مہم شروع کریں اور تمام وباؤں کی بروقت رپورٹنگ جاری رکھیں۔

یوروپی یونین نے بیماری کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے ایک انتہائی مہنگے ویکسینیشن پروگرام کا نفاذ بھی کیا ہے۔

علاج
بدقسمتی سے اس بیماری کے علاج کے لئے کوئی مخصوص اینٹی وائرل دوائیں دستیاب نہیں ہیں۔ اس لیے ویکسینیشن کے ذریعے روک تھام سب سے مؤثر ذریعہ ہے۔جلد میں ثانوی انفیکشن اور نمونیا کو روکنے کے لئے نان سٹیرائیڈل اینٹی انفلیمیٹریز (NSAIDs) اور جب مناسب ہو تو اور اینٹی بائیوٹکس کا استعمال شامل ہوسکتا ہے۔

ویکسین پھیلاؤ کو کنٹرول کرنے میں مدد کر سکتی ہیں جیسے جنوبی یورپ میں ویکسینیشن کو مؤثر طریقے سے اس بیماری کے پھیلاؤ پر قابو پانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ اگرچہ اس کا خاتمہ مشکل ہے اور کامیاب کنٹرول اور خاتمے کے لیے بیماری کا فورا پتہ لگانا ضروری ہے۔

حالیہ برسوں میں اس بیماری کا اپنے مرکز افریقہ سے باہر پھیلاؤ انتہائی تشویشناک ہے۔ وائرس کے پھیلاو کو روکنے کے دیگر اقدامات کے ساتھ ساتھ ویکسینیشن کنٹرول کا سب سے اُمید افزا طریقہ ہے اور بلقان ریجن میں بیماری کے پھیلاؤ کو روکنے میں موثر ثابت ہوا ہے۔ثانوی انفیکشن پر قابو پانے کے لیے اینٹی بائیوٹکس کے اور اچھی نرسنگ کیئر کی سفارشات کی جاتی ہیں۔

پھیلاو
جیسے کہ پہلے بیان کیا گیا ہے کہ اس کا پھیلاوہ گرم، گیلے موسم میں ہوتا ہے جبکہ یہ بیماری عام طور پر سردیوں کے ٹھنڈے مہینوں میں کم ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ اس بیماری کا نیا پھیلاو اکثر قریب ترین مرکز سے 50 کلومیٹر تک کے فاصلے تک باآسانی ہوسکتا ہے۔

متاثرہ مویشیوں کی نقل و حرکت بھی اسکے بڑے فاصلے پر پھیلنے کا ایک اہم عنصر ہو سکتی ہے۔حالیہ یوریشین وبا میں بیماری اور اموات تقریباً 10 فیصد رہی ہیں۔ ریوڑ میں 10% متاثرہ مویشیوں میں بیماری کی شدت معمولی سے مہلک تک ہو سکتی ہے۔ کچھ مویشی میں گومڑ یاگلٹیاں چھوٹی اور کم تعداد میں بنتے ہیں جن کو دیکھنا مشکل ہوسکتا ہے جبکہ کچھ مویشیوں میں 3 سینٹی میٹر قطر تک بے شمار گومڑ یاگلٹیاں بنتے ہیں۔ اس بات کا تعین کرنے والے عوامل معلوم نہیں ہیں کہ کون سے مویشی معمولی اور کون سے شدید بیماری کا شکار ہو سکتے ہیں۔

کنٹرول

اس بیماری کا کنٹرول اور روک تھام چار اقدامات پر منحصر ہے -
1۔ مویشیوں کی نقل و حرکت پر کنٹرول (قرنطینہ)
2۔ویکسینیشن
3۔ذبح کی مہم
4۔انتظامی حکمت عملی

مخصوص مقامی کنٹرول کے منصوبے ہر ملک میں مختلف ہوتے ہیں، البتہ ویکسینیشن کنٹرول کا سب سے مؤثر ذریعہ ہو سکتا ہے۔

ڈیری اینڈ کیٹل فارم ایسوسی ایشن (DCFA) پاکستان نے کہا ہے کہ مویشیوں کی یہ بیماری پاکستان میں داخل ہو چکی ہے بھینسوں اور سپر ہائی وے کیٹل کالونیوں کے زیادہ تر انکلوژروں میں متاثرہ مویشی موجود ہیں۔ ایسوسی ایشن نے مطالبہ کیا ہے کہ جانوروں کی سندھ اور کراچی سے نقل و حمل پر سخت پابندی عائد کی جانی چاہیے تاکہ دیگر علاقوں میں اسکے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔ متاثرہ علاقے سے 50 کلومیٹر دور صحت مند جانوروں کے لیے Lumpy Vax نامی ویکسین کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔

کے پی کے، پنجاب اور بلوچستان میں مزید نقصانات کو روکنے کے لیے ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ نئے خریدے گئے جانوروں کو 15 دن (قرنطینہ) کے لیے الگ سے باندھنا چاہیے جب تک کہ یہ واضح نہ ہو جائے کہ ایسے جانور میں اس متعدی و مہلک بیماری کا کوئی وائرس موجود نہیں ہے۔یاد رہے کہ اس بیماری کاوائرس متاثرہ جانور کے تھوک اور Stable Fly کے ڈنک یا کاٹنے سے صحت مند جانوروں میں پھیلتا ہے۔

اس بیماری کو ٹھیک ہونے میں کتنا وقت لگتا ہے؟
مویشیوں کی مکمل صحت یابی میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں اور جب ثانوی بیکٹیریا کے انفیکشن ہوتے ہیں تو یہ دورانیہ طویل ہوسکتا ہے۔ علاج ثانوی انفیکشن کی روک تھام یا کنٹرول کرنے پر مرکوز ہوتا ہے۔ اوسط وائرس سے شدید متاثرہ جانوروں کو مکمل طور پر صحت یاب ہونے میں 6 ماہ تک لگ سکتے ہیں۔

مویشی پال حضرات،جانوروں کے بیوپاری، کسانوں کو یہ جاننا چاہیے کہ یہ وائرس کیسے پھیلتا ہے تاکہ وبا پر مناسب کنٹرول یقینی بنایا جائے۔متاثرہ جانوروں کو ذبح کرنا ایک اچھا حل نہیں ہے کیونکہ یہ وائرس مکھی،مچھر میں بھی موجود ہوتا ہے۔

یہ مرض پاکستان میں داخل ہو چکا ہے۔ تمام کسانوں کو بہت احتیاط سے کام کرنا چاہیے۔ پاکستان میں یہ وبا نئی ہے اس لیے اس کے خلاف مقامی ویکسین تیار نہیں کی گئی اور نا ہی اس بیماری کے لیے ابھی تک کوئی قانونی طور پر رجسٹرڈ دواہے۔ صرف صحت مند جانوروں کی ویکسین اور Hygeine کام کر سکتی ہے۔

احتیاطی تدابیر
٭ بیمار جانور کو الگ کریں
٭ باڑے یا شیڈ کی صفائی کرتے رہیں۔
٭ حالت کے مطابق اینٹی بائیوٹکس لگائیں۔
٭ فارم کے اندر اور باہر بچ جانے والے جانوروں کی خوراک، گوبر وغیرہ کے لیے الگ انتظام کریں
٭ جھاڑیوں اور جڑی بوٹیوں کی کٹائی کا مناسب انتظام کریں تاکہ مچھروں مکھیوں دیگر کیڑے مکوڑوں کی افزائش نہ ہوسکے جو بیماری کو منتقل کرنے کا باعث بنتے ہیں۔
٭ تمام جانوروں کو ویکسین لگائیں یاد رہے کہ ویکسین صرف صحت مند جانوروں کو لگائی جائے۔
اس وقت ملک بھر خاص طور پر سندھ کے شہری مراکز میں اس بیماری کے شکار مویشیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے عوام میں انتہائی بے چینی اور خوف و حراس پھیل رہا ہے۔لیکن اس بات کو توجہ سے پڑھا جائے کہ مویشیوں کا یہ انفیکشن انسان کو بیمار نہیں کر سکتا۔ متاثرہ مویشیوں کا گوشت اور دودھ استعمال کرنیسے انفیکشن انسانوں میں منتقل نہیں ہوتا۔

تاہم کھانے پینے میں احتیاط سمیت دیگر تمام مناسب حفاظتی تدابیر پر زور دیا جائے جس میں پاسچرائزڈ یا اچھی طرح سے ابلا ہوا دودھ، اور اس کی ضمنی مصنوعات اور اچھی طرح پکا ہوا گوشت استعمال کیا جائے۔

یہ انفیکشن پنجاب اور سندھ میں جانوروں میں ظاہر ہوا ہے۔ سندھ حکومت نے اس بیماری کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ایمرجنسی نافذ کر دی ہے جبکہ محکمہ لائیو سٹاک سندھ کے اعداد و شمار کے مطابق صوبے بھر میں اب تک یہ بیماری 26,000 جانوروں میں پائی گئی ہے، جن میں کراچی میں 15,100، ٹھٹھہ میں 3,781، حیدرآباد میں 149، بدین میں 656، جامشورو میں 85، خیرپور میں 121، سجاول میں 91، مٹیاری میں 64 شامل ہیں۔ شہید بینظیر آباد میں 35، سانگھڑ میں 124، تھانہ بولا خان میں 36، قمبر شہداد کوٹ میں چار اور ٹنڈو محمد خان اور دادو میں دو دو کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ 175 گائیں مر چکی ہیں۔

مویشیوں میں بڑھتے ہوئے کیسز کی اطلاعات کے بعد شہریوں کی بڑی تعداد گائے اور بچھڑے کے گوشت سے پرہیز کرنے لگی ہے جس سے مرغی کے گوشت کی مانگ اور قیمت میں حیران کن اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس سے ملک بھر میں اوسط زندہ پرندے اور اس کے صاف گوشت کی قیمتیں بلترتیب 350روپے فی کلو اور 570 روپے فی کلو کی خطرناک حد تک بڑھ گئی ہیں،جبکہ فروری کے پہلے ہفتے میں زندہ پرندہ 190 سے 210 روپے فی کلو جبکہ گوشت 350 سے 380 روپے میں فروخت ہو رہا تھا۔

اس کے علاوہ متعلقہ حکام سرکاری قیمتوں کی فہرست کو نافذ کرنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ چونکہ گائے اور دیگر مویشیوں کو وائرل بیماری سے بچانے کے لیے ویکسین ہی واحد آپشن ہے، اس لیے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (DRAP) نے ترکی اور اردن سے دو مختلف قسم کی ویکسین کی درآمد کی اجازت دے دی ہے تاکہ پاکستان میں گائے میں بیماری کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔

بیماری کے اثرات
اس بیماری سے مقامی اور بین ا لاقوامی سطح پر گوشت اور ڈیری کی صنعتوں پر منفی اثرات مرتب سکتے ہیں۔علاوہ ازیں گوشت کی پروسیسنگ سمیت جانوروں کے کھال کے شعبوں کو بھی شدید معاشی نقصان ہوسکتا ہے۔

اگر گائے،بھینسوں اور مویشیوں کی بڑی آبادی کواس بیماری کا سامنا کرنا پڑا تو وائرس کے ذخائر بن سکتے ہیں اور اگر ایسا ہوا تو اس بیماری کا خاتمہ انتہائی مشکل ہوگا۔

پچھلے پانچ سالوں کے دوران یہ بیماری مشرق وسطی سے ہوتی ہوئی جنوب مشرقی یورپ، قفقاز، جنوب مغربی روس اور مغربی ایشیا میں پھیل چکی ہے۔ یہ بیماری متاثرہ ریوڑ میں اہم معاشی نتائج کے ساتھ کافی نقصانات کا باعث بنتی ہے۔ یہ متاثرہ ممالک کی منافع بخش برآمدی منڈیوں تک رسائی کو بھی روکتا ہے۔

کسی ملک یا خطئے کو اس بیماری سے پاک قرار دینے کا معیار:
کسی ملک ملک یا خطئے کو اس بیماری سے پاک سمجھا جا سکتا ہے جب:

1۔ کم از کم تین سال تک اس میں اس انفیکشن کا کوئی واقعہ رپورٹ نہ ہو
2۔ کم از کم دو سال تکٓ کلینیکل، وائرولوجیکل اور سیرولوجیکل نگرانی پروگرام کے ساتھ انفیکشن کا کوئی واقعہ ظاہر نہ ہو۔
3۔ بیماری سے پاک ملک یا خطہ جو متاثرہ ملک یا زون سے ملحق ہے جہاں اس کی بین القوامی معیار کے مطابق کڑی نگرانی کی جاتی ہے۔

اس بیماری سے پاک ممالک یا زون سے مویشیوں کی درآمد کے لیے بین الاقوامی ویٹرنری سفارشات:
گائے اور بھینسوں کی درآمد کے لییویٹرنری اتھارٹیز کو ایک بین الاقوامی ویٹرنری سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہوتی ہے جس میں درج ہونا لازمی ہے کہ جانور میں:

1۔ شپمنٹ کے دن بیماری کا کوئی طبی نشان نہیں ہے
2۔ یہ بیماری سے پاک ملک یا زون سے آئے ہیں۔
ان ممالک یا زونوں سے مویشیوں کی درآمد کے لیے بین الاقوامی ویٹرنری سفارشات جو اس بیماری سے آزاد نہیں ہیں:

اس کے لیے بھی ویٹرنری اتھارٹیز کو ایک بین الاقوامی ویٹرنری سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہوتی ہے جو تصدیق کرے کہ جانور میں:

1۔ شپمنٹ کے دن بیماری کا کوئی طبی نشان نہیں ہے؛
2۔ پیدائش کے بعد سے یا شپمنٹ سے پہلے پچھلے 60 دنوں کے لیے جانور کو ایک وبائی امراض کے یونٹ میں رکھا گیا تھا جہاں اس مدت کے دوران اس بیماری کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا۔
3۔ شپمنٹ سے 60 دن اور ایک سال کے درمیان اس بیماری کے خلاف حفاظتی ٹیکے لگائے گئے تھے۔
4۔ ویکسینیشن کے کم از کم 30 دن بعد اینٹی باڈیز جانور کے جسم میں موجود ہیں۔
5۔ شپمنٹ سے پہلے 28 دنوں کے لیے اسے قرنطینہ اسٹیشن میں رکھا گیا تھا جس کے دوران ان کے تشخیص کے ٹیسٹ منفی آئے۔
بیماری کی حالیہ لہر سے اس کا پھیلاؤ دنیا کے تمام ممالک تک جا سکتا ہے اور دنیا کے تمام خطے اس سے متاثر ہو سکتے ہیں اور ان خطرات کو کم کرنے کے لیے روک تھام کی مقامی و بین الاقوامی موثر و جامع حکمت عملی کی ضرورت نا گزیر ہے ۔
محکمہ زراعت، لائیو سٹاک پانی و صفائی، ماحولیات اور میونسپل کارپوریشن کو بائیو سیکیورٹی خطرات بشمول اس کے خلاف انتظام کرنے کے لیے متعد باہمی سرگرمیاں انجام دینی چاہیں۔

بین الاقوامی سرحد وں کر نگرانی سمیت مویشیوں کی درآمد کے سخت پروٹوکول غیر ملکی بیماریوں کے حملے کے خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ سرحدی تقاضے پورے کرتے بری،ہوائی اور سمندری درآمد شدہ کارگو اور میل آئٹمز کے بایو سکیورٹی کے خطرات کا بارڈر پر انتظام کیا جائے۔

خاص کر بیماری کے ایشیا میں منتقل ہونے کے ساتھ، اس بیماری کے خطرات بڑھ رہے ہیں ۔ مویشیوں اور مویشیوں کی مصنوعات کی تجارت میں خلل کے ساتھ ساتھ بیماریوں کے کنٹرول اور خاتمے سے وابستہ اخراجات کی وجہ سے ممکنہ معاشی اثرات کافی سنگین ہو سکتے ہیں۔

مقامی سطح پر بیماری کے بارے میں بیداری میں اضافے کے ساتھ، یہ ضروری ہے کہ ملک کی ڈیری اورگوشت کی بڑی مارکیٹوں کے ساتھ ساتھ ان مصنوعات کی عالمی درآمدات و برآمدات میں بھی احتیاط برتی جائے۔

یہ بات انتہائی خوش آئند ہے کہ اس وقت پاکستان عالمی سطح پر دودھ پیدا کرنے والا دنیا کا چوتھا،گوشت پیدا کرنے والا دنیا کا پانچواں جبکہ جانوروں کی کھال پیدا کرنے والا دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے۔اس وقت ملک کی معاشی حالت اتنی اچھی نہیں ہے اور کورونا عالمی وبا کے پیش نظر عالمی معیشت اس کے منفی اثرات سے نہیں نکل سکی تاہم اگر مویشیوں کی اس بیماری سے بچاؤ کے لیے بروقت عملی اقدامات نہ کئیگئے تو یقینا یہ صنعتیں شدید متاثر ہوسکتی ہیں جس کے ملک و قوم متحمل نہیں ہو سکتے۔

یہ بات انتہائی ضروری ہے کہ وفاقی، صوبائی و ضلعی حکومتیں،محکمہ لائیو سٹاک وڈیری ڈویلپمنٹ،محکمہ زراعت،انہار سمیت تمام متعلقہ محکمہ جات مویشی پال حضرات، بیوپاری اورکسان سمیت عوام الناس کو اس بیماری سے متعلق آگاہی و معلومات پہنچا ئیں تاکہ بیماری کا کوئی حملہ ہو تو اس کی بروقت تشخیص و علاج ممکن ہوسکے اور اور اس کے ساتھ ساتھ تمام مویشیوں کی ویکسینیشن یقینی بنائی جائے تا کہ اس انتہائی متعدی و جاں لیوا بیماری سے جانی مالی و معاشی نقصانات کم سے کم ہوسکیں۔

ای میل:dremergencybwp@hotmail.com
Load Next Story