سارے رنگ

ہم ’ٹائم مشین‘ نہ بنا پائے!

ہم ’ٹائم مشین‘ نہ بنا پائے! ۔ فوٹو : فائل

ISLAMABAD:
کتب کی خریداری پر'نیشنل بک فائونڈیشن' کی رعایت بحال ہونی چاہیے!

خانہ پُری
ر۔ ط۔م

کسی بھی طالب علم کے لیے یہ ایک بہت بڑی سعادت ہوتی ہے کہ اس پر اس کے اساتذہ کی نگاہ التفات یا نظرِعنایت رہے۔۔۔ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہمارے سیکینڈری اسکول میں سائنس کے بہت محترم استاد سر محمد عرفان ہماری تحریروں کے نہ صرف قاری ہیں، بلکہ گاہے گاہے ہماری راہ نمائی اور حوصلہ افزائی بھی فرماتے رہتے ہیں۔

یہاں ہم یہ بتاتے چلیں کہ ہم سائنس کے کوئی بہت زیادہ اچھے طالب نہیں رہے، اِس اعتبار سے ابتداً کلاس میں سر عرفان کے اچھے شاگردوں میں نہیں گِنے جاتے تھے، لیکن ہمیں یاد ہے کہ آٹھویں میں 40، 45 بچوں کی کلاس میں دورانِ لیکچر جب سر نے ایک بار 'کلوننگ' کے بارے میں استفسار کیا تھا، کہ کسی نے کبھی اس کے بارے میں کچھ سنا ہے؟ تو پوری کلاس میں صرف ایک ہی ہاتھ بلند ہوا تھا کہ جس نے کلوننگ کے بارے میں کچھ پڑھا ہوا تھا۔۔۔ شاید یہی وہ پہلا موقع تھا کہ ایٹم، الیکٹرون، پروٹون اور نیوٹرون کے منفی اور مثبت 'چارجز' کے سر پر سے گزر جانے والے گورکھ دھندوں، کیمیا کے وضع وضع کے ''جنّاتی فارمولوں'' اور آئینوں پر شبیہہ اور انسانی آنکھ کے اندر 'عکس' بننے کے پیچیدہ عمل کو 'ہضم' نہ کر سکنے والے اِس 'کند ذہن' طالب علم کو سر عرفان نے کچھ قدر اور حوصلہ افزائی کی نگاہ سے دیکھا تھا اور حیرت کا اظہار بھی کیا تھا کہ پوری کلاس میں صرف ایک ہی بچے کو یہ معلوم ہے۔۔۔! پھر شاید پوچھا بھی تھا کہ کہاں پڑھا۔۔۔؟ اور ہم نے بتایا تھا کہ 'اخبارِ جہاں' میں۔

اسکول سے فارغ ہونے کے بعد بھی ہماری سر عرفان سے راہ ورسم برقرار ہے، کیوں کہ سر عرفان کہنے کو اسکول میں سائنس اور کیمسٹری وغیرہ پڑھاتے تھے، لیکن حالات حاضرہ اور مختلف علمی وفکری موضوعات پر ان کی دل چسپی سائنس سے کہیں زیادہ تھی، تبھی وہ اسکول کی 'لیب' سے زیادہ 'لائبریری' میں دکھائی دیتے تھے۔ بدقسمتی سے وہ 'لائبریری' جس کے دروازے طلبہ کے لیے کبھی کھلتے ہی نہ تھے۔

وہاں کتابوں کی مقفل الماریوں کے شیشوں کے پار ایک مرتبہ ہماری نگاہ حکیم محمد سعید اور 'ہمدرد' کی کچھ نئی کتب پر پڑ گئی تھی اور ہمارا دل للچا گیا تھا، پھر اسکول میں بِتائے گئے 11 برسوں میں فقط پہلی اور آخری بار میٹرک کے زمانے میں اسکول لائبریری سے ہم نے 'ہمدرد' کی وہ دو کتب عاریتاً حاصل کی تھیں، اور یہ رسائی سر عرفان نے ہمیں اپنی صوابدید پر عطا کی تھی۔ یعنی ہم میٹرک میں آتے تک سر عرفان کے اچھے شاگردوں میں شمار ہونے لگے تھے، سائنس کی کلاس میں بھی اکثر گفتگو جنرل پرویز مشرف کے اقدامات سے عالمی منظر نامے کے درمیان بھٹکنے لگتی تھی۔۔۔

سر عرفان کی 'ہم نصابی' سرگرمیاں اور دل چسپیاں انھیں ہمارے سماج کے روایتی اور خشک اساتذہ سے ممتاز کرتی ہیں۔ شاید وہ اسے عام نصاب سے بھی زیادہ اہمیت دیتے ہیں، تبھی شہر کے ادبی و کتب میلوں سے، عالمی اردو کانفرنسوں تک میں بااہتمام اپنے طلبہ کے ہم راہ شرکت کرتے ہیں۔ اسی حوالے سے گذشتہ دنوں سر عرفان نے ہمیں ایک صوتی پیغام بھیجا، وہ بتاتے ہیں کہ ''رواں برس 'نیشنل بک فائونڈیشن' نے 'ریڈرز کلب' کی سالانہ رکنیت ختم کر دی ہے، جس کے تحت کوئی بھی شہری ہر سال 100 روپے کے عوض ایک کارڈ حاصل کرتا تھا اور پھر مختلف ناشرین کی چھے ہزار روپے تک کی نئی غیر نصابی کتب آدھی قیمت پر خرید لیتا تھا۔

اب وفاقی حکومت نے اپنے اخراجات کم کرنے کے چکر میں یہ 'زرِ تلافی' ختم کر دی ہے، جب کہ مہنگائی کے دور میں کتاب پڑھنے والوں کے لیے یہ ایک بہت بڑی نعمت تھی۔ میرے ساتھ ہر سال حلقہ احباب کے 16، 17 افراد یہ کارڈ بنواتے تھے۔

اب یہ سہولت ختم ہونے کے بعد ہمارے لیے صرف کتب میلوں میں مخصوص کتب پر محدود رعایت ہی کا راستہ بچا ہے، جب کہ 'نیشنل بک فائونڈیشن' کے اس 'کارڈ' کے توسط سے ہم جب چاہتے تھے اپنی من چاہی کتابوں پر نصف قیمت کی رعایت حاصل کر سکتے تھے۔ آج کل کتاب پڑھنے والے ویسے ہی بہت کم ہیں، ایسے میں یہ ایک بہت اچھی سہولت تھی، اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے اِس فیصلے پر نظر ثانی کرے۔''
ہم سر عرفان کی بات سے مکمل اتفاق کرتے ہیں، خود ہم نے بھی کئی بار 'نیشنل بک فائونڈیشن' کے اس کارڈ سے استفادہ کیا ہے۔ اس کارڈ کی وجہ سے انتہائی مہنگی کتب جیب پر گراں نہیں رہتی تھیں، اور کبھی کوئی بہت مہنگی کتاب دیکھ کر یکایک اس کارڈ کے خیال سے دل کو ایک گوناگوں اطمینان ہو جاتا تھا، اس رعایتی کارڈ کی سہولت کو ختم کرنا افسوس ناک امر ہے۔

یہ شہریوں کے لیے 'حکومت پاکستان' کی جانب سے ایک چھوٹی سی سہولت تھی، جو کاغذ اور طباعت واشاعت پر مختلف طرح کے محصولات عائد کر کے کتاب کی قیمت بڑھانے کے مقابل ایک راحت تھی اور قارئین نئی کتابیں بھی آدھی قیمت پر حاصل کر لیتے تھے۔ یہ سہولت بحال ہونی چاہیے، تاکہ جو تھوڑے بہت لوگ آج بھی کتب بینی سے جڑے ہوئے ہیں، انھیں کتابوں سے اپنا یہ رشتہ جوڑے رکھنے میں آسانی رہے، مہنگائی کے اِِس دور میں کہیں ان کا یہ رشتہ مشکلات میں نہ پڑ جائے۔۔۔!

۔۔۔

ہم 'ٹائم مشین' نہ بنا پائے!
فاروق احمد
صبح سویرے منہ اندھیرے کار پورچ یا برآمدے سے اخبار والے کی سائیکل کی گھنٹی کے ساتھ ہی 'دھپ' کی آواز۔ وہ آواز، جو روز ایک بار اور مہینے کی پہلی یا دوسری تاریخ کو دو بار سنی جاتی تھی۔ ان تاریخوں میں کان اس 'دوسری آواز' کے منتظر رہا کرتے تھے۔

'دھپ' یا 'ٹھک' کی دوسری آواز کے ساتھ دِل کا خوشیوں سے بلیوں اچھلنا اور دیوانہ وار باہر کی طرف دوڑ لگانا اور گلابی ربر بینڈ میں تازہ اخبار کے رول کے ساتھ موجود تعلیم و تربیت، نونہال ، بچوں کی دنیا، کھلونا ، ہونہار کو جھپٹ کر اٹھا لینا، ربع اور نصف صدی پرانی دنیا میں ہم جیسے بچوں کی معصوم خوشیوں میں سے ایک اہم خوشی ہوا کرتی تھی۔ 'جنگ' میں ٹارزن کی کہانی، حریت میں فینٹم کی۔ آنکھیں ملتے اٹھتے باہر آتے۔ ابا دیکھ کر مسکراتے اور ٹارزن کی کہانی والا صفحہ نکال کر ہماری طرف بڑھا دیتے۔ اسکول کے لیے تیار ہونے سے پہلے ٹارزن کی کہانی پڑھنا روزانہ کا معمول تھا۔

ان دنوں اخبار پونے چھے سے ساڑھے چھ کے درمیان 'ہاکر' ڈال جایا کرتا تھا۔ اب تو آٹھ بجے کا چلن ہے۔ ماہنامہ 'تعلیم و تربیت' ہمیں سب سے زیادہ مرغوب تھا۔ سعید لخت، کمال احمد رضوی المعروف الن، عزیز اثری، ذوالفقار تابش، میرزا ادیب جیسے لیجنڈز مختلف ادوار میں اس معرکتہ الآرا رسالے کے ایڈیٹر رہے۔

کیا شان دار معیار ہوا کرتا تھا۔ اشتیاق احمد، جبار توقیر، مقبول جہانگیر، راز یوسفی، ابو ضیا اقبال اور رؤف پاریکھ جیسے لاتعداد عظیم مصنفین کا لانچنگ پیڈ یہی 'تعلیم و تربیت' ہو گزرا ہے۔

رانی شہلا ناز گل، غزالہ عمر دراز جیسے ستارے جو اپنی چمک دمک دکھلا کر معدوم ہوئے کہ آج بھی نگاہیں ڈھونڈتی ہیں کہ کہاں گم ہوگئے۔ ہمارا خواب تو ہمیشہ سے ایک ٹائم مشین بنانا رہا، جس میں ہم ان دنوں میں واپس لوٹ سکیں، لیکن نہ ٹائم مشین بنا پائے اور نہ ہی گردشِ ایام کو پیچھے کی طرف دڑکا پائے۔

۔۔۔

''اے اردو تیرے انجام پہ رونا آیا۔۔۔!''
امجد محمود چشتی، میاں چنوں


اردو پر ملک کی قومی زبان ہونے کا ''الزام'' ہے۔ آئین کی دفعہ 251 کے مطابق اردو ملک کی قومی زبان ہوگی اور یہ الفاظ بھی انگریزی زبان میں درج ہیں۔ 2003ء میں کوکب اقبال اور محمود نقوی نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ سست رو عدالت نے 12 سال بعد 2015ء کو اردو کے حق میں فیصلہ (جو انگریزی زبان میں لکھا گیا) سنایا۔ مگر سنانے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اردو اب بھی اپنے حقوق سے محروم ہے۔

حد تو یہ ہے کہ اردو کے فروغ اور نفاذ کی خاطر پاکستان میں 1979ء میں ادارہ مقتدرہ قومی زبان (جو اب 'فروغ قومی زبان' کے نام سے موجود ہے) بھی تشکیل پایا۔ علاوہ ازیں مجلسِ ترقی ادب، اردو سائنس بورڈ، اردو لغت بورڈ، اکادمی ادبیات، نظریہ پاکستان فائونڈیشن، اقبال اکادمی ، قائداعظم اکادمی، مرکزِ تحقیقات اور اردو پروسیسنگ وغیرہ کو بھی یہی کام سونپا گیا۔ لیکن نتائج خاطر خواہ نہ نکل سکے۔

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہم کئی پشتوں سے ''اردو بے ادبی'' کے دور میں جی رہے ہیں۔ دوسرا رخ دیکھیں، تو ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ صرف زبان کے بل بوتے پر قومیں ترقی نہیں کرتیں، بلکہ فی زمانہ قوموں کی ترقی کے موجب زبانیں معتبر ٹھیرتی ہیں۔

یوں تو آئین کی رو سے یہ ملک اسلامی جمہوریہ ہے اور اسی آئین کی رو سے اس کی قومی زبان اردو ہے، جب کہ آئین شکنی کی بھاری سزائیں بھی آئین میں ہی درج ہیں، مگر شب و روز کے عملی تماشے ہمارے سامنے ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ اس ملک میں تعلیمی اداروں کے باہر ''اردو میڈیم اسکول'' لکھواتے ہوئے لوگ ہچکچاتے ہیں۔

کوئی شک نہیں کہ حکمران، حکومتی اراکین، سول وملٹری بیوروکریٹس، جج، اساتذہ، بہت سے شعرا و اُدبا اور صحافی حضرات اردو بے ادبی کے مرتکب طبقات میں سے ہیں۔ جب ہماری عدلیہ اس قوم کے فیصلے اردو میں لکھنا شروع کر دے گی، ہماری سول وملٹری افسر شاہی فرنگی اصطلاحات کی جگہ اردو رائج کر لے گی، اساتذہ اپنے رزق سے انصاف کرنے کی ٹھان لیں گے اور ذرایع اِبلاغ (میڈیا) اردو پر رحم کرتے ہوئے اردو شناس ہو جائے گا، تو یقین مانیے اردو تبھی سرکاری و دفتری زبان بن پائے گی۔ تاریخ کا سبق ہے کہ محض خواہشات سے منزلیں نہیں ملا کرتیں۔

کاش ہم اس قابل ہو جائیں کہ ہماری زبان سائنس اور ٹیکنالوجی کی زبان بن سکے اور اُس خورشیدِ مُنتظر کا نور ظہور ہو، جس کے منتظر انور مسعود کے ساتھ ہم سب بھی ہیں کہ ''کوئی گورا ہو جس نے ہاتھ میں ایک فارم پکڑا ہو اور وہ فارم اردو میں ہو۔ وہ میرے پاس آئے اور درخواست کرے کہ صاحب مجھے یہ پُر کر دیجیے۔ میری 200 سال کی تھکن اُتر جائے گی۔۔۔!''

بقول رئیس امروہوی 'اردو کا جنازہ' تو اٹھ چکا، مگر صد حیف کہ ہمارے قومی قائدین اور اربابِ بست و کشاد اردو کی جلد 'تدفین' کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ ایسے میں جب کہ '' اُڑدو'' کو '' بندوق کی نشست'' پر رکھ کر ''ہا تھ قانون میں'' لے لیا جائے، تو قوم کی ''کاپیں ٹانگنا'' لازم ٹھیر جاتاہے۔ سو اب یہ کہنے کے سوا چارہ ہی کیا ہے کہ ''اے اردو تیرے انجام پہ رونا آیا۔۔۔!''

۔۔۔

حساب کتاب کا جنجال
مشتاق احمد یوسفی

تعجب کی بات تو یہ ہے کہ اردو کی داستانوں میں سوداگروں کا ذکر اگر کہیں آتا ہے، تو وہ محض قزاقوں سے لٹنے کے لیے اور یہ بھی اس طور پر کہ پڑھنے والے کی اخلاقی ہمدردی ہمیشہ لوٹنے والے کے ساتھ رہتی ہے۔

اردو غزل میں ہمیں یاد نہیں کہ کسی شاعر نے سوداگر کو کلمۂ خیر کے ساتھ یاد کیا ہو۔ ہاں ایک نظم، مثنوی زہر عشق، میں سوداگر در آیا ہے، مگر جس سے آگے چل کر شاعر کو ردیف و قافیہ کی چول بٹھانے کے علاوہ اور بھی بہت سے کام لینے تھے، جن میں خلوت کی ملاقاتیں، ان کے لازمی نتیجہ میں خودکُشی اور آخر الذکر سے پہلے ''پان کل کے لیے لگاتے جائیں'' کا فریضہ شامل تھا:

جس محلے میں تھا ہمارا گھر
وہیں رہتا تھا ایک سوداگر
ایک دختر تھی اس کی ماہ جبیں
شادی اس کی ہوئی نہیں تھی کہیں

آخری مصرع میں جو 'نویدِ مسرت' ہے، بس اس نے پچھلے تین مصرعوں میں جان سی ڈال دی ہے اور تو اور عوامی شاعر نظیر اکبر آبادی نے سود بڑھاکر لانے اور ٹوٹا گھاٹا پانے والے بنجارے کے ٹھاٹ باٹ کو مٹی میں ملایا سو ملایا، تعلقات زنا شوئی (رشتہ ازدواج) پر بھی ہاتھ صاف کر گئے۔

وہی پوت، جنوائی، بیٹا کیا، بنجارن پاس نہ آوے گی

بچپن کی بات ہے۔ شاید اسی لیے اچھی طرح یاد ہے۔ پورے قصبہ چاکسو (خورد) میں تجارت وجارت تو بڑی بات ہے، کسی مسلمان کی پنساری تک کی دکان نہ تھی۔ 1933ء میں چند مسلمانوں نے قرض حسنہ اور چندہ جمع کر کے سرمایہ فراہم کیا اور صولت یار خان ریٹائرڈ سب انسپکٹر پولیس کو مسلمانوں کے محلّے میں پرچون کی دکان کھلوا دی۔

اس زمانے میں کوڑیاں بھی چلتی تھیں۔ دھیلے کا گھی اور چھے دام کے بینگن خریدتے غریبوں کو ہم بھی دیکھا ہے۔ چھوٹے بینگن کا ''جھونکا'' اس کے علاوہ۔ صولت یار خان کو منافع سے تو دل چسپی تھی، لیکن حساب کتاب کو مکروہ گردانتے تھے۔

دکان میں ان کی مسند تکیے، حقے اور ترازو کے سامنے آٹا، شکر، بیسن، نمک، مرچ، دالیں اور مسالے، الٹی ہوئی آستین کی طرح ادھ کھلی بوریوں میں بھرے رہتے تھے۔ جو چیز جتنی بکتی اس کی قیمت اسی بوری یا کنستر پر سارے دن پڑی رہتی، تاکہ حساب میں آسانی ہو۔ شام کو ہر جنس کی بکری کو علاحدہ علاحدہ گنتے۔ روکڑ کی میزان نہیں بیٹھتی، تو اپنا دل نہیں جلاتے تھے بہی کھاتوں میں ایک نئی مد ''بھول چوک، لینی دینی'' کھول لی تھی۔

روزانہ کیش میں جو کمی واقع ہوتی، وہ اسی کے متھے مارتے۔ ہوتے ہوتے، اس مد میں کافی رقم جُڑ گئی، جو تقریباً اصل سرمائے کے برابر تھی۔ شب برأت کی صبح مرزا عبدالودود بیگ جن کی عمر اس وقت سات سال ہوگی، چھے پیسے کی زعفران لینے گئے۔

زعفران کی پُڑیا لے کر انھوں نے صولت یار خان کو ایک کلدار روپیہ تھمایا۔ اتفاق سے زعفران کی ابھی 'بوہنی' نہیں ہوئی تھی اور اس کے ڈبے میں کوئی ریزگاری نہیں تھی۔ صولت یار خان نے بندھی بندھائی پڑیا مرزا کے ہاتھ سے چھین کر کہا ہشت! ہمارے پاس ریزگاری نہیں۔ گو بندا بنیے کی دکان سے خریدلے۔ مرزا نے انگلی سے ریزگاری کی ان ڈھیریوں کی طرف اشارہ کیا، جو تقریباً ہر بوری اور کنستر پر پڑی تھیں۔ ارے صاحب وہ تو آپے سے باہر ہوگئے۔ دھمکی آمیز انداز سے دوسیری اٹھاتے ہوئے بولے مرغی کے! دوسری ڈھیری میں سے ریزگاری نکال کے تجھے دے دوں تو شام کو حساب کون کرے گا ؟ تیرا باپ؟
Load Next Story