سلطان محمود غزنوی

جس کی سلطنت کشمیر سے اصفہان اور کیسپئین سے د ریائے گنگا تک پھیلی ہوئی تھی


نازیہ آصف March 27, 2022
جس کی سلطنت کشمیر سے اصفہان اور کیسپئین سے د ریائے گنگا تک پھیلی ہوئی تھی

ایک بار حضرت عمرؓ نے ایک سیاح سے ہندوستان کے بارے میں پوچھا تو سیاح نے جواب دیا:''وہاں کے دریا موتی، پہاڑ یاقوت اور درخت عطر ہیں۔ ''

سکندر نے بھی ہندوستان تک پہنچنا اپنے اوپر لازم کر لیا تھا۔

انگریز نے اسے'' سونے کی چڑیا'' کہا۔الغرض چنگیز خان ہو یا محمد بن قاسم ہندوستان سب کے لیے ایک چیلنج رہا ۔

خاندان غزنویہ :
(1):الپتگین:

الپتگین ایک ترک غلام تھا جو عبدالمالک سامانی کے عہد میں بھان متی کے تماشے دکھا کر بادشاہ کو خوش کرتا تھا۔ سامان خاندان میں غلام قابل قدر اور قابل اعتماد سمجھے جاتے تھے ۔

اوردوردورکے صوبوںپر حکمران مقررکیے جاتے تھے۔سامانی بادشاہ عبدالمالک نے (961ء) میں اسے خراسان کا حاکم مقرر کردیا ۔عبدالمالک کے انتقال کے بعد جب منصور تخت نشین ہوا تو اس نے الپتگین کو معزول کرکے اپنے دربار میں طلب کیا۔

الپتگین بات کو سمجھ گیا وہ تین ہزار کا لشکر لے کر دربار کی طرف جانے کی بجائے غزنی پر حملہ آور ہوا اور امیرنو کو شکست دے کر غزنی پر قبضہ کر لیا۔ افغانستان کے جری ،دیوہیکل اور جنگجوقبائل نے اسے اپنا امیر مان لیا ان کی مدد سے بعد میں الپتگین نے بلخ، ہرات ، سیستان کو بھی فتح کر لیا ۔دسویں صدی کے آخر میں غزنی میں استحکام سلطنت کے بعد الپتگین نے اپنے ترک غلام سبکتگین کو اپنی افواج کا سربراہ مقرر کردیا ۔ سبکتگین اوائل عمری ہی سے بے حد پھرتیلا اور بہادر ہونے کی وجہ سے الپتگین کی نظروں میں آچکا تھا۔

جس نے پہلے اسے امیر الامرا پھر وکیل مطلق مقرر کیا اور اپنی سپاہ کا سپہ سالار مقرر کرنے کے بعد اپنی بیٹی کی شادی بھی سبکتگین سے کردی ۔ الپتگین نے 15سال حکومت کی ۔ 9ستمبر976ء میں الپتگین کی وفات کے بعد اسکا بیٹا اسحاق جانشین ہوا مگر وہ محض دوسالہ اقتدار کے بعد ہی انتقال کرگیا اور یوں حکمرانی کا قرعہ فال سبکتگین کے نام نکلا۔

(2):امیر ناصرالدین سبکتگین:

امیر ناصر الدین سبکتگین، الپتگین کا زر خرید غلام تھا۔ جس نے سبکتگین کی فہم و فراست و شجاعت کو دیکھ کر ایسے بلند مرتبے پر پہنچایا کہ لشکر کا سالار اور دربار کا بڑا اہلکاروہی رہا۔ فرشتہ سبکتگین کو الپتگین کا بیٹا سمجھتا تھا۔ ابواسحاق کی وفات کے بعد ملکاتکین(جو ترکی امیر تھا)بادشاہ بنا ۔بڑا عاقل، متقی و پرہیزگار تھا مگر دو سال کے اقتدار کے بعد وفات پاگیا ۔

تو اس کے بعد امیر پری تخت پر بیٹھا جو بہت ظالم تھا ۔اس نے بہانے بازیوں سے ابو علی انوک کو مدد کے لیے بلایا، جب وہ چرخ کی حدود میں آیاتو امیر سبکتگین نے پانچوں ترک سواروں کو قتل کرکے ان کے دس ہاتھیوں پر قبضہ کر لیا۔ ادھرامیر پر ی کے ظلم سے لوگ عاجز آچکے تھے اس لیے سب امیروں نے متفق ہوکر سبکتگین کو غزنی کا امیر مقرر کردیا۔

سبکتگین نے حصار، بست اور قصدار کی مہموں سے فارغ ہو کر 977ء میں ہندوستان کی طرف توجہ کی۔ جب غزنی میں سبکتگین کی حکومت تھی تب ہندوستان میں کوہ بندھیا چل کے شمال میں تین راجے حکومت کررہے تھے ۔مدھیا پردیش میں راجپوتوں کی حکومت تھی ، گنگا کی زیریں وادیوں میں بالکے خاندان کی حکومت تھی اور بمبئی کے ساحلی علاقوںمالوہ وغیرہ پر بکرماجیت کاڈ نکا بج رہا تھا ۔

جوہندو راجاؤں کا آفتاب کہلاتا تھا ۔بکر ماجیت کا دور علم و فضل کا دور تھا اور کوہ بندھیا چل کے جنوب میں آریا قوم کے تین گروہ تھے ۔چیرا، جولااور پانڈیا۔ بیرونی حملہ آوروں کی یلغار کی صورت میں یہ تمام گروہ متحد ہوکر حملہ آور کو مغلوب کر لیتے اور کسی بھی بیرونی فتح کے بعد بھی سرکشی اور گردن کشی کا مادہ ان میں موجود رہتا۔ یہی وجہ رہی کہ یہاں اسلام سست روی سے پھیلا اب جو سبکتگین پہلی دفعہ ہندوستان پر حملہ آور ہوا تو اس وقت لاہور سے لمغان اور ملتان سے کشمیر تک راجہ جے پال کی حکمرانی تھی۔

پہلامعرکہ لمغان کے میدان( جو پشاور اور کابل کے درمیان ) میں ہوا۔زوروں کی لڑائی جاری تھی کہ برف اورباد وباراں کا وہ طوفان آیا کہ سردی سے راجہ جے پال کے گھوڑے اور سپاہی تک اکڑ گئے۔ سبکتگین کے سپاہی اس سردی کے عادی تھے جبکہ ہندوؤں کے لیے ایک مصیبت تھی ۔جے پال نے سبکگتین کو پیغام بھیجا :

''سنو! راجپوتوں کا ایک دستور ہے کہ جب مایوسی اور اضطراب میں کوئی راہ گریز دشمن سے نہ رہے تو ان کے پاس جو نقد و جنس ہوتا ہے آگ میں جھونکتے اور مویشیوں کو اندھا کرتے ہیں ۔اہل وعیال کو آگ میں ڈالتے ہیں پھر سب ایک دوسرے سے رخصت ہوکر مر کر خاک ہوجاتے ہیں اور اسی کو دین و دنیا کی سرخروئی مانتے ہیں۔ سمجھ لو! اگر تمہارے لشکر کو بھاری طمع بھی صلح کرنے نہیں دیتا تو نقد و جنس کی جگہ راکھ پاؤ گے اور پچھتاؤ گے ۔''

سبکتگین نے چند شرائط پر صلح کر لی مگر راجہ جے پال لاہور پہنچ کر اپنے معاہدے سے منحرف ہوگیا تب سبکتگین ایک آندھی کی طرح دوبارہ آیا۔ جے پال ایک معتصب ہندو راجہ تھا اس نے مذہب کے نام پر دوسرے تمام راجوں سے مدد مانگی اور ایک لاکھ کا لشکر لے کر مقابلے پر آیا مگر جلد ہی ان کے پاؤں اکھڑ گئے۔ سبکتگین کی افواج نے راجہ جے پال کے لشکر کا اٹک تک مقابلہ کیا۔

اس کے بعد لمغان تک سبکتگین کی حکومت قائم ہوئی اس کی اولاد میں چودہ بادشاہ ہوئے جنہوں نے لاہور اور اسکے نواح پر حکومت کی۔999ء میں جب سبکتگین بیمار ہوا تو تبدیلی آب وہوا کے لیے وہ غزنی روانہ ہوا مگر رستے میں ترمذ کے مقام پر تھا کہ فرشتہ اجل نے اچک لیا ۔56برس کی عمر پائی اور اسے غزنی لاکر دفن کیا گیا۔

(3):محمود غزنوی عین الدولہ:

محمود غزنوی کی پیدائش سے پہلے سبکتگین نے خواب دیکھا کہ اس کے گھر کے آتش دان سے ایک بڑا درخت ظاہر ہوا اور ایسا بڑھا کہ اس کے زیر سایہ ساری خلقت خدا بیٹھ گئی ۔

وہ بچپن سے ہی جنگجو اور پھرتیلا تھا ،مذہبی رجحان ،متناسب الاعضاء اور بہت سخت جان تھا۔ اس کا گرزاس کی فوج میں محض چند لوگ ہی چلا سکتے تھے ۔اس کا انصاف بے لچک تھا ۔ ابوالفضل کے مطابق ، کوئی بادشاہ ایسا نہیں گزرا جس کے پاس اسکے دربار میں محمود کے مقابلے میں علماء فضلاء زیادہ ہوں ۔ جب سبکتگین کا انتقال ہوا تو اس وقت محمود غزنوی نیشا پور میں تھا اس کے چھوٹے بھائی اسماعیل کو تخت پر بٹھا دیا گیا ۔جس کی عمر اس وقت سولہ سال تھی جب محمود کو اس بات کا پتہ چلا تو اس نے چھوٹے بھائی کے نام ایک تعزیت نامہ اس طرح سے لکھا:

''امیر سبکتگین تمہارا پشت پناہ، اس دنیا سے رخصت ہوا مجھے اس دنیا میں تجھ سے کوئی چیز عزیز نہیں ۔تیری عمر بڑی ہوتی تو تجربہ کار ہوتا تو میری عین آرزو ہوتی کہ تو تخت پر بیٹھے۔ باپ نے تجھے جانشین کیا یہ مصلحت تھی تخت خالی رہتا تو معلوم نہیں کیا فساد برپا ہوتا؟ تو پاس تھا اس لیے تخت پر بٹھا دیا اب انصاف کی نظر کر، شریعت غرا کے بموجب دولت اور ملک کو تقسیم کر ،دارلسلطنت میرے حوالے کر ،بلخ و خراساں کا ملک تیرے حوالے کیے دیتا ہوں۔''

مگر اسمعیل نہ مانا۔دراصل کچھ امیر بھی اسمعیل کا حق فائق سمجھتے تھے کہ اسکی ماں امیرالپتگین کی بیٹی تھی ۔جبکہ محمود کی ماں ایک زابلی سردار کی بیٹی تھی۔ جب اسماعیل نہ مانا تو دونوں میں جنگ ہوئی جس میں غزنی محمود کے ہاتھ رہا اور اسماعیل کو گرفتار کر لیا گیا ۔

جسے بعد میں زندگی کی ساری آسائشیں مہیا کرکے جرجان کے قلعے میں عمر بھر کے لیے بند کر دیا گیا۔یہ وہ وقت تھا جب سامانیوں کا ستارہ ڈوب رہا تھا ان کے قافلے شاہراہ ریشم پر خال خال ہی نظر آتے تھے۔ دوسری طرف ترکستان کے سردار ایبک خان کا ستارہ چمک رہا تھا۔997ء میں محمود نے ہرات، بست، بلخ اور خراسان پر قبضہ کر لیا، ساتھ ہی عباسی خلیفہ قادر بااللہ (991ء۔1031ء) سے خلعت اور عین الدولہ کا خطاب بھی حاصل کرلیا۔

محمود نے ایبک خان کی بیٹی سے شادی کرکے اچھے تعلقات کی بنیاد ڈالی اور دیارئے آمو کو سرحد مان کر ایبک خان کی سرحد بھی الگ کر دی ۔ اس طرح ایک طرف کی سرحد سے مطمئن ہوکر اس نے ہندوستان کی طرف توجہ مبذول کی ۔

سلطان نے 33سال حکومت کی ۔اس نے اپنی سلطنت کو ایک طرف کاشغر تو دوسری طرف ملتان سندھ اور لاہور تک وسیع کیا یہ وہ وقت تھا جب ہندوستان میںہندو راج کا دور تھا۔ فرشتہ نے لکھا ہے: محمود غزنوی سب سے پہلے اگست1001ء میں ہندوستان وارد ہوا اورشمالی ہند کے چند اضلاع پر قبضہ کیا اور واپس ہولیا۔

پہلا حملہ: 1004ء میں دوبارہ پشاور پر حملہ آور ہوا اور اپنے باپ کے قدیمی دشمن والی لاہور جے پال سے مقابلہ کیا۔ جس میںجے پال کے پانچ ہزار آدمیوں نے جان گنوائی خود اپنے پندرہ عزیزوں کے ساتھ گرفتار ہوا اور پھر خراج دینے کا وعدہ کرکے رہائی پائی۔ مگر جب راجہ اپنے دارالخلافہ (لاہور) پہنچا تو شرمندگی یا کسی اور مذہبی روایت کے ہاتھوں مجبور تھا کہ راجہ دو دفعہ شکست کھانے کے بعد راج کے قابل نہ رہتا تھا۔ اس کا کفارہ آگ میں جلنا تھا لہذا جے پال نے راج پاٹ اپنے بیٹے آنندپال کے حوالے کیا اور خود چتا میں بیٹھ کر جل مرا۔

دوسرا حملہ: 1004ء میں سلطان نے اگلا حملہ بھیرہ پر کیا جس کے اردگرد فصیل بنا کر خندق کھود دی گئی تھی ۔وہاں کے راجہ بیجے رائو کو اپنی طاقت پر بڑا گھمنڈ تھا وہ لشکر جرار لے کر مقابلے کے لیے نکلا۔ چار دن لڑائی ہوتی رہی دونوں فوجوں کا پلڑا برابر رہا پھر سلطان نے اللہ کے حضور حاضر ہوکر دعا مانگی اور سلطانی جنگ (زندگی یا موت)شروع ہوئی ۔راجہ بیجے رائو حصار میں آگیا رات ڈھلی تو راجہ نے فرار کی کوشش کی مگر پکڑے جانے پر اس نے خنجرمار کر خود کو ختم کرلیا۔

تیسرا حملہ: والی ملتان ابوالفتح دائود بن نصر شیخ حمید کا پوتا تھا۔ جس نے سبکتگین کی اطاعت قبول کی اور خراج دیتا تھا، اس نے بھی راجہ بیجے رائو کی مدد کی ناکام کوشش کی تھی ۔اگلے سال سلطان نے اس کو سزا دینے کے بہانے پھر لشکر کشی کی ۔

ہرمذہب میں تفرقہ بندی ہوتی ہے اور بدقسمتی سے مذہب اسلام بھی اس سے نہ بچ سکا۔کتنے فرقے وجود میں آئے انہیں میں ایک فرقہ قرامطی بھی تھا۔ سلطان کو خبر ہوئی کہ والی ملتان ابوالفتح دائود بھی قرامطی ہوگیا ہے اور وہ اہل ملتان کو اپنی خباثت نفس سے قرامطی بنانا چاہتا ہے تو سلطان نے ملتان پر چڑھائی کا ارادہ کر لیا۔ 1006ء میںسلطان نے ملتان پر حملہ کرنے کے لیے آنند پال سے اس کے علاقے سے گزرنے کی اجازت چاہی۔آنند پال نے نہ صرف انکار کیا بلکہ ابو الفتح دائودسے مدد بھی مانگی ۔ بھنڈپور کے مقام پر سلطان کی فوج کو روکا گیا ۔

مو سم برسات تھا تمام دریائوں ندی نالوں کی روانی زوروں پر تھی مگر سلطان کے فوجیوں نے راجہ کے آدمیوں کا ایسا قتل عام کیا کہ آنند پال لشکر چھوڑ کر کشمیر بھاگ گیا جب ابوالفتح نے آنند پال کا حال دیکھا تو اس نے عجیب چال سوچی ۔سارا مال و اسباب اونٹوں پر لاد کر سراندیپ جانے کا ارادہ کیا۔

مگر سلطان نے اس کے عمل کرنے سے پہلے ہی ملتان کا محاصرہ کر لیا۔ والی ملتان نے صلح کی پیشکس کی اور ہر سال بیس ہزار درہم سرخ دینے کا وعدہ کرلیا ۔کفروالحاد سے توبہ کرکے شرعی احکام جاری کرنے کا وعدہ بھی کر لیا ۔ سلطان نے اسے اپنے عہدے پر برقرار رہنے دیا اور بٹھنڈہ کا حاکم سکھ پال کو مقرر کیا۔

سکھ پال یا سیوک پال (ایک نو مسلم تھا بعض محققین کے نزدیگ اس کا دوسرا نام آب سار ۔نواسہ شاہ یا نواز شاہ تھا) اس مہم کے دوران سلطان کوخبر ملی کہ ایلک خان کی فوجیں سرحدی علاقوں میں خرابی کررہی ہیں تو سلطان نے یہ مہم سکھ پال یا نواسہ شاہ کے سپر د کی اور واپس ہو لیا ۔

چوتھا حملہ : 1007ء میں جب سلطان کو خبر ملی کہ نواسہ شاہ یا سکھ پال پھر سے مرتد ہوکر باغی ہوگیا ہے تو سلطان نے دوبارہ لشکر کشی کرکے اسے گرفتارکیا اور عمر قید کی سزا سنا کر جیل میں ڈال دیا۔

پانچواں حملہ: ملتان کی مہم کے وقت آنند پال نے سلطان کے ساتھ جو رویہ رکھا تھا، سلطان اس کی گو شمالی کے لیے دسمبر1008ء میں دوبارہ سے ہندوستان پر حملہ آور ہوا ۔آنند بھی غافل نہ ہوا تھااس نے سارے ہندوستان کالنجر ، گوالیار، قنوج ، دہلی اجین اور والی ملتان سے بھی مدد مانگی۔

سب راجائوں نے اس بار مل کر سلطان کا مقابلہ کرنے کی ٹھانی ۔اس لشکر کی مدد کے لیے خواتین بھی پیچھے نہ رہیں انہوں نے زیور بیچ کر ،چرخہ کات کر پیسے اس لشکر کی مدد میں لگا دئیے ۔گو آنند پال اس معاملے میں اپنے باپ جے پال سے بھی آگے بڑھ گیا، مسلمانوں کا لشکر پشاور کے قریب خیمہ زن تھا کہ جے پال نے آلیا، چالیس روز تک افواج آمنے سامنے بیٹھی رہیں سلطان نے اپنے لشکر کے گرد خندق کھودڈالی اور پھر لڑائی شروع کی۔

سلطان نے بڑی تدابیر کی تھیں مگر بیس ہزار کے قریب گکھڑ سروپا برہنہ، طرح طرح کے ہتھیاروں سے لیس اس کے لشکر میں گھسنے میں کامیاب ہوگئے ۔انہوں نے تیرو تلوار اور کٹار کے ساتھ جو وار کیے تو سلطان کے چار ہزار آدمی مارے گئے۔ یہ معرکہ جاری تھا کہ اچانک مٹی کے تیل کا گولہ پھٹ گیا تو آنند پال کا ہاتھی بدک کر پیچھے کو بھاگا، جس سے آنند پال کے لشکر میں کھلبلی مچ گئی۔

اس کی افواج سلطان کے لشکر کو چھوڑ کر واپس بھاگیں تو اس طرح اللہ پاک نے سلطان کو ایک بار پھر فتح سے ہمکنارکر دیا۔ اس طرح دسمبر1008ء کو شروع ہونے والا معرکہ 3مارچ1009ء کو تکمیل کو پہنچا ۔ہندو راجائوں کی باہمی چپقلشوں نے بھی انہیں ایک کمان میںمتحد نہ ہونے دیا تھا سلطان کے ہاتھ اس معرکے میں جو اہر،بے پناہ دولت، نگر کوٹ (کانگڑہ) کا قلعہ اور تیس ہاتھی ہاتھ لگے۔

اس کے بعد ایک بار سلطان 1010ء میں اور پھر 1013ء میں بھی ہندوستان پر حملہ آور ہوا اور راجہ بھیم پال سے قلعہ نند نا حاصل کر لیا۔ تھانیسر پر بھی قبضہ کیا ۔لیکن 1015ء میں کشمیر پر حملہ آور ہو کر ناکامی کا منہ دیکھا۔ پھر1021ء میں کشمیر پر دوبارہ قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا۔

1010ء میں ملتان پرہونے والے حملے میں اسماعیلیوں اور ہندوئوں کا قتل عام ہوا۔ ابوالفتح کو گرفتار کرکے غور کے قلعے میں بند کردیا جو بعد میں وہیں پر مر گیا۔ سلطان نے محمد بن قاسم کی مسجد کو دووبارہ کھلوا دیا۔

چھٹا حملہ: آنند پال بھی ہار ماننے والا نہ تھا محمود نے اس سے صلح کرنے کا معاہدہ کر لیا۔ آنند نے محمود کوتھانیسر پر حملہ کرنے سے باز رہنے کو کہا مگر محمود نہ مانا۔ 1012ء میں تھانیسر پر حملہ کر دیا۔ تھانیسر اس وقت دہلی کے ماتحت تھا وہاں کے مندر میں ایک بت تھا ۔ جس کا نام چکر سوامی تھا ہندوئوں کو اس سے بہت زیادہ عقیدت تھی ۔ سلطان نے اسے ٹکڑوں کی صورت میں غزنی بھیج دیا کہ اسے گلیوں میں پائوں تلے روندا جاسکے ۔

شاہ دلی نے بھی ارد گرد کے بہت راجائوں کی مدد سے مزاحمت کی تیاریاں مکمل کر لی تھیں ۔ مگر سلطان کو وزیروں نے مشورہ دیا جب تک پنجاب میں آنند پال موجود ہے دلی پر حملہ مناسب نہیں ۔1012ء میں جب آنند پال طبعی موت مر گیا ۔ اس کابیٹا ترلوچن پال اور پوتا بھیم پال ہندو شاہی سلطنت کے وارث بنے ۔بھیم پال کی بہادری کی وجہ سے ہندو اسے ''نڈر بھیم'' بھی کہتے تھے ۔

ساتواں حملہ : 1013ء میں آنند پال کے مرنے کے بعد ترلو چن پال ہندو شاہیہ کا شاہ بنا اور اس نے اپنا پایہ تخت نند نہ کو بنایا۔ نندنہ کو قلعہ بالنا تھ بھی کہا جاتا تھا ۔ محمود کو خراج دینا بند کردیا ۔ ترلوچن نے سلطان کے مقابلے کے لیے بھیم پال کو اپنی جگہ متعین کیا اور خود کشمیر کے راجہ سے مدد کے لیے چلا گیا۔ سلطان نے اس کی عدم موجودگی میں ہی قلعہ بالناتھ کا محاصرہ کرلیا۔

بہت خونریز جنگ ہوئی ۔آخرکار1013ء میں قلعہ فتح ہوگیا۔بھیم پال بھی باپ کے پیچھے بھاگ گیا ۔ محمود نے ان کا پیچھا کیا اور دریائے توہی موجودہ دریائے توی کے کنارے مقابلہ ہوا۔ مگر ہندو راجوں نے شکست کھائی اور ترلوچن سرہند(مشرقی پنجاب) بھا گ گیا اور اسی کو اپنا پایہ تخت بنا لیا۔ یہاں ترلوچن اور بھیم پال اپنی فوجوں کی تعمیر نو میں مسلسل لگے رہے ۔

آٹھواں حملہ: دو سال بعد سلطان نے چند باغی سرداروں کو سزادینے کے لیے کشمیر پر حملہ کیا۔ اس کی نظر لوکوٹ کے قلعے پر تھی جو اپنی بلندی اور حدود اربعہ کی وجہ سے ناقابل فتح سمجھا جاتا تھا ۔ موسم گرما میں سلطان حملہ آور ہوا موسم سرما کی برفباری شروع ہوگئی مگر سلطان کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اور واپس لوٹ گیا۔

نواں حملہ : سلطان 1017ء میں ایک لشکر جرار لے کر براستہ کشمیر قنوج کی طرف بڑھا ۔قنوج کا راجہ بڑی شان و شوکت والا تھا مگر دفاع سے غافل تھا۔ اس نے لڑے بغیر سلطان کی اطاعت کر لی ۔ اس کی دیکھا دیکھی میرٹھ کے راجہ ہردیت رائے بھی مطیع ہوگیا، مہاون شہر کے راجہ کیل چند نے خوف اور مایوسی میں پہلے اپنی بیوی بچوں کو مارا پھر خنجر کی نوک اپنے سینے میں مار کر مر گیا اور یوں یہ شہر بھی بغیر لڑائی تسخیر ہوگیا۔

سلطان بیس دن انہیں شہروں میں رکا رہا غارت گری کی اور بیشمار خزانہ لوٹ کر غزنی کی طرف مراجعت کی ۔غزنی پہنچ کر سلطان نے ایک انتہائی خوبصورت مسجد بنائی جسے وہ آسمانی دلہن کہتاتھا ۔ عظیم مصنفین کی کتب پر مشتمل ایک دارالمطالعہ اور ایک عجائب گھر بھی بنایا ۔1019ء میں سلطان نے اپنی فتوحات کی ایک سرگزشت بغداد کے خلیفہ قادر بااللہ کے پاس بھیجی جسے پڑھ کر وہ خوش ہوا اور ایک عظیم اجتماع کو پڑھ کر سنائی ۔

دسواں حملہ : ہندوستان کے دوسرے راجائوں کو اس بات کا بہت قلق تھا کہ قنوج کے راجہ کنور رائے نے سلطان کی اطاعت کیوں کی۔ انہوں نے متحد ہو کر قنوج پر حملہ کر دیا سلطان کو خبر ملی تو سلطان نے پیش قدمی شروع کردی مگر اس کی آمد سے پہلے کالنجر کے راجہ نندانے قنوج پر قبضہ کر لیا اور کنور رائے کو قتل کردیا۔

محمود لوکوٹ کے قلعے کو فتح کرتا ہوا کشمیر کی طر ف بڑھا پھر وہ لاہور پہنچا کہ آنند پال کی فوجوں نے قنوج پر حملہ کیا تھا۔ اس کی پاداش میں اس نے لاہور میں لوٹ مار کا حکم دے دیا اور آنند پال اجمیر کی طرف بھاگ گیا ۔ سلطان نے لاہور کا انتظام اپنے پسندیدہ غلام ایاز کے سپر د کیا ایازنے لاہور کا قلعہ اور شہر کے گرد فصیل تعمیر کروائی ۔ سلطان کے اس فرمانبردار حاکم کے دور میں لاہور علم و فضل کا گہوارہ بن گیا ۔

غزنی سے لوگ آکر یہاں آباد ہونے لگے ان میں حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری ؒ بھی تھے ۔ سلطان نے لاہور کا نام تبدیل کرکے محمود پورہ رکھا (مگر لاہور لاہور اے ) جو کہ نہ چل سکا ۔

گیارھواں حملہ: سلطان واپس چلا گیا مگر اس کے دل میںکالنجر کے راجہ کو سزا دینے کا خیال برابر موجود تھا۔ جس کی تکمیل کے لیے سلطان دو سال بعد پھر نندارائے پر حملہ آور ہوا جس نے بغیر لڑے اطاعت کرلی قیمتی تخائف وغیرہ دے کر جان بخشی کروالی ۔

بارھواں حملہ: محمود کا بارھواں حملہ مشہور زمانہ سومنات کے مندر پر تھا جو کہ کاٹھیا وار کے ساحلی علاقے میں تھا۔ سلطان ستمبر 1024ء میں ترکستان اور ہمسایہ ممالک کے تیس ہزار جوانوں کے ساتھ حملہ آور ہوا ۔سومنات کے مندر سے ہندوئوں کو بہت عقیدت تھی ۔سوما ''دیوتا'' کے نام پر یہ مندر تھا۔ جس کے بارے میں ہندوئوں کا خیال تھا کہ اس کو تمام ارواح پر مکمل اختیار ہے اور وہ تمام تناسخوں کو باقاعدہ بناتا ہے ۔

سلطان کا لشکر ملتان کے صحرا کو عبور کرتا ہوا سومنات جا پہنچا ۔ تین دن کی جنگ میں سلطان کو عظیم نقصان اٹھانا پڑا۔ سلطان اللہ پاک کے حضور سجدہ ریز ہوا پھر اپنے جرنیل ابوالحسن کا ہاتھ تھام کر لشکر سے نعرے لگوائے اور پھر لشکر ایک بار تازہ دم ہوکر ٹوٹ پڑا۔ بے شمار ہندو مارے گئے کچھ کشتیوں میں سوار ہوکر بھاگ نکلے۔ سلطان نے دیکھا کہ نوفٹ اونچا بت اندر موجود تھا ۔ سلطان نے کاری ضرب لگا کر پہلے اس کی ناک کاٹی پھر دو ٹکڑے کروا کر غزنی بھیج دیا۔ جہاں ایک ٹکڑا غزنی کی جامع مسجد کے دروازے پر اور دوسرا سلطان نے محل کے دروازے پرپھینک دیا گیا۔ جس کے بارے میں ایک روایت یہ تھی کہ اس بت کو خانہ کعبہ سے لاکر یہاں رکھا گیا تھا ۔

اس سارے مرحلے میں سلطان نے وہ تاریخی جملہ کہا کہ'' میں بت شکن بننا چاہتا ہوں نہ کہ بت فروش '' بت کو توڑا گیا تو اس کے اندر سے بے حساب ہیرے جواہر ملے ۔اس کے بعد سلطان نے گنداوا اور انہلواڑہ کو فتح کیا اور اس ملک کے راجہ کو گجرات کی سلطنت دے کرسندھ کے راستے واپس غزنی چلا گیا ۔اس سارے مرحلے میں اڑھائی سال صر ف ہوئے ۔

تیرھواں حملہ: محمود کی ان مہموں کا اختتام 1027ء میں ہوا جب سندھ کے کنارے جاٹ قبائل کے خلاف اس نے مہم جوئی کی انہیں فتح کرنے کے بعد اس نے ہندوستان کا رخ نہیں کیا۔

سلطان جب جاٹوں کوسزا دینے کے بعد واپس ہوا تو راستے میں بعض جگہوں پر پانی کی شدید کمی ، چارے کی نایابی کے ساتھ سلطان بڑی مشکلوں سے غزنی پہنچا۔ جہاں پہنچ کر وہ تپ دق کے مرض میں مبتلا ہوگیا ۔مرض روز بروز بڑھتا چلا گیا وہ بلخ میں تھا مگر جب مرض زیادہ بگڑا تو غزنی چلا آیا ۔جہاں بروز جمعرات23ربیع الاول421ھ بمطابق 30اپریل1030ء کو انسٹھ سال کی عمر میں انتقال کر گیا اور قصر فیروزی غزنی میں دفن کیا گیا ۔ کہتے ہیں سکر ات (موت سے پہلے کی حالت) کے وقت سلطان نے حکم دیا کہ اس کے سارے خزانے اس کو دکھائے جائیں۔ جنہیں چھوڑنے کا اسے دکھ تھا کسی کو ایک کوڑی بھی نہ دی تھی ۔

محمود کی نجی زندگی کے بارے میں بہت کم معلومات ملتی ہیں تاہم اسکی چہیتی بیوی کا نام ''حرم نور ''تھا جسے اسکی خوبصورتی کی بنا پر مہر شفل (خوبصورتیوں کا سورج ) بھی کہا جاتا ۔ محمود کے عہد میں اسکی سلطنت کشمیر سے اصفہان اور کیسپئین سے گنگا تک پھیل چکی تھی سلطان کے دو بیٹے تھے ایک کا نام محمداور دوسرے کا نام مسعود تھا ۔ لہذا محمد کو تخت نشین کروا دیا گیا مگر اسکی پانچ ماہ کی حکومت کے بعد ہی مسعود نے اسے معزول کرکے اندھا کر دیا اور خود غزنی کا سلطان بن گیا ۔

مسعود کے بارے میںیہ بات مشہور تھی کہ مسعود کا گرزاسکے علاوہ کوئی نہ اٹھا سکتا تھا (اپنے باپ کی طرح جیسے کہ پہلے لکھا جاچکا ہے)۔ اس کا تیر فولاد کے پار ہوجاتا وہ تن و نوش میں رستم زماں تھا۔ خاندان غزنویہ سے 14بادشاہ ہوئے جنہوں نے ایک وسیع سلطنت بشمول ہندوستان پر حکومت کی ۔محمود غزنوی کا تذکرہ ظہیر الدین بابر اپنی کتاب تزک بابری میں بھی کرتا ہے۔جس کا حوالہ میں نے اپنے پچھلے مضمون ''نزک بابری اور ہندوستان'' میں بھی دیا تھا۔

''آج تک حملہ آور بادشاہوں میں سے تین کامیاب ہوئے ہیں۔سلطان محمود غزنوی ،شہاب الدین غوری ،ظہیر الدین بابر''

نوٹ: قارئین سلطان محمود غزنوی ایک ایسا عنوان ایک ایسی شخصیت ہے کہ جس کی زندگی کا ایک مضمون میں احاطہ کرنا ناممکن ہے اس کے لیے بہت ضخیم کتاب لکھنی چاہیے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں