پیپلزپارٹی سے کوئی معاہدہ کیا اور نہ ہی حکومت میں جانے کا ارادہ ہے ایم کیو ایم
ایم کیو ایم قائدین کی اسلام آباد سے کراچی واپسی پر گفتگو
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے کنونیئر خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی سے کوئی معاہدہ ہوا اور نہ ہی کوئی وزارت مانگی جبکہ حکومت میں بھی جانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
اسلام آباد سے کراچی واپس پہنچنے کے بعد عارضی مرکز بہادر آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ خطرے کا نشان سرخ( لال) ہے، اس میں احتیاط کی ضرورت ہے اگر سب نے ذمے داری پوری نہ کی تو جمہوریت کو نقصان پہنچ سکتا ہے، ملک ایسے اقتصادی اور سیاسی حالات میں پہنچ چکا ہے جہاں جمہوریت کو خطرہ ہے، ایم کیو ایم صرف جمہوریت کو بچانا چاہتی ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ ہم نے ابھی پی پی سے کوئی معاہدہ نہیں کیا اور نہ ہی وزارت مانگی اور نہ ہی حکومت میں جانے کا ارادہ ہے، اگر ہم دباؤ میں ہوکر فیصلے کررہے ہوتے تو ہمارے دفاتر بند نا ہوتے اور کارکنان بھی لاپتہ نہ ہوتے۔
خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ پاکستان کی اعلی ترین عدالت کے بلدیاتی قانون کے فیصلے پر عمل درآمد کیلئے ہم پیپلز پارٹی کے ساتھ بیٹھے ہیں، سندھ میں امن و امان قائم ہونے کا زیادہ فائدہ پیپلز پارٹی کو ہوگا، اتحاد سے زیادہ اہم اختلاف رائے کے حق کو تسلیم کر کے جینے کا سلیقہ سیکھنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے قانون سازی مانگی ہے جس کے مطابق بنیادی جمہوریت کا نفاذ ہے، کسی کے پاس ملک میں یہ حق نہ ہو کہ بنیادی جمہوریت کے انتخابات کو ملتوی یا روک سکے، پی پی سے متروکہ املاک کے معاملات پر بھی بات چیت کی جائے گی، ہم مطالبات کو سنوارنے اور منوانے نکلے تھے یاداشت پیش کرنا معاہدہ نہیں ان کی طرف سے اگر یہ کہا جائے کہ مطالبات جائز ہیں تو اب حق تلفی کو دور کرنے اور ان پر عمل کرنے کےلیےمکینزم بنانا ہوگا۔
ایم کیو ایم کنونیئر کا کہنا تھا کہ 'ہم اپوزیشن کے کردار کو مزید وسیع کرنا چاہتے ہیں اگر وہ بات نہیں مانیں گے تو پھر ہم بھی یہاں وہ بھی یہاں روڈ بھی ہے اور عوام بھی، اگر وہ مان رہے ہیں تو کہے رہے ہیں کہ عمل کریں اب ان کو ایک موقع تو دینا ہی ہے، ہم عوام کے مسائل اور ان کے مفاد کو مقدم رکھ رہے ہیں اور اُن کے مینڈیٹ کو تسلیم کرانے نکلے ہیں آج کسی بھی وجہ سے جماعتیں ہماری بات سنے کو تیار ہیں تو یہ ہماری کامیابی ہے'۔
خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ہمارے مطالبات جائز ہیں اور اسکو پورا کرنے کےلیے حکمت عملی بنائیں گے، ہم پیپلز پارٹی کے ساتھ پھر بیٹھیں گے، پندرہ سالوں میں شہری علاقوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک سب کے سامنے ہے ہم ان زیادتیوں ، ظلم کے خلاف ایوان ، سڑکوں اور عدالتوں پرآواز بلند کرتی رہے اور اپنے مطالبات کو لے کر وزیراعلی ہاؤس بھی گئے اب اگر یہ مطالبات سنے جارہے ہیں تو ہم نے پیپلز پارٹی کو اپنے مطالبات کی یاداشت پیش کردی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایم کیو ایم سندھ کے شہری علاقوں کے ساتھ ہونے والی ظلم و زیادتیوں کے ساتھ جدوجہد کر رہی ہے، ایوانوں، عدالتوں اور سڑکوں پر احتجاج بلند کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں،وزیر اعلی ہاؤس پر گئے کہ ہمارے مطالبات سنے جائیں، اب جب کہ ہمارے مطالبات جائز سمجھے گئے ہیں ہماری حق تلفیوں کو تسلیم کیا گیا ہے تو اس پر ایک نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے۔
خالد مقبول صدیقی نے گفتگو کے آخر میں کہا کہ 'میں ان لوگوں سے بھی مخاطب ہوں جو ہر اچھے برے وقت میں ہمارے ساتھ کھڑے رہے، ہم آپ کا مقدمہ اور مسائل لے کر حکمرانوں کو پاس بیٹھے ہیں، یہ وہی مطالبے ہیں جو ہم گزشتہ کئی برسوں سے دہرا رہے ہیں، پی پی نے نہ حکومت کی پیشکش کی ہے نہ ہی ہمارا ارادہ ہےجمہوریت کے لئے جتنی ضرورت حکومت کی ہی اتنی ہی اپوزیشن کی ہے، اگر وہ مطالبات پر بات چیت کرنا چاہتے ہیں تو ہم ہر گھڑی تیار ہیں، ہم سمجھتے ہیں ایسے کسی قدم کے لئے پہلے بھروسا قائم کرنا بہت ضروری ہے، گزشتہ 15 سالوں سے ہمیں دیوار سے لگایا گیا ہے، بھروسا قائم کروانے کے لیے ہمیں دیوار سے نکالنے کی ضرورت ہے۔
اسلام آباد سے کراچی واپس پہنچنے کے بعد عارضی مرکز بہادر آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ خطرے کا نشان سرخ( لال) ہے، اس میں احتیاط کی ضرورت ہے اگر سب نے ذمے داری پوری نہ کی تو جمہوریت کو نقصان پہنچ سکتا ہے، ملک ایسے اقتصادی اور سیاسی حالات میں پہنچ چکا ہے جہاں جمہوریت کو خطرہ ہے، ایم کیو ایم صرف جمہوریت کو بچانا چاہتی ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ ہم نے ابھی پی پی سے کوئی معاہدہ نہیں کیا اور نہ ہی وزارت مانگی اور نہ ہی حکومت میں جانے کا ارادہ ہے، اگر ہم دباؤ میں ہوکر فیصلے کررہے ہوتے تو ہمارے دفاتر بند نا ہوتے اور کارکنان بھی لاپتہ نہ ہوتے۔
خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ پاکستان کی اعلی ترین عدالت کے بلدیاتی قانون کے فیصلے پر عمل درآمد کیلئے ہم پیپلز پارٹی کے ساتھ بیٹھے ہیں، سندھ میں امن و امان قائم ہونے کا زیادہ فائدہ پیپلز پارٹی کو ہوگا، اتحاد سے زیادہ اہم اختلاف رائے کے حق کو تسلیم کر کے جینے کا سلیقہ سیکھنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے قانون سازی مانگی ہے جس کے مطابق بنیادی جمہوریت کا نفاذ ہے، کسی کے پاس ملک میں یہ حق نہ ہو کہ بنیادی جمہوریت کے انتخابات کو ملتوی یا روک سکے، پی پی سے متروکہ املاک کے معاملات پر بھی بات چیت کی جائے گی، ہم مطالبات کو سنوارنے اور منوانے نکلے تھے یاداشت پیش کرنا معاہدہ نہیں ان کی طرف سے اگر یہ کہا جائے کہ مطالبات جائز ہیں تو اب حق تلفی کو دور کرنے اور ان پر عمل کرنے کےلیےمکینزم بنانا ہوگا۔
ایم کیو ایم کنونیئر کا کہنا تھا کہ 'ہم اپوزیشن کے کردار کو مزید وسیع کرنا چاہتے ہیں اگر وہ بات نہیں مانیں گے تو پھر ہم بھی یہاں وہ بھی یہاں روڈ بھی ہے اور عوام بھی، اگر وہ مان رہے ہیں تو کہے رہے ہیں کہ عمل کریں اب ان کو ایک موقع تو دینا ہی ہے، ہم عوام کے مسائل اور ان کے مفاد کو مقدم رکھ رہے ہیں اور اُن کے مینڈیٹ کو تسلیم کرانے نکلے ہیں آج کسی بھی وجہ سے جماعتیں ہماری بات سنے کو تیار ہیں تو یہ ہماری کامیابی ہے'۔
خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ہمارے مطالبات جائز ہیں اور اسکو پورا کرنے کےلیے حکمت عملی بنائیں گے، ہم پیپلز پارٹی کے ساتھ پھر بیٹھیں گے، پندرہ سالوں میں شہری علاقوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک سب کے سامنے ہے ہم ان زیادتیوں ، ظلم کے خلاف ایوان ، سڑکوں اور عدالتوں پرآواز بلند کرتی رہے اور اپنے مطالبات کو لے کر وزیراعلی ہاؤس بھی گئے اب اگر یہ مطالبات سنے جارہے ہیں تو ہم نے پیپلز پارٹی کو اپنے مطالبات کی یاداشت پیش کردی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایم کیو ایم سندھ کے شہری علاقوں کے ساتھ ہونے والی ظلم و زیادتیوں کے ساتھ جدوجہد کر رہی ہے، ایوانوں، عدالتوں اور سڑکوں پر احتجاج بلند کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں،وزیر اعلی ہاؤس پر گئے کہ ہمارے مطالبات سنے جائیں، اب جب کہ ہمارے مطالبات جائز سمجھے گئے ہیں ہماری حق تلفیوں کو تسلیم کیا گیا ہے تو اس پر ایک نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے۔
خالد مقبول صدیقی نے گفتگو کے آخر میں کہا کہ 'میں ان لوگوں سے بھی مخاطب ہوں جو ہر اچھے برے وقت میں ہمارے ساتھ کھڑے رہے، ہم آپ کا مقدمہ اور مسائل لے کر حکمرانوں کو پاس بیٹھے ہیں، یہ وہی مطالبے ہیں جو ہم گزشتہ کئی برسوں سے دہرا رہے ہیں، پی پی نے نہ حکومت کی پیشکش کی ہے نہ ہی ہمارا ارادہ ہےجمہوریت کے لئے جتنی ضرورت حکومت کی ہی اتنی ہی اپوزیشن کی ہے، اگر وہ مطالبات پر بات چیت کرنا چاہتے ہیں تو ہم ہر گھڑی تیار ہیں، ہم سمجھتے ہیں ایسے کسی قدم کے لئے پہلے بھروسا قائم کرنا بہت ضروری ہے، گزشتہ 15 سالوں سے ہمیں دیوار سے لگایا گیا ہے، بھروسا قائم کروانے کے لیے ہمیں دیوار سے نکالنے کی ضرورت ہے۔