اندیشے ہی اندیشے

سیاسی منظر میں گرج چمک کے ساتھ ساتھ معیشت کے ریگزار میں بھی کئی طوفان جمع ہو رہے ہیں



ISLAMABAD: او آئی سی کانفرنس خیریت سے ہو گئی۔ مہمان اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ اس کے ساتھ ہی اسلام آباد میں سیاسی دنگل سجانے میں جو وقفہ مجبوراً لینا پڑا وہ ختم ہوا۔ اب فریقین آزاد ہو کر پھر سے میدان میں کود پڑے ہیں۔

اسپیکر قومی اسمبلی نے فاتحہ خوانی کے بعد اجلاس تین دن کے لیے ملتوی کر دیا۔اپوزیشن کا احتجاج بے سود رہا۔ اسپیکر رولنگ دے کر اپنے چیمبر واپس چلے گئے۔ اپوزیشن نے اس اقدام پر شدید احتجاج کیا۔ اگلے اجلاس تک کے تینوں دن مزید اہم اور اندیشوں سے بھرپور ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان اتوار کو میدان سجانے کی تیاریوں میں ہیں۔ بقول ان کے ملکی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ ہو گا۔ اس جلسے کے ساتھ ان کی یہ چتاونی کہ وہ ایک اہم اعلان کریں گے۔ یہ اعلان کیا ہوگا؟ یہ ترپ کا کونسا پتہ ہوگا؟ میڈیا ٹاک شوز اور عوامی محفلوں میں یہی موضوع زیر بحث ہے۔

وزیر داخلہ شیخ رشیدکا یہ کہنا کہ قبل از وقت انتخابات ہو سکتے ہیں،بے یقینی کی فضا پیدا ہوئی ہے ۔ اس سارے میلے میں عدم اعتماد کی رادھا کے لیے نو من تیل اکٹھا کرنے کا کشٹ اپنی جگہ جاری ہے۔ حکومت اطمینان دلا رہی ہے کہ اپوزیشن کے پاس نو من تیل موجود ہی نہیں تو رادھا بے چاری کیا کرے گی، جب کہ اپوزیشن نے اپنے تئیں نو من تیل کے ڈپو شو کرا دیے ہیں کہ یہ رہا نو من تیل اور یہ رہی عدم اعتماد کی رادھا۔

حکومت اب سپریم کورٹ میں 63 اے کی وضاحت کے لیے درخواست گذار ہے۔ آئینی نکتے کی وضاحت سامنے آ جائے گی مگر سیاست جس ڈگر پر چل رہی ہے اس قانونی نکتے کی وضاحت سے داؤ پیچ میں تبدیلیوں کا کچھ بوجھ ایک یا دوسرے فریق پر ضرور آئے گا۔ تاہم یہ طے ہے کہ ایک دوسرے کے سیاسی انجام کے لیے آخری حد تک جانے کا جذبہ دونوں طرف تیز آنچ پر پک رہا ہے، اس جذبہ کے ابال میں کمی کے آثار ندارد ہیں۔

سیاست کی اپنی اپنی حرکیات ہوتی ہیں۔ تسلیم کہ اگر وزیر اعظم عدم اعتماد کا شکار ہو جاتے ہیں، قانونی داؤ پیچ اس تحریک کے آڑے آنے میں کامیاب ہوتے ہیں اور نہ دس لاکھ کے مجمعے سے گزر کر ووٹ ڈالنے کا گر کام آتا ہے۔ وزیراعظم اکثریت کا اعتماد کھو بیٹھتے ہیں تو متبادل صورت میں اپوزیشن اس قدر''وسیع البنیاد اور وسیع المفاد'' اتحاد کی کوکھ سے ایک مستحکم وزیراعظم سامنے لانے اور سیاسی ماحول پیدا کرنے میں کامیاب ہو سکے گی۔ تسلیم کہ شہباز شریف کے نام پر تو اتفاق ہے مگر اس کے بعد بھی کئی جاں گسل مراحل باقی ہیں۔

سیاست اور معیشت کے یہ مراحل اپوزیشن کے اتحاد کا پہلا ٹیسٹ ہوں گے۔ پی ڈی ایم میں جس طرح دو بڑی جماعتوں کے درمیان اتحاد پارہ پارہ ہو کر بیچ بازار گرا سب کو یاد ہے۔ اس بار ایسا کچھ نہیں ہوگا، یہ فرض کرنا اچھا لگتا ہے مگر ممکن ہو ضروری تو نہیں۔

تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں موجود سیاسی ماحول میں تلخیاں مزید بڑھنے کا امکان ہے۔ وزیراعظم عمران خان عوامی رابطہ مہم کے ذریعے یا باور کروا چکے کہ بقول منیر نیازی۔۔اک وار جدوں شروع ہو جائے گل فیر ایوں مکدی نئیں۔

مرکز میں تبدیلیوں کی ہوا چلنے کے بعد پنجاب اور بلوچستان بلکہ کے پی میں تبدیلی کے جھکڑ کس سمت اور کس رفتار سے چلیں گے، اندازہ لگانا مشکل نہیں مگر یہ طے ہے کہ یہ سیاسی پیش منظر کو مزید غبار آلود کریں گے۔ اگلے سال الیکشن کی تیاری کا بگل ہلکے سروں میں بج ہی چکا ہے۔ نئی صف بندیوں اور اتحادوں کا جوڑ توڑ وقت ضایع کیے بغیر غیر اعلانیہ اور اعلانیہ شروع ہے۔

سیاسی منظر میں گرج چمک کے ساتھ ساتھ معیشت کے ریگزار میں بھی کئی طوفان جمع ہو رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کا ساتواں جائزہ مشن اس وقت جاری ہے۔ کہنے کو یہ ٹیکنیکل جائزے کے مشن پر ہے مگر سوالات اور آبزرویشنز بہت دور رس اور سنجیدہ نوعیت کی ہیں۔ انفرادی انکم ٹیکس اور انڈسٹریل ایمنسٹی پر بنیادی اعتراضات ہیں۔ بجلی اور تیل کی قیمتوں پر حکومتی پیکیج کی موم آئی ایم ایف کی کڑی دھوپ کی شرائط کے سامنے ٹھہر پائے گی یا نہیں، وقت ہی بتا پائے گا۔

اگر عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہو جاتی ہے تو بھی ملکی سیاست میں اعتماد اور استحکام کو پاؤں ٹکانے کی جگہ شاید نہ مل سکے۔ اسپیکر نے گزشتہ کل کا اجلاس ایک پارلیمانی روایت کا سہارا لے کر سوموار تک ملتوی کر دیا۔ ایک بھولا بھٹکا ممبر حکومتی بنچوں پر واپس آ چکا۔ اپوزیشن اور حکومت اپنے اپنے انداز میں اس نئی صورتحال سے جس بھی انداز سے نبرد آزما ہوں، اس کی کوکھ سے سیاسی بقا کے داؤ پیچ تو برآمد ہوں گے مگر استحکام کا خالی ڈکار بھی شاید برآمد نہ ہو۔

عالمی سیاسی اور معاشی منظر نامے میں ملک میں جاری سیاسی محاذ آرائی اور شدید سیاسی مخاصمت سے سیاسی اور معاشی میدان میں ملک کو جس یکسوئی اور استحکام کی ضرورت ہے,اس کا شائبہ دور دور بھی نہیں۔ سوچیں تو اندیشوں کے جھکڑ دکھائی دیتے ہیں۔ اس برہمن کو ڈھونڈنے کی ضرورت ہے جو بتا سکے کہ باقی ماندہ سال بھی ایسے ہی اچھے حالوں گزرے گا یا کچھ اورتوقع باندھیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں