اسپیکر کا کردار
پارلیمانی روایات کے تحت اسپیکر اسمبلی کا کسٹوڈین ہوتا ہے۔ اس کی غیر جانبداری سے اسمبلی اپنا فریضہ پورا کرتی ہے
لاہور:
تحریک عدم اعتماد اور حکومتوں کی تبدیلی جمہوری نظام کا لازمی جز ہے۔ یورپی ممالک میں یہ عمل انتہائی معمولی ہوتا ہے۔ سیاسی حلقوں اور میڈیا میں خبروں کے علاوہ باقی سب کچھ معمول کے مطابق ہوتا ہے۔
یونیورسٹی میں محققین ضرور اس تبدیلی کے محرکات اور اثرات پر تحقیق کرتے ہیں ، مگر وزیر اعظم عمران خان کے خلاف جیسے ہی قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوئی حکومتی حلقوں میں بھونچال آگیا۔ تحریک عدم اعتماد میں قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹ کے چیئرمین کا کردار سب سے زیادہ اہم ہوتا ہے ، اگرچہ اسپیکرکا تعلق حکمراں جماعت سے ہوتا ہے مگر اس کو اپنی غیر جانبداری کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔
موجودہ اسپیکر اسد قیصرکا شمار خیبر پختون خوا کے سینئر سیاست دانوں میں ہوتا ہے، وہ تحریک انصاف کے بانی اراکین میں شامل ہیں جو شفاف نظامِ حکومت کے نعرے پر عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی تھی ، وہ خیبر پختون خوا اسمبلی کے اسپیکر رہ چکے ہیں ،انھوں نے پہلے ہی دن عمران خان سے وفاداری نبھاتے ہوئے کہا کہ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا اور حکومت برقرار رہے گی۔
اسپیکر نے صحافیوں کے سوال پر کہا کہ وہ جب چاہیں اجلاس بلوائیں گے اور پھر اجلاس بلا کر اس کو ملتوی کردیں گے اور وہ کتنے دن اجلاس ملتوی کرتے ہیں۔ یہ ان کا استحقاق ہے اور قومی اسمبلی کے قواعد و ضوابط انھیں اس کا حق دیتے ہیں۔ آئین کے تحت قومی اسمبلی کا اجلاس کم سے کم سات دن اور زیادہ سے زیادہ 14 دن میں بلانا لازمی ہے مگر اسے نظرانداز کر دیا گیا اور 25 مارچ کو اجلاس بلانے کا نوٹیفکیشن جاری ہوا۔
سپریم کورٹ میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی تحریک عدم اعتماد سے متعلق عرض داشت کی سماعت کے دوران پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے معزز عدالت کے سامنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اسپیکر نے قومی اسمبلی کا اجلاس نہ بلا کر آئین کے آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی کی ہے ، یوں موصوف آئین کے آرٹیکل کے تحت غداری کے مرتکب ہوئے ہیں ، ان کے خلاف مقدمہ درج ہونا چاہیے۔
اٹارنی جنرل نے جواب میں کوئی دلیل پیش نہیں کی ، بلکہ کہا کہ پہلے ان لوگوں پر مقدمہ چلوائیں ، آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی پر جن کے خلاف مقدمہ زیرِ سماعت ہے۔ اس رویہ سے سیاسی منظر نامہ پرکشیدگی کا گراف بڑھ گیا ہے۔ برطانیہ اور بھارت کی پارلیمانی تاریخ میں اسپیکرکی غیر جانبداری کی بہت سے روایات کا پتہ چلتا ہے ، ہمارے ملک میں بھی بعض سیاست دانوں نے اسپیکر کی حیثیت سے تاریخی کردار ادا کیا ہے۔
ملک معراج خالد کا تعلق مغربی اور مشرقی پنجاب کی سرحد پر قائم برکی ضلع کے ایک انتہائی غریب خاندان سے تھا۔ ان کا خاندان لاہور میں دودھ کا کاروبار کرتا تھا۔ ملک معراج خالد نے غربت میں تعلیم حاصل کی۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے اور میرے والد کے پاس جوتے کا ایک جوڑا تھا۔ جب میں کالج جاتا تو وہ جوتا پہنتا ، جب والد صاحب دودھ بیچنے جاتے تو وہ یہ جوتا پہن کر جاتے تھے۔ ملک معراج خالد پیپلز پارٹی کے بانی ارکان میں شامل تھے۔
انھوں نے جنرل ایوب خان کے خلاف تحریک میں حصہ لیا تھا۔ پولیس کی لاٹھیاں اور آنسو گیس کے گولے سے پیدا ہونے والی بو کو لاہور کی سخت گرمیوں میں برداشت کیا تھا۔ جب پیپلز پارٹی 20دسمبر 1971ء کو برسر اقتدار آئی تو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے انھیں کچھ عرصہ کے لیے پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنایا ۔ جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف وہ پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو متحرک کرنے کا فریضہ انجام دیتے رہے۔
اس دور میں انھیں پنجاب کی مختلف جیلوں کی ہوا کھانی پڑی۔ بھٹو صاحب کی پھانسی کے خلاف وہ مزاحمتی تحریک کا حصہ تھے۔ 1983ء میں ایم آر ڈی کی تحریک میں انھوں نے رضاکارانہ طور پر گرفتاری دی اور مہینوں انھیں پنجاب کی مختلف جیلوں کی سیر کرائی جاتی رہی۔
1988ء کے عام انتخابات میں ملک معراج خالد لاہور کے حلقہ سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ بے نظیر بھٹو نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا۔ پیپلز پارٹی کی پارلیمانی پارٹی نے ملک معراج خالدکو اسپیکر کے عہدے کے لیے نامزد کیا، وہ ایک سخت مقابلے کے بعد اسپیکر منتخب ہوئے۔
اس اسمبلی میں پیپلز پارٹی اکثریتی ووٹوں سے اقتدار میں آئی تھی۔ اس قومی اسمبلی میں حزب اختلاف میں پیپلز پارٹی کے منحرف رہنما غلام مصطفی جتوئی اور ملک مصطفی کھر بھی موجود تھے اور جنرل ضیاء الحق کی باقیات بھی تھیں۔ شیخ رشید بھی منتخب ہوئے تھے۔ صدر غلام اسحاق خان شطرنج کی چالیں چل رہے تھے اور اراکین اسمبلی کو ہراساں کیے جانے کے الزامات لگنے لگے۔
پیپلز پارٹی کی طرف سے بیرسٹر اعتزاز احسن، یوسف رضا گیلانی، شاہ محمود قریشی اور مخدوم خلیق الزماں جیسے مقرر حزب اختلاف کے اراکین کے حملوں کے جوابات کے لیے تیار رہتے تھے، یوں اسمبلی کا ماحول خاصا گرم رہتا تھا۔ ایسے ماحول میں وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی۔ بے نظیر بھٹو کا کہنا تھا کہ اس تحریک کے لیے اسامہ بن لادن نے سرمایہ فراہم کیا تھا مگر ملک معراج خالد نے اپنے حلف کی پاسداری کی۔
ان کے پاس بھی اختیار تھا کہ تحریک عدم اعتماد پر بحث کے لیے اجلاس بلانے میں تاخیر کریں۔ اس تحریک پر بحث کرنے کے لیے آئین میں 7 سے 14 دن کا وقف دیا گیا ہے مگر ملک صاحب نے تحریک پیش ہونے کے پہلے 7دن میں اجلاس بلایا۔
اجلاس والے دن اسپیکر صاحب نے وزراء اور حزب اختلاف کے رہنماؤں کو قرارداد کے حق اور مخالفت میں دلائل دینے کے لیے یکساں وقت دیا۔ انھوں نے قطعی طور پر غیر جانبدارانہ رویہ اختیار کیا کہ حکومت کے پاس بعض حامیوں نے ملک معراج خالد پر حزب اختلاف کی ہمدردی کا الزام عائد کیا۔ ملک معراج خالد نے پارلیمانی روایت کو قائم کرکے آنے والے اسپیکرز کے لیے ایک زندہ مثال قائم کردی۔
موجودہ حکومتی ارکان کے رویہ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ جمہوری نظام کو سمجھتے ہی نہیں۔تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے اپنی جماعت کے منحرفین پر ضمیر فروشی کے الزامات لگانا اور طعنہ زنی کرتے ہوئے یہ کہا گیا کہ منحرفین اراکین کی بچوں سے رشتے نہ کیے جائیں۔ سیاست میں عدم مداخلت کو '' نیوٹرل '' کا نام دے کر جانوروں سے تشبیہ دی گئی اور مخالفین کو منفی القابات سے نوازنے کی بناء پر ماحول کشیدہ ہوا۔
وزراء اور مشیروں کی منحرفین کے خلاف سخت زبان استعمال کرنے کے ماحول سے محسوس ہوتا ہے کہ اس فضاء سے اسپیکر بھی متاثر ہورہے ہیں۔ پارلیمانی روایات کے تحت اسپیکر اسمبلی کا کسٹوڈین ہوتا ہے۔ اس کی غیر جانبداری سے اسمبلی اپنا فریضہ پورا کرتی ہے۔ اسپیکر صاحب کا غیر جانب داری کی روایات برقرار رکھنی چاہیے ۔
تحریک عدم اعتماد اور حکومتوں کی تبدیلی جمہوری نظام کا لازمی جز ہے۔ یورپی ممالک میں یہ عمل انتہائی معمولی ہوتا ہے۔ سیاسی حلقوں اور میڈیا میں خبروں کے علاوہ باقی سب کچھ معمول کے مطابق ہوتا ہے۔
یونیورسٹی میں محققین ضرور اس تبدیلی کے محرکات اور اثرات پر تحقیق کرتے ہیں ، مگر وزیر اعظم عمران خان کے خلاف جیسے ہی قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوئی حکومتی حلقوں میں بھونچال آگیا۔ تحریک عدم اعتماد میں قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹ کے چیئرمین کا کردار سب سے زیادہ اہم ہوتا ہے ، اگرچہ اسپیکرکا تعلق حکمراں جماعت سے ہوتا ہے مگر اس کو اپنی غیر جانبداری کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔
موجودہ اسپیکر اسد قیصرکا شمار خیبر پختون خوا کے سینئر سیاست دانوں میں ہوتا ہے، وہ تحریک انصاف کے بانی اراکین میں شامل ہیں جو شفاف نظامِ حکومت کے نعرے پر عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی تھی ، وہ خیبر پختون خوا اسمبلی کے اسپیکر رہ چکے ہیں ،انھوں نے پہلے ہی دن عمران خان سے وفاداری نبھاتے ہوئے کہا کہ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا اور حکومت برقرار رہے گی۔
اسپیکر نے صحافیوں کے سوال پر کہا کہ وہ جب چاہیں اجلاس بلوائیں گے اور پھر اجلاس بلا کر اس کو ملتوی کردیں گے اور وہ کتنے دن اجلاس ملتوی کرتے ہیں۔ یہ ان کا استحقاق ہے اور قومی اسمبلی کے قواعد و ضوابط انھیں اس کا حق دیتے ہیں۔ آئین کے تحت قومی اسمبلی کا اجلاس کم سے کم سات دن اور زیادہ سے زیادہ 14 دن میں بلانا لازمی ہے مگر اسے نظرانداز کر دیا گیا اور 25 مارچ کو اجلاس بلانے کا نوٹیفکیشن جاری ہوا۔
سپریم کورٹ میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی تحریک عدم اعتماد سے متعلق عرض داشت کی سماعت کے دوران پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے معزز عدالت کے سامنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اسپیکر نے قومی اسمبلی کا اجلاس نہ بلا کر آئین کے آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی کی ہے ، یوں موصوف آئین کے آرٹیکل کے تحت غداری کے مرتکب ہوئے ہیں ، ان کے خلاف مقدمہ درج ہونا چاہیے۔
اٹارنی جنرل نے جواب میں کوئی دلیل پیش نہیں کی ، بلکہ کہا کہ پہلے ان لوگوں پر مقدمہ چلوائیں ، آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی پر جن کے خلاف مقدمہ زیرِ سماعت ہے۔ اس رویہ سے سیاسی منظر نامہ پرکشیدگی کا گراف بڑھ گیا ہے۔ برطانیہ اور بھارت کی پارلیمانی تاریخ میں اسپیکرکی غیر جانبداری کی بہت سے روایات کا پتہ چلتا ہے ، ہمارے ملک میں بھی بعض سیاست دانوں نے اسپیکر کی حیثیت سے تاریخی کردار ادا کیا ہے۔
ملک معراج خالد کا تعلق مغربی اور مشرقی پنجاب کی سرحد پر قائم برکی ضلع کے ایک انتہائی غریب خاندان سے تھا۔ ان کا خاندان لاہور میں دودھ کا کاروبار کرتا تھا۔ ملک معراج خالد نے غربت میں تعلیم حاصل کی۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے اور میرے والد کے پاس جوتے کا ایک جوڑا تھا۔ جب میں کالج جاتا تو وہ جوتا پہنتا ، جب والد صاحب دودھ بیچنے جاتے تو وہ یہ جوتا پہن کر جاتے تھے۔ ملک معراج خالد پیپلز پارٹی کے بانی ارکان میں شامل تھے۔
انھوں نے جنرل ایوب خان کے خلاف تحریک میں حصہ لیا تھا۔ پولیس کی لاٹھیاں اور آنسو گیس کے گولے سے پیدا ہونے والی بو کو لاہور کی سخت گرمیوں میں برداشت کیا تھا۔ جب پیپلز پارٹی 20دسمبر 1971ء کو برسر اقتدار آئی تو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے انھیں کچھ عرصہ کے لیے پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنایا ۔ جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف وہ پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو متحرک کرنے کا فریضہ انجام دیتے رہے۔
اس دور میں انھیں پنجاب کی مختلف جیلوں کی ہوا کھانی پڑی۔ بھٹو صاحب کی پھانسی کے خلاف وہ مزاحمتی تحریک کا حصہ تھے۔ 1983ء میں ایم آر ڈی کی تحریک میں انھوں نے رضاکارانہ طور پر گرفتاری دی اور مہینوں انھیں پنجاب کی مختلف جیلوں کی سیر کرائی جاتی رہی۔
1988ء کے عام انتخابات میں ملک معراج خالد لاہور کے حلقہ سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ بے نظیر بھٹو نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا۔ پیپلز پارٹی کی پارلیمانی پارٹی نے ملک معراج خالدکو اسپیکر کے عہدے کے لیے نامزد کیا، وہ ایک سخت مقابلے کے بعد اسپیکر منتخب ہوئے۔
اس اسمبلی میں پیپلز پارٹی اکثریتی ووٹوں سے اقتدار میں آئی تھی۔ اس قومی اسمبلی میں حزب اختلاف میں پیپلز پارٹی کے منحرف رہنما غلام مصطفی جتوئی اور ملک مصطفی کھر بھی موجود تھے اور جنرل ضیاء الحق کی باقیات بھی تھیں۔ شیخ رشید بھی منتخب ہوئے تھے۔ صدر غلام اسحاق خان شطرنج کی چالیں چل رہے تھے اور اراکین اسمبلی کو ہراساں کیے جانے کے الزامات لگنے لگے۔
پیپلز پارٹی کی طرف سے بیرسٹر اعتزاز احسن، یوسف رضا گیلانی، شاہ محمود قریشی اور مخدوم خلیق الزماں جیسے مقرر حزب اختلاف کے اراکین کے حملوں کے جوابات کے لیے تیار رہتے تھے، یوں اسمبلی کا ماحول خاصا گرم رہتا تھا۔ ایسے ماحول میں وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی۔ بے نظیر بھٹو کا کہنا تھا کہ اس تحریک کے لیے اسامہ بن لادن نے سرمایہ فراہم کیا تھا مگر ملک معراج خالد نے اپنے حلف کی پاسداری کی۔
ان کے پاس بھی اختیار تھا کہ تحریک عدم اعتماد پر بحث کے لیے اجلاس بلانے میں تاخیر کریں۔ اس تحریک پر بحث کرنے کے لیے آئین میں 7 سے 14 دن کا وقف دیا گیا ہے مگر ملک صاحب نے تحریک پیش ہونے کے پہلے 7دن میں اجلاس بلایا۔
اجلاس والے دن اسپیکر صاحب نے وزراء اور حزب اختلاف کے رہنماؤں کو قرارداد کے حق اور مخالفت میں دلائل دینے کے لیے یکساں وقت دیا۔ انھوں نے قطعی طور پر غیر جانبدارانہ رویہ اختیار کیا کہ حکومت کے پاس بعض حامیوں نے ملک معراج خالد پر حزب اختلاف کی ہمدردی کا الزام عائد کیا۔ ملک معراج خالد نے پارلیمانی روایت کو قائم کرکے آنے والے اسپیکرز کے لیے ایک زندہ مثال قائم کردی۔
موجودہ حکومتی ارکان کے رویہ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ جمہوری نظام کو سمجھتے ہی نہیں۔تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے اپنی جماعت کے منحرفین پر ضمیر فروشی کے الزامات لگانا اور طعنہ زنی کرتے ہوئے یہ کہا گیا کہ منحرفین اراکین کی بچوں سے رشتے نہ کیے جائیں۔ سیاست میں عدم مداخلت کو '' نیوٹرل '' کا نام دے کر جانوروں سے تشبیہ دی گئی اور مخالفین کو منفی القابات سے نوازنے کی بناء پر ماحول کشیدہ ہوا۔
وزراء اور مشیروں کی منحرفین کے خلاف سخت زبان استعمال کرنے کے ماحول سے محسوس ہوتا ہے کہ اس فضاء سے اسپیکر بھی متاثر ہورہے ہیں۔ پارلیمانی روایات کے تحت اسپیکر اسمبلی کا کسٹوڈین ہوتا ہے۔ اس کی غیر جانبداری سے اسمبلی اپنا فریضہ پورا کرتی ہے۔ اسپیکر صاحب کا غیر جانب داری کی روایات برقرار رکھنی چاہیے ۔