ملک میں سیاسی عدم استحکام ذمے دار کون

جمہوریت کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ جمہوری رویے کو بھی فروغ دیا جائے

jabbar01@gmail.com

سیاسی استحکام اور ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت دو مختلف چیزیں ہیں۔ ملک کے سیاسی استحکام کی ذمے داری سیاست دانوں پر عائد ہوتی ہے جب کہ ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت فوج کا کام ہے ، جب ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہو جاتا ہے تو فوج کا ذہن ملک کی جغرافیائی سرحدوں کے حوالے سے فکر مند ہو جاتا ہے ، انھیں اس بات کا اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں ملک عدم استحکام کے نتیجے میں اتنا مفلوج نہ ہو جائے کہ اس کی سالمیت اور وجود خطرے میں پڑ جائے۔

ایسے حالات میں ممکن نہیں ہوتا کہ فوج خاموش تماشائی بنی بیٹھی رہے ،کیونکہ فوج ایک منظم ادارہ کی صورت میں اپنا وجود رکھتی ہے لہٰذا وہ حالات کا جائزہ لے کر آسانی سے اقتدار پر قبضہ کرلیتی ہے۔ یہ ہے تصویرکا ایک رخ۔

آئیے اب تصویرکے دوسرے رخ کا جائزہ بھی لیتے ہیں۔ جب ملک میں مارشل لا نافذ ہوتا ہے تو اس عمل کے نتیجے میں جو آمریت ملک پر مسلط ہوتی ہے ، اس سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے۔ مارشل لا کی سواری ہوتی ہے جو ہوتی تو بڑی شان دار ہے لیکن اس میں سوار کو یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ اگر وہ اترا تو کیا حالات ہوں گے اور اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔

یہی وجہ ہے کہ مارشل لا کے ذریعے اقتدار میں آنے والے قومی مفادات کے بجائے اپنے اقتدارکو تحفظ دینے کی فکر میں مبتلا رہتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ایسے اقدامات اٹھاتے ہیں جن سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ ہماری سیاسی زندگی کا بیشتر حصہ آمریت کے زیر اثر گزرا ہے جس کے بہت زیادہ منفی اثرات مرتب ہوئے۔ شاید سیاسی اتائی اسے نظرانداز کردیں مگر ہماری تاریخ اسے نظرانداز نہیں کرسکتی۔

آمریت کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اس میں اظہار رائے پر پابندی ہوتی ہے جب لوگوں کو اظہار رائے کے حق سے محروم کیا جاتا ہے تو وہ مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ گھٹن زدہ ماحول میں چھوٹے چھوٹے مسائل بھی قومی بحرانوں کا روپ دھار لیتے ہیں۔ تاریخ کا یہ سبق ہے کہ اگر بھاپ کا راستہ روکیں گے تو کیتلی پھٹ جائے گی۔ پاکستان میں پرتشدد تحریکوں کے وجود میں یہی عنصر کارفرما رہا ہے۔

آمریت کا دوسرا نقصان یہ ہے کہ اس میں سیاسی عمل پر پابندی ہوتی ہے۔ جب ہم معاشرے میں ''سیاست'' کو زندگی کے دیگر مشاغل سے الگ کردیتے ہیں تو اس کے نتیجے میں فرد کا معاشرے سے رشتہ ٹوٹ جاتا ہے ، اس کی سوچ کا دائرہ اجتماعی حوالے سے نکل کر انفرادی ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں سیاسی بیگانگی عرف عام میں خود غرضی کا کلچر فروغ پاتا ہے جس سے معاشرے میں جمود طاری ہو جاتا ہے اور ملک کی قومی یکجہتی کو نقصان ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ مہذب دنیا میں مارشل لا کو نہ صرف نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے بلکہ اسے قومی خودکشی کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ میری ذاتی رائے میں فوج کا سیاست میں مداخلت کرنا ایسا ہی ہے جیسے ایک مریض کی حالت بہت زیادہ خراب ہو، ایک سنیاسی (اتائی) ڈاکٹروں کو دھکا دے کر آگے بڑھے اور کہے کہ میں جڑی بوٹیوں یعنی طاقت سے اس کا علاج کروں گا ، جو لوگ سیاسی نظام کی اصطلاح کے حوالے سے فوجی مداخلت کے حامی ہیں انھیں اس بات پر غور ضرور کرنا چاہیے۔


موجودہ حالات میں ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار نظر آتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کا ذمے دارکون ہے؟ بعض عناصر اس کی ذمے داری سیاست دانوں پر عائد کرتے ہیں ، ان کے نزدیک سیاستدانوں کے باہمی تصادم اور ٹکراؤ اور مفاد پرستانہ سیاست کی وجہ سے ملک میں جمہوری نظام استحکام حاصل نہ کرسکا۔

کچھ عناصر کے نزدیک ہمارے یہاں حکومت اور اصل طاقت کا سرچشمہ بیوروکریسی رہی ہے یعنی اقتدار و اختیارات ان قوتوں کے ہاتھوں میں رہا ہے جس کو نہ عوامی تائید حاصل رہی ہے اور نہ ہی وہ عوام کے سامنے جواب دہ ہے۔ کمزور سیاسی جماعتوں کے ہونے کی وجہ سے سیاسی جماعتیں افسر شاہی کے فراہم کردہ دائرہ عمل کے اندرکام کرنے پر مجبور رہی ہیں جس کے نتیجے میں پاکستان میں جمہوری روایات فروغ نہ پا سکیں اور نہ ہی جمہوریت کو استحکام حاصل ہوسکا۔

ان عناصرکو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ سیاسی جماعتیں کسی فوجی ادارے کی طرح ایک کمان کے تحت کام نہیں کرتیں۔ سیاسی جماعتیں مختلف رویوں ، افکار اور امنگوں کی نمایندگی کرتی ہیں ، اس لیے ان کے مابین اختلافات بھی ہوتے ہیں۔ اسی بنیاد پر ان کے درمیان نظریاتی اور فکری بنیادوں پر فرق بھی پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے یہ اپنا الگ الگ منشور رکھتی ہیں۔ اسی بنیاد پر ان کے مابین تصادم اور فکری ٹکراؤ ہونا فطری بات ہے اس عمل کو ناپسندیدہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔

جہاں تک سیاسی جماعتوں کے کمزور اور منظم نہ ہونے کا تعلق ہے تو ہمیں اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ اس کی بڑی وجہ بار بار کا مارشل لا ہے جس کی وجہ سے سیاسی جماعتیں اپنے آپ کو منظم نہ کرسکیں اور انھیں اپنے کارکنوں کی سیاسی تربیت کا موقع نہ مل سکا۔ حقیقی جمہوری ادارے صرف وہی جماعتیں بنا سکتی ہیں جو وسیع بنیادوں پر منظم ہوں۔ یہ شرط اس وقت پوری ہو سکتی ہے جب ملک پر منتخب حکومت کا اقتدار قائم رہے۔ ہمارے یہاں جمہوری دور بھی رہا ہے لیکن وقتاً فوقتاً اس کی نشوونما میں دخل اندازی کی جاتی رہی ہے جس کی وجہ سے جمہوریت کے وہ ثمرات سامنے نہ آسکے جو آنے چاہیے تھے۔

سوال یہ ہے کہ جمہوریت کے استحکام کے لیے کیا کیا جانا چاہیے؟ میری ذاتی رائے میں ہمیں سب سے پہلے سیاست دانوں کو قابل نفرت بنانے کے عمل سے گریز کرنا ہوگا اور سیاسی جماعتوں کی اہمیت کو تسلیم کرنا ہوگا۔ یہ سیاست دان اور سیاسی جماعتیں ہی ہوتی ہیں جو عوام کو منظم کرکے انھیں لائحہ عمل فراہم کرتی ہیں اور انھیں عمل پر آمادہ کرکے ملک کو خوشحالی کے راستے پر گامزن کرتی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جنرل ایوب خان ، جنرل ضیا الحق اور جنرل مشرف نے سیاسی جماعتیں تشکیل دیں ، ملک محفوظ رہا، جنرل یحییٰ خان نے سیاسی جماعت تشکیل نہ دی ملک دو ٹکڑے ہوگیا۔

جمہوریت کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ جمہوری رویے کو بھی فروغ دیا جائے۔ پاکستان کے سیاسی نظام میں یہ بات دیکھی گئی ہے کہ ہر حکومت میں کوئی نہ کوئی نام نہاد ارسطو اور بقراط ہوتا ہے جو اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے اور عوام کی توجہ ان ناکامیوں سے ہٹانے کے لیے سیاسی جماعتوں کے مابین نظریاتی لڑائی کی سمت کا رخ موڑکر اسے شخصی تصادم میں تبدیل کردیتا ہے۔

میری ذاتی رائے میں یہی عناصر ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کے ذمے دار ہوتے ہیں، جب تک ان عناصرکی حوصلہ افزائی کے بجائے انھیں سیاست سے باہر نہیں کیا جاتا ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار رہے گا۔یاد رکھیں حقائق تسلیم کرنے کے لیے نہیں غورکرنے کے لیے ہوتے ہیں سیاست اور اجتماعی معاملات میں جذباتی باتیں نتیجہ خیز نہیں ہوتیں بلکہ نقصان دہ ہوتی ہیں، ہمیں اس پر غور ضرور کرنا چاہیے۔
Load Next Story