خانہ جنگی کی کسر باقی

وفاقی حکومت کو اپنے ما تحت سیکیورٹی اداروں اور ایجنسیوں سے پوچھ گچھ کرنی چاہیے کہ ان سے غفلت کہاں ہوئی


Muhammad Saeed Arain March 27, 2022
[email protected]

THEKRI WALA: وفاقی حکمران پارٹی نے الیکشن کمیشن کے منع کرنے کے باوجود بالادیرکے بعد اپنی صوبائی حکومت کے وزیر اعلیٰ محمود خان کے آبائی حلقے سوات میں جلسہ کیا اور قوم سے کہا کہ وہ برائی کے خلاف کھڑی ہو اور 27 مارچ کو ڈی چوک اسلام آباد میں بڑی تعداد میں جمع ہو، جہاں ایک گیند سے تین وکٹیں گریں گی۔

وزیر اعظم نے کہا کہ میں سب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا ہوں۔ سندھ ہاؤس میں نوٹوں کی بوریوں سے ضمیر کے سودے ہو رہے ہیں۔ اپوزیشن کو ڈر ہے کہ عمران خان تھوڑی دیر اور رہ گیا تو یہ جیل جائیں گے اور اگر یہ کامیاب ہوگئے تو ان کا پہلا کام نیب کو ختم کرنا ہوگا ، جو ان کی کرپشن کی تحقیقات کر رہا ہے۔ وزیر اعظم نے سوات جلسے پر انھیں انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر ایک اور نوٹس جاری کرنے والے الیکشن کمیشن سے پوچھا کہ '' وہ بتائے کیا ہارس ٹریڈنگ کی اجازت ہے؟''

اپوزیشن پارٹی پیپلز پارٹی کی صرف سندھ میں حکومت ہے اور پی ٹی آئی کی وفاق سمیت پنجاب، کے پی، آزاد کشمیر، جی بی میں مکمل اپنی اور بلوچستان میں اتحادی حکومت ہے تو جب سندھ سے نوٹوں کی بوریاں اور گارڈ سندھ ہاؤس اسلام آباد اگر لائے گئے تو ان کی حکومتیں کہاں تھیں کہ وہ راستے میں کہیں بھی یہ بوریاں تو پکڑ ہی سکتی تھیں ' راستے میں سیکیورٹی ایجنسیوں کی درجنوں چوکیاں ہیںانھوں نے سندھ سے آنے والی گاڑیوں کو چیک کیوں نہیں کیا' اگر وہ اپنے فرائض ایمان داری سے سرانجام دیتیں تو نوٹوں کا جو الزام وفاقی حکومت لگا رہی ہے وہ حقیقت بن کر سامنے آ جاتا۔

اب وفاقی حکومت کو اپنے ما تحت سیکیورٹی اداروں اور ایجنسیوں سے پوچھ گچھ کرنی چاہیے کہ ان سے غفلت کہاں ہوئی۔ میرے خیال میں جب تک ٹھوس حقیقت سامنے نہ آ جائے تب تک کسی پر الزام تراشی نہیں کرنا چاہیے اور اب الیکشن کمیشن سے پوچھا جا رہا ہے کہ '' ہارس ٹریڈنگ جائز ہے؟ '' الیکشن کمیشن تو صرف نوٹس جاری کرنے تک محدود رہا۔ ریاست مدینہ کے قاضی کی طرح حاکم وقت کو براہ راست طلب کرسکا اور نہ ہی فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنا رہا ہے جس کے لیے الیکشن کمیشن کو متعدد درخواستیں بھی دی گئیں مگر وہ کچھ نہ کرسکا۔

لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن کی طرح وفاقی حکومت بھی اتنی بے بس ہے کہ سندھ ہاؤس آنے والی نوٹوں کی بوریاں اسلام آباد لائے جانے کو نہ روک سکی اور الیکشن کمیشن سے ہارس ٹریڈنگ کا پوچھا جا رہا ہے جس کا جواب اسے خود پتا ہے۔

پنجاب اسمبلی کے حلیف اسپیکر چوہدری پرویز الٰہی بتا چکے ہیں کہ 16 حکومتی ایم این اے ٹوٹ چکے، 12 اپوزیشن کے پاس محفوظ ہیں اس لیے وزیر اعظم کو جلسوں کے بجائے اپنے لاپتا ارکان کو تلاش کرنا چاہیے اور ہم وزیر اعظم کو بتا چکے ہیں کہ اگر آپ کے بندے ٹوٹے تو ہم حکومت کو ووٹ نہیں دیں گے۔

سیاسی کھیل میں ایسا پہلی بار نہیں ہوا ماضی کی تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ حکومت نے اپنے استحکام کے لیے اپوزیشن کے ارکان خریدنے کے لیے جائز اور ناجائز ہر حربہ استعمال کیا۔ اسی طرح اپوزیشن جماعتوں نے بھی حکومت کو کھیل سے باہر کرنے کے لیے اس کے ارکان کو اپنا ہم نوا بنانے کی بھرپور دوڑ لگائی ۔

موجودہ صورت حال میں اپوزیشن جیل جانے سے خوف زدہ ہے یا اقتدار جاتا دیکھ کر خود حکمران پارٹی، یہ تو 28 مارچ کو پتا چلے گا مگر 27 مارچ کو ڈی چوک پر جو ہونے جا رہا ہے اس سے عوام ضرور خوف زدہ ہیں۔ کیوں کہ وزیر داخلہ کہہ چکے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد عالمی سازش ہے کہ جس کے ذریعے اپوزیشن خانہ جنگی چاہتی ہے۔ ملک میں انارکی پھیلی تو اسے دس سال انتظار کرنا پڑے گا۔ وزیر اعظم بھی کہہ چکے ہیں کہ 2023 کا الیکشن بھی اپوزیشن کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔

اپوزیشن لیڈر حکومت سے پوچھ رہے ہیں کہ ملک میں مہنگائی کا طوفان چلانا اور ملک کی معیشت تباہ کرنا، بے روزگاری، ملک کو تنہا اور مقروض کردینا اور ملک کو اس حال پر پہنچا دینا کیا بیرونی سازش ہے؟ تبدیلی حکومت نے اپنے دور میں جو کچھ کیا اور حکومت بنوانے کے لیے امیر لوگوں کی کیا خدمات تھیں وہ سب حکمران پارٹی بھول چکی ہے ہیں اور اب سندھ ہاؤس میں ہونے والی مبینہ ہارس ٹریڈنگ کی بہت فکر ہے۔ حکمران پارٹی کو خدشہ ہے کہ اس کے اپنے ارکان منحرف نہ ہو جائیں اور پرویز الٰہی (ق) لیگ، ایم کیو ایم اور باپ کے 17 ووٹوں کو حکومت کے خلاف استعمال نہ کر جائیں۔

حکمران قیادت کے ساتھ اپوزیشن کو دھمکیاں دینے میں وزیر سب سے آگے ہیں اور بے حد سخت بیانات دے رہے ہیں، وفاقی وزرا میں نمبر بڑھانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے اور وہ حکومت کے اتحادیوں پر بلیک میلنگ اور ضمیر فروشی کے الزامات لگانے سے بھی گریز نہیں کر رہے حالاں کہ یہ وقت ایسی باتوں کا نہیں اتحادیوں کو منانے کا ہے۔

اتحادی بھی 27 مارچ کے حکومتی فیصلے پر اعتراضات کر رہے ہیں مگر لگتا ہے کہ حکمران پارٹی اپنے حامی 172 ممبرز پورے کرنے کے بجائے ڈی چوک پر اپنی عوامی طاقت حکومتی اختیارات استعمال کرکے دکھانا چاہ رہی ہے جس کا اندوہناک انجام خانہ جنگی کی ہی صورت میں نکلنے کا شدید خطرہ ہے کیوں کہ حکومت کے نزدیک صرف یہی انتہائی اقدام باقی رہ گیا ہے۔

ملک کو ساڑھے تین سالوں میں حکومت کے من مانے فیصلوں سے ملک و قوم کو فائدہ ہوا کہ نقصان اب اس کا فیصلہ صرف ڈی چوک پر جلسے سے نہیں ہو سکتا جہاں اپوزیشن بھی اپنی طاقت دکھانے کا اعلان کر چکی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اپوزیشن نے اپنے لانگ مارچ کا اعلان حکومت کے اعلان سے پہلے کیا تھا۔ عوامی اور سیاسی حلقوں کے مطابق حکومت کے نزدیک شاید خانہ جنگی کی کسر باقی رہ گئی تھی جو اب حکومت خود کرنے جا رہی ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں