عمران خان کی حکمت عملی
ہمارے سیاستدان سیاسی بحران تو پیدا کرنے میں ماہر ہیں لیکن بحران کو حل کرنے میں ہمیشہ ناکام رہے ہیں
جن ایام میں میں عوام فلمیں صرف سینیما ہال میں دیکھا کرتے تھے، ان دنوں پرانی اور مقبول فلمیں جب دوبارہ ریلیز ہوتی تو سینما ہالز کے باہر اور شہر بھر میں فلم کے اشتہاروں پر بڑے نمایاں انداز میں لکھا ہوتا تھا ''شرطیہ نیا پرنٹ''۔
اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ فلم تو پرانی ہے لیکن پرنٹ نیا ہے۔ فلم کا پرنٹ کئی بار چلنے سے دھندلا اور سکریچی ہو جاتا تھا جس سے فلم بین کو مزہ نہیں آتا تھا، اس لیے "شرطیہ نیا پرنٹ"لکھ دیا جاتا تھا۔
عمران خان جس جارحانہ انداز میں 27مارچ کو اسلام آباد کے پریڈ گرانڈ میں جلسے کی کال دے رہے ہیں، وہ اس بات کی شاہد ہے کہ پرنٹ نیا ہے ۔ اب کی بار نہ تو''نیا پاکستان''اور نہ ہی''امپائر کی انگلی'' اور نہ ہی''ایک پیج والا ''گھسا پٹا پرنٹ ہے بلکہ عمران خان شرطیہ نئے پرنٹ کے ساتھ آ رہے ۔ اب کی بار پرنٹ کا عنوان امر بالمعروف و نہی عن المنکر رکھا گیا۔
سیاسی تجزیہ نگار سوال پوچھ رہے ہیں کہ عمران خان یہ جلسہ کس کے لیے کر رہے ہیں؟ حکومت میں ہوتے ہوئے عمران خان کو اپنی حکومت بچانے کے لیے اپوزیشن سے مقابلہ تو اسمبلی کے اندر کرنا ہے، پھر اسمبلی کے باہر عوامی اجتماع کی ضرورت کیوں محسوس ہو رہی ہے؟
اس کا جواب یہ دیا جا رہا ہے کہ عمران کو تکلیف اپوزیشن سے نہیں بلکہ ان قوتوں سے جنھوں نے ان کے سر پر حفاظت کی چھتری رکھی ہوئی تھی، اس لیے اب وہ عوامی طاقت کا مظاہرہ کرکے انھیں پیغام دینا چاہتا ہے کہ میں اکیلا نہیں ہوں بلکہ میرے ساتھ اب بھی بڑی عوامی قوت موجود ہے۔ دیکھنا ہے کہ وہ اس میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔ ادھر حقیقت احوال یہ ہے کہ حزب اختلاف کی جماعتیں بھی کھل کر میدان میں اتر آئی ہیں ۔ سیاسی پارہ اور حدت اتنی بڑھ گئی ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے نتیجے کا انتظار کیے بغیر تصادم کے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں۔
ہمارے سیاستدان سیاسی بحران تو پیدا کرنے میں ماہر ہیں لیکن بحران کو حل کرنے میں ہمیشہ ناکام رہے ہیں۔پیر کے دن قومی اسمبلی کے اندر اور اسلام آباد کی سڑکوں پر ایک ہنگامہ آرائی کا منظر نامہ نظر آرہا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو سیکیورٹی کی ضامن اداروں کو سامنے آنا پڑے گا اور ان کے آنے کے بعد کسی بھی سیاستدان کے ہاتھ میں کچھ نہ رہے گا۔اگر سیاستدانوں اور خاص طور پر حکومت نے ہوش کے ناخن نہ لیے اور اسمبلی کے اندر آئین اور قانون کی پاسداری نہ کی گئی تو غالب امکان ہے کہ پاکستان کا سیاسی نظام دوبارہ غیر جمہوریت کی طرف چلا جائے گا۔
گزشتہ ساڑھے تین سال کے دوران حزب اختلاف کا رویہ بہت حد تک جمہوری رہا ہے، ان کی سیاسی قیادت کو بار بار گرفتار اور پابند سلاسل کیا گیا ہے لیکن انھوں نے جمہوری قدروں کی پاسداری کرتے ہوئے سیاسی نظام کو ڈی ریل نہ ہونے دیا۔ عدم اعتماد تحریک کو قومی اسمبلی میں پیش کرنا ایک جمہوری عمل ہے لیکن بدقسمتی سے اس بار حکومت وقت اس عمل کا جمہوری انداز اور فراخدلی سے مقابلہ نہیں کر رہی۔
وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ دو ہفتے کے دوران صوبہ خیبر پختونخوا میں اب تک تین بار الیکشن کمیشن کے احکامات اور جمہوری روایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بلدیاتی انتخابات والے حلقوں میں جلسے کیے جس پر انھیں دو بار پچاس پچاس ہزار روپے جرمانہ ہو چکا ہے جب کہ تیسری خلاف ورزی پر انھیں نوٹس جاری کیا گیا ہے۔وزیر اعظم کا یہ رویہ کسی بھی اعتبار سے جمہوری اور سیاسی نہیں بلکہ اداروں سے تصادم کی راہ ہموار کر رہا ہے۔
عمران خان نے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا نعرہ لگا کر ایک بار پھر " نیا جان لایا پرانا شکاری " کے مصداق پاکستانی عوام کو متوجہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ پاکستانی عوام میں تعلیم اور سیاسی سوجھ بوجھ کی کمی ہے۔اس وجہ سے وہ ان خوش کن نعروں کو حقیقت سمجھ کر کر لیڈروں کے پیچھے چل پڑتی ہے۔لیڈر اپنا کام نکال کر چلتے بنتے ہیں اور عوام ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔
عمران خان اور تحریک انصاف نے تبدیلی کے ایک خوش کن نعرے سے انتخابی سیاست کا آغاز کیا۔اس نعرے کی بنیاد پر پاکستانی عوام بھرے میلے میں لٹ گئے۔ ملکی معیشت اور سیاست دونوں بند گلی میں ہیں اور نکلنے کا کوئی راستہ سجھائی نہیں دے رہا۔دیکھیں اب کون سا در کھلتا ہے کہ پاکستانی عوام کو سکھ اور سکون کا سانس ملے۔