احمد جلال اور حدیثِ دل
جانا تو ہم سب کوہی ہے اور کسی محبوب آدمی کی رخصت اس سے دلی تعلق خاطر کی وجہ سے بے حد تکلیف دہ تو ہوسکتی ہے
جناب علیؓ کا یہ قول جب بھی یاد آتا ہے دل اور دماغ دونوں بیک وقت ان کی بصیرت دانش کو سلام کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ'' میںنے اپنے رب کو ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا''جب کہ یہ عمل مختلف حوالوں سے ہماری زندگیوں میں بار بار صُورت پذیر ہوتا رہتا ہے، ترتیب اور وعدے کے مطابق مجھے آج کا یہ کالم کراچی سفر کے بقیہ حصے اور اُس کے پروگراموں کے بارے میں لکھنا تھا مگر واٹس ایپ کھولتے ہی پی ٹی سی ایل کے احباب عزیزہ شازیہ اور برادرم سیّد مظہر حسین کے بھیجے ہوئے ایک ہی مضمون کے دو پیغامات نے جیسے ہر چیز اُلٹ پلٹ کر رکھ دی۔
لکھا تھا ''احمد جلال چلے گئے'' جانا تو ہم سب کوہی ہے اور کسی محبوب آدمی کی رخصت اس سے دلی تعلق خاطر کی وجہ سے بے حد تکلیف دہ تو ہوسکتی ہے مگر انوکھی یا غیرفطری نہیں ہوتی، یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ عام طور پر عمر کی طوالت یا مرحوم کو لاحق کسی بیماری کی وجہ سے آپ لاشعوری حوالے سے اس کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوتے ہیں لیکن اگر کوئی شخص عمر اور صحت دونوں حوالوں سے ایک بھرپور اور خوبصورت زندگی گزار رہا ہو، اس کی فکر اور عمل میں کوئی تضاد نہ ہو اور فیملی کے بعد اُسکی دوسری ترجیح فنونِ لطیفہ اور بالخصوص موسیقی ہو تو اس کا کسی بھی طرح کے نوٹس کے بغیر چند لمحوں میں ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کر جانا، کوشش کے باوجود سمجھ میں نہیں آتا۔
اُن کی کولیگ شازیہ بی بی نے بتایا کہ وہ اپنے آفس میں معمول کے مطابق کام کر رہے تھے اور ان کے چہرے کی محبوب اور معروف مسکراہٹ ہمیشہ کی طرح زندگی سے بھر پور تھی، وہ وضو کے لیے واش روم میں گئے اور چند لمحوں بعد اندر سے ایک خرخراہٹ جیسی آواز سنائی دی، واش روم کا دروازہ نیم وا تھا دیکھا کہ وہ زمین پر گرے پڑے ہیں اور اُن کی رُوح اُن کا ساتھ چھوڑ چکی ہے اور یہ سب کچھ دو یا تین منٹ میں ہُوا۔
اُن سے میری پہلی ملاقات کوئی دس بارہ برس قبل ہوئی تھی جسکی وجہ اُن کا میری شاعری کا مدّاح ہونا تھا لیکن پہلی ہی ملاقات میں میں اُنکے حلقۂ احباب کا حصہ بن گیا، وہ بے حد محبت کرنیوالے انسان تھے اور کم و بیش اسلام آباد میں میری آمد کے ہر موقعے پر وہ بہت پُرجوش انداز میں تجدید ِ محبت، اس طرح سے کرتے تھے کہ نہ صرف مجھے اپنے عزیزوں اور دوستوں سے ملواتے رہتے تھے بلکہ اپنی فیملی کے ساتھ میری بیٹی روشین عاقب کے گھر بھی کئی بار تشریف لائے۔
طلعت محمود، مکیش اور مہدی حسن کے کئی مشہور گیت بہت عمدگی سے گائے تھے اور وقتاً فوقتاً انھیں ریکارڈ بھی کراتے رہتے تھے، ان سے آخری بات کوئی ایک ہفتہ قبل میری نظموں کے انگریزی تراجم پر مشتمل کتاب Light of the Shadows کے حوالے سے ہوئی کہ جس کی اشاعت کے ضمن میں اُن کے ادارے پی ٹی سی ایل اور مظہر بھائی نے خصوصی محبت کا اظہار کیا تھا اور یہ پروگرام بن رہا تھا کہ کب اور کیسے اُس کی تقریبِ تعارف اسلام آباد میں کی جائے جس میں وہ میری ایک غزل بھی کمپوز کر کے پیش کرینگے۔
اُن کا یہ اِرادہ بھی اُنکی سانسوں کی گرہ کے ساتھ ہی ٹوٹ گیا ہے اور یوں ایک بار پھر ربِ کریم کی مشیت نے اپنی پہچان کی وہی یاد دہانی کرادی جس کی طرف جناب علیؒ نے فرمایا تھا ۔ احمد جلال ایک صبر اور شکر کرنے والے انسان تھے اور ہم سب کا رب یقینا اُن کی رُوح کو اپنے جوارِ رحمت میں رکھے گا۔
اب ایک بہت مختصر اور اجمالی سا ذکر کراچی میں قیام کے آخری دنوں کا۔ 22 مارچ کو ساکنانِ شہر قائد کا ستائیسواں سالانہ مشاعرہ ایکسپو سینٹر کے وسیع سبزہ زارمیں اسی آب و تاب اور شان و شوکت سے منعقد ہوا جو اُس کی پہچان ہے مگر سامعین کی تعداد، جوش و خروش اور دلچسپی کے باعث میرے نزدیک یہ مشاعرہ گزشتہ دس برس کا شاید سب سے بھرپور اور شاندار مشاعرہ تھا، اگرچہ شعرا کی تعداد اس بار بھی حسبِ روائت 35 کے اُوپر تھی اور یہ ختم بھی صبح کے پانچ بجے ہوا مگر منتظمین نے ہر ممکن سہولت کا بساط بھر معقول انتظام کر رکھا تھا جس کے لیے ڈاکٹر پیرزادہ قاسم، محمود خان اور اُنکے ساتھی بلاشبہ تحسین کے مستحق ہیں ۔
مشاعرے کی صدارت بھائی سحر انصاری نے کی، ناظمین اُن کی صاحبزادی عزیزہ عنبرین حسیب عنبر اور وجیہہ ثانی تھے جب کہ مہمان خاص ہمارے آپ کے ، سب کے جانے پہچانے دانشورسیاستدان بیرسٹر اعترازاحسن تھے جو سیاست کی اس گراوٹ کے زمانے میں بھی اپنی دانش اور کمٹ منٹ کی وجہ سے ایک استثنیٰ کی حیثیت رکھتے ہیں اور ایک مستند ادیب کے طور پر بھی اپنی حیثیت مستحکم کرچکے ہیں ۔ شاعری اُن کے نزدیک فنی حوالوں سے زیادہ جذبات اورخیالات کے اظہار کا ایک عوامی اظہار ہے جس کا بھر پور اظہاراُن کی طویل نظم ''کل آج اور کل'' میں بھی ہوا۔
اس سے گزشتہ روز بھائی محمود خان نے اپنے ادارے میں باہر سے آئے ہوئے شعراء اور کراچی کے چند شاعروں کو مدّعو کر رکھا تھا۔ مشاعرہ گاہ میں پہنچ کر معلوم ہوا کہ یہ برادرم واثق نعیم اور حاجی رفیق پردیسی کے دفتر کا سبزہ زار تھا، یہ محفل بھی بہت اچھی رہی۔ سامعین میں برادرم احمد شاہ اور عزیزی سرمد علی کے علاوہ اور بھی کئی پرانے احباب سے ملاقات ہوئی اور بہت اچھا وقت گزرا کہ آج کے زمانے میںاچھے دوست ، اچھی شاعری اور اچھا موسم ایک جگہ پر کم کم ہی مل پاتے ہیں۔
دن بھر دوستوں کی آمدکا سلسلہ جاری رہا، مطاہر احمد، ڈاکٹر شجاعت مبارک، شکوہ عاطف ، سرور اقبال، جانِ برادر محمد اشرف شاہین، ایکسپریس کے بھائی اعجاز الحق بھی تشریف فرمائی جب کہ ایک بہت دلچسپ اور غیر متوقع ملاقات کراچی جم خانہ میں دوپہر کے کھانے کے وقت ریاض احمد منصوری اور ان کی معرفت ساٹھ کی دہائی کے بہت اچھے کرکٹر نسیم الغنی سے بھی ہوئی ،گفتگو کا موضوع حکومت اور اپوزیشن کی موجودہ سیاسی کشمکش رہاجس کا لُب لباب یہی تھا کہ عمران خان کی تمام غلطیاں، اپوزیشن سے خواہ مخواہ کے خراب تعلقات اور متنازعہ فیصلے اپنی جگہ اور بلاشبہ اس کی حمائت کرنے والوں کو بہت سی مایوسیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے لیکن اگر اُس کو اچھوں میں شمار نہ بھی کیا جائے تب بھی وہ اپنے تمام حریفوں سے کم بُرا ضرور ہے ۔
اپنے گزشتہ کالم ''اسلامو فوبیا'' کے آخر میں میں نے عرض کیا تھا کہ ہمیں خرابیوں اور برائیوں پر تنقید ضرور کرنی چاہیے اور کسی لیڈر یا نظریئے کی حمائت یا مخالفت بھی ہر شخص کا پیدائشی حق ہے مگر اسی اصول کے مطابق ہر اچھے کام کی (اُس کے کرنیوالے سے بھی قطع نظر ) تعریف ضرور کرنی چاہیے۔ اس پر کچھ مہربانوں نے نہ صرف ناراضی کا اظہار کیا بلکہ مجھے عمران خان کا خوشامدی اور وظیفہ خوار تک کہہ ڈالا ، یقینا ایسے لوگوں کو میرا یہ کہنا بھی بُرا لگے کہ میں نے اُسے اُن کے محبوب لیڈران سے کم بُرا کیوں لکھا ہے۔ اب میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسے مہربانوں کو کیا اور کیسے جواب دوں سوائے اس کے کہ رب کریم اُن کے حال پر رحم کرے اور اُن کے دلوں اور آنکھوں کی وسعت عطا فرمائے ۔
لکھا تھا ''احمد جلال چلے گئے'' جانا تو ہم سب کوہی ہے اور کسی محبوب آدمی کی رخصت اس سے دلی تعلق خاطر کی وجہ سے بے حد تکلیف دہ تو ہوسکتی ہے مگر انوکھی یا غیرفطری نہیں ہوتی، یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ عام طور پر عمر کی طوالت یا مرحوم کو لاحق کسی بیماری کی وجہ سے آپ لاشعوری حوالے سے اس کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوتے ہیں لیکن اگر کوئی شخص عمر اور صحت دونوں حوالوں سے ایک بھرپور اور خوبصورت زندگی گزار رہا ہو، اس کی فکر اور عمل میں کوئی تضاد نہ ہو اور فیملی کے بعد اُسکی دوسری ترجیح فنونِ لطیفہ اور بالخصوص موسیقی ہو تو اس کا کسی بھی طرح کے نوٹس کے بغیر چند لمحوں میں ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کر جانا، کوشش کے باوجود سمجھ میں نہیں آتا۔
اُن کی کولیگ شازیہ بی بی نے بتایا کہ وہ اپنے آفس میں معمول کے مطابق کام کر رہے تھے اور ان کے چہرے کی محبوب اور معروف مسکراہٹ ہمیشہ کی طرح زندگی سے بھر پور تھی، وہ وضو کے لیے واش روم میں گئے اور چند لمحوں بعد اندر سے ایک خرخراہٹ جیسی آواز سنائی دی، واش روم کا دروازہ نیم وا تھا دیکھا کہ وہ زمین پر گرے پڑے ہیں اور اُن کی رُوح اُن کا ساتھ چھوڑ چکی ہے اور یہ سب کچھ دو یا تین منٹ میں ہُوا۔
اُن سے میری پہلی ملاقات کوئی دس بارہ برس قبل ہوئی تھی جسکی وجہ اُن کا میری شاعری کا مدّاح ہونا تھا لیکن پہلی ہی ملاقات میں میں اُنکے حلقۂ احباب کا حصہ بن گیا، وہ بے حد محبت کرنیوالے انسان تھے اور کم و بیش اسلام آباد میں میری آمد کے ہر موقعے پر وہ بہت پُرجوش انداز میں تجدید ِ محبت، اس طرح سے کرتے تھے کہ نہ صرف مجھے اپنے عزیزوں اور دوستوں سے ملواتے رہتے تھے بلکہ اپنی فیملی کے ساتھ میری بیٹی روشین عاقب کے گھر بھی کئی بار تشریف لائے۔
طلعت محمود، مکیش اور مہدی حسن کے کئی مشہور گیت بہت عمدگی سے گائے تھے اور وقتاً فوقتاً انھیں ریکارڈ بھی کراتے رہتے تھے، ان سے آخری بات کوئی ایک ہفتہ قبل میری نظموں کے انگریزی تراجم پر مشتمل کتاب Light of the Shadows کے حوالے سے ہوئی کہ جس کی اشاعت کے ضمن میں اُن کے ادارے پی ٹی سی ایل اور مظہر بھائی نے خصوصی محبت کا اظہار کیا تھا اور یہ پروگرام بن رہا تھا کہ کب اور کیسے اُس کی تقریبِ تعارف اسلام آباد میں کی جائے جس میں وہ میری ایک غزل بھی کمپوز کر کے پیش کرینگے۔
اُن کا یہ اِرادہ بھی اُنکی سانسوں کی گرہ کے ساتھ ہی ٹوٹ گیا ہے اور یوں ایک بار پھر ربِ کریم کی مشیت نے اپنی پہچان کی وہی یاد دہانی کرادی جس کی طرف جناب علیؒ نے فرمایا تھا ۔ احمد جلال ایک صبر اور شکر کرنے والے انسان تھے اور ہم سب کا رب یقینا اُن کی رُوح کو اپنے جوارِ رحمت میں رکھے گا۔
اب ایک بہت مختصر اور اجمالی سا ذکر کراچی میں قیام کے آخری دنوں کا۔ 22 مارچ کو ساکنانِ شہر قائد کا ستائیسواں سالانہ مشاعرہ ایکسپو سینٹر کے وسیع سبزہ زارمیں اسی آب و تاب اور شان و شوکت سے منعقد ہوا جو اُس کی پہچان ہے مگر سامعین کی تعداد، جوش و خروش اور دلچسپی کے باعث میرے نزدیک یہ مشاعرہ گزشتہ دس برس کا شاید سب سے بھرپور اور شاندار مشاعرہ تھا، اگرچہ شعرا کی تعداد اس بار بھی حسبِ روائت 35 کے اُوپر تھی اور یہ ختم بھی صبح کے پانچ بجے ہوا مگر منتظمین نے ہر ممکن سہولت کا بساط بھر معقول انتظام کر رکھا تھا جس کے لیے ڈاکٹر پیرزادہ قاسم، محمود خان اور اُنکے ساتھی بلاشبہ تحسین کے مستحق ہیں ۔
مشاعرے کی صدارت بھائی سحر انصاری نے کی، ناظمین اُن کی صاحبزادی عزیزہ عنبرین حسیب عنبر اور وجیہہ ثانی تھے جب کہ مہمان خاص ہمارے آپ کے ، سب کے جانے پہچانے دانشورسیاستدان بیرسٹر اعترازاحسن تھے جو سیاست کی اس گراوٹ کے زمانے میں بھی اپنی دانش اور کمٹ منٹ کی وجہ سے ایک استثنیٰ کی حیثیت رکھتے ہیں اور ایک مستند ادیب کے طور پر بھی اپنی حیثیت مستحکم کرچکے ہیں ۔ شاعری اُن کے نزدیک فنی حوالوں سے زیادہ جذبات اورخیالات کے اظہار کا ایک عوامی اظہار ہے جس کا بھر پور اظہاراُن کی طویل نظم ''کل آج اور کل'' میں بھی ہوا۔
اس سے گزشتہ روز بھائی محمود خان نے اپنے ادارے میں باہر سے آئے ہوئے شعراء اور کراچی کے چند شاعروں کو مدّعو کر رکھا تھا۔ مشاعرہ گاہ میں پہنچ کر معلوم ہوا کہ یہ برادرم واثق نعیم اور حاجی رفیق پردیسی کے دفتر کا سبزہ زار تھا، یہ محفل بھی بہت اچھی رہی۔ سامعین میں برادرم احمد شاہ اور عزیزی سرمد علی کے علاوہ اور بھی کئی پرانے احباب سے ملاقات ہوئی اور بہت اچھا وقت گزرا کہ آج کے زمانے میںاچھے دوست ، اچھی شاعری اور اچھا موسم ایک جگہ پر کم کم ہی مل پاتے ہیں۔
دن بھر دوستوں کی آمدکا سلسلہ جاری رہا، مطاہر احمد، ڈاکٹر شجاعت مبارک، شکوہ عاطف ، سرور اقبال، جانِ برادر محمد اشرف شاہین، ایکسپریس کے بھائی اعجاز الحق بھی تشریف فرمائی جب کہ ایک بہت دلچسپ اور غیر متوقع ملاقات کراچی جم خانہ میں دوپہر کے کھانے کے وقت ریاض احمد منصوری اور ان کی معرفت ساٹھ کی دہائی کے بہت اچھے کرکٹر نسیم الغنی سے بھی ہوئی ،گفتگو کا موضوع حکومت اور اپوزیشن کی موجودہ سیاسی کشمکش رہاجس کا لُب لباب یہی تھا کہ عمران خان کی تمام غلطیاں، اپوزیشن سے خواہ مخواہ کے خراب تعلقات اور متنازعہ فیصلے اپنی جگہ اور بلاشبہ اس کی حمائت کرنے والوں کو بہت سی مایوسیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے لیکن اگر اُس کو اچھوں میں شمار نہ بھی کیا جائے تب بھی وہ اپنے تمام حریفوں سے کم بُرا ضرور ہے ۔
اپنے گزشتہ کالم ''اسلامو فوبیا'' کے آخر میں میں نے عرض کیا تھا کہ ہمیں خرابیوں اور برائیوں پر تنقید ضرور کرنی چاہیے اور کسی لیڈر یا نظریئے کی حمائت یا مخالفت بھی ہر شخص کا پیدائشی حق ہے مگر اسی اصول کے مطابق ہر اچھے کام کی (اُس کے کرنیوالے سے بھی قطع نظر ) تعریف ضرور کرنی چاہیے۔ اس پر کچھ مہربانوں نے نہ صرف ناراضی کا اظہار کیا بلکہ مجھے عمران خان کا خوشامدی اور وظیفہ خوار تک کہہ ڈالا ، یقینا ایسے لوگوں کو میرا یہ کہنا بھی بُرا لگے کہ میں نے اُسے اُن کے محبوب لیڈران سے کم بُرا کیوں لکھا ہے۔ اب میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسے مہربانوں کو کیا اور کیسے جواب دوں سوائے اس کے کہ رب کریم اُن کے حال پر رحم کرے اور اُن کے دلوں اور آنکھوں کی وسعت عطا فرمائے ۔