ترک وطن خواہش یا مجبوری
نوجوان اور نوجوان ذہانتیں کسی ملک کا اور بطور خاص ترقی پذیر ملک کا سرمایہ ہوتی ہیں
صنعتی انقلاب سے قبل اپنا گھر بار چھوڑ کر کسی اور خطے میں نقل مکانی کرنے کا رجحان بہت محدود تھا۔ دنیا کے ان علاقوں کے لوگ جہاں پانی کم تھا اور موسم کی شدت کے باعث زرعی پیداوار اور گلہ بانی ممکن نہیں تھی ، عموما ان علاقوں پر حملہ آور ہوتے تھے جہاں دریائو ںکی وجہ سے زرعی خوشحالی ہوا کرتی تھی۔
پس ماندہ علاقوں کے سفاک اور جنگ جو قبائل کا مقابلہ کرنا زرعی وادیوں میں رہنے والے پر امن لوگوں کے لیے ممکن نہیں تھا۔ حملہ آور لوٹ مار کر کے عموما واپس چلے جایا کرتے تھے ، لیکن لوٹ مار اور حملوں کا سلسلہ وقفوں وقفوں سے جاری رہتا تھا۔ صنعتی دور کے بعد نو آبادیاتی دورکا آغاز ہوا اور غلاموں کی تجارت عروج پر پہنچ گئی۔
بعد ازاں غلامی کا خاتمہ ہوا ، جس کے بعد صنعتی ملکوں نے سستے کارکنوں کی طلب پوری کرنے کے لیے اپنے دروازے غریب ملکوں کے لوگوں کے لیے کھول دیے۔ اس کے علاوہ نو آبادیاتی طاقتوں نے غلام ملکوں سے لاکھوں کی تعداد میں فوجیوں کو بھرتی کرکے انھیں پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران ایک دوسرے کے خلاف بڑی بے دردی سے استعمال کیا۔
نو آبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد غریب دنیا کے محروم ، مفلس اور بے روزگار لوگوں نے تلاش معاش کے لیے اپنا وطن چھوڑنا شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے کروڑوں تارکین وطن دنیا کے مختلف ملکوں میں جاکر آباد ہوگئے۔ اس وقت دنیا میں تارکین وطن افراد کی تعداد 8 کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے۔ اپنا وطن چھوڑ کر جانے والوں میں سب سے زیادہ ہندوستانی شہری ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق ایک کروڑ اسی لاکھ سے زیادہ ہندوستانی بیرون ملک آباد ہیں ۔ تعداد کے حساب سے سب سے زیادہ تارکین وطن امریکا میں رہتے ہیں جو وہاں کی آبادی کا پندرہ فیصد ہیں جب کہ اس تناسب سے سعودی عرب سرفہرست ملک ہے جس کی آبادی کا اڑتیس فیصد تارکین وطن پر مشتمل ہے۔
پاکستان سے ترک وطن کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان اس حوالے سے دنیا میں چھٹے درجے پر ہے۔ نوے لاکھ سے زیادہ پاکستانی اس وقت بیرون ملک آباد ہیں ۔ یہ جان کر حیرت ہوتی ہے کہ یہ تمام لوگ دنیا کے ایک سو پندرہ ملکوں میں رہتے ہیں۔
سب سے زیادہ پاکستانی خلیجی ملکوں میں روزگار کے لیے گئے ہوئے ہیں۔ اس کے بعد ان کی زیادہ بڑی تعداد یورپ اور شمالی امریکا میں آباد ہے۔ یہ پاکستانی اپنے خاندانوں کی کفالت کے لیے تینتیس ارب ڈالر وطن بھیجتے ہیں جس سے ان کے گھر والوں کے علاوہ حکومت کے ٖضروری اور غیر ضروری اخراجات پورے کیے جاتے ہیں۔
آج سے پچاس سال پہلے پاکستان کے ہنر مندوں کے لیے مشرق وسطیٰ کے دروازے کھلے، لاکھوں کی تعداد میں پاکستانیوں نے ان صحرائوں کا رخ کیا جہاں دھوپ کی تپش سے ریت بھی پگھل جاتی تھی۔ یہ لوگ پاکستان کے لیے زرمبادلہ کمانے اور نوٹ چھاپنے کی ایسی مشین ثابت ہوئے جن سے حکومت بھی خوش تھی اور گھر والے بھی اُن پر نثار تھے۔ گھر والے نسلوں کی زندگی گزار کر پہلی بار یہ آسائش کی سیج پر سوتے تھے اور پاکستان کی نا اہل حکومتوں اور بیوروکریسی کو ہاتھ پائوں ہلائے بغیر زرمبادلہ کمانے کا ایک نیا گر ہاتھ آیا تھا۔
70کی دہائی میں پاکستان کے دولخت ہوجانے اور بیورو کریسی میں حکمرانوں کی پسند کے نااہل مگر آقا کے تابعدار افسران کی کھیپ آجانے کے بعد اہلیت اور صلاحیت کا خاتمہ بالخیر ہوا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کا معیارگرتا گیا چنانچہ 80 کی دہائی میں یونیورسٹیوں سے نکلنے والے نوجوانوں نے بیروزگاری اور بیوروکریسی کے ہاتھوں پہنچنے والی ذلت و خواری سے تنگ آکر باہر کا رخ کیا۔
تعلیمی اداروں کے معیارکی پستی اس انتہا کو پہنچی کہ ذرا سی بھی حیثیت رکھنے والے افراد نے اپنے بچوں کو کالج کی تعلیم کے لیے بھی انگلستان ، امریکا اور جرمنی کے تعلیمی اداروں میں داخل کرا دیا اور 90 کی دہائی کے بعد سے یہ ایک روز مرہ بن چکا ہے ۔ متوسط اور اعلیٰ متوسط طبقے کے وہ افراد جو اس بات سے واقف ہیں کہ صرف تعلیم میں سرمایہ کاری ہی ان کی نسلوں کا مقدر بدل سکتی ہے ، وہ اپنی کل پونجی اور سخت حالات میں گھر اور زیور بیچ کر بچوں کو انٹرمیڈیٹ پاس کرتے ہی باہر کے کالجوں میں داخلہ دلانے میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔
60 اور 70 کی دہائی میں تعلیم کے لیے باہر جانیوالوں سے ماں باپ کا اصرار یہ ہوتا تھا کہ میاں ہم تعلیم کے لیے تمہیں باہر بھیج رہے ہیں لیکن اس کے مکمل ہوتے ہی تمہیں پاکستان واپس آنا ہے۔ اس لیے کہ ملک کو تمہاری اعلیٰ تعلیم کی ضرورت ہوگی۔80 اور اس کے بعد آنے والی دہائیوں میں ہماری حکومتوں نے لوگوں کو اس قدر مایوس کیا کہ اب وہ اپنے بچوں کو روانہ کرتے ہوئے پاکستان واپس آنے کی ہدایت نہیں کرتے۔ ان کا کہنا یہ ہوتا ہے کہ وہاں جاتے ہی کوئی ایسی سبیل کرو کہ چھوٹے بھائی اور بہنیں بھی وہیں تعلیم حاصل کر سکیں یہاں آکر ملازمت ڈھونڈنے کا خیال بھی دل میں نہ لانا وہیں رہو اور گرین کارڈ حاصل کرنے کی کوشش کرو۔
یہ ایک ایسی اندوہناک صورتحال ہے جس کی جھلکیاں ہمیں اپنے اخباروں کے ان مختصر اشتہاروں میں نظر آتی ہیں جو ضرورتِ رشتہ کے عنوان سے چھپتے ہیں اور جس میں ہمارے نوجوان ڈاکٹر، انجینئر اور دوسرے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کے والدین '' گرین کارڈ ہولڈر'' لڑکی کو بہو بنانے کے لیے بیقرار نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف مغرب میں رہنے والی لڑکیوں کے والدین کی طرف سے بھی ان اشتہارات کی کمی نہیں ہے جو ایسے ''داماد'' کی تلاش میں ہوتے ہیں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو اور پاکستان سے باہر نکلنا اس کے لیے معاشی مجبوری کے سبب ممکن نہ ہو۔ ان اشتہارات میں ہونیوالے ''داماد '' کو یہ خوشخبری سنائی جاتی ہے کہ اس شادی کے عوض اسے '' گرین کارڈ'' کی نعمت غیر مترقبہ حاصل ہوجائے گی۔
بہانہ اعلیٰ تعلیم کا ہو، اچھی ملازمت کی تلاش کا یا اچھے رشتے کا ، ان تمام باتوں کا یہی نتیجہ نکلا ہے کہ پاکستان سے ذہانتوں کی منتقلی ایک روز مرہ ہوچکی ہے۔ ہر سال نہیں ہر مہینے ہمارے پڑھے لکھے ، ذہین اور ہنر مند نوجوان لڑکے اور لڑکیاں پاکستان سے باہر کا رخ کر رہے ہیں۔ یہ ایک ایسی ہی صورتحال ہے جیسے کسی انسان کی کلائیاں کاٹ دی گئی ہوں اور اس کی رگوں سے جیتا جاگتا خون بہہ رہا ہو۔
نوجوان اور نوجوان ذہانتیں کسی ملک کا اور بطور خاص ترقی پذیر ملک کا سرمایہ ہوتی ہیں۔ انھیں اگر اپنے ملک میں مناسب سہولتیں اور روزگار مہیا نہ ہو ، نااہل اور ناکارہ سرکاری افسران ان کی عزت نفس کو بھی اپنے سرکاری عہدوں کے زعم میں روندتے ہوں ، تو ان کے پاس بہتر مستقبل کی تلاش میں باہر جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ ایسے مرحلے پر انھیں ''خود غرض '' اور ''غیر محب وطن '' یا '' زر پرست '' قرار دینا اس لیے مناسب نہیں کہ پاکستان میں ان کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے، وہ دوسرے ملکوں میں'' غیر ملکیوں '' کے ساتھ بھی نہیں کیا جاتا۔ (جاری ہے)
پس ماندہ علاقوں کے سفاک اور جنگ جو قبائل کا مقابلہ کرنا زرعی وادیوں میں رہنے والے پر امن لوگوں کے لیے ممکن نہیں تھا۔ حملہ آور لوٹ مار کر کے عموما واپس چلے جایا کرتے تھے ، لیکن لوٹ مار اور حملوں کا سلسلہ وقفوں وقفوں سے جاری رہتا تھا۔ صنعتی دور کے بعد نو آبادیاتی دورکا آغاز ہوا اور غلاموں کی تجارت عروج پر پہنچ گئی۔
بعد ازاں غلامی کا خاتمہ ہوا ، جس کے بعد صنعتی ملکوں نے سستے کارکنوں کی طلب پوری کرنے کے لیے اپنے دروازے غریب ملکوں کے لوگوں کے لیے کھول دیے۔ اس کے علاوہ نو آبادیاتی طاقتوں نے غلام ملکوں سے لاکھوں کی تعداد میں فوجیوں کو بھرتی کرکے انھیں پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران ایک دوسرے کے خلاف بڑی بے دردی سے استعمال کیا۔
نو آبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد غریب دنیا کے محروم ، مفلس اور بے روزگار لوگوں نے تلاش معاش کے لیے اپنا وطن چھوڑنا شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے کروڑوں تارکین وطن دنیا کے مختلف ملکوں میں جاکر آباد ہوگئے۔ اس وقت دنیا میں تارکین وطن افراد کی تعداد 8 کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے۔ اپنا وطن چھوڑ کر جانے والوں میں سب سے زیادہ ہندوستانی شہری ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق ایک کروڑ اسی لاکھ سے زیادہ ہندوستانی بیرون ملک آباد ہیں ۔ تعداد کے حساب سے سب سے زیادہ تارکین وطن امریکا میں رہتے ہیں جو وہاں کی آبادی کا پندرہ فیصد ہیں جب کہ اس تناسب سے سعودی عرب سرفہرست ملک ہے جس کی آبادی کا اڑتیس فیصد تارکین وطن پر مشتمل ہے۔
پاکستان سے ترک وطن کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان اس حوالے سے دنیا میں چھٹے درجے پر ہے۔ نوے لاکھ سے زیادہ پاکستانی اس وقت بیرون ملک آباد ہیں ۔ یہ جان کر حیرت ہوتی ہے کہ یہ تمام لوگ دنیا کے ایک سو پندرہ ملکوں میں رہتے ہیں۔
سب سے زیادہ پاکستانی خلیجی ملکوں میں روزگار کے لیے گئے ہوئے ہیں۔ اس کے بعد ان کی زیادہ بڑی تعداد یورپ اور شمالی امریکا میں آباد ہے۔ یہ پاکستانی اپنے خاندانوں کی کفالت کے لیے تینتیس ارب ڈالر وطن بھیجتے ہیں جس سے ان کے گھر والوں کے علاوہ حکومت کے ٖضروری اور غیر ضروری اخراجات پورے کیے جاتے ہیں۔
آج سے پچاس سال پہلے پاکستان کے ہنر مندوں کے لیے مشرق وسطیٰ کے دروازے کھلے، لاکھوں کی تعداد میں پاکستانیوں نے ان صحرائوں کا رخ کیا جہاں دھوپ کی تپش سے ریت بھی پگھل جاتی تھی۔ یہ لوگ پاکستان کے لیے زرمبادلہ کمانے اور نوٹ چھاپنے کی ایسی مشین ثابت ہوئے جن سے حکومت بھی خوش تھی اور گھر والے بھی اُن پر نثار تھے۔ گھر والے نسلوں کی زندگی گزار کر پہلی بار یہ آسائش کی سیج پر سوتے تھے اور پاکستان کی نا اہل حکومتوں اور بیوروکریسی کو ہاتھ پائوں ہلائے بغیر زرمبادلہ کمانے کا ایک نیا گر ہاتھ آیا تھا۔
70کی دہائی میں پاکستان کے دولخت ہوجانے اور بیورو کریسی میں حکمرانوں کی پسند کے نااہل مگر آقا کے تابعدار افسران کی کھیپ آجانے کے بعد اہلیت اور صلاحیت کا خاتمہ بالخیر ہوا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کا معیارگرتا گیا چنانچہ 80 کی دہائی میں یونیورسٹیوں سے نکلنے والے نوجوانوں نے بیروزگاری اور بیوروکریسی کے ہاتھوں پہنچنے والی ذلت و خواری سے تنگ آکر باہر کا رخ کیا۔
تعلیمی اداروں کے معیارکی پستی اس انتہا کو پہنچی کہ ذرا سی بھی حیثیت رکھنے والے افراد نے اپنے بچوں کو کالج کی تعلیم کے لیے بھی انگلستان ، امریکا اور جرمنی کے تعلیمی اداروں میں داخل کرا دیا اور 90 کی دہائی کے بعد سے یہ ایک روز مرہ بن چکا ہے ۔ متوسط اور اعلیٰ متوسط طبقے کے وہ افراد جو اس بات سے واقف ہیں کہ صرف تعلیم میں سرمایہ کاری ہی ان کی نسلوں کا مقدر بدل سکتی ہے ، وہ اپنی کل پونجی اور سخت حالات میں گھر اور زیور بیچ کر بچوں کو انٹرمیڈیٹ پاس کرتے ہی باہر کے کالجوں میں داخلہ دلانے میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔
60 اور 70 کی دہائی میں تعلیم کے لیے باہر جانیوالوں سے ماں باپ کا اصرار یہ ہوتا تھا کہ میاں ہم تعلیم کے لیے تمہیں باہر بھیج رہے ہیں لیکن اس کے مکمل ہوتے ہی تمہیں پاکستان واپس آنا ہے۔ اس لیے کہ ملک کو تمہاری اعلیٰ تعلیم کی ضرورت ہوگی۔80 اور اس کے بعد آنے والی دہائیوں میں ہماری حکومتوں نے لوگوں کو اس قدر مایوس کیا کہ اب وہ اپنے بچوں کو روانہ کرتے ہوئے پاکستان واپس آنے کی ہدایت نہیں کرتے۔ ان کا کہنا یہ ہوتا ہے کہ وہاں جاتے ہی کوئی ایسی سبیل کرو کہ چھوٹے بھائی اور بہنیں بھی وہیں تعلیم حاصل کر سکیں یہاں آکر ملازمت ڈھونڈنے کا خیال بھی دل میں نہ لانا وہیں رہو اور گرین کارڈ حاصل کرنے کی کوشش کرو۔
یہ ایک ایسی اندوہناک صورتحال ہے جس کی جھلکیاں ہمیں اپنے اخباروں کے ان مختصر اشتہاروں میں نظر آتی ہیں جو ضرورتِ رشتہ کے عنوان سے چھپتے ہیں اور جس میں ہمارے نوجوان ڈاکٹر، انجینئر اور دوسرے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کے والدین '' گرین کارڈ ہولڈر'' لڑکی کو بہو بنانے کے لیے بیقرار نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف مغرب میں رہنے والی لڑکیوں کے والدین کی طرف سے بھی ان اشتہارات کی کمی نہیں ہے جو ایسے ''داماد'' کی تلاش میں ہوتے ہیں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو اور پاکستان سے باہر نکلنا اس کے لیے معاشی مجبوری کے سبب ممکن نہ ہو۔ ان اشتہارات میں ہونیوالے ''داماد '' کو یہ خوشخبری سنائی جاتی ہے کہ اس شادی کے عوض اسے '' گرین کارڈ'' کی نعمت غیر مترقبہ حاصل ہوجائے گی۔
بہانہ اعلیٰ تعلیم کا ہو، اچھی ملازمت کی تلاش کا یا اچھے رشتے کا ، ان تمام باتوں کا یہی نتیجہ نکلا ہے کہ پاکستان سے ذہانتوں کی منتقلی ایک روز مرہ ہوچکی ہے۔ ہر سال نہیں ہر مہینے ہمارے پڑھے لکھے ، ذہین اور ہنر مند نوجوان لڑکے اور لڑکیاں پاکستان سے باہر کا رخ کر رہے ہیں۔ یہ ایک ایسی ہی صورتحال ہے جیسے کسی انسان کی کلائیاں کاٹ دی گئی ہوں اور اس کی رگوں سے جیتا جاگتا خون بہہ رہا ہو۔
نوجوان اور نوجوان ذہانتیں کسی ملک کا اور بطور خاص ترقی پذیر ملک کا سرمایہ ہوتی ہیں۔ انھیں اگر اپنے ملک میں مناسب سہولتیں اور روزگار مہیا نہ ہو ، نااہل اور ناکارہ سرکاری افسران ان کی عزت نفس کو بھی اپنے سرکاری عہدوں کے زعم میں روندتے ہوں ، تو ان کے پاس بہتر مستقبل کی تلاش میں باہر جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ ایسے مرحلے پر انھیں ''خود غرض '' اور ''غیر محب وطن '' یا '' زر پرست '' قرار دینا اس لیے مناسب نہیں کہ پاکستان میں ان کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے، وہ دوسرے ملکوں میں'' غیر ملکیوں '' کے ساتھ بھی نہیں کیا جاتا۔ (جاری ہے)