متوقع خطاب
چوہدری پرویز الٰہی نے اس کا کھلا اظہار بھی کردیا ہے کہ حکومت خطرے میں ہے
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اپوزیشن نے میری پارٹی کھڑی کردی اور ان کی عدم اعتماد کی تحریک نے عوام میں مہنگائی بھلا دی، لوگ کہتے ہیں کہ 3 لوگوں نے ملک بچانا ہے، تو بہتر ہے عمران خان کے ساتھ ڈوب جاؤ۔ میں نے 3 سال میں جتنا کام کیا 35 سالوں میں نہیں ہوا۔
تحریک عدم اعتماد کی سیاسی صورتحال پیچیدہ ہونے کے باوجود چند وفاقی وزیروں کا اعتماد واقعی دیکھنے کے لائق ہے اور انھیں یقین ہے کہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگی اور ان کا 2023 کا الیکشن بھی گیا۔ دو پہلوان جب اکھاڑے میں ایک دوسرے کے مدمقابل ہوتے ہیں تو کمزور نظر آنے والا پہلوان بھی دعویٰ کرتا ہے کہ وہی کامیاب ہوگا۔
یہی حالت حکومت کی ہے جو نہ صرف اپنی جیت کے لیے پر اعتماد ہے بلکہ دو وزیر اپوزیشن کو واضح طور پر نشانہ بھی بنا رہے ہیں اور عدم اعتماد کی تحریک کو عالمی سازش اور جمہوریت کے لیے خطرہ بھی قرار دے رہے ہیں جب کہ اپوزیشن اپنی تحریک کو آئینی قرار دے رہے ہیں جس کو ناکام بنانے کے لیے ایک ایسا حکومتی حلقہ بھی ہے جس کو مکمل غیر جانبدارانہ کردار ادا کرنا چاہیے وہ بھی درست قانونی مشوروں کے باوجود لگ رہا ہے کہ حکومت کو بچانے کے لیے اپنی رولنگ کا حق ضرور استعمال کرے گا ، خواہ فیصل واؤڈا کے بقول تحریک کے حق میں 182 ووٹ ہی کیوں نہ ڈال دیے جائیں۔
اسپیکرکی رولنگ اگر اپوزیشن نے قبول نہ کی تو وہ عدلیہ میں چیلنج ہوگی اور حکومت کو یقین ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ چونکہ پارلیمانی تنازعات خود سننا مناسب نہیں سمجھتی، اس لیے معاملہ ہو سکتا ہے نہ سنے اور اگر سماعت ہو بھی گئی تو اس کا حال بھی سینیٹ الیکشن میں ووٹ رد کردینے والی اپیل جیسا ہو سکتا ہے۔ ایک سال گزر جانے کے بعد سینیٹ کے عارضی پریزائڈنگ آفیسر کی طرف سے جو ووٹ مسترد کیے گئے تھے۔
اس کا ایک سال میں بھی عدالتی فیصلہ نہیں ہوا کہ ووٹ غلط مسترد ہوئے تھے یا درست مگر ایک سال سے چیئرمین سینیٹ اپنے عہدے پر براجمان ہیں اور دو سال سے ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی بھی حکم امتناعی کے باعث فیصلے کے منتظر ہیں جنھیں الیکشن کمیشن نے ڈی سیٹ کردیا تھا مگر سپریم کورٹ نے اسٹے دے دیا تھا جو اب تک ڈپٹی اسپیکر ہیں اور شاید اسی وجہ سے اپوزیشن عدالت جانے میں دلچسپی نہیں لے رہی کہ ایسا نہ ہو کہ اسپیکر کی رولنگ فیصل واؤڈا کا دعویٰ سچ ثابت نہ ہو جائے۔
ملک کی سیاسی صورتحال جس تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے وہ وزیروں اور حکومتی حامی تجزیہ کاروں کے سوا حکومتی حلیفوں کو بھی نظر آ رہی ہے اور چوہدری پرویز الٰہی نے اس کا کھلا اظہار بھی کردیا ہے کہ حکومت خطرے میں ہے۔ اتحادیوں کا جھکاؤ اپوزیشن کی طرف ہے۔ چوہدری شجاعت کے ذریعے پیغام دیا جا چکا ہے کہ ملک محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ حکومت اور اپوزیشن اپنے جلسے منسوخ کریں پرویز الٰہی کے بقول حکومت کو بدلے لینے کا بڑا شوق ہے اس نے سب کو نیب میں ڈالا۔ سب سے ہاتھ کیا اس لیے کوئی ساتھ نہیں دے رہا۔ حکمران قیادت نے سمجھ داری نہیں دکھائی یہ حکمرانی کے طور طریقے نہیں ہوتے۔
بالاتروں کے نیوٹرل ہونے سے حکومت کی سب سے بڑی امید ختم ہو چکی اور وہ کسی صورت تحریک عدم اعتماد کی ناکامی چاہتی ہے مگر امیدیں کمزور ہو چکیں مگر وزرا اب بھی حکمران قیادت کو امید پر رکھے ہوئے ہیں۔ عوامی حلقوں کے نزدیک حکمران کبھی نہیں چاہیں گے کہ ان کی حکومت قبل ازوقت ختم ہو، اسی لیے وہ بڑا جلسہ کرنے جا رہے ہیں جہاں اپنے خطاب میں تحریک عدم اعتماد کو عالمی سازش دہراتے ہوئے کہیں گے کہ میں ''ان'' کی بات مان کر ناکام ہوا۔ مجھے اتحادیوں نے لالچ میں آ کر دھوکا دیا۔
پنجاب کے اتحادیوں کو میں نے ضرورت سے زیادہ حصہ دیا مگر وہ پنجاب کا اقتدار مانگ رہا تھا جو میں نے نہیں دیا کیونکہ میرے اپنے اصول ہیں۔ میں چوہدریوں اور ایم کیو ایم کے پاس ضرور گیا مگر میں نے ان سے تحریک عدم اعتماد کے لیے مدد نہیں مانگی۔ مجھے اچھائی کے لیے ان کی مدد نہیں ملی اور وہ نہ جانے کیوں نیوٹرل ہوگئے۔ ایم کیو ایم کے نفیسوں نے بھی مجھے دھوکا دیا جب کہ میں نے انھیں نہ چاہتے ہوئے بھی وزارتیں دیں۔
میں اپنے اصول پر ڈٹا رہا،ایک اتحادی کو وزیر اعلیٰ پنجاب نہیں بنایا۔ میں ساڑھے تین سال چوروں، ڈاکوؤں سے لوٹا ہوا مال نکلوانا چاہتا تھا مگر عدلیہ انھیں ضمانتیں دیتی رہی۔ انھوں نے میری نہیں چلنے دی اور مخالفین کو باہر جانے دیا۔ میڈیا مسلسل میرے خلاف جانے کی خبریں چلاتا اور عوام کو گمراہ کرتا رہا۔ مجھے اتنا بے بس رکھا گیا کہ میں آبپارہ میں اپنی مرضی کا افسر نہ رکھ سکا۔ اچھائی ناکام رہی اور چور ڈاکو برائی کا ساتھ دیتے رہے جس کی وجہ سے میں کامیاب نہیں ہوا اور میرا قوم بنانے کا اولین مقصد پورا نہیں ہوا، مجھے مزید وقت دیا جائے۔