وجیہہ اکرم کا انکار اور مریم نواز کی یلغار
وجیہہ اکرم صاحبہ کی اُٹھائی گئی قسم کی شہرت چہار جانب ہے۔ انھیں انحراف کی شاید کوئی بھاری سیاسی قیمت بھی ادا کرنا پڑے
محترمہ وجیہہ اکرم پی ٹی آئی کے اُن ارکانِ قومی اسمبلی میں سے ایک ہیں، جنھوں نے پارٹی کی مرضی اور منشا سے صریح اور صاف انکار کرکے ''علَمِ بغاوت'' بلند کر رکھا ہے ۔
اس اقدام کی اساس پر ، مقتدر پی ٹی آئی کی جانب سے، ایم این اے وجیہہ اکرم صاحبہ ''منحرف'' اور ''مسترد'' قرار دی جا رہی ہیں ۔پی ٹی آئی کے جارح سوشل میڈیا اور پی ٹی آئی کے وزرا کی طرف سے انھیں دشنام بھی دیا جا رہا ہے اور اُن پر متنوع بے بنیاد الزامات کی بوچھاڑ بھی کی جارہی ہے ۔ شاباش دینی چاہیے وجیہہ اکرم کو کہ بے پناہ دباؤ اور دشنامات کے باوجود وہ ابھی تک اپنے موقف پر قائم بھی ہیں اور اپنے محاذ پر ڈٹی ہُوئی بھی ہیں ۔ ایک عورت ہونے کے ناتے انھیں اس بہادری اور جسارت پر سلام۔
وجیہہ اکرم صوبہ پنجاب کے ضلع نارووال و تحصیل شکرگڑھ سے تعلق رکھتی ہیں ۔ وہ شکر گڑھ کے ایک ایسے سیاسی حلقے( این اے77) سے ناتا رکھتی ہیں جہاں پہلے ہی سیاسی پہلوان میدان میں موجود ہیں ۔ مثال کے طور پر جناب دانیال عزیز ، محترمہ مہناز عزیزاور چوہدری طارق انیس۔ تینوں گجر برادری سے تعلق رکھتے ہیں ۔ وجیہہ اکرم بھی گجر ہیں ۔ تینوں کا تعلق شکر گڑھ کے معروف برساتی نالے ، نالہ بئیں، سے پار بسنے والے علاقے سے ہے ۔
یہ علاقہ بھارت و پاکستان سرحد سے محض چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔ وجیہہ اکرم کا گاؤں (پنڈی عمرہ) بھی بھارتی سرحد سے اِدھر چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔ محترمہ مہناز عزیز آج کل نون لیگ کی ایم این اے ہیں ۔اُن کے شوہر، دانیال عزیز، نون لیگ حکومت میں وفاقی وزیر رہ چکے ہیں۔ اُن کے والد ، چوہدری انور عزیز مرحوم، بھی وفاقی وزیر رہے ۔
چوہدری طارق انیس پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت میں وزیر مملکت رہے ۔وجیہہ اکرم کے دادا، چوہدری عبدالغفور قمر وکیل، تشکیلِ پاکستان سے قبل ، مسلم لیگی ووٹ پر،ایم ایل اے منتخب ہُوئے تھے ۔ منتخب ہونے کے بعد غفور قمر سے ایسا سیاسی Blunder سر زد ہُوا کہ اِس سے آج تک وجیہہ اکرم کے خانوادے کی جان نہیں چھوٹ رہی ۔
محترمہ مہناز عزیز، دانیال عزیز اور چوہدری طارق انیس کی موجودگی میں محترمہ وجیہہ اکرم کا ایم این اے بن جانا ایک غیر معمولی کامیابی تھی ۔ سچی بات یہ ہے کہ وجیہہ اکرم کا شکر گڑھ تحصیل میں کوئی بڑا سیاسی قد تھا نہ کوئی اہم سیاسی کردار ۔ وہ مالی اعتبار سے بھی قوی نہیں تھیں ۔
ان کمزوریوں کے باوصف وہ سیاسی میدان میں نکلیں ۔ انھیں اپنے والد صاحب ( جاوید قمر، جو ایک ریٹائرڈ آدمی ہیں) اور مُٹھی بھر ساتھیوں کے سوا کسی کا ساتھ اور سہارا میسر نہیں تھا۔ اس بے سروسامانی کے باوجود وجیہہ اکرم مردانہ وار میدانِ سیاست میں نکلیں ۔ واقعی معنوں میںتنِ تنہا۔ قومی الیکشن بھی لڑا ۔ 9ہزار ووٹ لے کر ہار گئیں لیکن حوصلہ نہیں ہارا ۔ وہ پی ٹی آئی سے مسلسل منسلک رہیں ،اور سچی بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی قیادت نے بھی وجیہہ صاحبہ کو مایوس نہیں کیا۔
شکر گڑھ کے سیاسی و انتخابی حلقے میں کمزور اور نحیف اثر ورسوخ رکھنے کے باوصف پی ٹی آئی نے وجیہہ اکرم کو، خواتین کی خصوصی نشستوں پر، ایم این اے بنا دیا۔ یہ خاصا بڑا احسان تھا۔ عمران خان نے مزید احسان کرتے ہُوئے وجیہہ اکرم کو پی ٹی آئی کی مرکزی حکومت میں پارلیمانی سیکریٹری برائے وفاقی تعلیم بنا دیا۔ وجیہہ اکرم کا ایم این اے بننا اور پھر پارلیمانی سیکریٹری کا عہدہ سنبھالنا شکرگڑھ کے مقامی سیاسی وڈیروں کو پسند نہیں آیا۔
وہ تو سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ وجیہہ اکرم، جو کبھی شکر گڑھ میں باقاعدہ رہی بھی نہیں تھیں، اُن کی ناک کے عین نیچے اقتدار کے ایوانوں میں اپنی جگہ بنا سکتی ہیں ۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اقتدار و اختیار ملنے پر وجیہہ اکرم اپنے حلقے میں ترقیاتی کام کرواتیں لیکن اُن سے یہ کام نہ ہو سکے۔
مجھے وجیہہ اکرم کے انتخابی و سیاسی حلقے کے کئی لوگوں نے بتایا ہے کہ ان گزرے ساڑھے تین برسوں کے دوران یہ محترمہ چند بار ہی شکر گڑھ میں تشریف لا سکیں ۔ دوسری جانب وجیہہ اکرم کا موقف ہے کہ پی ٹی آئی اور عمران خان نے مجھے مطلقاً نظر انداز کیے رکھا ۔ کوئی ترقیاتی فنڈز فراہم کیے نہ حلقہ عوام کے لیے کوئی دستگیری کی گئی۔ اس عدم تعاون کی وجہ ہی سے وہ مارے شرمندگی کے اپنے حلقے سے غیر حاضر رہتی تھیں کہ جائیں تو اپنے ووٹروں کے لیے کیا لے کر جائیں۔ اب موقع ملا ہے تو وجیہہ اکرم نے ناراضی ہی کی بنیاد پر پی ٹی آئی کے خلاف بغاوت اور عدم تعاون کا پرچم بلند کر دیا ہے۔
اس اقدام پر ، ردِ عمل میں، پی ٹی آئی کی طرف سے وجیہہ پر یہ تہمت بھی لگائی گئی ہے کہ انھوں نے ''کروڑوں میں پیسے پکڑ کر'' پی ٹی آئی سے بے وفائی کی ہے۔ شکرگڑھ میں پی ٹی آئی کے نوجوانوں کے ایک گروہ نے اُن کے خلاف ریلی بھی نکالی۔ جب یہ الزام اور دشنام حدود سے تجاوز کر گیا تو وجیہہ اکرم نے،آن دی ریکارڈ، قرآن مجید ہاتھ میں تھاما ، کلمہ شریف پڑھا اور قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائی کہ مَیں نے وفاداری تبدیل کرنے کے لیے نہ کسی سے رشوت میں پیسے وصول کیے ہیں اور نہ ہی کسی مخالف پارٹی سے کوئی عہدہ لینے کے وعدے پر اپنی پارٹی سے انحراف کیا ہے ۔
وجیہہ اکرم صاحبہ کی اُٹھائی گئی قسم کی شہرت چہار جانب ہے۔ انھیں انحراف کی شاید کوئی بھاری سیاسی قیمت بھی ادا کرنا پڑے۔ اُن کا انکار ایسے ایام میں بازگشت پیدا کررہا ہے جب نون لیگ کی نائب صدر ، محترمہ مریم نواز شریف، کی اسلام آباد کی جانب یلغار کی گونج بھی چاروں اطراف میں سنائی دے رہی ہے۔
اسلام آباد جلسے سے قبل ،26مارچ کو، دانیال عزیز اور اُن کی ایم این اے اہلیہ محترمہ ، مہناز عزیز، نے نون لیگ، شہباز شریف اور نون لیگی پارلیمنٹرینز کے اعزاز میں ایک عشائیہ بھی دیا۔محترمہ مریم نواز اپنے کزن ، حمزہ شہباز ، کے ساتھ آج 28مارچ کو زبردست انداز میں سیاسی مارچ کرتے ہُوئے اسلام آباد میں داخل ہو رہی ہیں ۔
محترمہ مریم نواز کی موجودگی اور آواز پر نون لیگی کارکنان جوق در جوق لبیک کہتے ہُوئے آگے بڑھتے ہیں۔ اس اسلوب کو متعدد بار آزمایا جا چکا ہے ۔ اسلام آباد پر مریم نواز کی سیاسی یلغار اور حکمرانوں کے خلاف اُن کی للکار کو ہم سب آج دیکھیں اور سُنیں گے ۔
وہ گزشتہ روز اسلام آباد ہی میں منعقدہ پی ٹی آئی اور جناب عمران خان کے جلسے اور دعوؤں کا جواب بھی دیں گی۔ اِن پُر آزمائش لمحات میں جناب نواز شریف اور جناب شہباز شریف نے محترمہ مریم نواز کو، مقابلے کے لیے، اسلام آباد بھیج کر ایک اچھا فیصلہ کیا ہے ۔ نون لیگ کے چاہنے والوں کو یقینِ کامل ہے کہ اسلام آباد پرنون لیگ اور مریم نواز کی یلغار سے توقعات کے عین مطابق نتائج نکلیں گے ۔