شائستہ اور مہذب رویوں کی ضرورت
موجودہ سیاسی ماحول کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم سب نے ابھی تک ذہنی اور فکری ارتقاء کے سفرکا آغازہی نہیں کیا ہے
ہماری مشکل اور بدقسمتی ہمیشہ سے یہی رہی ہے کہ یہاں جمہوری سیاست کو آزادی کے ساتھ پروان چڑھنے ہی نہیں دیا گیا اور وقفہ وقفہ سے غیر جمہوری طالع آزماؤں نے بنا بنایا سارا سیٹ اپ اکھاڑ کر دس دس سالوں کے لیے ایک غیر جمہوری نظام نافذ کردیا اور اپنے اس غیر جمہوری نظام کو قانونی اور آئینی بنانے کے لیے ایک طرف جہاں عدلیہ پر دباؤ ڈال کر من مانے فیصلے تحریر کروائے گئے تو دوسری جانب اپنی حمایت میں نئے نئے سیاسی مہرے بھی پیدا کیے گئے یا متعارف کروائے گئے۔
ذوالفقار علی بھٹو کئی برس تک فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کی غیر جمہوری کابینہ میں شامل رہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ایوب خان کو '' ڈیڈی'' کہا کرتے تھے، لیکن جب سات آٹھ سال بعد وہ نہ صرف ایوب کابینہ سے علیحدہ ہوگئے بلکہ ایک سیاسی پارٹی بناکر میدان عمل میں اُتر آئے۔ دس سال کی مدت کوئی کم نہیں ہوتی اور ہمارے عوام کی بھی یہ خصلت رہی ہے کہ اتنی مدت تک کسی ایک شخص کو اپنا حکمراں نہیں دیکھ سکتے ہیں۔
وہ غیر جمہوری حکمرانوں کو تو اُن کے دبدبے اور طاقت کو دیکھتے ہوئے دس دس سال تک برداشت کرلیتے ہیں لیکن جمہوری حکمرانوں سے چار پانچ سال میں ہی بیزار ہوجاتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ایک الیکشن کے بعد وہ پھر انھی حکمرانوں کو واپس برسر اقتدار بھی لے آتے ہیں، لہٰذا معلوم یہ ہوا کہ اُن کی یہ بیزاری کسی مستند اور ٹھوس سبب کی وجہ سے نہیں ہوتی ہے بس اس سارے مد وجذر اور اتھل پتھل کے پیچھے کسی اورکا ہاتھ کار فرما ہوتا ہے۔
یہاں کسی بھی جمہوری وزیراعظم کو اپنے پانچ سال پورے کرنے نہیں دیے گئے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس کے پیچھے بھی کوئی ایسے خوف کا عنصر شامل ہوتا ہے کہ اگر کوئی وزیراعظم اپنے مقررہ پانچ سال مکمل کر لے تو کہیں وہ اپنی کارکردگی کی بنیاد پر مسلسل دوسری بار بھی بھاری اکثریت سے منتخب نہ ہوجائے۔ یہی خوف یہاں جمہوری نظام کی مضبوطی میں ایک بڑی رکاوٹ کا باعث رہا ہے۔
2017میں جب یہ محسوس کیا جانے لگا کہ میاں نوازشریف اپنی ایک اچھی اور بہتر کارکردگی کے سبب اگلا الیکشن جیت جانے کی پوزیشن میں آگئے ہیں تو اچانک پاناما اسکینڈل کو ہوا بنا کے اُن کے خلاف ایک ایسی منظم سازش کی گئی کہ وہ نہ صرف اگلے الیکشن سے باہر ہوگئے بلکہ نااہل قرار بھی دے دیے گئے۔
میاں نوازشریف بھی سیاست میں ایک غیر جمہوری دور میں داخل ہوئے۔ ہمارے یہاں چونکہ دس دس سالوں کے لیے مارشل لائی حکومتیں رہی ہیں اور اس لمبے عرصے کے دوران کسی نہ کسی کو سیاسی میدان میں اپنی جگہ بنانی تو ہوتی ہے لہٰذا ہر غیر جمہوری دور میں ایک نیا سیاست داں ضرور جنم لیتا ہے۔ ہمارے یہاں جتنے بھی نئے سیاستداں سیاسی میدان کے شہسوار بنے ہیں وہ سارے کے سارے اِنہی مارشل لائی حکومتوں کی مرہون منت پیدا ہوئے ہیں۔
اس لیے یہ کہنا کہ سب کے سب گیٹ نمبر چار کی پیداوار ہیں ازراہ مذاق تو درست اور صحیح معلوم ہوتا ہے لیکن اُن کا ایسے دور میں پیدا ہونا اُن کی اپنی مرضی اور خواہش کی وجہ سے نہیںہوتا بلکہ حالات و واقعات کی ستم ظریفی کی وجہ سے ہوتا ہے۔
پہلے سے موجود کسی بڑی سیاسی پارٹی کے مقابلے کے لیے انھیں پیدا کیا جاتا ہے اور انھیں مکمل سہولتیں بھی فراہم کی جاتی ہیں ، تاکہ وہ ایک بڑی سیاسی قوت بن کر خود کو مد مقابل بنا سکیں۔ ایسا سیاستداں زبان و بیان میں بھی مادر پدر آزاد ہوتا ہے ، وہ اپنے مخالف سیاستدانوں کے خلاف نازیبا اور تہذیب و تمدن سے عاری زبان بھی کھل کر استعمال کرتا ہے۔ بھٹو صاحب بھی اپنے سیاسی مخالفوں کے خلاف بھی کچھ ایسی زبان کا آزادانہ استعمال کیا کرتے تھے ، وہ اصغر خان صاحب کو آلو کہہ کر پکارا کرتے تھے جس طرح آج عمران خان اپنے سیاسی مخالفوں کو چوہے کہہ کر مخاطب ہوتے ہیں۔
چور ، چور اور ڈاکو کی گردان سنتے سنتے دس سال بیت چکے ہیں اور کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔ این آر او نہیں دونگا بھی سنتے سنتے چار سال ہوچکے ہیں لیکن یہ رٹ ابھی تک اُسی شدومد کے ساتھ جاری و ساری ہے ۔ سیاست میں یہ انداز بعض وقت مناسب لگتا ہے لیکن ان کا بار بار دہرانہ کانوں کو برا لگنے لگتا ہے ، خاص کر اس وقت جب چار سال بھی بیت چکے ہوں اور کسی مخالف ایک شخص کا بھی کچھ نہ بگڑا ہو تو پھر ایسی ساری باتیں اور دھمکیاں صرف بھرم بازی ہی محسوس ہوتی ہیں۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں نے ہماری قومی سیاست میں جس زبان کا آزادانہ استعمال کیا ہے ، اس سے سیاسی تہذیب میں اچھا نہیں سمجھا گیا ہے۔
اس سے پہلے بھی کچھ سیاستدانوں نے شاید ایسی زبان استعمال کی تھی لیکن موجودہ حکمران اور مشیر ایک قدم آگے بڑھ گئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ سلجھے ہوئے سیاستدانوں کی کمی ہو گئی ہے ۔
موجودہ سیاسی ماحول کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم سب نے ابھی تک ذہنی اور فکری ارتقاء کے سفرکا آغاز ہی نہیں کیا ہے بلکہ زمانہ قدیم کی کسی پسماندہ قوم کی مانند ماضی سے چمٹے رہنے اور عہد رفتہ کی خوبصورت اور حسین یادوں میں زندگی گذارنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ من حیث القوم ہم انتقامی سیاست کے امین بن چکے ہیں۔ ہمارا اجتماعی سیاسی شعور بد طینت، منافقت اور نفرت سے لبریز ہے۔ جھوٹ، مکرو فریب، بے ایمانی اورضمیر فروشی ہماری قومی شناخت بن چکی ہیں۔ ہم اپنے علاوہ کسی کو برداشت ہی نہیں کرسکتے ہیں ، جو بھی ہمارے مقابلے پر آئے گا، ہم اُس کی عزت نہیں کریں گے۔
ستم بالائے ستم یہ کہ اس کے بعد بھی ہمیں یہ خوش گمانی ہے کہ مؤرخ ہمارا قصیدہ پڑھے گا۔ ہم جس بد تہذیب اور غیر شائستہ دلدل میں دھکیلے جارہے ہیں اس سے واپس باہر نکلنے کا اب کوئی امکان غالب نہیں رہا۔ آج بھی ڈی چوک کے کنٹینر پرکھڑے ہوکر ہر مخالف کو للکارا جا رہا ہے۔ لب و لہجہ ایک ایسے بپھرے ہوئے نوجوان کی مانند ہے جس نے سیاسی میدان میں ابھی ابھی قدم رکھا ہو۔
ان کے ارد گرد بھی اب صرف ایسے ہی لوگ باقی رہ گئے ہیں جنھیں خود پر قابو اور اختیار نہیں ہے۔ لگتا ہے انھیں خود بھی ایسے لوگ بہت عزیز ہیں جو اپوزیشن کو دشنام طرازی کر کے شکست دے سکیں۔ لہٰذا وہ اسی کو استعمال کرکے اپنی برتری قائم کیے ہوئے ہیں۔ بلاشبہ اپوزیشن اُن سے اس انداز میں مقابلہ نہیں کرسکتی ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کئی برس تک فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کی غیر جمہوری کابینہ میں شامل رہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ایوب خان کو '' ڈیڈی'' کہا کرتے تھے، لیکن جب سات آٹھ سال بعد وہ نہ صرف ایوب کابینہ سے علیحدہ ہوگئے بلکہ ایک سیاسی پارٹی بناکر میدان عمل میں اُتر آئے۔ دس سال کی مدت کوئی کم نہیں ہوتی اور ہمارے عوام کی بھی یہ خصلت رہی ہے کہ اتنی مدت تک کسی ایک شخص کو اپنا حکمراں نہیں دیکھ سکتے ہیں۔
وہ غیر جمہوری حکمرانوں کو تو اُن کے دبدبے اور طاقت کو دیکھتے ہوئے دس دس سال تک برداشت کرلیتے ہیں لیکن جمہوری حکمرانوں سے چار پانچ سال میں ہی بیزار ہوجاتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ایک الیکشن کے بعد وہ پھر انھی حکمرانوں کو واپس برسر اقتدار بھی لے آتے ہیں، لہٰذا معلوم یہ ہوا کہ اُن کی یہ بیزاری کسی مستند اور ٹھوس سبب کی وجہ سے نہیں ہوتی ہے بس اس سارے مد وجذر اور اتھل پتھل کے پیچھے کسی اورکا ہاتھ کار فرما ہوتا ہے۔
یہاں کسی بھی جمہوری وزیراعظم کو اپنے پانچ سال پورے کرنے نہیں دیے گئے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس کے پیچھے بھی کوئی ایسے خوف کا عنصر شامل ہوتا ہے کہ اگر کوئی وزیراعظم اپنے مقررہ پانچ سال مکمل کر لے تو کہیں وہ اپنی کارکردگی کی بنیاد پر مسلسل دوسری بار بھی بھاری اکثریت سے منتخب نہ ہوجائے۔ یہی خوف یہاں جمہوری نظام کی مضبوطی میں ایک بڑی رکاوٹ کا باعث رہا ہے۔
2017میں جب یہ محسوس کیا جانے لگا کہ میاں نوازشریف اپنی ایک اچھی اور بہتر کارکردگی کے سبب اگلا الیکشن جیت جانے کی پوزیشن میں آگئے ہیں تو اچانک پاناما اسکینڈل کو ہوا بنا کے اُن کے خلاف ایک ایسی منظم سازش کی گئی کہ وہ نہ صرف اگلے الیکشن سے باہر ہوگئے بلکہ نااہل قرار بھی دے دیے گئے۔
میاں نوازشریف بھی سیاست میں ایک غیر جمہوری دور میں داخل ہوئے۔ ہمارے یہاں چونکہ دس دس سالوں کے لیے مارشل لائی حکومتیں رہی ہیں اور اس لمبے عرصے کے دوران کسی نہ کسی کو سیاسی میدان میں اپنی جگہ بنانی تو ہوتی ہے لہٰذا ہر غیر جمہوری دور میں ایک نیا سیاست داں ضرور جنم لیتا ہے۔ ہمارے یہاں جتنے بھی نئے سیاستداں سیاسی میدان کے شہسوار بنے ہیں وہ سارے کے سارے اِنہی مارشل لائی حکومتوں کی مرہون منت پیدا ہوئے ہیں۔
اس لیے یہ کہنا کہ سب کے سب گیٹ نمبر چار کی پیداوار ہیں ازراہ مذاق تو درست اور صحیح معلوم ہوتا ہے لیکن اُن کا ایسے دور میں پیدا ہونا اُن کی اپنی مرضی اور خواہش کی وجہ سے نہیںہوتا بلکہ حالات و واقعات کی ستم ظریفی کی وجہ سے ہوتا ہے۔
پہلے سے موجود کسی بڑی سیاسی پارٹی کے مقابلے کے لیے انھیں پیدا کیا جاتا ہے اور انھیں مکمل سہولتیں بھی فراہم کی جاتی ہیں ، تاکہ وہ ایک بڑی سیاسی قوت بن کر خود کو مد مقابل بنا سکیں۔ ایسا سیاستداں زبان و بیان میں بھی مادر پدر آزاد ہوتا ہے ، وہ اپنے مخالف سیاستدانوں کے خلاف نازیبا اور تہذیب و تمدن سے عاری زبان بھی کھل کر استعمال کرتا ہے۔ بھٹو صاحب بھی اپنے سیاسی مخالفوں کے خلاف بھی کچھ ایسی زبان کا آزادانہ استعمال کیا کرتے تھے ، وہ اصغر خان صاحب کو آلو کہہ کر پکارا کرتے تھے جس طرح آج عمران خان اپنے سیاسی مخالفوں کو چوہے کہہ کر مخاطب ہوتے ہیں۔
چور ، چور اور ڈاکو کی گردان سنتے سنتے دس سال بیت چکے ہیں اور کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔ این آر او نہیں دونگا بھی سنتے سنتے چار سال ہوچکے ہیں لیکن یہ رٹ ابھی تک اُسی شدومد کے ساتھ جاری و ساری ہے ۔ سیاست میں یہ انداز بعض وقت مناسب لگتا ہے لیکن ان کا بار بار دہرانہ کانوں کو برا لگنے لگتا ہے ، خاص کر اس وقت جب چار سال بھی بیت چکے ہوں اور کسی مخالف ایک شخص کا بھی کچھ نہ بگڑا ہو تو پھر ایسی ساری باتیں اور دھمکیاں صرف بھرم بازی ہی محسوس ہوتی ہیں۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں نے ہماری قومی سیاست میں جس زبان کا آزادانہ استعمال کیا ہے ، اس سے سیاسی تہذیب میں اچھا نہیں سمجھا گیا ہے۔
اس سے پہلے بھی کچھ سیاستدانوں نے شاید ایسی زبان استعمال کی تھی لیکن موجودہ حکمران اور مشیر ایک قدم آگے بڑھ گئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ سلجھے ہوئے سیاستدانوں کی کمی ہو گئی ہے ۔
موجودہ سیاسی ماحول کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم سب نے ابھی تک ذہنی اور فکری ارتقاء کے سفرکا آغاز ہی نہیں کیا ہے بلکہ زمانہ قدیم کی کسی پسماندہ قوم کی مانند ماضی سے چمٹے رہنے اور عہد رفتہ کی خوبصورت اور حسین یادوں میں زندگی گذارنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ من حیث القوم ہم انتقامی سیاست کے امین بن چکے ہیں۔ ہمارا اجتماعی سیاسی شعور بد طینت، منافقت اور نفرت سے لبریز ہے۔ جھوٹ، مکرو فریب، بے ایمانی اورضمیر فروشی ہماری قومی شناخت بن چکی ہیں۔ ہم اپنے علاوہ کسی کو برداشت ہی نہیں کرسکتے ہیں ، جو بھی ہمارے مقابلے پر آئے گا، ہم اُس کی عزت نہیں کریں گے۔
ستم بالائے ستم یہ کہ اس کے بعد بھی ہمیں یہ خوش گمانی ہے کہ مؤرخ ہمارا قصیدہ پڑھے گا۔ ہم جس بد تہذیب اور غیر شائستہ دلدل میں دھکیلے جارہے ہیں اس سے واپس باہر نکلنے کا اب کوئی امکان غالب نہیں رہا۔ آج بھی ڈی چوک کے کنٹینر پرکھڑے ہوکر ہر مخالف کو للکارا جا رہا ہے۔ لب و لہجہ ایک ایسے بپھرے ہوئے نوجوان کی مانند ہے جس نے سیاسی میدان میں ابھی ابھی قدم رکھا ہو۔
ان کے ارد گرد بھی اب صرف ایسے ہی لوگ باقی رہ گئے ہیں جنھیں خود پر قابو اور اختیار نہیں ہے۔ لگتا ہے انھیں خود بھی ایسے لوگ بہت عزیز ہیں جو اپوزیشن کو دشنام طرازی کر کے شکست دے سکیں۔ لہٰذا وہ اسی کو استعمال کرکے اپنی برتری قائم کیے ہوئے ہیں۔ بلاشبہ اپوزیشن اُن سے اس انداز میں مقابلہ نہیں کرسکتی ہے۔