روس یوکرین جنگ عالمی کساد بازاری کا خدشہ

اگر جنگ نے مزید طوالت اختیارکی تو خدشہ ہے کہ بہت سے ممالک اس جنگ میں کود نہ پڑیں

اگر جنگ نے مزید طوالت اختیارکی تو خدشہ ہے کہ بہت سے ممالک اس جنگ میں کود نہ پڑیں۔ فوٹو: فائل

آئی ایم ایف کے بیان میں کہا گیا ہے کہ روس کے یوکرین پر حملے کے اثرات دنیا کی معیشت پر ترقی کی رفتار میں کمی، مہنگائی میں اضافے کی شکل میں سامنے آئیں گے۔ پناہ گزینوں کی لہر اور دوسرے انسانی مسائل کے علاوہ اس جنگ سے افراط زر بڑھے گا۔

خوراک اور توانائی کی اشیا مہنگی جب کہ آمدنی کی قدر کم ہو گی۔ علاقائی اقتصادی ترقی میں کمی کا خدشہ ہے۔ سیاحت ، تجارت سمیت مختلف میدانوں میں دباؤ کو محسوس کیا جائے گا۔

بلاشبہ روس اور یوکرین کا تصادم عالمی معیشت کے لیے ایک دھچکا ہے جس سے پیداواری شعبہ متاثر ہو رہا ہے اور اشیائے خورونوش کے نرخ بڑھ رہے ہیں ، جنگ مزید جاری رہنے کی صورت میں وہ یوکرین کو تباہ اور روس کو مفلوج کر دیتی ہے تو اس کے پوری دنیا میں بڑے پیمانے پر اثرات مرتب ہوں گے۔ روس کی ناکہ بندی، امریکا عالمی صف بندی کا حصہ ہے اور نئی سرد جنگ میں تیزی کا اظہار ہے۔

نیٹو کی مزید توسیع کے خلاف روسی ڈٹ گئے ہیں اور اقتصادی پابندیوں کا مقابلہ وہ اب چین کی مدد سے کافی حد تک کر سکتے ہیں۔ یہ تلخ حقیقت کہ امریکا اور اس کے اتحادی عالمی سامراجی اقتصادی نظام کو اپنے یک طرفہ مالیاتی قبضہ کے لیے استعمال کر سکتے ہیں، جو اب زیادہ دیر چلنے والا نہیں۔ گلوبلائزڈ ورلڈ اور عالمی سپلائی چینز کی محتاج عالمی تجارت اور سرمایہ کاری کے دور میں اقتصادی پابندیاں پوری عالمی منڈی کو متاثر کرتی ہیں۔

روس متاثر ہو گا تو مغربی دنیا بھی متاثر ہوگی۔ دنیا یک قطبی نہیں رہی، کثیر القطبی ہو گئی ہے ۔ نیٹو کے ذریعے روس کی ناکہ بندی نہ صرف عالمی امن اور کرہ ارض کی سلامتی کے لیے خطرناک ہے بلکہ یہ ایسے حالات پیدا کر رہی ہے کہ چند استثناؤں کے ساتھ ایک نیا بلاک بن جائے جو چین اور روس کے اشتراک سے ممکن ہے۔

اس صورتحال میں بھارت پرانے مخمصے میں پھنس گیا ہے، لیکن وزیراعظم نریندر مودی نے وہی موقف اختیار کیا ہے جو ہنگری کے بحران کے وقت جواہر لعل نہرو نے اختیار کیا تھا۔ ایسے میں وزیراعظم عمران خان کا دورہ ایک بے وقت کی راگنی تھی۔ اگلے بیس برس میں دنیا بدلنے جا رہی ہے اور ہمیں پرانے امریکی ایڈ کے خوابوں سے نکل کر سی پیک پر توجہ دینی چاہیے جس میں روس بھی شامل ہو سکتا ہے۔

ایک رائے یہ بھی بنائی جا رہی ہے کہ یو کرینی صدر میں تدبر اور دُور اندیشی کی کمی ہے۔ اس لیے اُنھوں نے روس کے بار بار انتباہ کے باوجود نیٹو میں شمولیت اختیار کی اور امریکا سے مشورے کیے، نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ سب سے پہلے امریکا نے جھنڈی دکھائی، امریکا نے مدد سے صاف انکار کر دیا۔

نیٹو کے تیس ممالک روس سے نیچرل گیس لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی درآمدت، برآمدات ان ممالک کے مابین ہے لہٰذا نیٹو کے لیے ممکن نہیں تھا کہ وہ براہ راست روس کی مخالفت کریں چنانچہ نیٹو نے بھی افواج بھیجنے سے معذرت کر لی ہے۔

یو کرین اور روس کے مابین جاری تنازعہ نہ صرف یورپ کو متاثر کر رہا ہے بلکہ اس سے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کا خطہ بھی بری طرح متاثر ہورہا ہے ۔ عرب ممالک اس مسلح تنازعے کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہوسکتے ہیں جیسا کہ روس کی افواج شام میں بھی تعینات ہیں۔ بالخصوص طرطوس کی بندرگاہ میں روس کی بحریہ نے ایک اڈہ بنا رکھا ہے۔


ماسکو حکومت اپنے اہم اتحادی ملک شام کے صدر بشار الاسد کے ساتھ مل کر علاقائی سطح پر اپنا اثرورسوخ بڑھا سکتی ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق شام میں روس کا اثرورسوخ بہت زیادہ ہے۔ اس خطے میں سمندری راستے سے جتنی بھی امداد جاتی ہے، وہ شام سے ہو کر دیگر ممالک تک پہنچائی جاتی ہے۔ روس نے یہ امداد روک دی تو مہاجرین کا ایک طوفان یورپ کے لیے نکل کھڑا ہو گا۔ اسی طرح شام کا ہمسایہ ملک اسرائیل بھی یوکرین اور روس کے مابین جاری تناؤ پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔

اسرائیلی فورسز شام میں ایرانی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنا رہی ہیں، جب کہ روس نے ابھی تک اس بارے میں اپنی آنکھیں موند رکھی ہیں۔ تاہم یوکرین اور روس کے تنازعے کی صورت میں اگر مغربی ممالک نے ایکشن لیا تو روس شام میں اس حوالے سے بھی کوئی ردعمل ظاہر کر سکتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل یوکرینی وزیر خارجہ نے اسرائیل کو خبردار کیا تھا کہ روس کے ساتھ جنگ کی صورت میں اس کے منفی اثرات اسرائیل پر بھی پڑیں گے۔

ان میں ایک تو یوکرینی یہودی آبادی کا اسرائیل کی طرف رخ ہو گا جب کہ دوسرا گندم کی ایکسپورٹ میں کٹوتی۔ یوکرین اور روس کی جنگ کے منفی اثرات جزیرہ نما عرب پر بھی پڑیں گے، بالخصوص امریکا کے قریبی اتحادی ممالک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر۔ سعودی عرب اوپیک میں اپنی اہمیت قائم رکھنے کے لیے روس پر انحصار کرتا ہے، جب کہ اس نے روس کے ساتھ عسکری تعاون کا ایک سمجھوتہ بھی کر رکھا ہے۔ کسی تنازعے کی صورت میں سعودی عرب امریکا کا ساتھ دے گا یا روس کا، یہ ریاض حکومت کے لیے ایک درد سر بن سکتا ہے۔

دوسری طرف یمن کا تنازعہ بھی جاری ہے۔ اس خطے میں ایران کے اثرورسوخ کے خدشات بھی ہیں، جو روس کا اہم اتحادی ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو روس، مغربی ممالک پر دباؤ ڈالنے کی خاطر اپنا یہ کارڈ بھی استعمال کر سکتا ہے۔

اگلے چند ہفتوں میں دنیا کو معاشی باہمی انحصار کا سبق ملے گا۔ رپورٹ کے مطابق چاولاس کی آٹو کمپنیاں اپنے سسٹم کے لیے یوکرین پر انحصار کرتی ہیں۔ دوسری جانب دنیا کا زیادہ تر انحصار روس پر ہے۔ تیل، ایلومینیم اور پیلیڈیم، کار کے پرزوں اور زیورات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ، اگر جنگ یوکرین کو تباہ اور روس کو مفلوج کر دیتی ہے۔

اس کے پوری دنیا میں بڑے پیمانے پر اثرات مرتب ہوں گے، بشمول گندم کی قلت، خوراک کی بڑھتی ہوئی مہنگائی اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ۔ ایک غیر جانبدار تحقیقی تنظیم ولسن سینٹر کے مطابق تاجکستان افغانستان کے شمال میں ایک چھوٹا وسطی ایشیائی ملک، روس سے ترسیلات زر پر انحصار کرتا ہے جو اس کے جی ڈی پی کا 20 فیصد بنتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر روس میں ملازمت کے لیے آنے والے ورکرز تاجکستان میں اپنے خاندانوں کو پیسے بھیجنا بند کر دیں تو ملک کی معیشت کساد بازاری کا شکار ہو سکتی ہے۔ اقتصادی بحران سیاسی انقلابات کو جنم دے سکتا ہے۔

اس کے بعد، روس کا بحران وسطی ایشیائی اقتصادی بحران میں تبدیل ہو سکتا ہے، جو پھر چین کے لیے سیاسی مسئلے میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ روس میں جو کچھ ہوتا ہے اس کا اثر صرف روس پر نہیں پڑے گا۔ روس ، یوکرین تنازعہ عالمی طور پر فصلوں اور برآمدات کو متاثر کر رہا ہے ۔ یوکرین کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے دنیا پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ان میں سے ایک اہم ترین شعبہ خوراک کا بھی ہے۔

اقوام متحدہ کی تنظیم برائے خوراک و زراعت کے معاشی و سماجی ترقیاتی شعبے کے چیف اکانومسٹ نے چائنا میڈیا گروپ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ روس، یوکرین تنازعہ نے یوکرین میں اناج کی فصلوں اور برآمدات کو متاثر کیا ہے، اگر اسے بروقت اور دانشمندی سے حل نہ کیا گیا تو دنیا کو خوراک کی فراہمی میں طویل المدتی آزمائش کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ایک اور درپیش بڑا مسئلہ کھاد کی قیمتوں کا بھی ہے، اگر روس سے توانائی کی سپلائی کم ہو جاتی ہے یا روس کی توانائی اور کھاد کی برآمدات پر پابندیوں سے سپلائی متاثر ہوتی ہے تو مستقبل میں کھاد کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہو سکتا ہے، جس سے دنیا کو خوراک کی فراہمی میں حقیقی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔

حرف آخر ، اگر جنگ نے مزید طوالت اختیارکی تو خدشہ ہے کہ بہت سے ممالک اس جنگ میں کود نہ پڑیں۔ یوکرین میں جس طرح فوجیوں کی لاشیں جل رہی ہیں، تعفن کے بادل اٹھ رہے ہیں اور خوف کی بجلیاں کوند رہی ہیں، وہ دنیا کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔
Load Next Story