الزامات کی طوالت کا سلسلہ
حکومت نے اپوزیشن کے تمام بڑے رہنماؤں کو کرپشن کے مبینہ الزامات میں گرفتار کرایا
QUETTA:
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پارا چنار میں خطاب میں الزام لگاتے ہوئے کہا کہ عثمان بزدار نے وزیر اعلیٰ پنجاب بننے کے لیے کس کو کتنی رقم دی ہمیں معلوم ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی مرکزی رہنما مریم نواز نے بھی لاہور میں ایسے ہی مبینہ الزامات لگائے ۔
بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ ان کی اور مولانا فضل الرحمن کی جماعتیں اور سیاست الگ الگ ہے مگر ہم نے کبھی ایک دوسرے پر غلط الزام لگائے نہ نام بگاڑے مگر وزیر اعظم نے غلط الزام تراشی اور جھوٹ بولنے کا سلسلہ بے انتہا بڑھا دیا ہے ، جس پر ہمیں بھی بہت کچھ بے نقاب کرنے اور موجودہ حکومت میں بے انتہا کرپشن عوام کو بتانے پر مجبور کیا جا رہا ہے اور کہا کہ عالمی ادارے اپنی رپورٹوں میں کہہ رہے ہیں کہ موجودہ حکومت میں جتنی کرپشن بڑھی اتنی کبھی ماضی میں بھی نہیں ہوئی۔
وزیر اعظم نے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سے متعلق کہا کہ انھیں جہاں بوٹ نظر آئے وہ اس کی پالش شروع کردیتے ہیں۔ وزیر اعظم کو اس کا جواب بلاول بھٹو نے دیتے ہوئے کہا کہ ان کی پالش ختم ہوگئی ہے اور وہ اب بوٹ چاٹنے لگے ہیں۔
سابق وزیر اعظم بھٹو کے بعد عمران خان دوسرے وزیر اعظم ہیں جنھوں نے اپنے مخالف سیاسی رہنماؤں کے نام ہی نہیں بگاڑے بلکہ ہر ایک پر کرپشن کے الزامات لگائے اور ان سے مسلسل دور ہوتے گئے اور اب بھی کہہ رہے ہیں کہ نہ شہباز شریف کے ساتھ بیٹھوں گا نہ اپوزیشن کو این آر او دوں گا۔
اپوزیشن رہنما مسلسل یہ کہہ رہے ہیں کہ کسی ایک نے بھی این آر او نہیں مانگا اور اگر حکومت کے پاس ثبوت ہیں تو کوئی ایک نام ہی بتا دیں۔ مولانا فضل الرحمن اور مریم نواز کا کہنا ہے کہ این آر او اب عمران خان خود مانگ رہے ہیں جو انھیں کبھی نہیں ملے گا۔
حکومت میں آنے سے قبل مخالف رہنماؤں پر کرپشن کے الزامات لگانے کے بعد حکومت نے اپوزیشن کے تمام بڑے رہنماؤں کو کرپشن کے مبینہ الزامات میں گرفتار کرایا اور وزیر اعظم 3 سال کہتے رہے کہ این آر او نہیں دوں گا۔ اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد آنے کے بعد بھی وزیر اعظم کہہ رہے ہیں کہ این آر او نہیں دوں گا۔ کرپشن مقدمات ختم کرانے کے لیے اپوزیشن میرے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی ہے مگر میں ان کے آگے نہیں جھکوں گا نہ انھیں این آر او دوں گا۔
لگتا ہے کہ وزیر اعظم نے این آر او کی دکان کھول رکھی ہے مگر ساڑھے تین سالوں میں ایک این آر او بھی فروخت نہیں ہوا۔ کیونکہ کسی نے وزیر اعظم سے این آر او کے لیے رابطہ ہی نہیں کیا اور قیدیں کاٹ کر اعلیٰ عدالتوں سے ضمانت پر رہائی لے لی اور ان کے مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں جن کی مبینہ کرپشن کے ثبوت ساڑھے تین سالوں میں حکومت، نیب اور ایف آئی اے عدالتوں میں نہیں دے پا رہیں۔
نیب پر ثبوت نہ دینے، تاخیری حربے استعمال کرنے، ثبوت کے بغیر گرفتاریاں کرنے پر اعلیٰ عدلیہ سخت تنقید کرتی آ رہی ہے اور وزیر اعظم کا این آر او کا چورن بالکل نہیں بک رہا مگر ان کی طرف سے این آر او دینے سے انکار کی رٹ جاری ہے اور انھیں اب تک این آر او لینے والا کوئی گاہک نہیں مل رہا۔
وزیر اعظم عمران خان اب بھی کہہ رہے ہیں کہ کسی کرپٹ مخالف لیڈر سے ہاتھ نہیں ملاؤں گا جب کہ بھٹو صاحب نے اپنے مخالفین کے صرف نام بگاڑے تھے اور خان عبدالقیوم خان، میاں ممتاز دولتانہ کو اپنی حکومت میں شامل بھی کرلیا تھا اور اپنے خلاف تحریک پر اپوزیشن کو ساتھ بٹھا کر کامیاب مذاکرات بھی کیے تھے مگر اتحادیوں کی مدد سے حکومت کرنے والے عمران خان اب بھی اپوزیشن سے دور رہ کر اتنے دور جا چکے ہیں کہ شہباز شریف بھی ان سے ملنے سے انکار کر رہے ہیں اور قومی حکومت میں وہ تحریک انصاف کی شمولیت نہیں چاہتے۔
باہم تقسیم اپوزیشن وزیر اعظم کو ہٹانے کے لیے تحریک عدم اعتماد لے آئی ہے جس کا قومی اسمبلی میں حکومت مقابلہ کرنے کے بجائے وزیر اعظم کی سابقہ پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی بلکہ وہ مزید جارحانہ حملے کر رہے ہیں ، الزامات اس قدر طویل ہوتے جا رہے ہیں کہ وزیر اعظم کی بہن کے بعد خود وزیر اعظم اور خاتون اول بھی محفوظ نہیں رہے ہیں۔
ضمیر فروشی کے الزامات وزیر اعظم اب اپنے منحرف ارکان اسمبلی پر بھی لگا چکے اور بغیر ثبوت ان کی بھی تذلیل کی جا رہی ہے اور مبینہ جھوٹے الزامات کی زد میں اپوزیشن کے بعد اب پی ٹی آئی خود اور اس کے ارکان بھی آگئے ہیں مگر الزامات کا سلسلہ رکنے کے بجائے مسلسل بڑھ رہا ہے۔